شیو سینا رکن کا پرائیویٹ ممبر بل

سید معز الرحمان، ناندیڑ

(دعوت نیوز نٹ ورک) متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اب آدیواسی بھی آگے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے بیتول میں پیش آیا جہاں پر آدیواسی جمع ہوئے اور انھوں نے کہا کہ اس جنگل میں ہمارے آباء و اجداد دفن ہیں، ان کی قبریں اور یہ جنگل اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم اسی مٹی کے سپوت ہیں اور شہریت کا اس سے بڑا اور کوئی ثبوت وہ پیش نہیں کر سکتے۔ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) این پی آر اور این آر سی کے تعلق سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے ہردا، بیتول، کھنڈوا اور ہوشنگ آباد اضلاع کے آدیواسیوں کا کہنا ہے کہ اس کے تعلق سے حکومت چاہے جو بھی کہے لیکن ان کی نظر میں یہ ’کاغذات کے برہمنواد‘ کی طرف اگلا بڑا قدم ہے اور وہ اس کو پوری طرح سے نا منظور کرتے ہیں۔ آدیواسیوں کا کہنا ہے کہ پہلے حکومت ان سے ان کے آباء و اجداد کے جنگل میں حق ثبات کرنے کے لیے کاغذ مانگتی ہے پھر اس میں نامزدگی سے لے کر راشن اور علاج کے لیے آڈھار کارڈ اور اب شہریت کا ثبوت مانگ رہی ہے۔ وہ حکومت کو کاغذ بتاتے بتاتے اپنا جنگل، پہاڑ، ندی، تہذیب سب کچھ کھو چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اب وہ حکومت کے ذریعے کھڑے کیے گئے کاغذ کے مکڑجال میں نہیں پھنسیں گے۔ مدھیہ پردیش کے 15 گاؤں کے 100 قبائلی نمائندے بیتول ضلع میں پہاڑ پر بنے قبائلی راجا کے قلعے اور آدیواسیوں کے تیرتھ استھل سانولی گڑھ پر جمع ہوئے۔ شرمک آدیواسی سنگٹھن اور سماج وادی جن پریشد کے زیر اہتمام یہ اجلاس ہوا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے جنگل کی زمین پر اپنا حق ثابت نہ کرپانے والے ملک بھر کے 20 لاکھ لوگوں (خاندان) کو قابض بتا کر جنگل کی زمین سے بے دخل کرنے کے حکم صادر کیے تھے، اس میں سے بھی آدھے سے زیادہ قبائلی تھے۔ جو آدیواسی سال 2005 سے پہلے جنگل میں قابض ہونے کا ثبوت نہیں دے پائے وہ اپنی شہریت کا ثبوت کہاں سے دے گا۔ قبائلیوں میں پیدائش اور موت کے رجسٹریشن کی حالت یہ ہے کہ ایک ہی ماں باپ کے دو بیٹوں کے اسکول سے دیے گئے سرٹیفکیٹ میں ان کی عمر کا فرق محض 6 مہینے کا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اسکول میں داخلہ لینے پر وہاں ماسٹر اپنے دل سے ان کی پیدائش کی تاریخ اور سال درج کرلیتا ہے کیونکہ سرپرست کے پاس کوئی کاغذ نہیں ہوتا۔ آدیواسی، دلت، مسلم، پچھڑوں، غریبوں کے پاس کوئی کاغذ نہیں ہوتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان محنت کش لوگوں کی طرز زندگی میں کاغذ جمع کرنے کی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ کاغذات جمع کرنا نہ ان کی تہذہب کا حصہ ہے اور نہ ہی ان کو رکھنے کا طریقہ اور جگہ معلوم ہے۔ ملک کے شہریوں اور خاص طور پر کمزور طبقے کے لوگوں کو بنا کسی جانبداری اور جھگڑے کے بنیادی سہولتیں فراہم کرنا کسی بھی جمہوری حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔***
یہ دستور کے تحفظ اور سیکولرازم کی بقا کی جنگ ہے :سوامی اگنی ویش
کنور (کیرلا) میں انجمن تحفظ دستورِ ہند کے تحت کلکٹریٹ میدان میں منعقد مہا ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سوامی اگنی ویش نے کہا کہ ہم ہر دس سال میں کی جانے والی مردم شماری کا تعاون کریں گے مگر باپ دادا کے مقام پیدائش اور ان کے کاغذات دکھانے کے لیے کہا جائے گا تو ہمیں پوچھنا چاہیے کہ کیا نریندر مودی کے پاس یہ کاغذات موجود ہیں؟
جدوجہدِ آزادی کے دوران مہاتما گاندھی نے جس تحریکِ عدم تعاون کو پیش کیا تھا ہمیں اس کی طاقت کو سمجھنا چاہیے۔ اگر وہ گولی ماریں تب بھی ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے۔ انٹرنیٹ کاٹ دیں تو ہم منہ سے بات کریں گے۔کرناٹک کے ایک اسکول میں سی اے اے کے خلاف ڈرامہ کرنے پر اساتذہ، اسکول کے طلباٗ اور ان کے والدین کے خلاف مقدمہ چلاکر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ کس قانون کے تحت کیا گیا جبکہ سرکار کے خلاف آواز اٹھانا کوئی جرم نہیں ہے بلکہ جمہوریت کی طاقت کی نشانی ہے جس کا ہر شہری کو حق حاصل ہے۔
انھوں نے کہا کہ دہلی میں غداروں کو گولی مارو کا نعرہ بلند ہوا آخر کار کیا ہوا ؟ چناؤ کا نتیجہ آیا تو خود گولی کھا گئے۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ان کے کپڑوں سے پہچاننے والے جھارکھنڈ میں بھی ہار گئے۔ مودی اور امیت شاہ دونوں جھوٹ بول رہے ہیں۔ہندوستان کے عوام کو چاہیے کہ وہ متحد ہو کر ان کے خلاف جدوجہد کریں۔ ہندوَ مسلم سکھ عیسائی کا کوئی فرق نہیں ہے سب خدا کی مخلوق ہیں اور سب اسی ایک طاقت کی عبادت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا یہ تحفظ دستورِہند کی جنگ ہے۔ سیکولرزم کی بقا کی جنگ ہے۔
نریندر مودی نے کہا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو ان کے لباس سے پہچان سکتے ہیں۔ اس کا پر زور ردعمل کرتے ہوئے سوامی اگنی ویش نے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے مولوی وی کے عبدالقادر نائب صدر مسلم لیگ کیرلا کو اپنے پاس بلایا اور اپنا زعفرانی عمامہ اتار کر ان کے سر پر رکھ دیا اور مولوی صاحب کی ٹوپی خود پہن لی اور پوچھا کیا وزیرِ اعظم پہچان سکتے ہیں کہ ہم دونوں میں کون زیادہ محبِ وطن ہے اور کون غدار ہے؟ یہ سن کر دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ ایم پی کنجالی کٹی نے احتجاج کا افتتاح کیا۔ اس احتجاج میں مختلف جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔

سومی اگنی ویش نے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے مولوی وی کے عبدالقادر نائب صدر مسلم لیگ کیرلا کو اپنے پاس بلایا اور اپنا زعفرانی عمامہ اتار کر ان کے سر پر رکھ دیا اور مولوی صاحب کی ٹوپی خود پہن لی اور پوچھا : کیا وزیرِاعظم پہچان سکتے ہیں کہ ہم دونوں میں کون زیادہ محبِ وطن ہے ؟ اور کون غدار ؟