شکر گزارى کیوں اور کیسے ؟

ابو حماد ،کریم نگر

 

شکر دراصل کسی کے احسان کے احساس کا حُسنِ اظہار ہے۔ شکر ادا کرنے کا مطلب احسان کی قدر دانی اور منعم کے عائد کردہ فرض یا کام کو بحسن و خوبی پورا کرنا ہے۔ ملازم اپنے کام کا ذمہ دار ہے وہ جب اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیتا ہے تو بدلے میں اسے جو معاوضہ ملتا ہے وہ اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگیوں کا شکر واحساس ہوتا ہے۔ اب اسی طرح سماج و معاشرے میں مختلف حیثیتوں سے افراد پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جو کوئی بھی فرد ان عائد ذمہ دار یوں کو بحسن و خوبی ادا کر تا ہے وہ معاشرے میں معتبر قرار پاتا ہے۔ ایک فرد پر کئی طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جیسے گھریلو، سماجی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی وغیرہ۔ جب کسی فرد کو اس کا ادراک و احساس ہوتا ہے وہ ان عائد کردہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے جسے معاشرے میں معتبر اور حسن کردار فرد کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے چنانچہ اس کا عمل اسے تمام اچھے نتائج اور فیوض و برکات سے مالا مال کر دیتا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ شکر گزاری کس طرح ہوگی اور جس کی شکر گزاری ہو رہی ہے وہ اس پر کس طرح مطمئن وخوش ہوگا؟
آپ نے اپنے کسی دوست کو کسی موقع پر ایک خوبصورت گلدستہ بطور تحفہ دیا۔ دوست نے اس کا شکریہ زبانی طور پر تو ادا کر دیا لیکن کچھ دنوں بعد آپ اس کے گھر گئے دیکھا کہ وہاں تو بیت الخلا میں استنجا کے لیے پانی ڈالنے کے لیے رکھا ہوا ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر آپ کیا سمجھیں گے۔ گلدان کی جگہ دیوان خانہ تھا نہ کہ بیت الخلا؟ گویا اس دوست نے آپ کے تحفے کی نا قدری کی اور شکر گزاری نہیں۔
اب غور کریں کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کا صحیح معنوں میں شکر ادا کر رہے ہیں؟ کیا واقعی ہمیں اللہ تعالیٰ کے لطف و عنایات کا احساس ہے؟ سورة حم السجدہ آیت 53 میں اللہ کا ارشاد ہے:’’ عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے‘‘؟
اب غور کریں کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کی کتنی عنایات و مہربانیاں ہیں، ہمارے اندرون میں بھی اور ہمارے لیے بیرون میں بھی۔ ہم الحمدللہ سبحان اللہ العظیم اللہ اکبر کہہ کر اللہ رب العالمین کی عظمت کے معترف ہوتے ہیں۔ پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے کہ ہم اس کے شکر گزار بندے بنیں کفران نعمت نہ کریں :قُلۡ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَکُمۡ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡئِدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ
﴿سورة الملك-۲۳﴾’’ ان سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ، تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے ، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہمیں عدم سے وجود بخشا پھر حِسّیات عطا کیں تاکہ ترقی کے منازل طے کر سکیں، حادثات اور نقصانات سے بچ سکیں۔ سننے دیکھنے سوچنے سمجھنے سونگھنے چکھنے محسوس کرنے اور حرکت کرنے کی صلاحیتوں سے نوازا اور معراج یہ کہ اس پر تمیز کرنے اور ارادے و عمل کی صلاحیت و آزادی دی، بھلائی و برائی کو واضح کیا۔ سورة الدھر میں ارشاد ہے:اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ﴿۳﴾
’’ہم نے اسے راستہ دکھایا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘۔
نہ صرف ان صفات سے متصف کیا گیا بلکہ کھرا اور کھوٹا الگ کر کے دکھا دیا، پھر ان کے انجام سے بھی آگاہ کر دیا، شکر گزاری کے محل و مواقع رکھ دیے۔ اب جو جتنا آگاہ اور مستعد ہوگا وہ اتنا اس درجے میں کامیاب ہوگا۔
شکر گزاری کیا ہے اور اسے کس طرح ادا کیا جائے اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ سورة لقمان آیت 14 میں ارشاد ہے:’’ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے ( اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا ل، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے‘‘ ۔ اس آیت میں والدین جیسی نعمت کا جامع تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس نعمت پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اس دنیا میں وجود میں لانے اور کمزوری اور ناتوانی کے دوران دیکھ بھال اور حالات واقعات میں حفاظت کا انتظام پھر پروان چڑھانے کے بعد ہمارے معاملات اور مستقبل سے متعلق فکر مندی وغیرہ۔ ان کی باریکیوں پر غور کریں تو اس نعمت کی عظمت کا احساس ہوتا ہے اور جو ان کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کیسے ادا کرے گا؟ حدیث شریف میں ہے کہ ’’ جو مخلوق کا شکر ادا نہیں کرتا ہے وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا‘‘۔ غور کریں، جب ہمیں ہماری ظاہری ضروریات کا صحیح طور پر ادراک نہیں ہے تو پھر ہمارے وہ ضروریات جو اللہ تعالیٰ غائبانہ اور غیر محسوس طریقے سے پورا کر رہا ہے اس کا شکر کیسے ادا کریں گے۔
والدین اپنے بچوں پر جو احسانات کرتے ہیں ان کی نزاکتوں پر غور کریں۔ نومولودگی کے وقت کی ذرا سی غفلت یا لاپروائی ہمارے وجود کا خاتمہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ غفلت سے موت اور لاپروائی سے کئی قسم کے ضعف لاحق ہو سکتے تھے۔
اب دیکھیے جب ہم میں سمجھ پیدا ہوگئی تو اسے صحیح سمت میں آگے بڑھانے کے بجائے یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ یہ تو ایک معمول ہے جیسے ہم کسی کے بچے ہیں ویسے ہی وہ بھی کسی کے بچے تھے اور ہمیں بھی تو بچے ہوں گے۔ لیکن یہ بات سمجھنا نہیں چاہتے کہ وہ خالق کا نظام ہے جس نے ساری کائنات کے لیے ایک قانون مقرر فرمایا ہے۔ ورنہ بغیر والدین کے وجود میں لانا اس کے لیے کوئی مشکل نہیں جیسے کہ آدم و حوا علیہم السلام کو وجود بخشا۔ جس طرح نومولودگی کے موقع پر ہماری حالت ہمارے والدین کے حضور تھی ہر وقت ہماری وہی حالت ہمارے رب العزت کے حضور میں ہے اس کے لطف وکرم عنایت کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں گزارا جاسکتا۔ جیسا کہ سورۃ حم السجدہ میں ارشاد ہوا ہے عنقریب ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے انفس میں بھی ۔ دور اول میں اسے اچھی طرح سمجھا گیا یہی وجہ تھی کہ اس وقت زندگی کے ہر شعبے میں تحقیقات و انکشافات ہوئے۔ آفاق اور انفس کی آیات پر غور کیا جاتا رہا مختلف شعبہ ہائے حیات میں مختلف علوم و فنون وجود میں آئے۔
انہی آیات پر غور کرنے والوں نے دنیا میں انسانیت کو ہر شعبے میں صحیح تشخیص و تحقیق سے آشنا کیا پھر اس کے فیوض و برکات سے نسل انسانی کی خدمات انجام دیں۔ تاریخ میں دیکھیں کتنے ماہرین نظر آتے ہیں کسی نے فلکیات پر کسی نے ارضیات پر کسی نے سماجیات پر تو کسی نے حیاتیات پر، غرض تمام شعبہ ہائے حیات میں اللہ تعالیٰ کی آیات پر تحقیقات کیں۔ اب ان کے ہی وارث علم کی تقسیم کر بیٹھے۔ نتیجے میں اللہ کی آیات میں غور و فکر محدود ہو کر رہ گیا اور ہم رفتار زمانہ میں بہت پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگئے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے ’’یہاں تک کہ جب سب آجائیں گے تو (ان کا رب ان سے) پوچھے گا کہ تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا حالانکہ تم نے ان کا علمی احاطہ نہ کیا تھا؟): سورة النمل 84
اب اس بات پر بھی غور کریں کہ استعمال کیے جانے والے الفاظ کے معنی کیا ہوتے ہیں اور وہ لفظ کس جانب اشارہ کر رہا ہے؟ ہم اکثر اوقات ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا حقیقی مطلب و مفہوم نہیں معلوم ہوتا جس کی وجہ سے اپنے حقیقی خیالات و مقاصد دوسروں تک اچھی طرح نہیں پہنچا سکتے اور دوسروں کے خیالات و جذبات احساسات ومقاصد صحیح طور پر سمجھ نہیں پا تے جس کے نتیجے میں معاملات میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت ساری غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں۔
ہمارا خاص طور پر دینی معاملات میں غفلت کا عالم یہ ہے کہ ہم نے استعمال کیے جانے والے الفاظ کے معنی ومفہوم سے ہٹ کر رسوم و رواج کی حد تک ہی ان الفاظ کو محدود کر لیا ہے اور کبھی کبھار بھی حقیقت کی طرف غور کرنے کا خیال تک نہیں آتا۔
اب چند استعمال ہونے والے الفاظ اور اس کے مطالب و مفہوم پر غور کریں۔ السلام علیکم۔۔ تسبیح۔۔ ذکر۔۔عبادت۔۔دعا۔۔تلاوت‘ ان الفاظ کے معنی و مطلب کیا ہیں؟۔ رائج اور رسمی معنی اور حقیقی معنوں سے متعلق کسی بھی لفظ پر غور ہو۔
حضور صلہ وسلمل نے ارشاد فرمایا مفہوم ہے: آپس میں سلام کیا کرو
اور ایک موقع پر فرمایا: بات کرنے سے پہلے سلام کیا کرو۔ ہمارے ہاں سلام کرنے کا بس رواج ہے روح کے بغیر۔ دیکھیں کہ سلام کا کیا معنی ومفہوم ہے۔
سلام یعنی امن و سلامتی اور اچھائی بھلائی۔ اور جب ہم کسی کو سلام کرتے ہیں تو گویا اسے یہ اطمینان دلاتے ہیں کہ میری جانب سے تمہیں امن و سلامتی اور بھلائی ہے۔ اور جب یہ طمانیت اسے دی گئی تو اسے پورا کرنا بھی ہوگا ورنہ لفظ تو ادا ہوگیا تقاضہ پورا نہیں ہوا۔ سلام کر کے اس کی برائی کرنا غیبت اور سازش کرنا تکلیف پہچانا نقصان پہنچانا یہ رویہ دراصل زبان دے کر پھر جانے کے مترادف ہوگا جو کہ ایک بغاوت یا مذاق ہوگا۔ سلام میں پہل کرنے والے کو زیادہ ثواب جواب دینے والے کو اس سے کم اور اس کے تقاضے پورے نہ ہونے پر اس کا الٹ بھی ہوگا۔ اب اسی طرح اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا جس کے لیے ہم الحمدللہ کا ورد کرتے ہیں جبکہ اس لفظ کا ادراک نہیں اور تقاضے پورے نہیں تو کس طرح سے شکر ادا ہوگا؟ جن نعمتوں کا شکر ادا کیا جا رہا ہے اس کا ادراک، سمجھ اور اس کا بھرپور اور صحیح استعمال اظہار عمل سے ہوتا ہے زبان سے نہیں، بلکہ زبان سے اقرار ہوتا ہے ثبوت تو عمل ہی سے دیا جاتا ہے۔ ویسے ہی تسبیحات کے معنی و مفاہیم اور تقاضے پورے ہوں تو تسبیحات ادا ہوں گی۔ ورنہ مذاق اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔
ہمارے انفس میں ہی غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا کیا دیا ہے اور کس طرح دیا ہے کونسا عضو کن کن صفات کا حامل ہے اس میں ذرا سی کمی بیشی زندگی پر کتنا اثر انداز ہوتی ہے۔ مثلاً ہماری آنکھ کو دیکھیں۔ ہماری ایک آنکھ میں انفس میں غور کرنے والوں نے پایا کہ ریٹینا کے اندر 130 ملین تقریباً 13کروڑ سیل ہوتے ہیں اور اس کی حفاظت کے لیے 10 لاکھ نروس ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ رنگوں کو پہچانئے کے لیے 6 ملین کونس ہوتے ہیں اور ان کے ذریعہ دماغ کو ہر سیکنڈ میں 5 لاکھ مسیجس جاتے ہیں پھر ان کی صفائی کا نظم پھر ان تمام میں آپسی ربط وتعاون منظم کام یہ ایک آنکھ سے متعلق کچھ معلومات ہیں۔ ویسے ہی دل گردے جگر پھیپھڑے کھال بال ہڈیاں رگیں پٹھے رطوبت چکنائی خون معدہ آنتیں اور نہ جانے کیا کیا،، اور ہر ایک عضو میں اللہ تعالیٰ کی کیا کیا صناعیاں ہیں اور جلد کے ایک آنچ میں کئی قسم کے غدود اور رسپٹرس ہوتے ہیں جن میں ٹچ رسپٹرس تھرمو رسپٹرس ویبریشن کے معلومات کے رسپٹرس پریشر پسینے کے غدود ہوا کے لیے سوراخ وغیرہ وغیرہ جو کہ ایک انچ مربع جلد میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ہر عضو میں اللہ تعالیٰ کی کاریگری نظر آئے گی پھر آفاق میں ان کے نشو ونما مدد اور حفاظت کے انتظامات پر غور کریں۔
غور کریں اور اس کا صحیح استعمال کریں اور انہیں خالق کے حکم کے تابع کریں اس کا ادراک و اعتراف کریں یہی شکر گزاری ہو گی۔ اور ان دریافتوں کے ذریعے مخلوق کے لیے کچھ دریافتیں پیش کرنا بھی تسبیح و عبادت ہوگی خدمتِ خلق ہوگی تب کہیں جا کر زبان سے ادا کیے گئے لفظ پر اعتبار ہوگا ورنہ نادان کی طرح کچھ رسوم کی ادائیگی کو عبادت اور تسبیح اور شکر گزاری تصور کرتے رہ جائیں گے اور صحیح نتائج حاصل نہ کر سکیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملازم یا غلام شعور و آگہی کے ساتھ خدمات انجام دے گا تو وہ مالک کی نظر میں قابل قدر ہوگا ورنہ اس کی کوئی حیثیت وقعت نہیں ہوگی۔ اب ان آیات پر غور کریں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
’’ لہٰذا تم مجھے یاد رکھو ، میں تمہیں یاد رکھوں گا ، اور میرا شکر ادا کرو ، کفرانِ نعمت نہ کرو۔ سورة البقرة 152
’’ آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو ۔ اللہ بڑا قدر داں ہے اور سب کے حال سے واقف ہے‘‘ سورة النساء 147
’’ ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے یہاں سامانِ زیست فراہم کیا ، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو‘‘ سورة الأعراف 10
’’ دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈالا ہے تاکہ وہ انہیں دیکھ کر کہیں کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں! کیا خدا اپنے شکر گزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا ہے‘‘ سورة الأنعام 53
’’ آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تُو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائےگا‘‘سورة الأعراف
’’ جو لوگ اللہ پر یہ جھوٹا افترا باندھتے ہیں ان کا کیا گمان ہے کہ قیامت کے روز ان سے کیا معاملہ ہوگا؟ اللہ تو لوگوں پر مہربانی کی نظر رکھتا ہے مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو شکر نہیں کرتے‘‘ سورة یونس 60
’’اپنے بزرگوں، ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں ۔ درحقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے‘‘ سورة یوسف 38
’’ اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ سورة إبراهیم 7
’’ اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس نے تمہیں کان دیے، آنکھیں دیں، اور سوچنے والے دل دیے، اس لیے کہ تم شکر گزار بنو‘‘ : سورة النحل 78
’’اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اس کو منتخب کر لیا اور سیدھا راستہ دکھایا‘‘ سورة النحل121
’’ وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دیے ۔ مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو‘‘ سورة المؤمنون 78
اللہ تعالیٰ ہمیں ان آیات کی روشنی میں شکر کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے اور حقیقی معنی میں شکر گزاری بجا لانے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020