نام زینب۔ لقب ام المساکین۔ خزیمہ بن حارث بن عبداللہ بن عمرو بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ کی بیٹی تھیں۔
شروع ہی سے نہایت دریا دل اور کشادہ دست تھیں۔ فقیروں اور مسکینوں کی امداد کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتی تھیں اور بھوکوں کو نہایت فیاضی سے کھانا کھلایا کرتی تھیں۔ ان صفات کی وجہ سے لوگوں میں ’’ام المساکین‘‘ کے لقب سے مشہور ہوگئی تھیں۔ ان کا پہلا نکاح حضورؐ کے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبداللہ بن جحشؓ سے ہوا جو جلیل القدر صحابی تھے۔ ۳ ہجری میں جنگ اُحد کے موقع پر حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے لڑائی سے پہلے دعا مانگی :
’’اے خالق کون و مکان مجھے ایسا مقابل عطا کر جو نہایت شجاع اور غضب ناک ہو۔ میں تیری راہ میں لڑتا ہوا اس کے ہاتھ سے قتل ہوجاوں اور وہ میرے ہونٹ، ناک اور کان کاٹ ڈالے تاکہ میں تجھ سے ملوں اور تو پوچھے کے اے عبداللہ تیرے ہونٹ ناک اور کان کیوں کاٹے گئے تو میں عرض کروں الٰہی تیرے اور تیرے رسولؐ کے لیے‘‘
بارگاہ الٰہی میں ان کی دعا قبول ہوئی اور ملہم غیبی نے انہیں شہادت کی بشارت دی۔ چناں چہ فرمایا:
’’خدا کی قسم میں دشمن سے لڑوں گا ۔ حتیٰ کہ وہ مجھے قتل کرکے میری لاش کا مثلہ کرے گا‘‘۔
چناں چہ احد کے معرکہ کار زار میں حضرت عبداللہ بن حجشؓ اس جوش سے لڑے کہ تلوار ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ حضورؐ نے انہیں کھجور کی ایک چھڑی عطا فرمائی جس سے انہوں نے تلوار کا کام لیا۔ اسی حالت میں لڑتے لڑتے رتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ مشرکین نے ان کے ہونٹ، ناک، کان کاٹ کر دھاگے میں پروئے اور یوں ان کی تمنا پوری ہوگئی۔
حضرت عبداللہ کی شہادت کے بعد رسول کریمﷺ نے اسی سال حضرت زینب بنت خزیمہؓ سے نکاح کرلیا۔ حق مہر بارہ اوقیہ قرار پایا۔ اس وقت حضرت زینبؓ کی عمر تقریباً تیس سال کی تھی۔ سرور کائنات ﷺ کے عقد نکاح میں آئے ہوئے انہیں دو تین مہینے ہی گزرے تھے کہ پیغام اجل آگیا۔ خیر البشرؐ نے خود نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن فرمایا۔ حضرت خدیجۃ الکبریؓ کےبعد حضرت زینب بنت خزیمہؓ ہی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور نبی کریمﷺ کے ہاتھوں میں رخصت ہوئیں۔ دوسری سب ازواج مطہرات نے حضورؐ کے بعد وفات پائی۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 7 نومبر تا 13 نومبر 2021