اپنے زمانے کی فقیہ ترین خاتون ہونے کا شرف
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کی صاحب زادی تھیں، جو ان کے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی ؓ کے صلب سے تھیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے: زینب بنت ابو سلمہ بن عبدالاسد بن ہلال بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم القرشی۔
حضرت ابو سلمہؓ رسول اکرمﷺ کے پھوپھی زاد بھائی بھی تھے اور رضاعی بھائی بھی، اس لحاظ سے حضرت زینبؓ حضورؐ کی بھتیجی ہوتی تھیں (برہ بنت عبدالمطلب حضرت زینبؓ کی دادی تھیں اور حضورؐ کی پھوپھی) ان کی ولادت کے بارے میں روایتوں میں خاصا تضاد ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ وہ حبشہ میں پیدا ہوئیں جب ۵ بعد بعثت میں ان کے والدین مکہ سے ہجرت کرنے کے بعد قیام پذیر تھے۔ حضرت ابو سلمہؓ اور ام سلمہؓ حبشہ میں چند سال گزارنے کے بعد مکہ واپس آگئے اور پھر وہاں سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ (حضرت ابو سلمہؓ نے ۱۲ بعد بعثت میں مدینہ کی طرف ہجرت کی اور حضرت ام سلمہؓ نے ۱۳ بعد بعثت میں) مولانا سعید انصاری مرحوم نے سیر الصحابیات میں لکھا ہے کہ حضرت زینبؓ نے اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کی۔ اگر حضرت زینب کی ولادت حبشہ میں تسلیم کی جائے تو پھر انہوں نے والدین کے ساتھ نہیں بلکہ والدہ کے ساتھ ہجرت کی ہوگی، (دونوں میاں بیوی کے زمانہ ہجرت میں ایک سال کا فرق ہے) اس وقت ان کی عمر کم از کم تین چار سال ضرور ہوگی لیکن بعض ارباب سیر نے لکھا ہے کہ حضرت ابو سلمہؓ نے ۴ ہجری میں وفات پائی تو اس وقت حضرت زینبؓ شیر خوار تھیں۔ حافظ ابن حجرؓ نے تو اصابہ میں یہاں تک لکھا کہ ان کو حضرت اسما بنت ابی بکرؓ نے دودھ پلایا۔ عدت گزارنے کے بعد حضرت ام سلمہؓ سرور عالمﷺ کے عقد نکاح میں آئیں تو ننھی زینبؓ بھی حضورؐ کے آغوش تربیت میں آگئیں، ان کا اصل نام برہ تھا۔ حضورؐ نے بدل کر زینب رکھا۔
بعض روایتوں میں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ۳ ھ میں والد (حضرت ابو سلمہؓ) کی وفات کے بعد پیدا ہوئیں۔ ہماری تحقیق کے مطابق جن روایات میں حضرت زینبؓ کی ولادت حبشہ میں بتائی گئی ہے وہ صحیح نہیں ہیں کیوں کہ ابن ہشام نے محمد بن اسحاق کے حوالہ سے خود حضرت ام سلمہؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جس وقت میں نے ہجرت کی (۱۳ بعد بعثت میں) میری گود میں ایک ہی بچہ تھا (سلمہ بن ابو سلمہؓ) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت زینب ؓ مدینہ منورہ میں ہجرت نبوی کے بعد پیدا ہوئیں، ۴ ھ میں حضرت ام سلمہؓ کو ام المومنین بننے کا شرف حاصل ہوا تو حضرت زینب شیر خوار تھیں۔ اس لحاظ سے ان کا سال ولادت ۳ ہجری کے لگ بھگ ٹھہرتا ہے۔
رحمت عالمﷺ کو ننھی زینبؓ سے بے حد محبت تھی وہ آپؐ کی ربیبہ بھی تھیں اور بھتیجی بھی۔ حضورؐ کبھی غسل فرماتے ہوتے اور ننھی زینبؓ آہستہ آہستہ چلتے آپؐ کے قریب چلی جاتیں تو آپؐ پیار سے ان کے منہ پر پانی چھڑکتے تھے۔ اہل سیر نے تواتر کے ساتھ لکھا ہے کہ اس پانی کی برکت سے حضرت زینبؓ کے چہرے پر بڑھاپے میں بھی جوانی کی آب و تاب قائم رہی۔
حضرت زینب سن بلوغ کو پہنچیں تو ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے ان کی شادی اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زمعہؓ (بن اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی) سے کردی۔
ان سے چھ لڑکے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔
۶۳ھ میں حضرت زینبؓ کو ایک عظیم صدمہ سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ ان کے دو لڑکوں یزید بن عبداللہؓ اور کثیر بن عبداللہؓ کی شہادت تھی جو واقعہ حرہ میں ہوئی۔ جب ان کی لاشیں حضرت زینبؓ کے سامنے لائی گئیں تو انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر فرمایا کہ مجھ پر بڑی مصیبت پڑی ، میرا ایک فرزند تو سر میدان لڑکر شہید ہوا لیکن دوسرا تو خانہ نشین تھا، ظالموں نے اسے گھر میں گھس کر ناحق قتل کیا۔ اس کے بعد نہایت حوصلہ اور صبر سے اپنے دونوں نو نہالوں کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ اس واقعے کے دس سال بعد (۷۳ ھ میں) حضرت زینبؓ نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا۔ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ جنازے میں فقیہ امت حضرت عبداللہ بن عمرؓ بھی شریک ہوئے۔
حضرت زینب نے رحمت دو عالمﷺ کے دامن شفقت میں تربیت پائی تھی اس لیے فضل و کمال کے لحاظ سے نہایت بلند مرتبے پر فائز تھیں۔ علامہ ابن عبدالبرؒ نے ’’استیعاب‘‘ میں اور علامہ ابن اثیر نے ’’اسد الغابہ‘‘ میں لکھا ہے:
’’کانت من افقہ نسائ زمانھا‘‘
( وہ اپنے زمانے کی فقیہ ترین خاتون تھیں)
ارباب سیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ بڑے بڑے ذی علم لوگ حضرت زینبؓ سے مسائل پوچھا کرتے تھے ۔ حافظ ابن حجرؓ نے اصابہ میں حضرت ابو رافعؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’جب میں نے مدینہ کی کسی فقیہ عورت کا ذکر کیا تو زینب بنت ابو سلمہؓ کوضرور یاد کیا۔ ‘‘
حضرت زینبؓ سے چند احادیث بھی مروی ہیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں حضرت امام زین العابدین ؓ اور عروہ بن زبیرؒ جیسی عظیم شخصیتیں شامل ہیں۔
(طالب الہاشمی کی کتاب تذکارصحابیاتؓ سے ماخوذ)
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 جولائی تا 16 جولائی 2022