سیرت صحابیات سیریز(۲۸)

حضرت ربیع بنت معوذؓ

فہم دین، بہادری اور جفا کشی خاص اوصاف
سرور کونین حضرت محمد ﷺ کی وفات کے کئی سال بعد جلیل القدر صحابی حضرت عمار بن یاسرؓ کے پوتے ابو عبیدہ بن محمدؒ ایک دن مدینہ منورہ کی ایک بزرگ خاتون کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے پوچھا:
’’اماں جان! ہمارے رسول مقبول ﷺ کا حلیہ مبارک کیسا تھا؟‘‘
یہ خاتون جو سالہا سال تک فخر موجوداتؓ کے جمال جہاں آرا سے اپنی آنکھیں روشن کر چکی تھیں، بے ساختہ بولیں:
’’بیٹے! اگر تم حضورؐ کو دیکھتے تو یوں سمجھتے گویا آفتاب طلوع ہو رہا ہے‘‘۔
اتنا کہتے ہوئے ان کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ حضورؐ کو یاد کرکے رونے لگیں۔ صفحہ تاریخ پر نقوش جاوداں بن کر ثبت ہو جانے والے حقیقت کے آئینہ دار یہ الفاظ جس خاتون کے منہ سے نکلے وہ حضرت ربیع بنت معوذؓ تھیں۔
حضرت ربیع بنت معوذؓ کا شمار جلیل القدر انصاری صحابیات میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق انصار کے معزز ترین خاندان بنو نجار سے تھا۔ سلسلہ نسب یہ ہے:
ربیع بنت معوذ بن حارث بن رفاعہ بن حارث بن سواد بن مالک بن غنم بن مالک بن نجار۔
ماں کا نام ام یزید بنت قیس تھا، وہ بھی بنو نجار سے تھیں۔
حضرت ربیعؓ کے والد اور چچا سب اپنی والدہ عفرا (حضرت ربیعؓ کی دادی) کی اولاد مشہور تھے۔ ان سب کو (یعنی معوذؓ ، معاذؓ اور عوفؓ کو ) پسران حارث کے بجائے ابنائے عفرا کہا جاتا تھا۔
اہل سیر نے حضرت ربیع کے سال ولادت کی تصریح نہیں کی لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہجرت نبوی سے پہلے سن شعور کو پہنچ چکی تھیں۔ ان کے والد معوذؓ اور دونوں چاچاوں معاذؓ اور عوفؓ نے بھی ہجرت نبوی سے قبل قبول اسلام کیا تھا چنانچہ وہ بھی ہجرت نبوی سے قبل ہی نعمت اسلام سے بہرہ یاب ہو گئیں۔
ہجرت کے بعد رحمت عالمﷺ نے جس دن مدینہ منورہ میں نزول اجلال فرمایا، حضرت انس بن مالکؓ کے قول کے مطابق وہ اہل مدینہ کا سب سے بڑا یوم مسرت تھا۔ حضرت ربیع بھی اس مسرت میں شریک تھیں اور دوسری خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ مل کر خیر مقدمی ترانے گارہی تھیں۔
حضرت ربیع کے والد حضرت معوذؓ سرور کائناتؐ کے عاشق صادق تھے اور ان کے دونوں بھائیوں معاذؓ اور عوفؓ کی بھی یہی کیفیت تھی۔ ۲ ھ میں بدر کے میدان میں حق و باطل کا پہلا معرکہ برپا ہوا اور قریش کی طرف سے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ نے میدان میں نکل کر مسلمانوں کو مقابلے کے لیے للکارا تو سب سے پہلے یہی تینوں بھائی (معوذؓ، معاذؓ اور عوفؓ) ان کے مقابلے کے لیے آگے بڑھے لیکن قریش نے ان سے لڑنا پسند نہ کیا اور پکار کر کہا کہ ’’محمدؐ ہمارے مقابلے پر ہماری قوم اور کفو کے آدمی بھیجو‘‘۔ چناں چہ حضورؐ کے حکم پر تینوں جاں باز واپس اپنی صفوں میں آگئے اور حضرت حمزہؓ، حضرت علی ؓ اور حضرت عبیدہ بن حارثؓ ان کے مقابل ہوئے۔ اس مقابلے میں حضرت عبیدہؓ شیبہ کے ہاتھ سے شدید زخمی ہوئے تاہم حضرت حمزہؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے قریش کے تینوں جنگجووں کو واصل جہنم کر دیا۔
اب عام جنگ شروع ہو گئی۔ حضرت معاذؓ اور معوذؓ نے ابو جہل کی فتنہ پردازیوں اور اسلام دشمنی کا چرچا سن رکھا تھا اور ان کی دلی آرزو تھی کہ کسی طرح یہ دشمن خدا ان کو نظر آجائے تو اس کو ٹھکانے لگا دیں۔ چنانچہ وہ معرکہ کار زار میں برابر اس کی تلاش میں رہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ میں میدان جنگ میں کھڑا تھا کہ یکا یک دو انصاری جوان میرے دائیں بائیں آ کر کھڑے ہو گئے۔ ان میں ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا : ’’چچا جان! ابو جہل کہاں ہے‘‘۔ میں نے کہا: ’’برادر زادے! اس سے تمہیں کیا کام ہے؟‘‘ بولا: ’’میں نے سنا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کو گالیاں دیتا ہے، خدا کی قسم وہ مجھے مل جائے تو اس کو مار کر رہوں گا یا اسی کوشش میں اپنی جان قربان کر دوں گا‘‘۔ دوسرے نوجوان نے بھی اسی قسم کی گفتگو کی مجھے ان نوجوانوں کے جذبہ فدویت پر بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے ان کو اشارہ کرکے بتایا کہ وہ سامنے ابوجہل صفوف جنگ میں چکر لگا رہا ہے۔ وہ دونوں باز کی طرح اس پر جھپٹے اور آناً فاناً اس کو خاک و خون میں لوٹا دیا۔ اس کے بعد دونوں بھائی رحمت عالمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابو جہل کے مارے جانے کی اطلاع دی۔ آپؐ نے پوچھا :’’کس نے مارا ہے؟‘‘ دونوں نے عرض کیا : ’’ہم نے‘‘۔ حضورؐ نے فرمایا:’’اپنی تلواریں دکھاو‘‘۔ دونوں نے اپنی تلواریں پیش کیں تو ان میں خون کا اثر موجود تھا۔ حضورؐ نے فرمایا: بے شک تم دونوں نے ہی اس کو قتل کیا ہے‘‘۔
حضرت معوذؓ نے ابو مسافع نامی ایک مشرک کے ہاتھ سے اسی غزوہ میں جام شہادت نوش کیا اور حضرت معاذؓ شدید زخمی ہو کر میدان جنگ میں واپس آئے۔ ایک روایت میں ہے کہ عکرمہ بن ابی جہل نے اپنے باپ کا انتقام لینے کے لیے ان پر حملہ کیا اور ان کا ایک بازو کاٹ ڈالا۔ اس کے باوجود انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہاں تک کہ عکرمہ کو بھگا دیا۔
ایک دوسری روایت کے مطابق انہیں بنو زریق کے ابن ماعض نامی ایک مشرک نے اس وقت زخمی کیا جب وہ ابو جہل پر حملے کر رہے تھے۔ بہر صورت ان کا زخم مندمل ہو گیا اور وہ اس واقعے کے بعد تقریباً تیس پینتیس سال تک زندہ رہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت معوذؓ کے بھائی عوفؓ نے بھی غزوہ بدر میں شہادت پائی اور معاذؓ بھی اپنے زخم سے جانبر نہ ہو سکے۔ واللہ اعلم بالصواب
حضرت ربیعؓ کے والد اور چچا نے آقائے دو جہاں ﷺ کی حرمت کی خاطر جس طرح جان کی بازی لگائی اس کی بنا پر مسلمان ان کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور رحمت عالمﷺ بھی ان پر بڑی شفقت فرماتے تھے۔
غزوہ بدر کے کچھ عرصہ بعد حضرت ربیعؓ کا نکاح حضرت ایاس بن بکیر لیثیؓ سے ہوا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ نکاح کے دوسرے دن رحمت عالمؓ حضرت ربیعؓ کے گھر تشریف لے گئے اور بستر پر بیٹھ گئے۔ اس وقت کچھ لڑکیاں دف بجا کر شہدائے بدر کی تعریف میں اشعار پڑھ رہی تھیں۔ (غالباً یہ اس بنا پر تھا کہ حضرت ربیعؓ کے والد اور چچا نے غزوہ بدر میں شہادت پائی تھی اور شادی کے موقع پر یہ اشعار ان کے غم کو ہلکا کرنے کے لیے پڑھے جارہے تھے) یہ اشعار پڑھتے ہوئے ان لڑکیوں نے جب یہ مصرعہ پڑھا
و فینا نبی یعلم مافی غد
اور ہم میں وہ نبی ہے جو کل کی خبر رکھتا ہے
تو حضور ؐ نے منع فرمایا کہ وہ پڑھو جو پہلے پڑھ رہی تھیں۔
حضرت ربیعؓ ان خوش قسمت خواتین میں تھیں، جنہیں رحمت عالمﷺ غزوات میں لشکر اسلام کے ساتھ رکھتے تھے۔ انہوں نے کئی غزوات میں شرکت کی اور بڑی تن دہی سے زخمیوں اور بیماروں کی تیمار داری کرنے اور مجاہدین کو پانی پلانے کے علاوہ کئی دوسری خدمات انجام دیں۔ صحیح بخاری میں خود حضرت ربیعؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ہم راہ ہوتیں۔ ہم پانی پلاتیں، زخمیوں کا علاج کرتیں اور مقتولین کو واپس لاتی تھیں۔
ایک روایت میں ان سے یہ الفاظ منسوب ہیں ’’ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوہ کرتی تھیں، قوم کو پانی پلاتی تھیں، ان کی خدمت کرتی تھیں اور مقتولین اور زخمیوں کو مدینہ کی طرف واپس لاتی تھیں۔
حضرت ربیع کو سرور عالمﷺ سے بے پناہ محبت اور عقیدت تھی۔ حضورؐ کبھی کبھی ان کے گھر جاکر ان کی عزت افزائی فرمایا کرتے تھے۔ مسند ابو داود میں ہے کہ ایک مرتبہ حضورؐ حضرت ربیعؓ کے گھر تشریف لائے اور وضو کے لیے پانی طلب فرمایا حضرت ربیعؓ نے نہایت ذوق و شوق اور عقیدت کے ساتھ کھڑے ہو کر حضورؐ کو وضو کرایا۔
حافظ ابن عبدالبرؒ نے ’’الاستیعاب میں یہ روایت درج کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ربیعؓ ازراہ عقیدت دو طباقوں میں انگور اور چھوہارے لے کر حضورؐ کی خدمت اقدس میں گئیں۔ حضور نے قبول فرمالیے اور حضرت ربیعؓ کو ازراہ قدر دانی کچھ سونا عطا فرمایا۔
۶ ہجری میں بیعت رضوان اور صلح حدیبیہ کا عظیم الشان واقعہ پیش آیا۔ اس موقع پر حضرت ربیعؓ بھی سرور عالمﷺ کے ساتھ تھیں۔ دوسرے جاں نثاران رسولؐ کے ساتھ انہوں نے بھی بیعت رضوان میں شریک ہونے کی سعادت حاصل کی اور ان سعید روحوں میں شمار ہوئیں جن کے بارے میں بارگاہ الہی سے ارشاد ہوا:
لَّقَدۡ رَضِيَ ٱللَهُ عَنِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ إِذۡ يُبَايِعُونَكَ تَحۡتَ ٱلشَّجَرَةِ
اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔
حضرت ربیعؓ بڑی غیور اور خود دار تھیں۔ حافظ ابن عبدالبرؒ نے ’’الاستیعاب‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک قریشی عورت اسما بنت مخربہ جو عطر بیچا کرتی تھیں، اپنا عطر فروخت کرنے حضرت ربیعؓ کے گھر آئی اور ان سے ان کے خاندانی حالات پوچھنے لگی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ ربیعؓ کے والد نے ابو جہل کو قتل کیا تھا تو اس کی خاندانی عصبیت عود کر آئی اور تنک کر بولی : ’تو تم ہمارے سردار کے قاتل کی بیٹی ہو‘۔ حضرت ربیعؓ کو دشمن اسلام ابو جہل کے لیے سردار کا لفظ سن کر بہت غصہ آیا۔ فرمایا ’’میں تو غلام کے قاتل کی بیٹی ہوں‘‘۔ اسما کو ابو جہل کی یہ تحقیر ناگوار گزری بولی: ’’مجھ کو تمہارے ہاتھ سودا بیچنا حرام ہے‘‘۔ حضرت ربیعؓ نے بھی برجستہ جواب دیا ’’مجھ کو تم سے کچھ خریدنا حرام ہے۔ میں تمہارے عطر کو گندگی سمجھتی ہوں‘‘۔
حضرت ربیعؓ کا سال وفات کسی کتاب میں درج نہیں ہے لیکن حافظ ابن حجرؓ نے اصابہ میں ۳۵ ہجری کا واقعہ لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت عثمان ذو النورینؓ کے عہد خلافت میں با حیات تھیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ اس سال ان کا اپنے شوہر سے مناقشہ ہو گیا اور انہوں نے ان سے کہا کہ میری سب چیزیں لے کر مجھ سے دست بردار ہو جاو۔ شوہر نے ایسا ہی کیا اور جسم کے لباس کے سوا ان سے سب کچھ لے لیا۔ حضرت ربیعؓ نے دربار خلافت میں دعویٰ کیا تو حضرت عثمانؓ نے فیصلہ دیا کہ ’’اپنی شرط پوری کرو‘‘۔
حضرت ربیعؓ سے ۱۲۱ احادیث مروی ہیں۔ ان کے رایوں میں سلیمان بن یسارؒ، نافعؒ’ خالد بن ذکوانؓ، عائشہ بنت انسؓ اور ابو عبیدہ بن محمد بن عمار بن اسرؓ جیسی عظیم المرتبت شخصیتیں شامل ہیں۔
مسند احمد بن حنبلؒ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور امام زین العابدینؓ جو آسمان علم و فضل کے آفتاب و ماہتاب تھے حضرت ربیعؓ سے مسائل پوچھتے تھے، اس سے ان کی علمی حیثیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  15 تا 21 مئی  2022