سید منور حسن مرحوم : تحریک اسلامی کا درخشاں کردار

وہ جنہیں دیکھ کر خدا یاد آتا تھا

ڈاکٹر تابش مہدی

 

یو کے اسلامک مشن شیفیلڈ (برطانیہ) کے ناظم ہمارے رفیق بھائی راجا جمیل اختر نے فیتھ اینڈ کمیونٹی فورم (Faith & Community Forum) کے گروپ پر27؍جون2020کو یہ اندوہ ناک خبر دی کہ جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر محترم سید منور حسن سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ یہ خبر غیر متوقع تو نہ تھی کیونکہ وہ کافی عرصے سے علیل تھے۔ ایک دو بار اخبارات اور سوشل میڈیا کی وساطت سے ان کے لیے دعائے صحت کی اپیلیں بھی آئیں۔ لیکن اچانک اِس اطلاع نے ہلا کر رکھ دیا۔ کچھ دیر میں عجیب عالم میں رہا۔ 1982 سے اب تک کے مختلف مواقع پر ان سے ملاقات کے تمام مناظر سامنے آنے لگے۔ ان کے ساتھ طویل ملاقاتوں، ان کے خطوط اور آنے جانے والوں کے ذریعے سے سلام و دعا اور خیر خیریت یہ سب باتیں ایک ایک کر کے صفحہ ذہن پر روشن ہونے لگیں۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اپنے مشغلہ ذکر وفکر، راتوں کی تنہائیوں میں عبادت و ریاضت اور تقویٰ و طہارت آمیز گفتگو کے ساتھ ہمارے سامنے آ کر کھڑے ہوگئے ہیں اور ہمیں دنیا کی بے ثباتی اور اس میں اپنی زندگی کو صرف اور صرف اکیلے اللہ کے لیے یک سو کرنے کی طرف مسلسل متوجہ کر رہے ہیں۔سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ اگست 1941 میں پیدا ہوے تھے۔ ان کے والد سید اخلاق حسین مرحوم دہلی کے محترم و متدین لوگوں میں تھے اور دہلی کے ایم بی ہائی اسکول میں معلم تھے۔ وہ اپنی مستعدی، دیانت داری، تقویٰ و طہارت اور ہمدردی و خیر خواہی کے لیے دہلی کے بڑے حلقے میں شہرت رکھتے تھے۔ ان کی والدہ بھی محلے میں ایک نیک اور خدا ترس خاتون کی حیثیت سے جانی جاتی تھیں۔سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے سرگرم و فعال اور ہمہ تن خادم تھے۔ تحریک ہی ان کی زندگی تھی۔ وہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی دینی تحریکوں کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ ان کے مسائل، ان کے ساتھ وہاں کی حکومتوں کی ناانصافیاں اور لوگوں کی غفلتیں اور بے شعوریاں انہیں اکثر پریشان کیے رکھتی تھیں۔ ان سے ملاقات کے بعد امیرؔ مینائی کا یہ شعر ہونٹوں پہ آجاتا تھا؎
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہیں ہم امیر ؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی تحریکی رہی ہے۔ لیکن وہ ایسے تحریکی فرد تھے جن میں دینی و روحانی قدروں کا احساس تھا۔ وہ تحریک کو اپنی سوچ اور فہم و فراست کے تابع نہیں، بلکہ وہ خود کو تحریک کی فکر، اس کے رویے اور اس کے بانی کے طرز عمل پر ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی ساری تعلیم کالج اور یونیورسٹی کی تھی، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو علم وعمل، وضع قطع اور اخلاق و کردار ہر لحاظ سے ایسا بنالیا تھا کہ لوگ انہیں دیکھ کر کسی دینی درس گاہ کا معلم و محدث اور کسی روحانی خانقاہ کا شیخ و مرشد خیال کرتے تھے۔ ان کے پاس بیٹھ کر دین و اخلاق اور روحانیت کی مہک محسوس ہوتی تھی، خدا یاد آتا تھا اور جنت و دوزح کا خیال آتا تھا۔ ملنے والا اپنی تربیت کی فکر کرتا تھا۔سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ کی پوری داستانِ زندگی دین و تحریک سے عبارت ہے۔ جب تک وہ زیر تعلیم رہے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں اسلامی طلبا تحریک سے وابستہ رہے۔ اس کے چھوٹے بڑے تمام مناصب پر فائز ہوئے۔ 1968 میں وہ باقاعدہ جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور ایسے شامل ہوئے کہ جی جان سے جماعت ہی کی خدمت میں لگ گئے۔ اپنے آپ کو پوری طرح جماعت اسلامی اور اس کے نصب العین کے لیے وقف کر دیا۔ ابتدا میں مختلف مقامی ذمہ داریاں نبھائیں۔ بہت دنوں تک کراچی، ٹھٹھا کے امیر رہے، پھر ڈپٹی سکریٹری، جنرل سکریٹری(قیم) اور نائب امیر جماعت کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس دوران میں جماعت کی مختلف سطحوں کی مجلسوں کے بھی رکن منتخب ہوتے رہے۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کی ڈائریکٹر شپ بھی انہیں تفویض رہی۔ اس منصب پر رہ کر انہوں نے اکیڈمی سے بڑی تعداد میں دعوتی و فکری کتابیں شائع کرائیں۔ اکیڈمی سے شائع ہونے والے انگریزی جریدوں کی ادارت بھی سنبھالی۔ 2009 میں جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر منتخب ہوئے اور 2014 تک نہایت کامیابی اور نیک نامی کے ساتھ اس معزز و موقر منصب پر فائز رہے۔
یہ بہت مشہور واقعہ ہے کہ سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ نے امارتِ جماعت کے زمانے میں اپنی بیٹی کی شادی کی۔ اس میں کافی لوگوں نے شرکت کی۔ اکثر معززین نے ان کی خدمت میں بیٹی کے لیے نقدی، زیور اور دوسری اشیاء کی شکل میں تحائف پیش کیے۔ انہوں نے سب کچھ بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ وصول کرلیا اور شادی کی مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ان سب کو جماعت کے بیت المال میں جمع کرادیا۔ اس کی توجیہ یہ کی کہ یہ جو کچھ بھی مجھے یا میری بیٹی کو ملا ہے، یہ میرے امیر جماعت ہونے کی وجہ سے ملا ہے۔ ایسی صورت میں یہ سب کچھ بیت المال کا ہے۔ حتیٰ کہ ایک دن شادی کے کئی دنوں کے بعد بیٹی نے ازراہِ مسرت باپ کو ایک قیمتی ہار دکھایا اور کہا کہ شادی میں آئی ہوئی فلاں خاتون نے مجھے گفٹ کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا بیٹی! تمہیں جو کچھ بھی ملا ہے میرے امیر جماعت ہونے کی وجہ سے ملا ہے۔ اگر میں امیر جماعت نہ ہوتا تو تمہیں ہرگز کوئی اتنی قیمتی چیز نہ پیش کرتا۔ بیٹی نے باپ کے خیال کی تائید کی اور فوراً ہار اپنے باپ کے ہاتھ پہ رکھ دیا اور کہا: ابّا جانی! آپ اِسے اس کے مقام تک پہنچا دیں چنانچہ سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ نے اُسے لے کر جماعت کے بیت المال میں جمع کرادیا۔ یہاں یہ بات خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ ہے کہ متقی، پرہیز گار اور خدا ترس والدین کی جس صالح اور اعلیٰ تربیت کے نتیجے میں سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت پروان چڑھی جس کے نتیجے میں انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ جیسے حکم راں کا نمونہ پیش کیا، اسی طرح خود سید منور حسن کی صالح تعلیم و تربیت کے نتیجے میں ان کی دختر نیک اختر نے باپ کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی اس قیمتی ہار کو ان کی خدمت میں پیش کر دیا تاکہ وہ اسے جماعت کے بیت المال میں جمع کرا دیں۔ صحیح اور صالح تعلیم و تربیت کے ایسے ہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ کے ایک دو نہیں بے شمار واقعات ایسے ہیں کہ جب وہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر، یا قیم جماعت کی حیثیت سے بیرون ممالک تشریف لے گئے تو انہیں وہاں جو تحفے تحائف (گھڑی، عطر، یا کوئی دوسری چیز) ملے انہیں انہوں نے بہت خوشی سے قبول کیا شکریہ بھی ادا کیا اور دعائیں بھی دیں۔ لیکن وہ تمام چیزیں سفر سے واپس آنے کے بعد جماعت کے بیت المال کے حوالے کر دیں۔
سید منور حسن کی ایک اہم صفت عہدوں اور منصبوں سے بے نیازی بھی تھی۔ یہ ان کی بڑی نایاب صفت تھی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ مناصب اور عہدے ان کے پیچھے پیچھے دوڑتے تھے۔ لیکن وہ مستقل ان سے دامن بچاتے رہے۔ جماعت کی امارت سے بھی انہوں نے سخت دامن کشی اختیار کی، لیکن یہ مقدر میں تھی چنانچہ وہ 2009 میں جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر منتخب ہوئے۔ وہاں امیر کے انتخاب کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے چند ناموں میں سے پورے ملک کے ارکان اپنی پسند، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کسی کو امیر تجویز کرتے ہیں۔ ان میں جس کے حق میں سب سے زیادہ رائے ہوتی ہے، اسے طے شدہ ذمہ داران تصویب و توثیق کرکے منصب تفویض کرتے ہیں۔ سید رحمۃ اللہ علیہ کو اس بار سب سے زیادہ رائے حاصل ہوئی۔ لیکن انہیں یہ بات پسند نہیں تھی کہ اُنہیں امیر بنایا جائے۔ انہوں نے مقررہ مجلس میں دلیل دیتے ہوئے کہا:
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ جماعت اسلامی غیر منقسم ہندستان کے بھی امیر تھے اور جماعت اسلامی پاکستان کے بھی۔ لیکن انہوں نے 1972 میں یہ ذمہ داری میاں صاحب مرحوم کو تفویض کردی۔ اس وقت ان کی عمر اڑسٹھ یا انہتّر برس تھی۔ پھر میاں صاحب نے بھی تقریباً اسی عمر کو پہنچ کر ذمہ داری سے سبک دوشی اختیار کرلی اسی طرح قاضی حسین احمد صاحب نے بھی۔ میری پیدائش1941 کی ہے اس وقت میری عمر اڑسٹھ برس ہے، گویا جن عمروں میں آ کر ہمارے اکابر جماعت نے ذمہ داری سے سبکدوشی اختیار کی تھی میں اب اسی عمر کو پہنچ چکا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جس عمر کو پہنچ کر ہمارے بزرگوں نے خود کو اِس اہم اور گراں ذمے داری کے لائق نہیں سمجھا، مجھے کیوں اس کا اہل سمجھا جا رہا ہے؟
اس وقت انہیں اس سوال کا کیا جواب دیا گیا یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن بہ ہر حال وہ امیر منتخب ہو گئے۔ اِس واقعے سے یہ بات صاف اور واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ وہ کسی جماعتی عہدہ و منصب کے کبھی خواہش مند نہیں رہے۔ وہ خالص خادم جماعت تھے اور ہمیشہ ایک خادم کی حیثیت ہی سے کام کرنا چاہتے تھے۔ جب کہ بڑے بڑے لوگوں کو ایسے مناصب کا خواہش مند پایا گیا ہے۔ بعض نے تو سرعام اپنی خواہش کا اعلان بھی کر دیا۔ سید منور حسن کی للّٰہیت و اخلاص کی یہ ایسی مثال ہے جس کی دوسری نظیر مشکل ہی سے مل سکے گی۔سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ سے میری پہلی ملاقات نومبر 1982 میں ہوئی تھی۔ لیکن یہ بڑی مختصر سی ملاقات تھی۔ میں کراچی کے ایک ادارے کی دعوت پر گیا تھا۔ ویزا بھی بہت مختصر مدت کا تھا۔ چند ہی دنوں میں میری وہاں سے واپسی ہوگئی۔ دوسری اور تفصیلی ملاقات اکتوبر 1985 میں ہوئی۔ میرا یہ سفر بھائی اعجاز رحمانی مرحوم کی دعوت پر ہوا تھا۔ میرے پاس تین مہینے کا ویزا تھا۔ اِس سفر میں کراچی کے علاوہ لاہور، فیصل آباد، ڈیرہ شاہ نواب، سکھر، حیدرآباد (سندھ)، ٹھٹھّ اور نہ جانے کہاں کہاں کے سفر ہوئے اور وہاں کی علمی، ادبی اور شعری محفلوں میں شرکت ہوئی۔ اس زمانے میں کراچی کی فضا پروفیسر عبدالغفور احمد، سید منور حسن، محمود اعظم فاروقی، مولانا عبدالحی، عبدالستار افغانی، اطہر قریشی، محمد صلاح الدین، اطہر ہاشمی، کشش صدیقی، محمود احمد مدنی، عبدالکریم عابد، تابش دہلوی اور اعجاز رحمانی کے وجود سے روشن اور منور تھی۔ انہی لوگوں میں میرا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ میرےاعزاز میں ایک دو نہیں درجنوں چھوٹے بڑے مشاعرے ہوئے اور ملاقاتوں اور محفلوں کا انعقاد ہوا۔ کراچی کے علاقے عزیز آباد فیڈربی ایریا میں جہاں میرا قیام تھا، وہاں سے جماعت اسلامی کی اسلامک ریسرچ اکیڈمی کا دفتر بہت قریب تھا۔ ان دنوں سید منور حسن اس کے ذمے دار تھے، وہ روزآنہ پابندی کے ساتھ وہاں تشریف لاتے تھے، میں بھی ٹہلتے ٹہلتے وہاں پہنچ جاتا تھا۔ مختلف علمی، ادبی اور تحریکی موضوعات پر بڑی تفصیلی گفتگوئیں ہوتی تھیں۔ چوں کہ انہیں استاذ محترم مولانا عامر عثمانی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑا دینی لگاؤ تھا، تجلی کے بیش تر شمارے ان کے پاس موجود تھے، اس لیے بھی انہیں مجھ سے تعلق خاطر تھا۔ حتیٰ کہ وہ بعض ان چھوٹے پروگراموں میں بھی اطلاع پانے پر شریک ہو جاتے تھے جو میرے اعزاز میں منعقد ہوتے تھے۔ پروفیسر عبدالغفور احمد مرحوم نے 30؍ دسمبر 1985 کو اپنے دولت خانے پر ایک بڑا ادبی پروگرام میرے اعزاز میں رکھا تھا، اس میں وہ بڑی سرگرمی کے ساتھ شریک رہے۔ اخبارات میں اس اعزازی پروگرام کو کافی ہائی لائٹ کیا گیا تھا۔
نومبر 1989 میں جب میں لاہور میں منعقد ہونے والے جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع عام میں مدعو ہوا تو کئی پروگرام کراچی میں بھی ہوئے۔ میرے ہم راہ رفیق دیرینہ مولانا محمد طاہر مدنی بھی تھے۔ اس موقعے پر بھی ایک دو ملاقاتیں ہوئیں۔ کراچی میں ان کے خطاب سے بھی فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ اِس موقعے پر ان کا وہ خطاب خصوصیت کے ساتھ یاد ہے جو انہوں نے کراچی کے اس بڑے جلسے میں کیا تھا، جو اس وقت کے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا جان محمد عباسی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند کی شہادت کے حوالے سے منعقد ہوا تھا۔ اس جلسے سے سید اسعد گیلانی، علّامہ عنایت اللہ گجراتی اور خود مولانا جان محمد عباسی نے بھی خطاب کیا تھا۔ ان کے خطاب میں کہیں بھی بے صبری یا قنوطیت کا شائبہ نہیں تھا۔ ان کی پوری تقریر صبر واستقامت اور خلوص وللہیت پر مبنی تھی۔ لیکن سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ کی آدھے گھنٹے کی تقریر میں صبر و استقامت کا بھی درس تھا اور جذبہ جہاد و قربانی کا بھی۔ مجمع کا ایک ایک فرد عزم اور حوصلے کا پیکر نظر آ رہا تھا۔ جو بھی اٹھا مرحوم کی مغفرت و بلندی درجات کی دعا کرتے ہوئے اور جہاد و قربانی کا عزم و حوصلہ لے کر اٹھا۔ اس کے بعد بہت دنوں تک ان سے شرف ملاقات نہیں حاصل ہوسکتا البتہ خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔
سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ سے آخری مگر تفصیلی اور یادگار ملاقات 2006 میں ہوئی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب یو کے اسلامک مشن کبھی یک روزہ اور کبھی دو روزہ کانفرنس ایک سال کے وقفے سے بڑے اہتمام سے منعقد کرتا تھا۔ یہ کانفرنسیں برطانیہ کے مختلف شہروں میں منعقد ہوتی تھیں۔ بعض سہولتوں کی وجہ سے زیادہ تر برطانیہ کے بڑے شہر برمنگھم میں ہوتی تھیں۔ اس کے لیے مہمان خصوصی کے طور پر پاکستان اور ہندستان سے تحریکی علماء و زعما کو مدعو کیا جاتا تھا۔ جولائی 2006 کی یک روزہ کانفرنس میں پاکستان سے محترم سید منور حسن قیم جماعت اسلامی پاکستان اور مولانا عبدالمالک شیخ الحدیث جامعہ منصورہ، لاہور کو مدعو کیا گیا تھا اور ہندستان سے مجھے بہ حیثیت نعت گو شاعر۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ کانفرنس میں سید منور حسن بھی شریک ہو رہے ہیں تو میں برطانیہ پہنچنے کے لیے بے چین ہو گیا۔ ویزا اور ٹکٹ حاصل ہو جانے کے بعد میں کانفرنس سے دو تین روز پہلے ہی برطانیہ پہنچ گیا۔لندن میں یو کے اسلامک مشن کے مرکزی دفتر میں میرا قیام تھا۔ چوں کہ لندن سے برمنگھم کی مسافت کافی لمبی ہے اس لیے بھائی شفقت محمود جنجوعہ کے ہم راہ کانفرنس سے ایک دن پہلے ہی ہم برمنگھم کے قریبی شہر والسال پہنچ گئے۔ تاکہ اگلے دن کانفرنس کے افتتاحی پروگرام میں بہ آسانی شرکت ہو سکے۔ والسال میں ہمارے قیام کا انتظام جناب طاہر محمود چودھری کے ہاں تھا۔ محترم سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ پہلے سے وہاں موجود تھے۔ انہیں وہاں پا کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ تمام پرانی میٹھی اور خوشبو دار یادیں سامنے آگئیں۔ موقع بہ موقع انہیں دہرایا جاتا رہا۔ اِس ہم قیامی میں ان کی زندگی کے بعض وہ پہلو بھی سامنے آئے جو شاید کسی اور صورت میں نہ آتے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ناشتے کے وقت کہا: تابش بھائی! آج مجھے آپ کو دیکھ کر آپ کے استاذِ محترم مولانا عامر عثمانی رحمۃ اللہ علیہ یاد آگئے۔ پھر بہت دیر تک ان کے اوصاف بیان کرتے رہے۔ کہنے لگے آپ کی ملاقات محترم میاں طفیل محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تو رہی ہوگی۔
میں نے عرض کیا: جی! کئی بار شرفِ ملاقات حاصل ہوا ہے۔ فرمایا: آج ایک تاریخی واقعہ سن لیجیے، جو شاید کہیں اور کسی سے سننے کو نہ ملے۔ میں فوراً متوجہ ہو گیا۔ بتایا کہ جب مولانا مودودیؒ کی کتاب ’خلافت و ملوکیت‘ آئی تو اس کی کافی مخالفت ہوئی۔ کئی کتابیں بھی اس کے خلاف آئیں۔ ایک کتاب دیوبندی حلقے سے ’شواہد تقدس‘ کے نام سے آئی۔ اس کے مصنف مولانا سید محمد میاں دیوبندی تھے۔ حلقہ دیوبند میں اس کتاب کے کافی چرچے رہے۔ مولانا عامر عثمانی نے اپنے رسالے تجلی میں اس کا بھر پور جائزہ لیا۔ تجلی کا خلافت و ملوکیت نمبر شائع کیا۔ یہ نمبر بھی مخالفین و موافقین میں بہت پڑھا گیا۔ اِسی دوران میں دیوبند سے مولانا عامر عثمانی کے چھوٹے بھائی عمر فاروق عثمانی اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے پاکستان آئے۔ چوں کہ وہ واہگا کے راستے سے آئے تھے، اس لیے ایک روز لاہور میں قیام کیا اور مولانا مودودیؒ کی مجلس میں بھی شریک ہوئے۔ مجلس میں ان کا تعارف ہوا تو لوگوں نے مولانا عامر عثمانی کے قلمی فتوحات کو خوب سراہا۔ خلافت و ملوکیت نمبر کی غیر معمولی تعریف و تحسین کی۔ جب کافی دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا تو مولانا مودودیؒ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: لیکن آپ لوگوں نے تجلی کے لیے کیا کیا؟ مجلس میں نعیم صدیقی، سید اسعد گیلانی، چودھری غلام جیلانی اور میاں طفیل محمد صاحب بھی تھے۔ سب خاموش رہے۔ بس نعیم صدیقی صاحب نے اتنا کہا کہ اُسے کافی تعداد میں ہمارے رفقا نے خریدا اور پڑھا۔ مولانا نے فرمایا: یہ کیا بات ہوئی؟ بس بات یہیں ختم ہوگئی۔ جب عمر فاروق عثمانی مجلس سے رخصت ہو کر جانے لگے تو میاں صاحب انہیں کچھ دور تک رخصت کرنے کے لیے ساتھ گئے اور کہا: جب آپ کراچی سے واپس ہوں، انڈیا جانے لگیں تو مجھ سے ضرور مل لیں۔ چناں چہ جب چند دنوں کے بعد عمر فاروق عثمانی واپس ہوئے تو حسب ارشاد انہوں نے میاں صاحب سے ملاقات کی۔ میاں صاحب نے ایک بڑی رقم ان کے حوالے کی اور ایک رجسٹر بھی دیا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کے پتے درج تھے اور کہا: یہ خصوصی نمبر دوبارہ شائع کر کے ان پتوں پر بھی بھیج دیں۔
یہ بتاتے ہوئے منور صاحب کی آنکھیں چھلک پڑیں اور فرمایا: تابش بھائی! میاں صاحب نے یہ رقم جماعت کے بیت المال سے نہیں بلکہ اپنی ایک جائیداد فروخت کر کے دی تھی۔ اس وقت ان کے پاس اتنی بڑی رقم نہیں تھی۔اپنے قائد کی یہ بات ان کے دل کو لگ گئی کہ تم لوگوں نے تجلی کے ساتھ کیا کیا؟ پھر منور صاحب بہت دیر تک میاں صاحب کے اوصاف بیان کرتے رہے اور کہا افسوس کہ اب اپنے قائدین کے اشاروں پر قربان ہونے والے ایسے لوگ کہاں ہیں؟ ہم خود اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ کا یہ جوہر بھی اسی سفر برطانیہ میں سامنے آیا کہ وہ شعر و سخن کا بڑا اچھا اور پاکیزہ ذوق رکھتے تھے۔
مختلف مواقع پر بے شمار اشعار سناتے رہے۔ مولانا عامر عثمانی تو انہیں حفظ تھے۔یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ اپنی تمام تر جماعتی ذمے داریوں اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے افکار و خیالات سے گہری وابستگی کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور سید احمد شہید راے بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و خیالات سے خصوصی تعلق رکھتے تھے۔ اِسی برطانیہ کے سفر میں انہوں نے ایک بار مانچسٹر سے لندن آتے ہوئے راستے میں انہوں نے شاید میرے جھکاؤ اور رجحان کو دیکھتے ہوئے فرمایا: تابش بھائی! میں نجدی بھی ہوں اور وجدی بھی۔ مجھے بچپن ہی سے والد محترم کی مخصوص تربیت کی وجہ سے روحانی قدروں سے غیر معمولی تعلق رہا ہے۔
سلسلہ صفحہ نمبر-10
بسلسلہ صفحہ نمبر-13
یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم کے زمانے ہی میں مَیں نے اپنے وقت کے معروف عارف باللہ حضرت سید زوار حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے شرفِ بیعت حاصل کرلیا تھا۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے میرا یہ تعلق ان کی زندگی بھر قائم رہا۔ میںان کی مجلس ذکر میں بھی پابندی کے ساتھ شرکت کرتا رہا۔ جب میری جماعتی اور دوسری مصروفیات بڑھیں تو میں نے حضرتِ والا کے سامنے اپنی مجبوری رکھی۔ حضرت نے فرمایا: تم جب اور جس وقت بھی خود کو فارغ محسوس کرو میرے پاس آکر ذکر کی محفل میں شرکت کر سکتے ہو۔ بعد میں مَیں نے دیکھا کہ سید منور حسن کی یہی بات ہفت روزہ ایشیا لاہور میں بھی 2009 کے کسی شمارے میں کسی نے قلم بند کی تھی۔ ابھی کراچی سے میرے دیرینہ کرم فرما اور مشہور اہل قلم جناب ابو نصر احمد حاطب صدیقی نے بھی وہاں کے رکن جماعت ڈاکٹر فیاض عالم کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ ایک بار انہوں نے حضرت سید زوار حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے ڈاکٹر عزیز الرحمن کی ایک کتاب تحفۃً سید صاحب کو پیش کی تو وہ بہت خوش ہوئے۔
کافی دیر تک اپنے پیر و مرشد کا تذکرہ کرتے رہے۔ اپنی اِس سعادت پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ انہیں اِس عظیم ہستی سے شرف بیعت و ارادت حاصل تھا۔کانفرنس کے بعد ہم دونوں کی قیام گاہیں تو مختلف مقامات پر تھیں لیکن ہم سفری و ہم طعامی کے مواقع مسلسل ملتے رہے۔ کسی کو گہرائی سے جاننے اور سمجھنے کے لیے یہ دونوں چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ شہر لندن کے کئی مقامات کی محفلوں میں ان کے ساتھ شرکت کرنے اور سامعین کو اپنی نعتیہ شاعری سنانے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ مانچسٹر، لیسٹر، برنلے، نیلسن اور گلاسگو کے جلسوں میں ان کے ساتھ جانے اور انہی کے ہم راہ وہاں سے لوٹنے کے مواقع حاصل رہے۔ ہر سفر میں ان کے تقویٰ و طہارت سے پُر زندگی کو دیکھنے اور ان کی روحانیت و خدا ترسی کو سمجھنے کے بھر پور مواقع میسر رہے۔ اِن سفروں میں مجھے وہ آج کے عام قائدین و زعما سے بالکل مختلف اور منفرد نظر آئے۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ انہیں دیکھ کر، ان سے مل کر دل میں یہی خیال آتا رہا کہ کاش مجھے ان کی طویل رفاقت نصیب ہوئی ہوتی۔ پھر پندرہ دن کے بعد سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ واپس پاکستان چلے گئے اور میں بعض دوسرے شہروں میں پہلے سے طے شدہ پروگراموں میں شرکت کے لیے ایک ماہ تک وہاں رکا رہا۔ جب دلی آیا تو ان کا محبت و خلوص سے بھرپور ملفوف میرا منتظر رہا۔ اس میں وہ باتیں لکھی تھیں جو میرے لیے ناقابلِ بیان ہیں۔ میں انہیں کبھی فراموش نہ کرسکوں گا۔ بس یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ واقعی مجھے ویسا ہی بنائے جیسا کہ انہوں نے محسوس کیا ہے۔افسوس صد افسوس کہ سید منور حسن ہم سے دور اور بہت دور چلے گئے ہیں۔ اتنی دور کہ جہاں سے نہ آج تک کوئی لوٹ کر آیا ہے اور نہ ممکن ہے۔ لیکن ان کی میٹھی یادیں، اور ان کی زندگی کی انمول اور منفرد داستانیں ہمیشہ ہمیں اچھائیوں، نیکیوں اور تقویٰ و طہارت کی طرف متوجہ کرتی رہیں گی۔

سید منور حسن رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی تحریکی رہی ہے۔ لیکن وہ ایسے تحریکی فرد تھے جن میں دینی و روحانی قدروں کا احساس تھا۔ وہ تحریک کو اپنی سوچ اور فہم و فراست کے تابع نہیں، بلکہ وہ خود کو تحریک کی فکر، اس کے رویے اور اس کے بانی کے طرز عمل پر ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی ساری تعلیم کالج اور یونیورسٹی کی تھی، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو علم وعمل، وضع قطع اور اخلاق و کردار ہر لحاظ سے ایسا بنالیا تھا کہ لوگ انہیں دیکھ کر کسی دینی درس گاہ کا معلم و محدث اور کسی روحانی خانقاہ کا شیخ و مرشد خیال کرتے تھے۔ ان کے پاس بیٹھ کر دین و اخلاق اور روحانیت کی مہک محسوس ہوتی تھی، خدا یاد آتا تھا اور جنت و دوزح کا خیال آتا تھا۔ ملنے والا اپنی تربیت کی فکر کرتا تھا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020