’’سیاسی مسلم۔ہندوستان میں سیاسی اسلام کی ایک کہانی‘‘

ہلال احمد کی نئی کتاب ۔ آزادی کے بعد مسلمانوں کے سیاسی سفراور غلط فہمیوں کا معروضی جائزہ

مبصر : شبیع الزماں، پونے

 

’’سیاسی مسلم۔ہندوستان میں سیاسی اسلام کی ایک کہانی‘‘ (Siyasi Muslim-a Story of political islam in india) ہلال احمد کی نئی کتاب ہے جو پینگوین پبلیکشنز سے شائع ہوئی ہے، جسے ہندوستانی مسلمانوں کے آزادی کے بعد کے اجتماعی سفر کا جائزہ کہا جا سکتا ہے۔ کتاب کا عنوان ’سیاسی مسلم‘ ایک وسیع تناظر میں ہے۔ اس میں مسلمانوں کی صرف خالص انتخابی سیاست سے متعلق کوششوں پر گفتگو نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی معاشی، سماجی، یہاں تک دینی زندگی پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ علمی دنیا میں ماضی کے مطالعہ کو تاریخ اور حال کے مطالعہ کو پالیٹیکل سائنس کے اندر شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن جب ہم ہندوستان کی بات کرتے ہیں تو یہاں ماضی سے مراد ۱۹۴۷ سے پہلے کی دنیا لی جاتی ہے اور حال سے مراد آزادی کے بعد کی دنیا۔ ہلال احمد کی کتاب بھی اسی پس منظر میں لکھی گئی ہے جس میں آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کا بحیثیتِ قوم سفر کا جائزہ لیا گیا ہے۔
کتاب کا نام سیاسی مسلم رکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے ہلال احمد لکھتے ہیں کہ ’’یہ کتاب ہندوستان میں مسلم سیاست کو بیان نہیں کرتی بلکہ یہ مسلم سیاست کے خاکے، بیانات، ایکشن اور پروسس کو بیان کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کتاب مسلم سیاست کو ایک سیاسی ڈسکورس کے طور پر دیکھتی ہے۔ اسے دو نکات کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے اول یہ کہ عام طور پر مسلمانوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سیاسی طور پر ایک باخبر کمیونٹی ہے۔ مسلم ووٹ بینک اور مسلمانوں کی منہ بھرائی جیسے الفاظ اسی مفروضے کی بیناد پر وجود میں آئے ہیں کہ مسلمان اپنی سیاسی قوت کو سمجھتے اور دور جدید کے سیاسی سسٹم کا انہیں بہترین فہم حاصل ہے دوسرے یہ کہ ’ سیاسی‘ کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے۔ یہ ان افراد اور گروہوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جنہیں قومی مفاد سے کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ انہیں اپنے ذاتی یا کمیونٹی کے مفادات ہی عزیز ہوتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اس معنی میں سیاسی کہا جاسکتا ہے کہ انہیں ملکی مفادات سے زیادہ اسلام عزیز ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ وندے ماترم نہیں پڑھتے، گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور پاکستان کی طرف داری کرتے ہیں یعنی وہ سیاسی ہیں‘‘
کتاب ہندوستانی مسلمانوں کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ نگاہ دیتی ہے۔ کتاب کے سرورق پر رویش کمار کا تبصرہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ ’’کتاب ہندوستانی مسلمانوں کو جاننے کا ایک نیا زاویہ دیتی ہے جن کے سیاسی افق کو برقعہ، طلاق اور نماز تک محدود کر دیا گیا ہے‘‘ (رویش کمار)۔
ہلال احمد سی ایس ڈی ایس میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور ہندوستان سیاست، ہندوستانی مسلمان اور ہندوستانی سماج ان کی تحریروں کا مرکزی موضوع رہتا ہے۔ ہلال احمد ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں اس کا اظہار کتاب کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ کتاب میں ہر موقف کی دلیل میں انہوں نے تحقیق، ڈیٹا، ٹیبل اور جدید ریسرچ کے طریقوں کا استعمال کیا ہے۔ بالعموم ایسے عنوانات پر مصنفین جذباتی اور غیر مدلل انداز اپنا لیتے ہیں لیکن اس کتاب کا انداز معروضی اور سائنٹیفک ہے۔ اس میں دماغوں کا شکار کرنے کے بجائے غور وفکر کی غذا مہیا کی گئی ہیں۔
کتاب کی سب اہم خوبی اس کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد ہے جو کتاب کی قدرو قیمت اور اس کے نتائج کی صداقت میں اضافہ کرتا ہے۔ مصنف نے کتاب کی تیاری میں درج ذیل ذرائع کا استعمال کیا ہے۔
۱۔ آفییشل ڈاکیومنٹس جیسے پارلیمانی مباحث، حکومت کے ذریعے جاری کردہ مردم شماری رپورٹس، الیکشن کمیشن کے ذریعے شائع شدہ رپورٹس۔
۲۔ ریسرچ میٹیریل، پمفلٹ، چھوٹی چھوٹی کتابیں، فوٹوگراف اور اسی طرح کا مٹیریل جو کئی سالوں تک فیلڈ ورک کے دوران جمع کیا گیا تھا۔
۳۔ مذہبی رہنماوں اور مسلم سیاستدانوں سے لیے گئے انٹرویوز
۴۔ مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی تنظیموں کی ویب سائٹس، آن لائن اخبارات، آرٹیکلس۔
۵۔ سی ایس ڈی ایس، لوک نیتی کے ذریعے کے گئے مختلف سروے۔
مصنف نے کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے جو دس ابواب پر مشتمل ہیں۔ ان ابواب کے علاوہ افتتاحیہ میں بعض چیزیں سوال و جواب، تعارف اور کرونولوجی کے عنوانات کے تحت درج ہیں۔
کتاب کے پہلے حصے میں مصنف نے بعض غلط فہمیوں اور بیانیوں کو رد کرنے کی کوشش کی ہے جو مسلم سیاست کے تعلق سے قائم ہوئے ہیں لیکن زمینی سطح پر ان کی کچھ زیادہ حقیقت نہیں ہے۔ جیسے ہندوستانی مسلمانوں کو عمومی طور پر ایک یکساں (homogeneous) کمیونٹی سمجھا جاتا ہے بالخصوص سیاسی میدان میں انہیں ایک اکائی کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ وہ یک جٹ ہو کر ووٹ کرتے ہیں لیکن ہلال احمد کے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ کتاب یہ بات ثابت کرتی ہے کہ مسلمان کاسٹ، کلاس اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم ہیں اور اسی تقسیم سے مسلم سیاست جنم لیتی ہے۔
اسی طرح دوسرے کئی burning سوالات ہیں جن کے جوابات کتاب کے ابتدائی حصے میں دینے کی کوشش کی گئی ہے جیسے کیا مسلم پالیٹکس سے مراد صرف ووٹ بینک کی پالیٹکس ہے؟ کیا مساجد، مدرسے اور مسلمانوں کے ادارے انتخابی سیاست میں حصہ لیتے ہیں؟ مسلمان سیکولر سیاست میں حصہ کیوں نہیں لیتے، مسلمانوں کو صرف اپنے ملی مفادات سے ہی کیوں غرض ہوتی ہے، کیا واقعی مسلمان نیشلنسٹ ہیں، سیاسی اسلام کیا ہے؟ کیا یہ جہاد اور تشدد پر ابھارتا ہے؟کیا ہندوستانی مسلمان داعش اور القاعدہ کو پسند کرتے ہیں؟ مسلمان شریعت کا قانون کیوں چاہتے ہیں، پرسنل لا بورڈ کیا ہے، وندے ماترم پڑھنے میں کیا قباحت ہے؟ رام مندر قضیہ کیا ہے؟ اگر مسلمان رام مندر کے لیے ایودھیا کی جگہ دے دیں تو کیا ہوگا؟ مجلس اتحاد المسملین، جمعیت علما ہند اور جماعت اسلامی ہند کا موجودہ ہندوستانی سیاست میں کیا رول ہے۔ مسلمان بی جے پی مخالف کیوں ہے اور انہیں مودی سے کیا پرابلم ہے۔ اسی طرح دیگر سوالات کے جوابات کتاب کے ابتدائی حصے میں درج ہیں جن سے موجودہ ہندوستانی سیاست میں مسلم رول کے خدوخال واضح ہوتے ہیں۔ ابتدائیے کے بعد ہندوستان میں مسلم سیاست کے اہم واقعات کی کرونولوجی درج ہے جس سے ستر سالہ مسلم تاریخ کی اہم جھلکیاں ایک ساتھ سامنے آجاتی ہیں۔ یہ کرونولوجی اگست ۱۹۴۷ میں ہندوستان کی تقسیم سے شروع ہو کر The Muslim Women Ordinance کے پاس ہونے پر ختم ہوتی ہے۔
کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
1.Making sense of siyasi muslims
2.Unpacking Siyasi Muslim
3.The politics of siyasi muslim
پہلا حصہ چار ابواب پر مشتمل ہے۔
1.Muslims,we knows as number
2.Muslims as religious community
3.’islamization’ since independent
4.why does Hindutva needs Muslims
پہلے باب میں مردم شماری کے اعتبار سے مسلمانوں کی تعداد کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے اور بکھرے ہوئے مسلم سماج کو نظریاتی طور پر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کی بڑھتی شرح ہندوستان میں ڈسکشن کا بڑا موضوع ہے۔ اس عنوان سے متعلق ڈسکشنس میں عام طور سے تین الگ الگ اعتراض کیے جاتے ہیں۔
پہلا سوال معیشت کی ترقی سے متعلق زیر بحث لایا جاتا ہے کہ ہندوستان جیسی ابھرتی ہوئی معیشت میں مسلمانوں کی بے قابو آبادی اس کی ترقی کی رفتار کو دھیما کر دیتی ہے۔ عام طور سے یہ سوال ٹی وی اور اخبار کی بحثوں میں اٹھایا جاتا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ مسلمان چونکہ بہت زیادہ مذہبی ہیں اور اسلام انہیں برتھ کنٹرول سے روکتا ہے اس لیے مسلمانوں کو مشورہ دیا جاتا کہ وہ مذہبی مائنڈسیٹ سے باہر نکلیں اور دور جدید میں برتھ کنٹرول کی اہمیت اور افادیت کو سمجھیں۔ اور تیسرا اعتراض مکمل طور پر سیاسی قسم کا ہے۔ یہ ہندوتوا وادیوں کی طرف سے آتا ہے کہ مسلمان سازش کے طور پر اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں تاکہ وہ اس ملک پر قبضہ کر سکیں یا ایک مرتبہ پھر سے ملک کی تقسیم کا مطالبہ کر سکیں۔مصنف نے تینوں اعتراضات پر سیر حاصل کی گفتگو کی ہے اور ان اعتراضات کے کھوکھلے پن کو واضح کیا ہے۔
دوسرے باب میں مسلمان بحیثیت مذہبی اقلیت اور مسلم سماج میں مذہب کس پوزیشن میں ہیں۔ اسی طرح میڈیا میں زیر بحث ’’پکا مسلم‘‘ بیانیے پر گفتگو کی ہے۔ ’’پکا مسلم‘‘ جس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ لازماً ملک مخالف ہوگا۔ اس بیانیے کے رد میں مصنف نے اسلام کے بنیادی اصولوں کو بنیاد بنا کر بہترین گفتگو ہے اور اسلام میں پکا مسلم کے تصور کو واضح کیا ہے۔
تیسرے باب میں مصنف نے اسلامی دعوت اور تبدیلی مذہب پر اٹھنے والے سوالات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ جس میں شخصیات میں علی میاں ندوی، وحید الدین خان اور ڈاکٹر ذاکر نائک کے طریقہ دعوت پر گفتگو کی گئی ہے۔ وہیں مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی ہند اور تبلیغی جماعت کے طریقہ دعوت پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
آخری باب میں ہندوتوا مسلمانوں کو کس طرح استعمال کرتا ہے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ ہندوتوا کے الگ الگ ورژن پر بھی بحث کی گئی ہے۔ خاص طور سے ساورکر اور گولوالکر کے نظریاتی اختلاف پر گفتگو کی گئی ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ درج ذیل ابواب پر مشتمل ہے۔
5.Muslims as s minority
6.Muslims as Backward
7.The politics of triple talaq
8.The new Muslim Elite
پانچویں باب میں مصنف نے مسلم اقلیت کی سیاسی حیثیت پر گفتگو کی ہے۔ بعد کے تین ابواب مسلم سماج کی اندرونی ساخت سے متعلق ہیں۔چھٹے باب میں مسلم دلت کے مسئلے پر سیر حاصل گفگتو کی گئی ہے۔ ۲۰۰۶ میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد مسلم بیک ورڈ اور مسلم دلت کے ریزرویشن، اسلام میں کاسٹ سسٹم اور مسلم سماج میں ابھرتا کاسٹ سسٹم اور مسلم ریزرویشن پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ عمومی طور پر مذہبی حلقے مسلم کاسٹ سسٹم کے وجود کا انکار کرتے ہیں لیکن مصنف نے زمینی سطح پر اس کے موجود ہونے اور اس کی بنیاد پر ہونے والی سیاست پر گفتگو کی ہے۔ ساتویں باب میں تین طلاق اور اس سے جڑی سیاست پر گفتگو کی گئی ہے۔ جبکہ ایک اہم ترین باب مسلم سماج میں پیدا طبقاتی نظام سے ابھرنے والے نئے طبقہ اشرافیہ پر گفتگو کی گئی ہے۔
کتاب کے آخری حصہ میں دو باب ہیں۔
9. The Metaphors of Muslim Politics: Vote Bank, Good Muslims/Bad Muslims and Muslim Appeasement 10. Muslims and the Future of India’s Democracy
آخری دو ابواب میں مصنف نے مسلم ووٹ بینک کی سیاست اور جدید ہندوستانی جمہوریت میں مسلمان کیا کردار ادا کر سکتے ہیں اس پر گفتگو کی ہے۔
نویں باب میں اچھے اور برے مسلم، ووٹ بینک کی سیاست اور مسلمانوں کی منھ بھرائی جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی ۔
دسویں اور آخری باب میں ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوستان میں جمہوریت کے مستقبل پر بحث کی گئی ہے۔ اس سوال پر بھی گفتگو کی گئی کہ ہندوتوا کے جارحانہ رویہ کے باوجود مسلمان مکمل طور پر خاموش کیوں ہیں۔ اس پر اسرار خاموشی کی وجہ کیا ہے۔ ڈر، حکمت عملی یا مجبوری؟
عمومی طور پر ہندوستان میں مسلمانوں کی امیج تین بیانیوں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک انتہا پسند اور دہشت گرد کمیونٹی جو دوسری اقوام کے ساتھ امن اور بھائی چارے کے ساتھ نہیں رہ سکتی ہے۔ عمومی طور یہ بیانیہ ہندوتوا وادیوں کی طرف سے آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلمان ایک سیکولر، پر امن کمیونٹی ہے جس نے عالمی دہشت گردی اور جہاد کے نظریے کو رد کر دیا اور ہندوستان کو اپنا ملک سمجھ کر یہاں کے وفادار ہیں عمومی طور پر یہ بیانیہ سیکولر اور لبرل حلقوں کی طرف سے آتا ہے اور تیسری امیج ایک ایسی قوم کی ہے جو اصل دھارے سے دور اپنے ghetto (باڑے) میں بند ہے، بیک ورڈ ہے اور اپنے مذہب اور کلچر سے چمٹی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں عمومی طور پر انہی تین بیانیوں پر گفتگو ہوتی رہتی ہے لیکن ان پر کلام کرنے والے کبھی یہ جاننا نہیں چاہتے کہ ہندوستان کی اتنی بڑی اقلیت جو پورے ملک میں بکھری ہوئی ہے جس کے اندر بہت زیادہ کثرت اور تنوع پایا جاتا ہے وہ خود کیا سوچتی ہے۔ کیا وہ خود کو ان میں سے کسی بھی بیانیے میں دیکھتی ہے یا ان سب سے الگ خود کو کسی اور شناخت میں دیکھنا چاہتی ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب مسلم سماج اور مسلم سیاست کو ان تمام بیانیوں سے الگ رکھ کر دیکھتی ہے۔ کتاب نہ ہی کسی نئے بیانے کو پیش کرتی ہے اور نہ کسی پرانے بیانیے کی تائید کرتی ہے بلکہ مسلم سماج کی ایک معروضی صورتحال پیش کرتی ہے جس سے مسلم سماج کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
***

’’ کتاب ہندوستانی مسلمانوں کو جاننے کا ایک نیا زاویہ دیتی ہے جن کے سیاسی افق کو برقعہ، طلاق اور نماز تک محدود کر دیا گیا ہے‘‘
(رویش کمار)۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021