سفر نامہ حج

1968ء میں مولانا عامر عثمانیؒ مدیرتجلی کے سفر کی ایک دلچسپ روداد

 

(گزشتہ سے پیوستہ)
یہ مت سمجھیے کہ بیت اللہ اور مسجد نبوی کو ہم پہلے کبھی دیکھ آئے ہیں، نہیں یہ سفر ہمارا پہلا ہی سفر تھا۔ تخیل کے اسکرین پر جو کچھ آیا وہ یا تو ان تصویروں کا عکس تھا جو ہم نے بچپن ہی سے اپنے گھروں اور بازاروں میں دیکھتے آئے ہیں یا پھر یہ ان کتابی معلومات کے ٹیلی ویژنی سائے تھے جنہیں ہم نے اور آپ نے زندگی میں نہ جانے کتنی بار پڑھا ہے، اسی لیے ان میں واقعیت کے ساتھ ساتھ افسانویت بھی موجود تھی، افسانویت کا ادراک ہمیں اس وقت ہوا جب جدے، مکے اور مدینے کی پختہ اور نفیس سڑکوں پر اونٹوں اور بکریوں کے عوض ہمیں جدید ماڈلوں کی چمچماتی ہوئی کاریں اور بسیں نظر آئیں، ان میں شیورلیٹ کی وہ امپالا بھی تھی جو اپنی قیمت کے لحاظ سے کم و بیش دس اونٹوں اور کئی سو بکریوں کا بدل ہوسکتی تھی، ان میں وہ کیڈیلاک بھی تھی جو تاریخ کے قافلے کو اونٹوں کی رفتار سے بیس پچیس گنا زیادہ رفتار کے ساتھ ان تیل کے چشموں کی طرف لے جاسکتی تھی جن کے طلسماتی بہاؤ نے اونٹوں اور بکریوں کی کوکھ سے موٹریں اور ہوائی جہاز پیدا کیے ہیں۔ ان میں وہ پلے ماؤتھ بھی تھی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا بیس سال کا سیاہ فارم لڑکا بڑے وثوق سے کہہ سکتا تھا کہ صرف پانچ گھنٹے میں وہ آپ کو مکے سے مدینے پہنچا دے گا۔ پاسپورٹ ملتے ہی جس دنیا میں پہنچنے کا تصور ہمارے خیالوں کی بستی میں اپنا ریشمی دامن پھیلا رہا تھا اس میں بازاروں کے نقشے، مکانوں کے خاکے اور معاشرے کا رنگ وروپ سراسر افسانوی ہی تھا، اس کا ادراک بھی اس وقت ہوا جب ہم نے جدے، مکے اور مدینے کی شاہراہوں پر آسمان سے باتیں کرتی ہوئی ان نو تعمیر بلڈنگوں کو دیکھا جو مشرقی مزاج ومذاق پر مغربی تہذیب وتمدن کی ہمہ گیر فتح کا اعلان بالجہر ہیں، جن میں شکوہ ہم جیسے نئے اور ضعیف الاعصاب حاجیوں کے خیالی شیش محلوں پر پہاڑ بن کر ٹوٹتا ہے۔
دفعتاً ایک زہرہ گداز اطلاع نے ہمارے خیالات کی حسین دنیا پر بجلی گرائی، کوئی کہہ رہا تھا:
’’پاسپورٹ تو نہیں ملا ۔۔۔۔خدا جانے کہاں گیا‘‘
ہم چونکے، چونکے نہیں یوں کہیے تڑپے، تڑپنے کا لفظ بھی اس لرزہ خیز کیفیت کی ترجمانی کا حق ادا نہیں کرسکتا جس کا ہزاروں من وزن اس وقت ہماری سماعت نے اور سماعت کے واسطے سے دل ودماغ نے محسوس کیا تھی، ایک نیم کش تیر تھا جو دل وجگر سے گزرتا ہوا روح میں ترازو ہو گیا۔
’’کیا کہا ۔۔۔ پاسپورٹ نہیں ملا ۔۔۔!‘‘ہماری آواز شاید کانپ رہی تھی، کانپ نہ رہی ہوگی تو وہ ایسی ضرور ہوگی جسے کسی نزع گرفتہ کی دردناک ہچکی کہا جاسکے۔
’’ذرا اچھی طرح دیکھو‘‘۔۔۔۔ یہ مولانا منیری کی آواز تھی، پھر ہم نے دیکھا کہ مولانا خود بھی پاسپورٹ کی تلاش میں شامل ہوگئے ہیں، بہتیرے حاجی اپنے اپنے پاسپورٹوں کے سلسلے میں یہاں ہجوم کئے ہوئے تھے، ملی جلی آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا، وہ سب غالباً اس پر احتجاج کر رہے ہوں گے کہ ان پر توجہ دینے کے عوض سب نے کسی ایک ہی شخص کے معاملے پر توجہ کیوں منعطف کر دی ہے، غالباً ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت ہمارا دماغ کسی بھی آواز اور فقرے کا مفہوم اخذ کرنے اور پھر اسے یاد داشت کے خانے میں پہنچانے کے قابل نہیں رہا تھا، وہاں تو بس ایک ہی صدا گونج رہی تھی۔
’’پاسپورٹ نہیں ملا ۔۔۔۔ پاسپورٹ نہیں ملا ۔۔۔۔۔‘‘
خالی خالی آنکھوں سے ہم مولانا منیری کی طرف دیکھا، پھر ان کارکنوں پر نگاہ ڈالی جو ہمارے پاسپورٹ کا سراغ نہ پانے پر حیرت اور بے چارگی کی تصویر بنے ہوئے تھے، وہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ پاسپورٹ کہاں گیا، کیوں گیا، اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ مولانا منیری ہمیں ساتھ لیے نیچے اترے اور خدام النبی کے دفتر میں بٹھا کر پیہم تسلیاں دیتے رہے کہ گھبرائیے مت، میں پھر تلاش کراؤں گا، پاسپورٹ کہیں ادھر ادھر ہوگیا ہے، مل جائے گا، جائے گا کہاں۔ کوئی فکر کی بات نہیں وغیرہ۔لیکن ایسی تسلیاں طبیعت کے اس اندرونی ردِ عمل کو تو نہیں روک سکتی تھیں، جس کی آنچ میں شریانوں میں دوڑنے والا خون بوند بوند کر کے جلنا شروع ہو گیا تھا، کس کا قلم ہے جو اس وقت کی کیفیات کا ٹھیک ٹھیک نقشہ کھینچ سکے، زندگی میں بارہا آزمائشوں، صدموں اور دشواریوں سے واسطہ پڑا ہے، مگر یاد نہیں پڑتا کہ اندوہ اور مایوسی کی ایسی غیر معمولی کیفیت بھی کبھی دل ودماغ پر طاری ہوئی ہو، اخلاقاً مولانا سے عرض بہرحال یہی کرنا تھا کہ جی ہاں، انشاء اللہ مل ہی جائے گا، اللہ مالک ہے، اسی کی مشیت پر بندے کو راضی رہنا چاہیے وغیر ذلک، مگر اندر ہی اندر نیچے سے اوپر تک ایک آندھی سی چل رہی تھی، ایک بھونچال سا برپا تھا، چائے نوش کی تو ایسا لگا جیسے خونِ جگر پی رہے ہوں، کوکاکولا منھ کو لگایا تو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ سینے میں بھڑکتی ہوئی آگ پر تیل بن کر گرا ہو، ہم تھے یا ہماری جگہ ایک بے صبرا بچہ جو کسی خوش رنگ کھلونے کی دھن میں دنیا وما فیہا سے بے خبر ہوگیا ہو، فرق تھا تو بس اتنا کہ بچہ تو روتا ہے، چیختا ہے، ہاتھ پیر پٹختا ہے مگر ہم بظاہر ساکت وصامت تھے، مبہوت اور مہر بلب تھے، لیکن رونے، چیخنے اور ہاتھ پیر پٹخنے کا عمل حقیقۃً ہمارے قلب وذہن کے نہاں خانوں میں مسلسل جاری تھا، بڑی ندامت ہوئی یہ سوچ کر کہ بایں ریش وبروت ہم آج بھی بچے ہی ہیں، ایسے بچے جس کے اعصاب کچے دھاگے سے زیادہ کوئی شکیبائی نہ رکھتے ہوں!
مولانا نے دلاسا دیا ۔۔۔۔ اور اس وقت دلاسا دینے والوں میں انجمن خدام النبی کے دوسرے جوائنٹ سکریٹری جناب اسمٰعیل ہاشم صاحب اور صدرِ انجمن جناب محمد حسین توفیق بھی شامل تھے۔۔۔۔۔ کہ آپ ہراساں نہ ہوں، اطمینان سے قیام گاہ پر تشریف لے جائیں، شام کو پاسپورٹ پھر تلاش کیا جائے گا اور نہ ملا تو دوسرا بنوایا جائے گا۔
عقل اگر ٹھکانے ہوتی تو ان تینوں حضرات کی اخلاص بھری تسلیاں اتنی مؤثر تو بہرحال ثابت ہونی چاہئیں تھیں کہ اگلی صبح تک ہم اندیشوں کی پیہم جراحت کاریوں سے مامون رہتے مگر عقل جب جذبہ شوق کی گرفت میں آ جاتی ہے تو وہ ایک عضوِ معطل سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتی، شاید اسی حالت کا نام شاعروں نے جنوں اور ڈاکٹروں نے مالیخولیا رکھا ہے، شوقِ فراواں کی مثال بہتے ہوئے دریا کی سی ہوتی ہے، اس کے آگے دفعتاً دیوار اٹھا دیجیے تو موجوں کا سکون خروش میں تبدیل ہوجائے گا اور یہ پر جوش موجیں کسی زخمی درندے کی طرح دیوار سے سر ٹکرائیں گی، اسی طرح کی کیفیت اگر کسی جیتے جاگتے انسان کے اندروں میں برپا ہوجائے تو خود سوچ لیجیے کہ اس سے شکیب وتحمل اور فراست ودانش مندی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
وہاں سے اٹھ کر ہم قیام گاہ تک پہنچ تو گئے اور پہنچنے کے بعد رات کے بارہ بجے تک مہمان نوازیوں کے گوناگوں مراحل سے بھی گزرتے رہے، لیکن حالت بس ایسی ہی تھی جیسے سوتے میں چل پھر رہے ہوں، جگ مگ کرتی ہوئی بمبئی سوگوار نظر آ رہی تھی، ٹریفک کے غیر منقطع شور کا زیر و بم کسی غم انگیز نغمے کی دھن بن کر سماعت پر سوز وگداز کی بارش کر رہا تھا۔
شام کو مولانا منیری سے پھر ملاقات ہوئی، ہوئی کیا یوں کہیے ہم خود دوڑے گئے، انہوں نے پورے وثوق سے بتایا کہ پاسپورٹ کے متعلق جہاں تک تمھارے اندیشوں کا تعلق ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے، میں تفتیش کر چکا ہوں، پاسپورٹ اگرچہ بعد کی تلاش میں بھی نہیں مل سکا ہے اور یہ بھی پتا نہیں لگا کہ وہ ناپید کہاں ہوگیا، مگر پریشانی کی ضرورت نہیں، صبح بھی اگر نہ مل سکا تو نیا بنوا دیا جائے گا۔
’’جزاک اللہ‘‘۔۔۔۔ جواب میں ایسا ہی کوئی فقرہ ہماری زبان سے نکلا ہوگا، یقین سے اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ ان چند ایام کی یادیں یاد داشت کی لوح پر کچھ ایسی گڈ مڈ ہوگئی ہیں جیسے کسی بچے نے کرم کانٹے بنادیے ہوں! بھرا ہوا اگر کوئی نقش ہے تو بس یہ کہ پاسپورٹ کی طلسمی گم گشتگی نے ہمارا حال پتلا کر دیا تھا، ہم ایسے دل گرفتہ تھے جیسے ساری عمر کی کمائی کسی نے لوٹ لی ہو۔
رات ایسے عالم میں گزری کہ نہ بیداری نی خواب، عقل، جسے شوقِ فراواں نے بری طرح کچل کر رکھ دیا تھا۔۔۔ کسمسا کر کہہ رہی تھی کہ نادان، اگر پاسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے تمھارا سفر منسوخ ہی ہوگیا تو رنج وملال کی اس میں کیا بات ہے، یہ تو نفع کا سودا ہے، بہت سے پیسے بھی بچے اور حج نہ کرنے کی باز پرس کا خطرہ بھی نہ رہا، باز پرس تو استطاعت کی شرط سے ہے، استطاعت کہاں پائی گئی، جب سفر کا اجازت نامہ ہی اربابِ اختیار نے عطا نہیں فرمایا۔
مگر دلِ پر شوق کہہ رہا تھا کہ اے بد نصیب! تم سیاہ بخت ہو، راندہ درگاہ ہو، رو سکتے ہو تو اتنا رو کہ دل خون ہو کر آنکھوں سے بہہ جائے، بین کرو، سینہ پیٹو، حرمین کی بارگاہِ قدس میں تمھاری حاضری مالک الملک کو پسند نہیں۔
آدمی کتنا جلد باز ہے، کتنا بے صبرا اور ناشکرا۔
خیالات کی یہ کشمکش تمام ہی رات جاری رہی، اس میں شک نہیں کہ نیند کچھ نہ کچھ آ ہی گئی تھی لیکن نیند میں بھی یہ احساس کسی نہ کسی درجے میں موجود رہا کہ گرم بگولوں جیسی کوئی چیز قلب ودماغ کے نہاں خانوں میں پیہم گردش کر رہی ہے۔
صبح نماز تو جیسے تیسے پڑھ لی تھی اور ایک پیالی چائے بھی زہر مار کی تھی، مگر پھر وہی ہم تھے اور وہی مولانا منیری، صابو صدیق مسافر خانہ ہماری قیام گاہ سے دور نہیں تھا، پیدل چلیں تو مشکل سے پندرہ منٹ کا راستہ، پیدل چلنے کی ہمیں مشق بھی بہت ہے مگر عجلت کا بھوت تو سر پر سوار تھا، ٹیکسی پکڑی اور مسافرخانے جا پہنچے، حالانکہ بس فقط دس پیسے میں پہنچا دیتی اور بس میں بیٹھنا ہم جیسے چھوٹے آدمی کے لیے کوئی توہین کی بھی بات نہیں، مگر ایسے نکات اس وقت سوجھ ہی کسے رہے تھے، مولانا منیری کا حسنِ اخلاق کہیئے کہ اتنے سویرے پہنچے پر انہوں نے ماتھے پر بل نہیں ڈالے، ورنہ اتنے سویرے کسی کے دفتر کھلنے کا سوال کہاں پیدا ہوتا تھا۔
’’پاسپورٹ رات بھی ڈھونڈا مگر نہیں ملا‘‘ وہ گویا ہوئے، اب آفس کھل جائے تو پھر ڈھونڈتے ہیں ۔۔۔۔۔اور اگر اب بھی نہ ملا تو دوسرا بنوائیں گے‘‘۔
اب ہمیں تقریباً دو گھنٹے انتظار کرنا تھا، چائے بمبئی کے ہوٹلوں کی چائے ہمیں یوں بھی پسند نہیں، کریلا اور نیم چڑھا، ایک تو وہ جوشاندے کی طرح مسلسل اونٹتی رہتی ہے، دوسرے دودھ کی جگہ پاؤڈر، تلخابے کے علاوہ اسے کچھ کہنا مشکل ہی ہے، پھر لیجیے ہم چائے سامنے رکھ کر بیٹھ ہی گئے مگر کہاں تک، ایک پیالی سے سر ماریں گے، بسکٹ یا سلیس منھ میں رکھتے ہیں تو وہ حلق سے نیچے اترنے کا نام نہیں لیتے، معدہ غالباً گہری نیند سو رہا ہے، اشتہا کا دور دور پتہ نہیں، مولانا منیری دوسرے کاموں میں لگ گئے، وہ یہاں تنہا ہمارے لیے تو مقیم ہیں ہی نہیں، بیشمار دوسرے حجاج کی گوناگوں خدمات انہیں انجام دینی ہیں، ہم تقریباً نصف گھنٹہ چائے کی میز پر برباد کر کے مسافر خانے کی راہداریوں میں ٹہل رہے ہیں، ٹہل کیا رہے ہیں دھکے کھا رہے ہیں، بھیڑ بہت ہے، شور بہت ہے، کبھی ہم دفاتر کے بند دروازوں پر بے معنی سی نگاہیں ڈال کر چند ثانیے پیروں کی حرکت روک دیتے ہیں، کبھی زینوں پر چڑھتے اور اترتے ہیں، کبھی سیڑھیاں گنتے ہیں کہ شاید اس طرح دل پٹ جائے، کلائی کی گھڑی اور مسافر خانے کا کلاک۔۔۔۔۔دونوں چل تو رہے ہیں مگر نہ چلنے کے برابر، سوئیاں آگے کو کھسکتی ہی نظر نہیں آتیں، اکتا کر پھر قریب کے ہوٹل میں جا بیٹھتے ہیں، اب چائے کے تو تصور ہی سے طبیعت بیزار ہے، کوکاکولا پینے کے لیے پیاس چاہیے، پیاس کا برائے نام بھی احساس نہیں، حالانکہ ہونٹ خشک ہیں، سر جل رہا ہے، شاید بخار ہوگیا ہے، پورے جسم میں گرم گرم سی لہر اٹھ رہی ہیں مگر برف پینے کی طرف طبیعت مائل نہیں، پھر ہوٹل کی کرسی گھیرنے کا جواز کیا ہو، مجبوراً کوکاکولا ہی منگایا، پھر کمال بے دلی کے ساتھاس کی چسکیاں لینے لگے۔
لیجیے اسی وقت یہ بھی یاد آیا کہ آج تو فلاں صاحب کے یہاں چائے کی دعوت تھی، رات انہوں نے کہا تھا کہ علی الصباح وہ گاڑی لے کر آئیں گے، غالباً فورٹ کی طرف کہیں رہتے ہیں نام یاد نہیں، یاد کیسے رہتا، ملاقات کل پہلی ہی بار ہوئی تھی، اپنے بیان کے مطابق وہ تجلی کے بہت پرانے شیدائیوں میں سے ہیں، کل شام چائے کے ساتھ انھوں نے اتنا کھلا دیا تھا کہ رات کا کھانا بغیر بھوک ہی کے کھایا، کھانا اس لیے پڑا کی کھلانے والے صاحب نے بڑے شوق اور اہتمام سے وسیع وعریض دسترخوان بچھایا تھا۔
خدا خدا کر کے دفاتر کھلے، مولانا منیری نے فوراً ہی متعلقہ افراد سے ہمارے پاسپورٹ کے بارے میں استفسار کیا، جواب کل سے مختلف نہیں ملا ۔۔۔۔ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔۔۔’‘پاسپورٹ نہیں ملا۔۔۔۔۔۔‘‘
اب مولانا منیری نے ہم سے دریافت کیا کہ آیا آپ کے پاس اپنے کچھ فوٹو ہیں؟ ہم نے جواب دیا کہ فوٹو تو نہیں، البتہ وہ نگیٹیو موجود ہے جس کی چھاپی ہوئی کاپیاں درخواست کے ساتھ بھیجی گئی تھیں، وہ کہنے لگے کہ پھر آپ فوراً فلاں فوٹو گرافر کی دکان پر جائیے اور میر احوالہ دے کر کہیے کہ جلد سے جلد چار پانچ کاپیاں چھاپ دے، ہم نے کہا بہت بہتر، لیکن فوراً ہی مولانا نے فرمایا کہ ذرا ٹھیریے میں خود آپ کے ساتھ چلتا ہوں، پھر وہ ہمیں لے کر مسافر خانے سے باہر نکلے اور ٹیکسی پکڑی، کچھ دیر بعد ہم ایک فوٹو اسٹڈیو میں تھے، جہاں ہم نے اپنے نگیٹیو کے کئی پرنٹس پندرہ بیس ہی منٹ میں حاصل کر لیے۔یہاں یہ وضاحت نہ کرنا ناشکری کے مرادف ہوگا کہ مولانا منیری نے ہماری خاطر یہی نہیں کہ صرف اپنا قیمتی وقت ہی خرچ کیا بلکہ ٹیکسی کا کرایہ بھی ہمیں نہیں دینے دیا، یہ بظاہر ایک معمولی سی بات ہے لیکن اس سے مولانا کے ظرف عالی اور جذبہ خدمت کا اندازہ ہوتا ہے، تصویر کی کاپیوں کے انتظار میں پندرہ بیس منٹ کا جو عرصہ گزرا اس میں ہمارے ما بین ملکی وملی مسائل پر گفتگو ہوئی، یہ گفتگو اگرچہ مختصر تھی اور اپنی موجودہ ذہنی حالت میں ہم اس کے پوری طرح اہل بھی نہ تھے، لیکن بہرحال اس گفتگو سے معلوم ہوگیا کہ مولانا کا جذبہ خدمت صرف حجاج تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ پوری ملتِ مسلمہ کی خدمت کا بھی قوی جذبہ رکھتے ہیں، مسلمانوں کے رنجیدہ حالات پر انہیں بڑی تشویش تھی اور مسلمانوں کے قائدین وائمہ میں جو افتراق ونزاع ہے اس کے لیے وہ بے حد فکر مند تھے، انہوں نے ہمارے اس خیال پر صاد کیا کہ بنیادی چیز افراد ملت کا اتحاد واشتراک ہی ہے، اور یہ نعمت حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہمارے عمائدین ہی اتحاد واشتراک کی راہ نہ چلیں۔ فوٹو اسٹوڈیو سے باہر آ کر مولانا نے فرمایا کہ آپ بے فکری سے جہاں چاہے تشریف لے جائیں، ظہر کے وقت تک انشاء اللہ نیا پاسپورٹ تیار ہوجائے گا، پھر آپ چاہے مسافر خانے آ کر اسے وصول کرلیں یا مجھ پر چھوڑیں کہ میں شام تک آپ کو پہنچا دوں گا۔
ہم نے کہا آپ کی نوازشوں کا بہت بہت شکریہ، ہم خود ہی حاضر ہو کر پاسپورٹ لے لیں گے، آپ اسے بس تیار فوراً کرا دیں۔
اس وقت شاید دن کے دس بجے ہوں گے، ظہر کا وقت کچھ زیادہ دور نہیں تھا، بہت سے بہت پانچ چھ گھنٹے، جی چاہا کہ کسی دو منزلہ بس کی اوپر والی منزل میں بیٹھ جائیں اور کنڈکٹر سے کہیں کہ جہاں تک یہ جاتی ہو وہیں تک کا ٹکٹ دے دو، پھر جب وہ آخری اسٹیشن پر پہنچے تو دوسرے راؤنڈ کا ٹکٹ خرید لیں، اسی طرح یہ پہاڑ جیسے گھنٹے کٹ جائیں گے، دل اب مطمئن نہیں تھا کہ پاسپورٹ مل ہی جائے گا، وسوسے برابر کچو کے لگا رہے تھے، سر بوجھل تھا، آنکھیں جل رہی تھیں، خیال آتا ہے کہ شاید پندرہ منٹ سے بھی زیادہ ہم ایک فٹ پاتھ پر اس ادھیڑ بن میں کھڑے رہے کہ اب کدھر جائیں، کون سا مشغلہ ہو جس میں منہمک ہو کر غیر مختتم وسوس کی جراحت کاریوں سے نجات پاسکیں، بسیں برابر آ جا رہی تھیں، ٹیکسیاں بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد نظر آتیں، ہنگامے شباب پر تھے، عین اسی وقت ایک ٹیکسی برابر میں آ کر رکی، اس سے کچھ سواریاں اتریں اور پھر ڈرائیور نے سوالیہ نظروں سے ہماری طرف دیکھا، ہم تذبذب کے عالم میں تو تھے ہی، نیم شعوری کی سی کیفیت میں ٹیکسی کی طرف بڑھ گئے۔

بمبئی کے ہوٹلوں کی چائے ہمیں یوں بھی پسند نہیں، کریلا اور نیم چڑھا، ایک تو وہ جوشاندے کی طرح مسلسل اونٹتی رہتی ہے، دوسرے دودھ کی جگہ پاؤڈر، تلخابے کے علاوہ اسے کچھ کہنا مشکل ہی ہے، پھر لیجیے ہم چائے سامنے رکھ کر بیٹھ ہی گئے مگر کہاں تک، ایک پیالی سے سر ماریں گے، بسکٹ یا سلیس منھ میں رکھتے ہیں تو وہ حلق سے نیچے اترنے کا نام نہیں لیتے، معدہ غالباً گہری نیند سو رہا ہے، اشتہا کا دور دور پتہ نہیں، مولانا منیری دوسرے کاموں میں لگ گئے، وہ یہاں تنہا ہمارے لیے تو مقیم ہیں ہی نہیں، بیشمار دوسرے حجاج کی گوناگوں خدمات انہیں انجام دینی ہیں، ہم تقریباً نصف گھنٹہ چائے کی میز پر برباد کر کے مسافر خانے کی راہداریوں میں ٹہل رہے ہیں، ٹہل کیا رہے ہیں دھکے کھا رہے ہیں، بھیڑ بہت ہے، شور بہت ہے، کبھی ہم دفاتر کے بند دروازوں پر بے معنی سی نگاہیں ڈال کر چند ثانیے پیروں کی حرکت روک دیتے ہیں، کبھی زینوں پر چڑھتے اور اترتے ہیں، کبھی سیڑھیاں گنتے ہیں کہ شاید اس طرح دل پٹ جائے،

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021