سرسیداحمد خان : خون جگر سے ملّی شعور کی آبیاری کرنے والی شخصیت

وہ کیا چاہتے تھے، ہم کیا کررہے ہیں؟

اشہد رفیق ندوی،علی گڑھ

 

سر سید احمد خاں ایک عہد ساز شخصیت کا نام ہے۔ وہ ان عظیم ہستیوں میں تھے جنہوں نے ہماری تاریخ پر غیر فانی نقش چھوڑا ہے۔ وہ مر جانے کے باوجود ہزاروں، لاکھوں دلوں میں زندہ ہیں۔ انہوں نے تعلیم و تہذیب، ادب و صحافت، مذہب و سیاست ہر میدان میں بڑے انقلابی کارنامے انجام دیے اور اپنی فکری و عملی قیادت سے قوم کا رُخ مایوسی سے امید کی طرف اور بے عملی سے محنت و جستجو کی طرف موڑ دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس عظیم محسن کی ساری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ اپنی چھوٹی سے حیات مستعار میں اتنے کارہائے نمایاں انجام دیے جو فرد واحد کیا اکیڈمیوں اور انجمنوں کے لیے بھی ممکن نہیں۔ سرکاری ملازمت اختیار کی اور اس کا حق پورا پورا ادا کیا۔ اس کے ساتھ کم از کم 15 انجمنیں بنائیں، ادارے قائم کیے اور تحریکیں برپا کیں۔ انسٹیٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کے ذریعہ قوم کی ذہنی آبیاری، فکری پختگی اور تہذیبی ارتقا کے لیے بے شمار مضامین لکھے۔ اس پر مستزاد 31؍ طبع زاد کتابیں،4 کتابوں کے ترجمے اور 4 کتابوں کی تحقیق و تدوین ان کے نامہ اعمال میں ہیں۔ ہر لفظ میں حیات تازہ کا پیغام اور ہر اقدام میں جدت و ابتکار۔ ایسی ہی شخصیات کے لیے اقبال نے کہا ہے ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس ذات گرامی قدر کا حق ہے کہ اس کے احسانات کو یاد کیا جائے۔ اس کی جلائی ہوئی شمع کو فروزاں کیا جائے۔ اس کے افکار کو توانائی بخشی جائے اور اس کے قائم کیے ہوئے ادارو ں کو اسی روح اور اقدار کے ساتھ مستحکم کرنے کی سعی کی جائے جیسا کہ وہ چاہتے تھے۔ خود انہوں نے ایک بار فرمایا تھا ’’کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ بے عزتی نہیں کہ وہ اپنی قومی تاریخ کو بھول جائے اور اپنے بزرگوں کی کمائی کو کھودے۔‘‘۱؎ (سرسید کے لیکچروں کا مجموعہ ص ۱۲۴)
شاید انہی احسانات اور تاکیدات کی وجہ سے قوم اپنے محسن سر سید کو یاد رکھنے اور خراج عقیدت پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ سرسید کے نام پر جتنے سیمینار اور کانفرنس، جلسے اور مشاعرے منعقد ہوتے ہیں، جتنی کتابیں اور مضامین ان کے بارے میں لکھے گئے ہیں، شاید ہی اتنی بڑی مقدار کسی کے حصہ میں آئی ہو۔ یوم پیدائش کے موقع پر خرچیلی تقریبات اس پر مستزاد ہیں، جو دنیا بھر میں نہایت جوش و خروش کے ساتھ منائی جاتی ہیں۔دو برس قبل ان کے ورود مسعود کی دوسویں برسی تزک و احتشام سے منائی گئی، اس سال ان کے خوابوں کی تعبیر مسلم یونیورسٹی کی عمر سنچری پوری ہونے پر دنیا بھر میں جشن کا ماحول ہے۔
یہ مواقع پر جوش خراج عقیدت کے ساتھ احتساب کے بھی ہوتے ہیں۔ احتساب اس بات کا کہ جس شخصیت کی عظمتوں کو سلام پیش کیا جا رہا ہے، اس کے کردار اور کارناموں کو یاد کیا جا رہا ہے، آیا اس کے افکار، اصول اور ترجیحات بھی زیر بحث آرہے ہیں یا نہیں۔ ماضی میں کئی بڑی شخصیات کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے کہ شخصیت کے عظمت و احترام کا خوب چرچا ہوا لیکن اس کے افکار و تعلیمات قصہ پارینہ ہوگئے۔ خراج عقیدت کے اس موسم بہار میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس عظیم محسن کے کمالات اور کارناموں کے تذکرہ کے ساتھ اس کی باقیات کے تحفظ، اس کے اصول و اقدار کے فروغ اور اس کے قائم کردہ اداروں اور تنظیموں کے احیاء کے لیے قوم کتنی فکر مند ہے؟ اپنا خون پسینہ جلا کر، اپنی ہڈیاں گھلا کر اس عظیم محسن نے جو ورثہ چھوڑا ہے، اس کے ساتھ قوم کا کیسا رویہ ہے۔ وہ کیا تھے اور کیا چاہتے تھے۔ ہم کیا ہیں اور کیا کرہے ہیں؟
سید والا گہر کے تمام احسانات اور باقیات کا جائزہ ممکن نہیں۔ نمونہ کے طور پر محض چند باقیات کے حوالہ سے شیدائیان سرسید کے رویہ کا سرسری جائزہ اس مضمون میں پیش نظر ہے۔
محمڈن اینگلو اورینٹل کالج
ایم اے او کالج سرسید کا سب سے بڑا زندہ جاوید کارنامہ ہے، جو ترقی کے مختلف مراحل طے کرتا ہوا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے الحمد ﷲ پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہے۔اس چشمۂ صافی سے ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ فیضیاب ہوکر دنیا کو فیض پہنچا رہے ہیں۔ اس کی تعلیم، اس کی تہذیب اور اس کا معیار دنیا بھر کے لیے نمونہ ہے۔ مگر سرسید کا قائم کیا ہوا یہ ادارہ اپنے معیار پر برقرار ہے اور اسی مقصد کو پورا کر رہا ہے جس کے لیے انہو ں نے قربانیاں دیں۔
سرسید نے ادارہ کے قیام کے وقت دو باتوں پر خاص طور سے توجہ دی تھی۔ اول منفرد نصاب تعلیم، دوم مخصوص نظامِ تربیت سرسید کی نگاہ میں معیار آکسفورڈ اور کیمبرج کا تھا۔ اس کے پرنسپل اور زیادہ تر اساتذہ انگریز تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے انگریزی نظام تعلیم کو آنکھ بند کر کے قبول نہیں کیا بلکہ اپنی مرضی کے مطابق ایسا جدید نصاب تعلیم ترتیب دیا جو ملک کے ماحول و ضروریات اور ملت کے مزاج اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ اس نصاب کا امتیاز یہ تھاکہ یہ بیک وقت ادب، فلسفہ، سائنس اور قرآن کا حسین امتزاج تھا۔ اس کے عناصر ترکیبی میں جدید معاصر علوم کے ساتھ معتد بہ حصہ عقیدہ و اخلاق کی درستگی کے لیے قرآن و سنت سے ماخوذ تھا، تاکہ یہاں سے فارغ ہونے والے طالب علم کے ایک ہاتھ میں سائنس، دوسرے میں قرآن اور سر پر لاالٰہ الا اللہ کا تاج چمکتا ہوا دکھائی دے۔ اس کی شہادت لیفٹیننٹ گورنر آلینڈ کالون نے ان الفاظ میں دی کہ ’’میرا بار بار کا تجربہ ہے کہ علی گڑھ کا طالب علم ہونا انگریزوں اور ہندوستانیوں دونوں کے لیے عزت و اعتماد کا پروانہ راہ داری ہے۔ اس پر وہاں کی تربیت کی مہر لگی ہوتی ہے اور جس شخص کی نگرانی میں اس کی تربیت ہوئی ہے، اس پر اس کا ٹھپہ ہے۔
(حیات جاوید)
1920ء میں کالج یونیورسٹی میں تبدیل ہوگیا۔ رفتہ رفتہ سرکاری نظام و نصاب پر انحصار بڑھنے لگا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ نظام و نصاب کے سلسلے میں مکمل انحصار مروج نصاب پر ہے۔ یہاں تک کہ جن شعبہ جات میں سرسیدی افکار کے انضمام کی کھلی گنجائش ہے، وہاں بھی شعوری طور پر اعراض سے کام لیا جارہا ہے۔ سرسید نے خاص طور سے معاصر علوم اور بنیادی علوم میں توازن کے لیے باقاعدہ ایک دینیات فیکلٹی قائم کی، جو یونیورسٹی کے بالکل قلب میں واقع ہے اور اس کے لیے استاد انگلینڈ سے نہیں دیوبند سے منگایا، وہ بھی بانی دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے داماد حضرت عبداللہ انصاری کو۔ جائے وقوع قلب میں ہونے کے ساتھ سرسید کے زمانہ میں اس کا کردار بھی قلب ہی کا تھا کہ سارے جسم میں خون یہاں سے فلٹر ہو کر پہنچے۔ ہر طالب علم کے ایمان و اخلاق کی حفاظت اس کے ذمہ تھی۔ ہر طالب علم کو اس فلٹر سے گزرنا ہی تھا۔ اب اس میں ڈاکٹریٹ تک کی تعلیم ہوتی ہے مگر اس کا مرکزی کردار ماند پڑ گیا ہے۔15؍ فیکلٹی کے 300 سے زائد کورسز میں چند ہی کورسز تک اس کی رسائی ہے۔ وہ بھی محض تحلۃ للقسم ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ تضیع اوقات کے سوا کچھ نہیں ہے۔
تعلیم کے ساتھ تربیت اس کا جزو لاینفک ہے۔ تعلیم بلا تربیت مست زنگی کے ہاتھ میں تلوار اور چور کے ہاتھ میں ٹارچ کے مانند ہے۔ اسی وجہ سے سرسید نے جتنی محنت کالج کھڑا کرنے میں کی، اس سے زیادہ محنت اس کے اقامتی کردار کو بنانے اور سنوارنے میں صرف کی۔اس کے لیے لندن کا سفر کیا۔ کیمبرج کے طلبہ کے رہنے کا حال دیکھا اور طے کیا کہ جب تک اپنے ملک کے بچوں کے لیے ایسی جگہ نہ بناویں تو تعلیم و تربیت نہ ممکن ہے۔ اس مشاہدہ کے بعد اپنے ادارہ کے لیے جو مقاصد مقرر کیے انہی کے الفاظ میں اس طرح ہیں ’’تربیت سے میری مراد وہ تربیت ہے جس سے سچائی، ایمانداری، سچے اخلاق، سچی محبت، سچی ہمدردی، سلف رسپکٹ، قومی محبت، قوم کی ترقی کا خیال، اپنے کاموں میں دیانت داری، ایمانداری، فرائض منصبی کا ایمانداری سے ادا کرنے کی خصلت پیدا ہوتی ہے‘‘۔
سر سید کے زمانے میں دارالاقامہ چھوٹا اور طلبہ کی تعداد محدود تھی۔ اب 19 ہالوں میں دس ہزار سے زیادہ طلبہ رہائش پذیر ہیں۔ سہولیات اور اہتمامات تو ماضی جیسے ہی ہیں لیکن ماحول اور معیار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حال کا ماضی سے موازنہ بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ موجودہ حالات کا سرسید کے عہد زریں سے موازنہ کیا جائے تو دل سی پارہ ہوتا ہے۔ ایک ایک روایت دم توڑ رہی ہے۔ اس کی جگہ وہی برائیاں واپس آرہی ہیں جن کے قلع قمع کے لیے سید والا گہر نے نیا اقامتی نظام برپا کیا تھا۔ ارباب انتظام فکر مند تو ہیں مگر عہد رفتہ کی عظمتیں کسی راستے بھی واپس آتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ اس کے لیے اسی آہنی عزم، محنت، جانفشانی اور اخلاص کی ضرورت ہے جو سید اعظم اور ان کے رفقا کے پاس تھا۔ جو آج کے زمانے میں عنقا ہے:
مہ و انجم کے خالق پھر نئے تارے فروزاں کر
کہ پھر آفاق میں بے رونقی معلوم ہوتی ہے
سر سید علیہ الرحمہ کے ہاتھوں لگایا ہوا اور خون جگر سے سینچا ہوا یہ پودا بحمد اللہ اب خوب تناور اور سایہ دار درخت بن گیا ہے۔ خوب برگ و بار لا رہا ہے۔ مگر اس کے پھل سید اعظم کے ذوق و ذائقہ کے مطابق نہیں آرہے ہیں۔ مارکیٹ کے ہائی بریڈ (Hybrid) پھل اور سبزیوں کی طرح اس کا رنگ و ذائقہ بھی مارکیٹ کیجنگ ہوگیا ہے۔ ایمان، اخلاق اور اخلاص سب عنقا ہیں ؎ نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
ماضی میں اس پر ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ خدا بیزاری یہاں فیشن بن گئی تھی، زیادہ قابل علیگیرین زیادہ خدا بیزار ہوتا تھا۔ بھلا ہو دینی و دعوتی تحریکوں اور تنظیموں کا کہ ان کی آمد سے فضا بدلی ہے، ماحول بدلا ہے اور جو کام نظام و نصاب سے نہیں ہو رہا تھا، یہ تنظیمیں کسی حد تک اس کی تلافی کررہی ہیں۔
دوسرے ادارے
سرسید نے ایم اے او کالج کے قیام سے پہلے اور بعد میں بھی کئی ادارے قائم کیے اور تحرکیں برپا کیں، ان میں سائنٹفک سوسائٹی اور آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانگریس بہت اہم ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی بیداری و ترقی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام میں ان اداروں کا بہت اہم کردار ہے، جن ضروریات کی تکمیل کے لیے یہ ادارے قائم کیے تھے، وہ ضروریات آج بھی منہ کھولے کھڑی ہیں، مگر شیدائیان سرسید نے ان کے خاتمہ بالخیر پراچھی طرح تسلی اور صبر کر لیا ہے، ایسا صبر کہ احساس زیاں بھی باقی نہ رہا
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
سرسید علیہ الرحمہ کی جانفشانیوں کے ثمرات کے ضمن میں ان اداروں کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔
سائنٹفک سوسائٹی
1857ء میں انگریز حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد مسلمانوں کے حالات بہت ہی دگرگوں ہوگئے تھے۔ عوام گھٹا ٹوپ تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے۔ کوئی جادہ، کوئی منزل دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ کچھ پڑھے لکھے ہوشیار لوگ نوکری کی خواہش میں افسران کے خوشامد میں لگ گئے تھے۔ زمیندار، ساہوکار اپنی جائیدادیں بچانے کے لیے انگریزوں کے قدم میں جا گرے تھے۔ علماء و صلحاء کو دین و ایمان خطرے میں لگا، وہ اس کے تحفظ کے لیے مسجدوں، مدرسوں، خانقاہوں میں ذکر و اذکار کے شغل کو بڑھانے میں لگ گئے۔ ان حالات سے سرسید بھی بے حد کبیدہ خاطر ہوئے۔ وہ بھی مکہ مدینہ میں گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہتے تھے مگر جلد ہی ان پر اپنے ارادے کی کمزوری عیاں ہوگئی اور انہوں نے اسے ملک میں درپیش سنگین حالات ومصائب سے فرار کے مترادف ٹھہراتے ہوئے ملک میں رہ کر تمام مصائب کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ نہایت ذہین اور حساس آدمی تھے، ان کا تجربہ بہت وسیع اور مشاہدہ عمیق تھا۔ انہوں نے حالات سے نبرد آزمائی کے لیے نئی راہ نکالی، وہ یہ کہ انگریزوں سے ٹکر لینے یا ان کے سامنے پسپائی اختیار کرنے سے بہتر ہے کہ اسی علم و ہنر کو سیکھ کر اپنی بقا کا سامان کیا جائے جس کی وجہ سے وہ غالب ہوئے۔ چنانچہ 1864 میں اس مقصد کے لیے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے سوسائٹی بنائی۔ ایک بڑے اجلاس میں اس کا باقاعدہ اعلان ہوا، ذمہ داران بنائے گئے، اصول و ضوابط مقرر ہوئے۔ وسائل جمع کرنے کے لیے سربرآوردہ افراد کو اعزازی ممبرشپ دی گئی۔ پھر نہایت اہتمام سے کام کا آغاز ہوا۔ ابھی کام کا آغاز ہی ہوا تھا کہ بانی سوسائٹی کا علی گڑھ تبادلہ ہوگیا۔ یہاں پہنچ کر اور قوت کے ساتھ منصوبہ بندی کی۔ اس کے لیے عالی شان عمارت تعمیر کرائی، زراعتی تجربات کے لیے بہت بڑی اراضی حاصل کی، کتابوں کی اشاعت کے لیے پریس لگایا۔ ریسرچ و تحقیق، ترجمہ و تدوین اور مخصوص موضوعات پر لیکچر کے لیے ماہرین کی ایک کہکشاں تیار کی۔ الغرض یہ سوسائٹی پروفیسر اصغر عباس کے الفاظ میں ’’ہندوستان کی فلاح و بہبود، معاشی خوش حالی، عام روشن ضمیری پھیلانے، سائنسی اپروچ اور سائنسی تجسس کی ایک لہر پیدا کرنے کے لیے افراد کی ایک تنظیم اور مسلسل باہمی تعاون پر مشتمل ایک تنظیم تھی۔‘‘
(سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی)
اس سوسائٹی نے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ اس کی وجہ سے نئے لٹریچر کی آشنائی ہوئی۔ ترجمہ و تحقیق کا ذوق پیدا ہوا۔ خواص میں سائنسی ذہن اور اپروچ کا رجحان بڑھا۔ اس سوسائٹی کی ایک بہت بڑی یافت علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کا اجرا جس سے سرسید کے ذوق کے مطابق ذہنی انقلاب کی راہ ہموار ہوئی، اس کا سب سے بڑا کارنامہ مدرسۃ العلوم پھر محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام کے لیے ماحول سازگار کرنا ہے۔
سید والا گہر کے کارنامے بے شمار ہیں۔ ان میں محض تین یادگاروں کا تذکرہ اوپر ہوا۔ ان میں اول ایم اے او کالج ہے جو ترقی کے مختلف مراحل کو طے کرتا ہوا اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے اپنا تابناک وجود رکھتا ہے۔ الحمد ﷲ روزا فزوں ترقی پر ہے۔ ملکی سطح کی یونیورسٹیوں میں اول مقام پر ہے اور عالمی سطح پر اونچی رینک حاصل کرنے کی دوڑ میں ہے۔ انفرادی طور پر کئی شعبے اور کالجز اپنے معیار اور خدمات کی وجہ سے منفرد شناخت رکھتے ہیں لیکن اگر آج کی یونیورسٹی کے تعلیمی و تربیتی نظام کا بانی محترم کی خواہشات اور امنگوں سے موازنہ کیا جائے تو کئی مواقع پر شرمساری ہوتی ہے۔ خاص طور تربیتی نظام کی ابتری ہر شیدائی سرسید کو آنسو رُلاتی ہے۔ سرسید علیگیرین کی جو تصویر اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے اس کے طالب علم کے ایک ہاتھ میں سائنس، دوسرے میں قرآن اور سر پر لا الٰہ اللہ کا تاج جگمگا رہا ہوگا۔ یہ تصویر عنقا ہے۔ روح سرسید کی تسکین کے لیے کوئی شعوری کوشش بھی نہیں ہو رہی ہے۔
رہیں سرسید کی باقی دو تحریکیں، ان میں اولین سائنٹفک سوسائٹی میں اضمحلال کا آغاز سرسید کی آنکھوں کے سامنے ہوگیا تھا۔ کالج کے قیام کے بعد زیادہ توجہ اس کی جانب ہوجانا ایک فطری بات ہے۔ شاید حاشیہ خیال میں یہ بات بھی رہی ہو کہ کالج یونیورسٹی بن کر اس خلا کو خود بخود پر کردے گا۔ بالآخر یونیورسٹی ہی اس کی وارث ہوئی۔ اس کی عمارت، اس کے پریس اور اثاثہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ مگر اس کے کردار کو زندہ کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔یونیورسٹی کو یہ کردار ادا کرنے کے لیے پارلیمنٹ سے خصوصی اختیار ملا۔ اس کے باوجود کوئی کام نہ ہوسکا۔ قابل اطمینان بات یہ ہے کہ قوم کے دوسرے قابل ذکر ادارے مثلاً دارالمصنّفین اعظم گڑھ، دائرۃ المعارف حیدرآباد، دارالحکمت کراچی نے اس کے مماثل کردار ادا کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے مگر اتفاق یہ کہ ان میں کوئی دانش گاہِ سرسید کا سپوت نہیں۔ سوسائٹی کے مقاصد اور منصوبوں پر غور کیا جائے تو فی زمانہ اس کی معنویت ویسی ہی برقرار ہے ، بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی۔
سرسید ملک میں مروج نئے تعلیمی نظام سے قریب کرنے کے لیے تازہ لٹریچر سے واقفیت بہم پہنچانا چاہتے تھے۔ وہ اس سوسائٹی کے ذریعہ کالجز اور مدرسوں کے لیے نئی نصابی کتابیں بھی تیار کرانا چاہتے تھے۔ دیسی زبان میں تازہ لٹریچر اور مدارس کے لیے جدید طرز پر نصابی کتابوں کی سخت ضرورت ہے۔ مدارس پر دباؤ بہت ہے کہ معاصر علوم نصاب میں داخل کیے جائیں مگر مدارس کی اس پکا ر پر لبیک کہنے والا کوئی نہیں۔ کاش سائنٹفک سوسائٹی زندہ ہوتی تو مدارس کی یہ پکار صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوتی۔
اب رہی آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانگریس اس کا نام باقی ہے، رجسٹریشن باقی ہے، تسلسل کے ساتھ اس کو وارث بھی ملتے رہے ہیں، مگر اب اس کے چراغ میں تیل باقی نہیں رہا۔ البتہ اس سے ملتے جلتے نام اورمقاصد کے ساتھ کئی تحریکیں اور تنظیمیں سرگرم عمل ہیں اور قابل قدر کام انجام دے رہی ہیں۔ اگر یہ کام فرزندانِ سرسید کے ہاتھ ہوتا تو اسے اسی تحریک کا Extention سمجھا جاتا مگر یہ ساری تحریکیں خطہ سرسید سے بہت دور جنوبی ہندوستان میں سرسید کے وژن اور مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ تعلیمی امور پر نظر رکھنے والے کئی بار اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ ہندوستان میں تعلیمی انقلاب اسی وقت برپا ہوگا جب فرزندانِ سرسید شمالی ہندوستان میں پھر سے علی گڑھ تحریک کو زندہ کریں گے۔ شمالی ہندوستان کے حالات بہت نازک ہیں۔ یہاں پھر اسی طرح کے حالات کی آہٹ محسوس ہو رہی ہے۔ جن حالات میں علی گڑھ تحریک برپا ہوئی تھی۔
سید والا گہر کے کارنامے زندہ جاوید ہیں ان کی خدمات اور قربانیوں کی وجہ سے ایک قوم کو نئی زندگی ملی، انہوں نے ایسا چشمۂ صافی جاری کیا جس سے لاکھوں لوگ سیراب ہوچکے ہیں اور ہزاروں ہر دم سیراب ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے بارِ احسان دبے لوگ دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہیں اور 17؍اکتوبر آتے ہی سب کی حمیت جاگ اٹھتی ہے اور جہاں کہیں ہوتے ہیں ڈنر کی میز پر زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ محسن کو خراج عقیدت بار احسان کو اتارنے کا مستحسن طریقہ ہے۔ مناسب ہوگا کہ طریقہ بھی وہی اختیار کیا جائے جو محسن کو راس آتا ہو۔ حالی نے لکھا ہے تو سچ ہی لکھا ہوگا کہ وہ فاؤنڈر ڈے منانے کے بجائے فاؤنڈیشن ڈے منانے کے قائل تھے۔‘‘ وہ بھی اس طرح کہ خود کی شکم سیری کے بجائے قوم کی ذہنی بالیدگی، تہذیبی ارتقاء اور معاشی خوشحالی کی تدابیر ہوں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سرسید کی آرزوؤں کے مطابق ہر سال فاؤنڈیشن ڈے منایا جاتا ہے۔ خوب جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ تین روز تک خوب علمی و فکری سرگرمیاں رہتی ہیں۔ طلبہ، اساتذہ، قوم سب کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس میں ہمارے لیے بھی عبرت کا سامان ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 اکتوبر تا 3 نومبر، 2020