’سدرشن ٹی وی ‘اور ’زی ٹی وی‘ کی اشتعال انگیزیاں

من گھڑ ت خبریں نشر کرنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں

میڈیا راونڈ اپ

نفرت انگیزی کی وجہ سے دلی میں ہزاروں افراد عارضی کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور عام زندگی ابھی پوری طرح سے بحال بھی نہیں ہوپائی ہے کہ سُدرشن ٹی وی چینل اور زی نیوز حکومت کی ناک کے نیچے لگاتار نفرت اورفرضی خبروں کی دکان چلا رہے ہیں۔ سُدرشن چینل نے گراؤنڈ رپورٹ کے نام سے اپنے چینل پر ایک رپورٹ نشر کی جس کے مطابق عام آدمی پارٹی کے معطل کونسلر طاہر حسین کے گھر کے باہر ایک لڑکی کی لاش ملی۔ چینل کی رپورٹر نے اس رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اس لڑکی کا قتل طاہر حسین کے گھر میں کیا گیا اور بعد میں لاش کو گھرکے باہر نالے میں پھینک دیا گیا۔ اسی خبرپر سُدرشن چینل کے ٹویٹر ہینڈل سے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا گیا’’طاہر حسین کے گھر پر ملے ایک لڑکی کے جلے ہوئے کپڑے، جلا ہوا بیگ اور انڈر گارمنٹس۔۔۔ اندیشہ ہے کہ لڑکی کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے۔ ذرائع کے حوالے سے پولیس کو نالے میں ملی لڑکی کی لاش۔ لڑکی کو گھسیٹ کر طاہر کے گھر میں قتل کرنے کا اندیشہ۔‘‘
اس ٹویٹ اور ویڈیو کو بی جے پی آئی ٹی سیل کے ہیڈ امت مالویہ، بی جے پی لیڈر کپل مشرا، ابھجیت مشرا،جواہر یادو اور ارون یادو نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ سدرشن چینل کے اس دعویٰ کو آلٹ نیوز نے فرضی اور جھوٹ بتایا۔ آلٹ نیوز کے مطابق جوائنٹ پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ کسی بھی لڑکی کی لاش چاند باغ کے نالے سے برآمد نہیں کی گئی ہے۔ آلٹ نیوز کے مطابق دلی فساد میں ہلاک ہونے والے پچاس سے زائد لاشوں کی شناخت ہوچکی ہے اور ان لاشوں میں صرف ایک 85 سالہ خاتون کی ہی لاش برآمد ہوئی ہے۔
وہیں دوسری جانب زی نیوز کے ایڈیٹران چیف سُدھیر چودھری ایسے نازک ماحول میں مزید ماحول خراب کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کچھ دنوں قبل سدھیر چودھری نے اپنے پروگرام ڈی این اے میں ’’زمین جہاد‘‘ کے نام سے نفرت بھرا پروپگنڈا نشر کیا جس کی ہر جانب سے مذمت ہورہی ہے۔ کچھ لوگوں نے تو سدھیر چودھری کو’’تہاڑی جہادی‘‘ بھی بتا ڈالا۔ کیونکہ بلیک میلنگ کے جرم میں سدھیر چودھری تہاڑ جیل بھی ہوکر آچکے ہیں لیکن عادت سے مجبور ہیں۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ آخر سُدرشن چینل اورزی نیوز اس طرح کی فرضی اور خیالی خبریں کیوں اور کس کے کہنے پر نشرکررہے ہیں؟ کیا ان چینلوں کے خلاف وزارت اطلاعات ونشریات کی جانب سے کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ یہ تمام اہم سوالات ہیں جن کا جواب ملنا نہایت ضروری ہے۔

کرونا وائرس کے علاج کےلیے ’’ گائوموترپارٹی‘‘
ایک طرف جہاں دنیا بھر میں کرونا وائرس سے لوگ خوف زدہ ہیں اور اس سے نمٹنے کےلیے طرح طرح کے طریقے اپنائے جا رہے ہیں وہیں بھارت میں ہندو مہاسبھا نے کرونا وائرس سے بچاؤاور علاج کےلیے ’’ گائوموترپارٹی‘‘ کا اہتمام کیا گیا۔ جہاں دنیا بھر میں اس وبا سے لڑنے کےلیے اربوں روپئے خرچ کیے جا رہے ہیں وہیں بھارت میں گائوموترکا طریقہ علاج ہمیں نہ صرف شرمندہ کرتا ہے بلکہ پوری دنیا میں ہماری شبیہ مزید خراب کررہا ہے۔

۔
آرٹیفشیل انٹیلی جنس سے فسادیوں کی شناخت !
بالآخر وزیر داخلہ امت شاہ نے ایوان میں اس کا اعتراف کر ہی لیا کہ شمال مشرقی دلی فساد ایک منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا۔وزیرداخلہ امت شاہ نے یہ بھی کہا کہ آرٹیفشیل انٹیلی جنس کی مدد سے فسادیوں کی شناخت کی جارہی ہے لیکن یہ ٹکنالوجی وزیرداخلہ کے کتنے کام آئے گی اس کا کچھ ٹھوس جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے کیوںکہ اس ٹکنالوجی پر امریکہ اور کئی یورپی ممالک سوال اٹھا چکے ہیں۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں اس ٹکنالوجی پر مکمل پابندی بھی ہے۔