ساورکر کی اولاد کے سامنے بھگت سنگھ کےبچے ۔۔!

’گجرات ماڈل‘ کے لیے کیا ’دلی ماڈل‘ چیلنج بن رہا ہے ؟

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

دلی فساد پر ابن الوقتی کا مظاہرہ کرنے والے ای ڈی کے شکنجے پر تلملا گئے
دہلی سرکارکے وزیر صحت ستیندر جین کی 30 مئی (2022) کو گرفتاری عمل میں آئی۔ اس موقع پر نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے ٹویٹ کرکے الزام لگایا کہ جین کے خلاف آٹھ سال سے فرضی مقدمہ چل رہا ہے۔ اب تک کئی بار انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) ستیندر کو بلا چکا ہے۔ اس درمیان ای ڈی نے کئی سالوں تک فون کرنا بند کر دیا کیونکہ انہیں کچھ نہیں ملا۔ اب یہ معاملہ دوبارہ شروع ہوا کیونکہ ستیندر جین ہماچل پردیش کے الیکشن انچارج ہیں۔انہوں نے کہا ہماچل میں بی جے پی بری طرح ہار رہی ہے۔ اسی لیے ستیندر جین کوگرفتار کرلیا گیا تاکہ وہ ہماچل نہ جا سکیں۔ انہیں چند روز میں رہا کر دیا جائے گا کیونکہ کیس مکمل طور پر جعلی ہے۔منیش سسودیا کے چند دن 83روز بعد بھی پورے نہیں ہوئے لیکن اس سے قبل ان کی اپنی گرفتاری کا ماحول بن گیا۔ یہ اتنا سنگین معاملہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کو اپنے نائب کی حمایت میں پریس کانفرنس کرکے احتجاج کرنے کی نوبت آگئی ۔ اروند کیجریوال نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے کہا کہ :’’ ہم جیل جانے سے نہیں ڈرتے۔ یہ لوگ ساورکر کی اولاد ہیں جنہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے انگریزوں سے معافی مانگی تھی۔ ہم بھگت سنگھ کے بچے ہیں جو انگریزوں کے آگے نہیں جھکے بلکہ ان سے لڑتے ہوئے تختۂ دار کو چوما تھا۔
منیش سسودیا کو تادمِ تحریر گرفتار تو نہیں کیا گیا مگرجب دہلی کے ایل جی نے ایکسائز پالیسی کے حوالے سے سی بی آئی انکوائری کا فرمان جاری کردیا تو دہلی کے اروند کجریوال سمجھ گئے کہ عنقریب سسودیا کو بھی جیل میں جاناہوگا ۔ اس لیے انہوں نے پیشگی پریس کانفرنس کرکے دباو بنانے کی کوشش کی تاکہ اس کا خاطر خواہ سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔کیجریوال نے کہا کہ وہ اس بات کا اعلان کئی ماہ پہلے کرچکے تھے ۔ان کا یہ دعویٰ درست ہے۔ ۲؍ جون کو ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا۔ کیجریوال کے مطابق جب بی جے پی کے ذرائع سے ان کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے پوچھا کہ منیش سسودیا کو کس الزام میں گرفتار کیا جائے گا؟ اس کا جواب ملا ابھی تک یہ طے نہیں ۔ وجوہات تلاش کی جارہی ہیں مگر بہت جلد ان پر ہاتھ ڈالا جانا طے ہے ۔ اروند کیجریوال نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اب ہمارے ملک میں ایک نیا طریقہ رائج ہوچکا ہے ۔ اس کے تحت پہلے یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس کو گرفتار کرنا ہے ۔ اس کے بعد اس فرد خاص کے خلاف جھوٹے الزامات گھڑے جاتے ہیں اور بالآخر گرفتاری ہوجاتی ہے ۔
وزیر اعلیٰ اروندکیجریوال کا مذکورہ دعویٰ ویسے تو درست ہے لیکن اسے نیا کہنا غلط ہے۔ یہ پرانا طریقۂ کار ہے ۔ خود ان کی ریاست دہلی میں فرقہ وارانہ فساد کی تحقیقی رپورٹ دہلی سرکار کے اقلیتی کمیشن نے شائع کرکے فسادیوں کی صاف نشاندہی بھی کردی ۔ اس کے باوجود فساد کی سازش رچنے کے بے بنیاد الزام میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک چلانے والے بے قصور لوگوں کو مرکزی حکومت کی پولیس نے اسی طرح گرفتار کرلیا جیسے اب جین کو حراست میں لیا گیا ہے۔ فی الحال شور شرابہ کرنے والے اروند کیجریوال سمیت ان کے سارے ساتھی اپنے ہندو رائے دہندگان کی ناراضی سے بچنے کے لیے اس وقت خاموش تماشائی بنے رہے تھے۔ تبلیغی جماعت کے کارکنوں پر دہلی کے اندر کورونا جہاد کا جھوٹا الزام لگایا گیا اور ستیندر جین اپنی پریس کانفرنس میں اعدادو شمار پیش کرکے مرکزی حکومت کا بلاواسطہ تعاون کرتے رہے ۔ یہ جھاڑو والی ابن الوقت جماعت اس وقت سوچ رہی تھی کہ مودی کی رام بھکت مرکزی سرکارکیجریوال کی ہنومان بھکت صوبائی سرکار پر ہاتھ نہیں ڈالے گی لیکن اب پتہ چلا کہ یہ کل یگ ہے۔ اس میں اپنا کام نکل جانے پر کسی کو بھی جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی اس وقت تک بی جے پی کی منظورِ نظر تھی جب تک کہ کانگریس کی جڑ کاٹ رہی تھی۔ اب چونکہ وہ کمل کے راستے کا روڑا بن گئی ہے تو اس کو ہٹانے کا کام شروع ہوگیا ہے۔
عام آدمی پارٹی اگر اپنے سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوجاتی تو آج اس کے ساتھ مسلمان سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوتے اوریہ نوبت نہیں آتی۔ اس خود غرض جماعت نےتو اپنےمیونسپل کونسلر طاہر حسین کو بھی پارٹی سے نکال کر دامن جھٹک لیا ۔ طاہر حسین کےہندو پڑوسی گیانیندر کوچر نے تو میڈیا سےکہا’’جہاں تک میں جانتا ہوں، طاہر حسین فسادات میں ملوث نہیں ہیں۔ وہ امن کی کوششوں میں شامل تھے۔‘‘ کوچر نے گواہی دی کہ ’’24 فروری کو، ہنگامےوالے دن ، میں نے طاہر حسین کو ہندو مسلم مذہبی رہنماؤں اور اسسٹنٹ پولیس کمشنر کے ساتھ امن کی گزارش کرتے ہوئے دیکھا۔ پولیس عہدیداروں کی موجودگی میں انہوں نے ہندو اور مسلم برادری سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن عام آدمی پارٹی ان کی حمایت میں آگے نہیں آئی ۔ جس ہندو متوسط طبقہ کی خوشنودی کے لیے عام آدمی پارٹی نے ظلم و جبر کی مخالفت سے گریز کیا تھا آج وہ اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اروند کیجریوال کی حالتِ زار پر اب نواز دیوبندی کے یہ ا شعار صادق آتے ہیں؎
جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپرّ آپ کا ہے
آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے
اس کے قتل پے میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پے آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے
اروند کیجریوال نے ایل جی اور مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنے کی وجہ عام آدمی پارٹی کا مکمل ایماندارہونا ہے۔ بی جے پی اس کو بدنام کر کے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہر کوئی اس کی مانند بدعنوان ہے ۔ یہ ایک مبالغہ آمیز دعویٰ ہے لیکن جب مرکزی حکومت اور اس کے ادارے زعفرانی بدعنوانی سے آنکھیں موند کر صرف مخالفین کے پیچھے پڑجائیں تو اس انتقامی تفریق و امتیاز کی مخالفت ضروری ہوجاتی ہے۔ کیجریوال یہ سوال تو پوچھ ہی سکتے ہیں کہ مرکزی حکومت کمل کے اونٹ کو نگل کر جھاڑو کی مکھی کیوں چھانتی ہے؟ کیجریوال کے مطابق مرکزی حکومت پنجاب میں جیت کے بعد عام آدمی پارٹی کی پورے ملک میں توسیع کو روکنا چاہتی ہے۔ یہ دعویٰ درست نہیں ہے ۔ پنجاب کے ساتھ اترپردیش میں انتخاب ہوا وہاں سنجے سنگھ کی انتھک کوششوں کے باوجود عآپ کو ایم آئی ایم سے بھی کم ووٹ ملے ۔ اس کے علاوہ گوا سے بڑی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں مگروہاں بھی عآپ کاکھاتہ تک نہیں کھل سکا ۔ گجرات میں عام آدمی پارٹی کے داخلہ سے بی جے پی کا بھلارہا ہے۔ اس لیے ہر کسی کو حیرت ہے کہ آخر بی جے پی کو عآپ جیسی معمولی پارٹی سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟
اروند کیجریوال نے بی جے پی پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ دہلی کے شاندار کام کو روکنا چاہتی ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں نے سنگاپور کی مثال پیش کی۔ وہاں کی حکومت نے انہیں پوری دنیا کے سامنے دہلی کا ماڈل پیش کرنے کی دعوت دی ۔کیجریوال کے مطابق دہلی کے کاموں کا دنیا بھر میں چرچا ہو نا بڑے فخر کی بات ہے ۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ٹرمپ کی اہلیہ نے دہلی کے اسکولوں کا معائنہ کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور ناروے کے سابق سربراہ نے بھی محلہ کلینک کا دورہ کرکے اس کی ستائش کی تھی لیکن دہلی کےان کاموں کو بی جے پی روکنا چاہتی ہے۔ دہلی میں چونکہ صحت اور تعلیم کے میدان میں اچھا کام ہو رہا ہے، اس لیے پہلے وزیر صحت کو جیل بھیجا گیا اور پھر وزیر تعلیم کو حراست میں لینے کی تیاری ہورہی ہے۔ اروند کیجریوال نے دہلی اور ملک کے لوگوں کو یقین دلایا کہ کام نہیں رکے گا۔ کانگریس کو بھی لپیٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 75 سالوں میں ان پارٹیوں نے مل کر ملک کو برباد کیا ہے۔ اس عرصے میں کئی ممالک ہم سے آگے نکل گئے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ہم میں کیا کمی ہے؟ سب سے زیادہ باصلاحیت لوگ بھارت میں ہیں لیکن ساری سیاسی جماعتوں نے ملک کو لوٹا ہے۔
وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اپنے بیان میں سنگاپور کی جس دعوت کا ذکر کیا وہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ سنگاپور کی ورلڈ سٹی کانفرنس میں دنیا بھر کےمیئرس شرکت کررہےہیں ۔ اس میں اروند کیجریوال کو دہلی ماڈل پیش کرنے کی دعوت دی گئی تو مرکزی حکومت کے پٹھو لیفٹننٹ گورنر نے اس پر روک لگا دی ۔ اس سے ناراض ہوکر کیجریوال نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر سنگاپور جانے کی اجازت طلب کی کیونکہ ان کے خیال میں مذکورہ دورہ ملک کے لیے باعث افتخار ہے مگر 7 جون سے ڈیڑھ ماہ بعدبھی جواب نہیں ملا۔ کسی ریاست کے منتخبہ سربراہ کو اتنے اہم اسٹیج پر جانے سے روکنا درست نہیں ہے۔ کیجریوال نے نصیحت کی کہ اندرونِ ملک سیاسی اختلافات کو بھلا کرباہر کی دنیا کے سامنے صرف قومی مفاد کوپیش نظر رکھنا چاہیے۔ انہوں نے بی جے پی کی سب سے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ امریکہ نے جب نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ویزا نہیں دیا تو پورے ملک میں اس پر تنقید کی گئی تھی ۔ کیجریوال کی یہ بات درست نہیں ہے۔ اس وقت بہت سارے لوگ خوش بھی ہوئے تھے لیکن یہ بات تو سامنے آہی گئی کہ ایک وزیر اعلیٰ کو ویزا دینے سے انکار کیا جاتا مگر دوسرے کو خوش آمدید کہا جاتا ہے،اس پر اپنی ہی حسد زدہ سرکار کے پیٹ میں مروڑ ہونے لگتا ہے۔
اروند کیجریوال چونکہ میئر نہیں ہیں اس لیے بی جے پی انہیں وہاں جانے کی اجازت دینے کے خلاف ہے۔ اول تو کسی وزیر اعلیٰ کے لیے غیر ملکی سفر کی خاطر مرکزی حکومت سے اجازت حاصل کرنے کی حاجت ہی شرمناک ہے۔ آزادی کے 75سال بعد بھی اگر ایک وزیر اعلیٰ اس قدر محتاجِ محض ہوتو ایسی آزادی بے معنیٰ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا پروگرام کا اہتمام کرنے والے اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ اروند کیجریوال میئر نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہیں ؟ عام آدمی پارٹی کی دلیل یہ ہے کہ انہیں میئر کی حیثیت سے نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ کے طور پر میئرس سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ دہلی کی تین عدد میونسپل کارپوریشن میں پچھلے پندر سالوں بی جے پی کے میئرس ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سنگاپور میں انہیں کیوں نہیں بلایا جاتا؟ کیونکہ یہ لوگ کہ رام نومی کے موقع پر گوشت کی دوکان بند کروانے اور بلڈوزر چلانے کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر کام ہی نہیں کرتے ۔ ان کونہ کوئی جانتا ہے اور نہ ان کے اندر اپنے کام کو سلیقہ سے پیش کرنے کی صلاحیت ہے ۔ ملک میں گجرات ماڈل کا چرچا تو خوب ہوا لیکن عالمی سطح پر اس کی پذیرائی کبھی نہیں ہوئی اور ہوتی بھی تو مودی جی یا ان کے جانشین میں دم خم نہیں ہے اس کو ٹھیک سے پیش کرسکے۔
عام آدمی پارٹی کے رہنما سنجے سنگھ نے اس موضوع پر بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اروند کیجریوال کے دہلی ماڈل سے پی ایم مودی خوفزدہ ہیں۔ وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو پی ایم مودی سنگاپور جانے کی اجازت اس لیے نہیں دے رہے ہیں کہ کہیں بین الاقوامی سطح ان کا ’’فرضی ماڈل‘‘ پر بے نقاب نہ ہوجائے۔ سنجے سنگھ نے دہلی ماڈل کے بارے میں بتایا کہ وہاں ہر گھر کو 300 یونٹ بجلی مفت دی جاتی ہے۔فرشتے اسکیم کے تحت سڑک حادثات سے دوچار 50 لاکھ افراد کو مفت علاج کی سہولت دی گئی ہے۔ ماؤں بہنوں کو مفت بس سفر کا موقع دیا گیا ہے۔ 18 لاکھ بچوں کو اچھی تعلیم، مفت ادویات، مفت علاج، مفت پانی دیا جا رہا ہے۔ گجرات ماڈل سے اس کا موازنہ کرتے ہوئے وہ بولے گجرات کے جعلی ماڈل کا خمیازہ پورا ملک مہنگائی، بے روزگاری کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی نے کیجریوال پر ’مفت میں ریوڈی‘ بانٹ کر اپنی سیاست چمکانے کاالزام لگایا اور اس کو قوم کے لیے نقصان دہ بتایا۔ اس الزام کا دوٹوک جواب دیتے ہوئے سنجے سنگھ نے سوال کیا کہ نریندر مودی کو اگرمفت کی ریوڑیوں سے اتنی ہی پریشانی ہے تو وہ تمام ارکان پارلیمان کو 5 ہزار یونٹ بجلی مفت، بڑی بڑی کوٹھیاں ، موٹی تنخواہیں ، لمبی چوڑی گاڑیاں اور ہواجہازوں کے سفر سمیت تمام سہولیات کیوں بند نہیں کرتے؟ اس منہ توڑ سوال کا بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
ریوڑی والی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے سنجے سنگھ نے بتایا کہ مودی سرکار ریوڑیاں کیسے تقسیم کرتی ہے ؟ پرفلا شاردا کی آر ٹی آئی کے جواب میں مرکزی حکومت نے اعتراف کیا کہ 11 لاکھ کروڑ روپئے قرض معاف کر دیا گیا ہے۔ اس ریوڑی کی وجہ سے ملک تباہ و دیوالیہ اور بینک خالی ہو گئے ہیں ۔ سرکار کے پاس نوجوانوں کو روزگار دینے، مہنگائی کم کرنے، پٹرول ، ڈیزل اور گیس سلنڈر کی قیمت گھٹانے کے لیے پیسے نہیں ہیں لیکن ملازمین، عام آدمی، کسان، مزدور، چھوٹے تاجروں کا بینکوں میں جمع پیسہ نکال کر اڈانی جیسے چند سرمایہ داروں کے قرض معاف کرنے کے لیے 11 لاکھ کروڑ روپئے کی خطیر رقم ہے۔عام آدمی پارٹی کے رہنما نے ڈی ایچ ایف ایل کمپنی کا حوالہ دے کر کہا کہ اس نے 17 بینکوں سے 34 ہزار کروڑ روپیہ لوٹامگر بھارتیہ جنتا پارٹی کو 27 کروڑ روپے کا عطیہ دے کر چھوٹ گئی ۔وزیر اعظم کے عزیز دوست کی سرکاری مدد سے لوٹ مار کا راز فاش کرتے ہوئے سنجے سنگھ نےپارلیمانی اجلاس میں بتایا کہ ہندوستان کی ریاستی اور مرکزی حکومت کے تھرمل پاور پلانٹس کو فی ٹن 3000 روپئے کے نرخ پر ملتاہے۔ 7 دسمبر 2021 کو مودی حکومت ریاستی حکومتوں پر 10 فیصد کوئلہ بیرون ملک سے خریدنے کی شرط لگادی ۔
دو ماہ قبل کوئلے کا ایک فرضی بحران پیدا کیا گیا جبکہ حقیقت میں یہ ہندوستان کی کول انڈیا کمپنی کی پیداوار میں 32 فیصد اضافہ ویب سائٹ پر درج ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہندوستان میں کوئلے کی پیداوار بڑھ گئی ہے ریاستی سرکاروں کو اڈانی کے بیرون ملک کانوں سے دس گنا زیادہ قیمت یعنی 30,000 روپے فی ٹن کوئلہ خریدنے پر کیوں مجبور کیا جارہا ہے؟ اس کے سبب بجلی کی قیمت میں 2 روپئے فی یونٹ اضافہ ہوگا۔ سنجے سنگھ کے مطابق مودی سرکار کے ذریعہ اپنے دوست کا کوئلہ ریاستی حکومت کو زور زبردستی کرکے 3 ہزار روپے ٹن کے بجائے 30 ہزار روپے ٹن کی قیمت پر بکوانا دراصل ریوڑی تقسیم کرنا ہے۔ سنجے سنگھ کے اس جواب پر معروف محاورہ ’اندھا بانٹے ریوڑیاں پھیر پھیر اپنے ہی کو دے ‘ یاد آتا ہے۔ وزیر اعظم کی آنکھوں پر سرمایہ داری کا پردہ پڑا ہوا ہے اس لیے ان کی ساری ریوڑیاں سرمایہ داروں کی تجوری میں چلی جاتی ہیں ۔
سیاسی گرفتاری سے شروع ہو نے والی بات وہیں ختم ہونی چاہیے ۔ سنجے سنگھ نے ای ڈی اور سی بی آئی کے غلط استعمال پر کہا کہ محلہ کلینک کا ماڈل پیش کرنے والے ستیندر جین جیسے لوگوں کو جیلوں میں سڑا کرحزب اختلاف کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ انہوں اعدادوشمار کے حوالے سے کہا کہ مودی سرکار نے گزشتہ 8 سالوں میں 3 ہزار چھاپے مارے لیکن ای ڈی کو اس انتقامی مہم کے دوران صرف 0.5 فیصد معاملات میں کامیابی ملی کیونکہ وہ سارے کیس جھوٹےتھے۔ ای ڈی کے ان چھاپوں کی وجہ سےتو کسی کو سزا نہیں ملتی لیکن یہ چھاپہ بذاتِ خود ایک سزا ہے۔ سنجے سنگھ نے الزام لگایا کہ ای ڈی کو دھمکیاں دینے، دباؤ ڈالنے، ڈرانے دھمکانے اور فرضی مقدمہ قائم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ حکومت اپنی باتوں کو زبردستی منوانا چاہتی ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ای ڈی یا سی بی آئی کےجال میں کوئی بی جے پی والا تو دور ملک کو لوٹ کر بھاگنے والے نیرو مودی ، میہول چوکسی اور وجئےمالیا بھی نہیں پھنستے ۔ یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے کہ سشمتا سین توملک کو لوٹ کر فرار ہونے والے للت مودی کو ڈھونڈ نکالتی ہے لیکن وزیر اعظم کو وہ نظر نہیں آتا ۔ مودی جی کے نئے ہندوستان کی منظر کشی فیض احمد فیض کے ان اشعار میں ملتی ہے؎
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
***

 

***

 رواں سال اپریل سے بھارت سے گوشت کی درآمد پر پابندی کے بعد حکومت ہند نے شیخ حسینہ حکومت سے بھارت سے گوشت کی درآمد دوبارہ شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حکومت بنگلہ دیش کے فیصلے کا بنگلہ دیش کے بارے میں حکمران جماعت کے بعض سیاست دانوں کی طرف سے وقتاً فوقتاً دیے جانے والے ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ بیانات سے کوئی تعلق ہے، لیکن بنگلہ دیشی میڈیا کی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ پڑوسی ملک نے گوشت کی درآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 جولائی تا 07 اگست 2022