’’زندگی کا سنہرا دن،مسجد میں داخلہ کی اجازت پر بےانتہا خوشی ہوئی‘‘

برادران وطن کے پر جوش تاثرات۔وانمباڑی میں ’’ہماری مسجد کو تشریف لائیں‘‘ پروگرام۔ ایس آئی او کی مساعی

احسان احمد

ہندوستان کی مٹی میں اجتماعی مزاج کی خوشبو رچی بسی ہے۔ یہاں الگ الگ مذہب اور عقیدے کے لوگ مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کو سننے سمجھنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض طاقتوں کی جانب سے طبقات کے بیچ نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی لاکھ کوششوں کے باوجود حق اور محبت کا پیغام جب بھی لوگوں تک پہنچا یا گیا ہے، مثبت اور پُرجوش ردعمل ہی سامنے آیا ہے۔ گزشتہ دنوں تمل ناڈو کے شہر وانمباڑی میں پہلی بار ایس آئی او کی جانب سے ایسی ہی ایک قابل تقلید کاوش کی گئی ہے جس کی ایک رپورٹ پیش ہے۔
’’ہماری مسجد تشریف لائیں‘‘ کے عنوان سے وانمبا ڑی کی مسجد قادرپیٹ میں یہ پروگرام صبح 10بجے تا بعد نمازِ مغرب منعقد ہوا جس میں غیر مسلمین کو مسجد میں آنے اور اپنا وقت گزارنے کی دعوت دی گئی تھی۔اس پروگرام میں400 سے زیادہ غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں نے شرکت کی جن میں اسکول اور کالج کے طلباء و اساتذہ کے علاوہ تاجر حضرات، ملازمت پیشہ ورحضرات اور سیاسی پارٹیوں کے ممبران وغیرہ بھی شامل تھے۔ اس پروگرام کا مقصد برادرانِ وطن تک اسلام کا صحیح تعارف پیش کرنا، بین المذاہب تعلقات کو مضبوط کرنا اور انسانیت و اخوت کا پیغام پہنچانا تھا۔
25سے زائد رضاکاروں (Volunteers) کو مختلف ذمہ داریاں دی گئیں مثلاً مہمانوں کا استقبال اور ان کا رجسٹریشن کرانا، مہمانوں کو مسجد کے مختلف حصوں میں لیجانا اور انہیںمسجد اور اسلام کی تعلیمات سے متعارف کرانا اور آخر میں ہلکے پھلکے ناشتے سے ان کی ضیافت کی گئی۔
جیسے ہی مہمان مسجد میں داخل ہوئے اُنہیں وضو کی جگہ لے جایا گیا اور وضو کا طریقہ اور اسلام میں پاکی کی اہمیت کے بارے میں سمجھایا گیا، کچھ غیر مسلموں نے اس طریقے سے متاثر ہوکر وضو کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے بعد انہیں مسجد کے اس حصہ میں لے جایا گیا جہاں سے اذاں دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی انہیں اذاں کا مقصد اور اس کے کلمات کے معنیٰ بھی سمجھائے گئے اس کے بعد انہیں نماز کے ناموں اور ان کے اوقات کے بارے میں بتایا گیا۔ اس ضمن میں یہ بات بھی سمجھائی گئی کہ ایک مسلمان کی صبح نمازِ فجر سے شروع اور اُس کی رات نمازِ عشاء پر ختم ہوتی ہے ۔ پھر مہمانوں کو مسجد کے اندرونی حصہ میں لے جا کر صف بندی کی اہمیت، منبرو محراب کا تعارف، امام کا کردار، قرآن کا تعارف و فضیلت، خطبٔہ جمعہ و خطبٔہ نکاح کا طریقہ، نماز باجماعت کے فوائد ، دعا کا طریقہ اور حتیٰ کے اسلام کے سارے ہی پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی۔ اس کے بعد مہمانوں کو مسجد سے متصل قبرستان لے جایا گیا جہاں پر نمازِجنازہ، تدفین کا طریقہ ، آخرت و زندگی بعدِ موت جیسے عنوانات پر بات ہوئی۔ کئی مہمانوں کو نماز ادا کرتے مسلمانوں کو دیکھنے کا بھی موقعہ ملا۔ مہمانوں کو مسجد کے ذریعہ انجام دی جانے والی سماجی خدمات کے بارے میں بھی بتایا گیامثلاً بیوائوں اور مسکینوں میں راشن کٹ کی تقسیم وغیرہ۔ مسجد میں جگہ جگہ پر چارٹس اور پلے کارڈس کی بھی نمائش کی گئی تاکہ مہمانوں کو اسلام کے بارے میں سمجھنے میں آسانی ہو۔مہمانوں سے تاثرات تحریری اور ویڈیو ریکارڈنگس کی شکل میں لیے گئے۔ جنہیں یو ٹیوب او ر دوسرے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کیا گیا۔ یہ ویڈیوس بہت وائرل اور پُر اثر ثابت ہورہے ہیں۔
امّو(Ammu) نامی ایک مہمان جو کہ پیشے سے وکیل ہیں انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ انہیں مسجد میں داخلہ کی اجازت پر بہت خوشی محسوس ہوئی اور وہ اس دن کو اپنی زندگی کا ایک بہت ہی سنہرا دن تصور کرتے ہیں۔ آخرت کے تصور کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ہر ایک شخص صرف اپنی ابدی زندگی (زندگی بعدِ موت )پر محنت کرے تو نہ صرف اس ملک میں بلکہ ساری دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔
کُلاسیکرن (Kulasekaran) نامی ایک تمل زبان کے مصنف نے کہا کہ اس پروگرام کے ذریعہ انہیں بہت ہی تفصیل کے ساتھ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں اور اُنہیں اسلام میں جو چیز سب سے زیادہ پسند آئی وہ اجتماعی عبادت ہے جو اپنے اندر بہت اثر رکھتی ہے۔ ایک طالبِ علم راکیش (Rakesh) نے کہا کہ نماز پڑھنے کی ان کی دیرینہ خواہش انہوں نے اس پروگرام کے ذریعہ پوری کرلی اور نماز سے فارغ ہو کر اُنہیں بہت خوشی محسوس ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس پروگرام کے پیغام کے طور پر جو بات وہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے وہ یہ ہے کہ زندگی بہت مختصر ہے اور ہر ایک کا مقدر صرف 6 گز کی قبر ہے اس لیے اس میں صرف محبتوں کو پروان چڑھایا جائے۔
وِنود (Vinodh) کو نماز کی صف بندی کے دوران امیر و غریب کاایک ہی قطار میں کندھوں سے کندھا لگائے کھڑے ہونا بہت پسند آیا۔ قبرستان پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے پاس مسلمانوں کی قبروںکا کچھ اور تصور تھا مثلاً ہر ایک شخص اور خاندان والوں کی مخصوص قبر یں ہوںگی اور ہر ایک قبر کا اپنا ایک نقشہ ہوگا لیکن قبروں کی سادگی اور یکسانیت کو دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئے۔
آکاش (Aakash)نے کہا کہ ہر روز جب بھی وہ مسجد کی طرف سے گزرتے تو دو یا تین مرتبہ یہ سوچا کرتے تھے کہ کیا انہیں بھی کبھی یہ موقعہ ملے گا کہ وہ مسجد کے اندر داخل ہوکر مسجد کو دیکھیں اور نماز اور اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ ان کے چہرے سے یہ جھلک رہا تھا کہ ان کی یہ خواہش پوری ہونے پر وہ کتنے خوش تھے۔
جیا سوریا (Jayasuriya)کو مسجد میں مسلمانوں میں پایا جانے والا اتحاد بہت پسند آیا۔روسری (Rosary) جو ایک ٹیچر ہیں کچھ طلباء کے ہمراہ اس پروگرام میں شریک تھیں انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے ذریعہ انہیںاسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں تھیں وہ دور ہوئیں۔کئی غیر مسلم بھائیوں نے مسجد کی خوبصورتی اور پاکیزگی کو پسند کیا۔ کئی ایک نے کہا کہ مسجد میں داخل ہوکر ان کا خواب پورا ہوگیا۔ہر ایک مہمان نے رضاکاروں (Volunteers) کی مہمان نوازی کو سراہا۔
اس پروگرام کے ذریعہ غیر مسلموں کے اندر اسلام کو سمجھنے اور جاننے کی غیر معمولی خواہش دیکھنے کو ملی ہے۔ضرورت ہے کہ اس طرح کے پروگرام معمولاً ہوں اور ہر جگہ ہوں۔

• اجتماعی عبادت کا م نظر متاثر کن تھا ۔۔ کلاسیکرن
• ہر ایک کا مقدر صرف چھ گز کی قبر ہے۔۔
طالب علم راکیش
• مسلمانوں میں اتحاد بہت پسند آیا۔۔۔ جیا سوریہ
• مسجد کے سامنے گزرتا تو دیکھنے کی خواہش ہوتی تھی۔۔آکاش
• اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیاں
دور ہوئیں ۔۔ ٹیچر روزیری
HL 2
نماز کی صف بندی کے دوران امیر و غریب کاایک ہی قطار میں کندھوں سے کندھا لگائے کھڑے ہونا بہت پسند آیا۔ مسلمانوں کی قبروںکا کچھ اور تصور تھا مثلاً ہر ایک شخص اور خاندان والوں کی مخصوص قبر یں ہوںگی اور ہر ایک قبر کا اپنا ایک نقشہ ہوگا لیکن قبروں کی سادگی اور یکسانیت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ۔۔ونود