زندگی پر عقیدہ آخرت کا اثر

مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ

قیامت یا آخرت کے الفاظ تم نے بارہا سنے ہوں گے اور ممکن ہے کہ تم اپنی ماں یا دادی کے بتانے سے یا کسی اور سے سن کر یہ بھی جانتے ہو کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے قیامت پر ایمان لانا ہمارے لیے ضروری ہے لیکن معلوم نہیں تم نے کبھی اس بات پر بھی غور کیا ہے یا نہیں کہ اس کے ماننے کا ہماری زندگی سے کیا تعلق ہے۔ آیا قیامت کے ماننے کا فائدہ یا غرض بس اتنی ہی ہے کہ ہمارے علم میں ایک نئی بات آجاتی ہے، یا یہ کہ اس کے ماننے کا ہماری زندگی پر بھی کچھ اثر پڑتا ہے۔
اس زمانے میں لوگ عام طور سے مذہب کی باتوں پر زیادہ غور وفکر نہیں کرتے، اس لیے بہت سے لوگ اپنی ناواقفیت کی بنا پریہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے جن باتوں کے ماننے پر زور دیا ہے، وہ سب مان لینے کی باتیں ہیں، ان کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اگر تم غور کرو تو تمھیں پتہ چلے گا کہ ان کا یہ سمجھنا بالکل غلط ہے۔ مذہب نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے وہ سب باتیں ایسی ہیں جن کا ہماری زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے اور ان کے ماننے یہ نہ ماننے سے ہماری اس دنیا کی زندگی اور اس کے معاملات پر پورا اثر پڑتا ہے اور یہی حال اس عقیدئہ قیامت کا بھی ہے کہ اگر اس کو مان کر زندگی بسر کی جائے تو ہمارے اخلاق و معاملات، اور ہماری زندگی کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوگا۔ اور اگر اس کو کوئی تسلیم نہ کرکے زندگی گزرے تو اس کے معاملات و اخلاق کا طرز کچھ اور ہوگا۔ آؤ کچھ دیر کے لیے اس مسئلے پر غور کریں۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں قرآن مجید ہی کو سامنے رکھنا چاہیے کیوں کہ قرآن مجید نے صرف یہی نہیں بتایا ہے کہ قیامت کو ماننا ضروری ہے اور کیوں ضروری ہے بلکہ یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس کے ماننے یا نہ ماننے سے زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے، لیکن قرآن مجید نے اس سلسلے میں جو کچھ کہا ہے وہ ایک صحبت میں کسی طرح بیان نہیں کیا جاسکتا، اس لیے قرآن مجید کی رو سے عقیدئہ قیامت کے جو اثرات انسان کی زندگی پر پڑتے ہیں، ان کا صرف ایک پہلو آج تمھارے سامنے رکھنا ہے، وہ یہ کہ انسان کے نیک و بد ہونے میں اس عقیدے کو کیا دخل ہے۔
اس بارے میں قرآن مجید نے جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دنیا میں نیکی اور بھلائی کا دار و مدار صرف دو باتوں پر ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھے کہ اس دنیا میں اس کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ خود بخود پیدا ہوا ہے، اور وہ اس کے لیے آزاد ہے کہ جو اس کے جی میں آئے کرے، جس کو جی چاہے مارے، جس کا مال چاہے ہڑپ کرے اور جس پر جی چاہے ظلم کر بیٹھے۔ بلکہ اس کی حیثیت یہ ہے کہ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے، اور اس کے پیدا کرنے کی کوئی نہ کوئی غرض و غایت ہے اور اس کے پیدا کرنے والے نے اسے آزادی تو یقینا دے دی ہے کہ ایک خاص دائرے سے جو کچھ چاہے کرسکتا ہے لیکن یہ نہیں ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے اسے وہ پسند بھی کرتا ہے بلکہ انسان کو بری یا بھلی باتیں بتادی ہیں اور وہ اچھی باتوں کو پسند اور بری باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اور ہر انسان سے اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کی ٹھہرائی ہوئی پسندیدہ باتوں کو احتیار کرے اور ناپسندیدہ باتوں سے بچے۔ قرآن کہتا ہے جو لوگ یہ سمجھ کر زندگی گزارتے ہیں اور ہر کام میں اللہ کی خوشی یا ناخوشی کو پیشِ نظر رکھتے ہیں ان کا حال دنیا میں ان لوگو ںسے مختلف ہوتا ہے جو اپنے کو کسی کا پیدا کردہ نہیں سمجھتے یا خود اپنے نفس کواپنا بادشاہ سمجھتے ہیں، اور جو جی میں آتا ہے، کرتے رہتے ہیں۔ پہلی طرح کے لوگ یہ سمجھ کر زندگی گزارتے ہیں کہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔ ا س کے ان پر حقوق ہیں اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ لوگ اس کے فرماں بردار بن کر زندگی گزاریں اور جن باتو ںکا اس نے حکم دیا ہے اس کے خلاف نہ چلیں۔ یہاں تک کہ بہت سے ایسے کام بھی جن کو یہ لوگ آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں محض اس لیے نہیں کرتے کہ ان کا کرنا پیدا کرنے والے کی خوشی کے خلاف ہوتا ہے۔ گویا ان کے پیدا کرنے والے نے ہر طرح کے کام کرنے کی جو قوت اور آزادی ان کو دی ہے، اس سے وہ از خود یہ سمجھ کر دست بردار ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے علاوہ اور احسانوں کے ان کو جو یہ بلند مقام عطا فرمایا ہے کہ وہ دنیا کی اور مخلوقات کی طرح مجبور نہیں ہیں بلکہ ان کو ان سے ممتاز کرنے کے لیے ایک طرح کی آزادی بھی دے دی ہے، تو خود اس نعمت کی شکر گزاری کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے اس حق کو اس کی مرضی کے مطابق استعمال کریں، اور درحقیقت ان کا یہ سمجھنا صحیح بھی ہے، عقل بھی یہی چاہتی ہے اور انسان کی فطرت بھی اسی کا مطالبہ کرتی ہے کہ انسان اپنے منعم و محسن کی شکر گزاری کرے، چناں چہ اسی بنا پر جو لوگ ایسا نہیں کرتے ان کو عام طور سے برا کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ ہمارا سب سے بڑا منعم و محسن ہے، اسی نے ہم کو پیدا کیا، ہمارے زندہ رہنے کے لیے ہر طرح کے سامان فراہم کیے، ہمیں عقل دی، فہم عطا فرمائی، اور ان سب سے بڑھ کر ہمارا درجہ اپنی بے شمار مخلوقات سے بہت اونچا اور بلند بنایا، تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس کی اطاعت و فرماں برداری کریں اور اس کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزاریں؟ اس کا جواب ایک ہی ہوسکتا ہے کہ بلاشبہ یہی ہمارا فرض ہونا چاہیے چناں چہ خود قرآن مجید بھی اسی بنیاد پر انسان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے خدا کا مطیع و فرماں بردار بن کر دنیا میں رہنا چاہیے کیوں کہ وہ ان کا خالق اور حاکم ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ. مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ. إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ.(میں نے جن و انس کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں، میں ان سے ذرا بھی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں پلائیں، حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کو رزق دینے والا ہے، قوت والا ہے، زبردست ہے۔ سورۃ الذاریات ۵۶ تا ۵۸)
اور اسی بنا پر جو لوگ نیک اور سمجھ دار ہوتے ہیں، وہ دنیا میں اپنا فرض یہی سمجھتے ہیں۔ حضرت لقمانؑ خدا کے ایک نہایت ہی نیک بندے گزرے ہیں، ان کا دل بھی خدا کے انعامات کے تصور سے اس کے آگے جھکا ہوا تھا، چناں چہ وہ خود بھی خدا کی اطاعت کے ساتھ زندگی گزارتے تھے اور اپنی اولاد سے بھی وہ یہی چاہتے تھے، چناں چہ انھوںنے ایک مرتبہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
(اے پیارے بیٹے اللہ سے شرک نہ کر، بلاشبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ سورۃ لقمان، آیت: ۱۳)
ایسے ہی حضرت سلیمان علیہ السلام خدا کے چہیتے بندے تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت اور شوکت و حشمت بہت کچھ دے رکھا تھا۔چناں چہ وہ یہ نعمتیں پاکر اترائے نہیں تھے اور نہ ان کو پاکر وہ خدا سے غافل ہوگئے تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جتنا بھی اپنے فضل سے نوازا تھا اتنا ہی ان کا دل خدا کے حضور میں جھکا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ اپنے لشکر کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ راستے میں ایک وادی میںان کا گزر ہوا تو وہاں چیونٹیوں نے آپس میں گفتگو کی جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے سن لیا۔ چوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص فضل ہوا تھا، اس لیے اس کا تصور کرکے وہ خدا کے حضور میں جھک گئے اور اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں دعاکی:
رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ
(اے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو بخشیں اور مجھے ایسی توفیق دے کہ میں ایسے نیک کام کروں جنھیں تو پسند فرمائے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے صالح بندوں میں شامل فرما۔ سورۃ النمل، آیت: ۱۹)
اس آیت میں دیکھو کہ خدا کے فضل و انعام کا تصور آنے سے ان کے دل میں کس طرح شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوا اور اس جذبے نے کس طرح ان کے دل میں نیک بننے کا جذبہ پیدا کردیا۔ ایسے ہی قراان شریف میں اور بہت سے بندوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کا طریقہ یہی تھا کہ خدا کے انعامات و احسانات کے تصور سے ہمیشہ اس کے سامنے جھکے ہوئے رہتے تھے اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات کرنے کے لیے کسی حال میں آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ اب اس کے برعکس جو لوگ نہ اپنے لیے کسی خالق کا تصور رکھتے ہیں اور نہ وہ اپنے اوپر اپنے نفس کے علاوہ کسی کا حق سمجھتے ہیں، ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں جو کچھ چاہتے ہیں بے جھجک ہوکر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے لوگ کسی ضابطہ اخلاق وغیرہ کی پابندی کسی حال میں نہیں کرسکتے، وہ کوئی نیک کام اگر کریں گے بھی تو اس میں ان کی اپنی غرض چھپی ہوگی۔ ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ اپنے خالق و مالک کی ناشکری کرکے اپنے کمینے پن اور حد درجہ بداخلاقی و عقلی پستی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگ دنیا میں فتنے و فساد کا بھی باعث بنتے ہیں کیوں کہ ایسے لوگوں کے لیے برائی سے روکنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی جو اپنے سب سے بڑے منعم و محسن کا اپنے اوپر کوئی حق نہیں سمجھتا، وہ بھلا اوروں کے حقوق کا کیا لحاظ کرسکتا ہے۔ وہ تو بس دنیا میں اپنا بھلا چاہے گا اور کسی کا بھی نہیں۔ اس کو اگر کوئی قانون وغیرہ سے بھی جکڑ کر ٹھیک بنانا چاہے گا تو وہ نہیں ہوسکے گا بلکہ وہ خود قانون توڑنے کے لیے مختلف طریقے اور بہانے بنالے گا اور اس کا کوئی کچھ نہیں کرسکے گا، جیسا کہ تم آج کل دیکھ رہے ہو کہ خدا کے باغی ہر طرح کے قانون کی موجودگی میں سب کچھ کررہے ہیں اور روکنے والے ان کو روکنے سے عاجز ہیں۔ بہرحال، اس دنیا میں انسان کے نیک بننے اور نیک بنے رہنے کے لیے دو باتوں کی ضرورت ہے ان میں سے ایک بات تو یہی ہے کہ اس کو بدعقیدہ رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا اور اس کے ساتھ وہ آپ سے آپ پیدا نہیں ہوگیا بلکہ اس پوری کائنات کا ایک خالق ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے۔ اور وہ اس کے ہر اچھے یا برے کام کا نگراں ہے۔ اور وہ اس کی اچھی باتوں کوپسند اور بری باتوں کو ناپسند کرتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ اسی کے ساتھ یہ عقیدہ رکھے کہ انسان کی زندگی بس اتنی ہی نہیں کہ وہ اس چند روزہ دنیا میں رہ کر ختم ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ہی وہ تمام کچھ جو اس نے اس دنیا میں کیا ہے ختم ہوجائے گا۔ اس پر اس کو کوئی جزا یا سزا نہیں ملے گی۔ بلکہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ہمارے ہر اچھے اور برے کاموں کا ہمیں بدلہ ملے گا کیوں کہ اگر ایسا نہ ہو تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو بالکل بے کار اور عبث پیدا کیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی مقصد اور حکمت پوشیدہ ہے اور اس کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بڑا رحمن اور رحیم ہے تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کا کام بس یہی ہو کہ وہ چند روزہ اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھاکر اورجو برے بھلے کام کرسکتا ہے کرکے ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوجائے۔ اس طرح سوچنے کے معنی صرف یہ ہوسکتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو حکیم اور رحیم نہیں مان رہے ہیں چناں چہ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے ہونے پر جو دلیلیں دی ہیں، ان میں ایک ایسی بھی ہے کہ وہ اس کو اپنی رحمت و حکمت کا صریح تقاضا قرار دیتا ہے۔
كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ
(تمھارے آقا نے رحمت کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہے (لہٰذا) وہ تمھیں ضرور ضرور قیامت کے دن جمع کرے گا۔ سورۃ الانعام، آیت: ۱۲)
اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت میں اللہ کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت اور رحمت بیان کرنے کے بعد اس کے مالک یوم الدین ہونے کا اظہار کیا گیا ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی صفتوں کے تسلیم کرلینے کے بعد یہ مانے بغیر چارہ نہیں رہ جاتا کہ ایک دن جزا وسزا ضرور ہونا چاہیے، چناں چہ اسی بنیاد پر قرآن میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ کائنات کی حقیقتوں پر غور کرتے ہیں وہ خود بخود اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ دنیا بے غرض و بے مقصد نہیں پیدا کی گئی ہے اور پھر اس سے اس کا ذہن خود بخود اس طرف مڑجاتا ہے، کہ پھر ہم جو کچھ یہاں کرتے ہیں اور جس کا بسا اوقات اس دنیا میں نتیجہ نہیں ملتا اس کاانجام ہمارے سامنے ضرور آئے گا:
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ. الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
(زمین اور آسمان کی پیدائش میں اور رات دن کے آنے جانے میں بلاشبہ ان عقل مندوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں، جو اللہ تعالیٰ کو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں یاد کرتے ہیں، اور زمین و آسمان کی پیدائش کے بارے میں غوروفکر کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے مالک یہ سب تو نے بیکار نہیں پیدا کیا ہے۔ تیری ذات اس سے پاک ہے کہ تو کوئی بیکار کام کرے (اور جب ایسا ہے تو ایک نہ ایک دن تو اپنی مخلوقات کا حساب بھی لے گا۔) اس حساب کے دن تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچانا۔ سورۃ آل عمران، آیت ۱۹۰ اور ۱۹۱)
اس تفصیل سے یہ بات تمھاری سمجھ میں آگئی ہوگی کہ درحقیقت خدا کے تسلیم کرلینے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم ایک یوم الدین بھی تسلیم کریں۔ بہرحال عقیدہ آخرت کو چاہے ایمان باللہ کا ایک جزو سمجھو یا اس کو الگ سے ایک عقیدہ مان لو۔ کہنا یہ ہے کہ جس طرح خدا کو تسلیم کرلینے اور اس کا اپنے اوپر حق مان لینے کے بعد انسان خود اپنی خوشی سے آزادی سے دست بردار ہوجاتا ہے اور اب وہ وہی کرسکتا ہے جس کو کرنے کی اس کے خالق نے اجازت دے دی ہو اور اسی طرح وہ ان اصولوں کا پابند بن جاتا ہے جو سب کے فائدے کے لیے سب کے پیدا کرنے والے نے ٹھہرادیے ہیں۔ بالکل اسی طرح یہ جزا و سزا کا عقیدہ بھی انسانوں کو ان خدائی احکام کا پابند بناکر رکھتا ہے۔ بلکہ سچ پوچھو تو اگر یہ عقیدہ انسان کے دل میں پوری طرح بس جائے تو وہ محض خدا کو مان لینے سے بھی پوری طرح اس کے احکام کا پابندنہیں بن سکتا کیوں کہ وہ اس صورت حال میں خیال کرسکتا ہے کہ زندگی جب یہی دنیاوی زندگی ہے تو چلو جی کھول کر عیش اڑالیں۔ بس زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی فہرست میں ہمارا نام ناشکروں میں لکھ جائے گا۔ سو اس سے کیا ہوتا ہے۔ اللہ نے تو خود ہی آزادی دے رکھی ہے لیکن اس کے برعکس اگر انسان یہ سمجھے کہ وہ جو کچھ کرے گا اس کا انجام سامنے آئے گا، اور اللہ نے جو آزادی ہمیں بخشی ہے، وہ اسی لیے ہے کہ ہم اپنے اختیار سے اس کی اطاعت و بندگی کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیں تو وہ ہر حال میں برائیوں سے بچنے اور اچھائیوں کے اختیار کرنے کی فکر کرے گا۔ ایسے لوگ ہر طرح کی اچھائیوں کا کام کریں گے لیکن اس لیے نہیں کہ ان کو دنیا میں نام و نمود حاصل کرنے کا شوق ہے یا ان کے ذریعہ اپنا کوئی کام نکالنا چاہتے ہیں، بلکہ محض اس لیے کہ ان کے خالق نے ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اس کے حکم پر عمل کرنے میں ان کو آخرت کی بھلائیاں نصیب ہوں گی۔ ایسی ہی لوگ ہیں جن کا حال قرآن مجید میں بتایا گیا ہے:
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا. وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا. إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّـهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا.
(اپنی منتوں کو پوراکرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں تکالیف ہر طرف پھیلی ہوئی ہوں گی اور وہ اللہ کی محبت میں مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم تمھیں صرف اللہ کی خوشی کے لیے کھانا کھلاتے ہیں تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ کسی شکر گزاری کے طلب گار ہیں۔ سورۃ الانسان، آیت: ۷ تا ۹)
اور یہ لوگ برائیوں سے بالکل دور دور رہیں گے۔ اس لیے نہیں کہ ان کو بدنامی کا یا پولیس کی دھر پکڑ کا اندیشہ ہوگا کیوں کہ اس اندیشے کے تو سو علاج ممکن ہیں، بلکہ محض اس لیے کہ اللہ کی نگاہیں ان کو دیکھ رہی ہیں اور جو کچھ کریں گے اس کا انجام ان کے سامنے آئے گا۔
قرآن مجید میں ایک موقع پر دو بھائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں سے ایک بھائی حسد میںمبتلاہوکر اپنے دوسرے بھائی کو قتل کرنا چاہتا ہے لیکن دوسرا بھائی محض اللہ اور آخرت کی باز پرس کے خوف سے اس پر کوئی دست درازی کرنے سے ڈرتا ہے:
لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ. إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ
(اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور اس طرح دوزخی بن کر رہے۔ ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے۔ سورۃ المائدۃ، آیت: ۲۸ اور ۲۹)
اور یہی نہیں کہ آخرت سے ڈرنے والے برائیوں میں عملاً حصہ نہیں لیں گے بلکہ اگر یہ خوف پوری قوت سے انسان کے دل میں جم جائے تو وہ برائی کا خیال بھی نہیں کرسکتا کیوںکہ:
وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّـهُ
(جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے، چاہے تم اسے ظاہر کرو یا چھپا لو اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ سورۃ البقرۃ، آیت: ۲۸۴)
اس اندیشہ سے وہ برے خیالات سے بھی گھبرائے گا اور اگر کبھی برے خیالات اس کے دل میں آئیں گے بھی تو وہ انجام کا تصور کرکے ان کو دور پھینک دے گا۔
إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ
(اور و ہ لوگ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں جب شیطان کا کوئی وسوسہ ان کے دل میں آتا ہے تو وہ چوکنّے ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد ان کا راستہ ان پر روشن ہوجاتا ہے۔ سورۃ الاعراف، آیت: ۲۰۱)
غرض اللہ پر ایمان اور قیامت کا یقین ہی نیکی کی بنیادیں ہیں۔ جب تک یہ دل میں پیدا نہیں ہوں گی، آدمی بے ایمانی، دغا بازی، رشوت، فریب اور جھوٹ وغیرہ سے بچ نہیں سکتا اور ان کے مقابل کی اچھی صفتوں کو اختیار کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصلاح کرنے آتے ہیںتو سب سے پہلے وہ انھیں بنیادی باتوں کو پیش کرتے ہیں اور ان کو ہر شخص کے دل میں بٹھلانے کی کوشش کرتے ہیں، چناں چہ جب یہ باتیں دل میں بیٹھ جاتی ہیں تو ہر طرح کی برائیاں اس طرح مٹ جاتی ہیں گویا وہ تھیں ہی نہیں۔ ہماری تاریخ میں جو اچھا زمانہ گزرا ہے اور اس میں جو اچھے لوگ پیدا ہوئے تھے وہ انھیں باتوں پر ایمان لانے کی وجہ سے اچھے ہوئے تھے۔ آج بھی اگر ہم اچھے بنناچاہتے ہیں تو خدا کا خوف اور آخرت کی جواب دہی کا اندیشہ ہر وقت ہمارے دل میں ہونا چاہیے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ حالت بھی بدلے اور اس میں نیکی اور بھلائی پھیلے تو ہمیں دوسروں کو بھی انھیں باتوں کی دعوت دینی چاہیے۔
(بشکریہ الحسنات، آخرت نمبر،1951ء)