زخم ایسا کہ جس کے داغ مٹ نہیں سکتے
بنگال میںایک شخص کا بیوی پرسفاکانہ تشددجہالت اور اسلام سے دوری کا نتیجہ
بازغہ قمر مرزا نجیب اقبال
خاندان، معاشرے کی بنیاد ہے۔ اور اسی خاندانی نظام کو حسن و خوبی سے چلانے کے لیے ازدواجی تعلقات کا خوشگوار ہونا لازم و ملزوم ہے۔
رشتۂ ازدواج میں شوہر اور بیوی کے تعلقات، جس قدر محبت، شفقت، اعتماد، ہم آہنگی کے جذبات پر استوار ہوں گے، خاندان اسی قدر خوش و خرم مضبوط اور مستحکم ہو گا۔ تاہم بدقسمتی سے معاشرے میں گھریلو تشدد یا خواتین کے ساتھ مار پیٹ ہونے کا معاملہ ہمیشہ سے ہی ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ خواتین کا جسمانی، جنسی، نفسیاتی اور معاشی استحصال کا شکار ہونے سے نہ صرف ایک قیمتی جان کا زیاں ہوتا ہے بلکہ اس سے پورا خاندان متاثر ہوتا ہے۔ ابھی ہمیں ’’ھادیہ ای میگزین‘‘ کے گزشتہ شمارے میں گھریلو تشدد کے اعداد و شمار’’ عکس ہادیہ‘‘ سے معلوم ہوئے ہی تھے کہ ان میں ایک اور تشدد کے واقعے کا اضافہ ہو گیا۔
7؍جون2022 ءکومغربی بنگال میں ایک شخص نے اپنی بیوی کا ہاتھ کلائی سے کاٹ دیا تاکہ اسے ریاستی سرکاری نرسنگ کی نوکری میں شامل ہونے سے روکا جاسکے۔شوہر کا نام شیر محمد ہے جو مشرقی بردوان ضلع کے کیتوگرام کا رہنے والا ہے اور متاثرہ اس کی بیوی رینو خاتون ہے۔
ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ 2017 ءمیں خاتون نے شیر محمد سے شادی کی، 2018 ءمیں، خاتون نے نرسنگ کورس میں داخلہ لیا اور مغربی بردوان کے درگا پور میں واقع ایک پرائیویٹ نرسنگ ہوم میں ملازمت حاصل کی۔ بعد میں، اس نے اپنے شوہر کی خواہش کے خلاف سرکاری ملازمت کے لیے درخواست دی۔اس سال خاتون کو سرکاری ملازمت کے لیے نامزد کیا گیا، جس کے بعد جوڑے کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا۔
اور ایک روز شوہر نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اپنی بیوی کا ہاتھ کلائی سے الگ کردیا۔ اور اس ہاتھ کو چُھپا دیا تاکہ ڈاکٹر سرجری کے ذریعے ہاتھ واپس جڑا نا سکے۔ واقعہ کے بعد سے شوہر مفرور ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ چونکہ شیر محمد خود بے روزگار تھا اس لیے اسے خدشہ تھا کہ سرکاری نوکری ملنے کے بعد اس کی بیوی اسے چھوڑ دے گی۔
اس حادثہ کے بعد متاثرہ خاتون کی مدد کے لیے بنگال کی وزیر اعلٰی ممتا بینرجی نےمدد کا وعدہ کیا اور متاثرہ خاتون کو سرکاری ملازمت کے لیے نامزد بھی کیا گیا۔ جسکے بعد متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ میرے شوہر نے میری کلائی کاٹی ہے۔ لیکن میرے حوصلے کو نہیں توڑ سکا۔
تشدد کے بڑھتے واقعات: سبب اور اسباب
اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پرفرض ہے۔(سنن ابن ماجہ)۔
چونکہ غربت عام ہوگئی ہے۔ اور ہر انسان کسبِ معاش کی فکر میں مبتلاء ہے۔ اس لیےحصولِ علم اور فروغ علم میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے جہالت فروغ پارہی ہے۔ اسی وجہ سے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی ہورہی ہے، جس کا نتیجہ گھریلو تشدد ہے۔خدا خوفی ختم ہوجائے تو اخلاقی زوال بڑھ جاتا ہے۔ احساس جواب دہی آج کے دور میں بالکل ہی ختم ہوگئی ہے۔ اور لوگ اس بات سے بےخوف ہو چکے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی کے پاس ہر عمل کا حساب دینا ہے۔
شوہر تشدد اسی وقت اپنی بیوی پر کرسکتا ہے جب وہ جوابدہی کے احساس عاری ہو ۔اسلام پراعتراض کا موقع ایسے ہی متشدد مرد دیتے ہیں ۔یہ خام خیالی ہے کہ بیوی آپ کی ملکیت اور جاگیر ہے ،وہ اپنا پورا وجود رکھتی ہے، اسلام نے اسے اپنی صلاحیتوں کے ساتھ جینے کی آزادی دی ہے۔ خواتین اکثر شوہر،ساس اور دیگر سسرالی رشتےداروں کے ذریعے ذہنی وجسمانی تشددکانشانہ بنتی ہیں ،جس کی اکثر وجوہات مردوں کا احساس برتری، معاشی و خاندانی نابرابری اورافراد خاندان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی کانہ ہوناہے۔
گھریلو تشدد کے پیچھے مرد کی یہ نفسیاتی کیفیت بھی اہم رول ادا کرتی ہے کہ وہ عورت سے برتر ہے۔ یہ سوچ ہمارے اس فرسودہ سماجی روایت کے سبب ہے جو عورت کو بیوی کی شکل میں عزت واحترام نہیں دیتی اور اسے بے حیثیت فرد کی طرح تصور کرتی ہے، جس پر مرد کا مکمل اختیار ہے اور وہ اس کے ساتھ جیسا چاہے معاملہ کرسکتا ہے۔ جب سوچ ایسی ہو تو نتیجۃً یہ تشددقتل وغارت گری تک پہنچ جاتاہے، اور سنگین صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔
اللہ سبحان و تعالٰی سورہ نحل آیت نمبر90 میں ارشاد فرماتا ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ عدل اوراحسان اورصلہ رحمی کا حکم دیتاہے۔اوربدی اوربےحیائی اورظلم وزیادتی سےمنع کرتاہے۔وہ تمہیں نصیحت کرتاہے، تاکہ تم سبق لو۔‘‘
ان آیتوں میں انسانی زندگی کےکامیاب سنہرےاصول بتائےگئےہیں۔شوہرکواس بات کاحکم دیاگیاہےکہ اپنی بیوی کےساتھ عدل واحسان کامعاملہ کرے۔اس کاحق اداکرے اس پرمال خرچ کرے، لباس، رہائش، اور خوراک کاحسب استطاعت نظم کرے۔اپنی بیوی پر ظلم وتشدد نہ کرے۔یہ اس کی اخلاقی، قانونی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ یہی چیزیں خواتین سےبھی مطلوب ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے ماننے والے اپنے اللہ اور اپنے رسولؐ کی ان تعلیمات کو خود بھی اپنی زندگی میں نافذ کرکے اپنے گھر کو ایک مثالی خاندان بنائیں اور عام انسانوں کی زندگیوں کو بھی ان تعلیمات سے روشن کرنے کی کوشش کریں تاکہ ایک پائیدار خاندان و معاشرہ وجود پا سکے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 جولائی تا 16 جولائی 2022