روسی آئین میں ایک صدی کے بعد خدا کی واپسی

جمہوریت کے نام پر عصر حاضر کے حکمرانوں کی من مانی !

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

خبر کو بننے کے لیے اس کا تھوڑا سا غیر معمولی ہونا لازمی ہے۔ عصرِ حاضر میں احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہی رہتے ہیں اس لیے خبر نہیں بنتے لیکن اگر وہ احتجاج اور مظاہرے روس میں ہو جائیں تو بہت بڑی خبر بن جاتے ہیں کیونکہ وہاں مخالفت ممنوع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مشرقی شہر خبرووسک میں جب ہزاروں لوگوں نے مقامی گورنر کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا تو ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔اپنے جنگلات کے لیے مشہور خبرووسک صوبہ چین کی سرحد کے قریب واقع ہے۔وہاں کے پرامن لوگ ماہی گیری کرتے ہیں ۔ یہ مظاہرے صوبے کے مقبول گورنر سرگی فرگل کو قتل کے الزام میں تفتیش کی خاطر اچانک گرفتار کیے جانے کے خلاف ہورہے ہیں اور پچھلے 10دنوں سے جاری ہیں۔ ان مظاہروں میں’پوٹن چور ہے‘ والا نعرہ ’چوکیدار چور ہے‘ کی یاد دلاتا ہے۔ خبارووسک کے مظاہرین زیر حراست گورنر کی اسی طرح تعریف کرتے ہیں جیسے دلی والے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی۔ سرگی فرگل نے بھی گزشتہ دو سالوں میں عوامی فلاح وبہبود کے بہت سارے کام کیے مثلاً ہوائی جہاز کا کرایہ کم کرنا اورطلبا کے لیے مفت کھانا فراہم کرنا وغیرہ ۔ اس دوران سرکاری دفاتر کی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا گیا اس سے گورنر کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا ۔

سن 2018کے اندر پوٹن کی سیاسی جماعت یونائیٹڈ رشیاپارٹی کو شکست فاش سے دوچار کرکے سیرگئی فُرگل نے گورنری کا منصب سنبھالا تھا ۔ کریملن کے حلقوں کو یہ شکست ہضم نہیں ہوئی۔ اس لیے صوبائی دارالحکومت کوخبارووسک سے ولاڈی ووسٹک منتقل کر دیا گیا۔ اس فیصلے نے مقامی باشندوں کو ناراض توکیا مگر انہوں نے اس کو برداشت کر لیا لیکن جب گورنر سیرگئی فُرگل پر پندرہ سال قبل دوتاجروں کو قتل کرنے کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا تو ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کے خیال میں یہ من گھڑت الزام سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں ہے۔50سالہ گورنر کا تعلق نیشنلسٹ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ 7 مشرقی صوبوں میں اسی سیاسی جماعت کی حکومت ہے۔ ویسے عموماً یہ پارٹی سرکاری پالیسی کی مخالفت نہیں کرتی اس کے باوجود امیت شاہ کے نقش قدم پر چلنے والے پوٹن نے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے چھٹکارا پانے کے لیے یہ حماقت کر دی اور اس بار راجستھان کی طرح ان کا اندازہ چوک گیا ۔صدر پوٹن اب محتاط ہوگئے ہیں انہیں اندیشہ ہے کہ کہیں یہ آگ ملک کے دیگر علاقوں تک نہ پھیل جائے۔

ماضی میں ایک جاسوس کے طور پر کام کرنے والے گمنام ولادمیر پوٹن نے دو دہائیوں قبل روسی صدر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی ایک دن ان کا شمار روس کے طاقت ور ترین صدور میں ہوگا۔ یہ حسن اتفاق ہے ایک زمانے کا سپر پاور روس سنہ 1998میں دیوالیہ ہو گیا تھا۔ 1999 کے پہلے دن روس کے صدر بورس یلتسن نے استعفیٰ دے کر خفیہ ایجنسی ایف ایس بی کے سابق اہلکار پوٹن کو اپنا جانشین بنا دیا تھا۔ اس روز اپنے خطاب میں پوٹن نے کہا تھا ’’نئے سال کے موقع پر خواب تعبیر ہونے جا رہے ہیں۔ روسی قوم ایک نئی صدی میں داخلے کے لیے تیار ہو جائے‘‘۔پوٹن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنائیں گے۔ اس وقت روس کے سامنے پرتگال ایک رول ماڈل تھا اس لیے اس سے برابری کا عہد کیا گیا تھا۔ پرتگالی عوام کے برابر کی فی کس جی ڈی پی کرنے کا وعدہ 15 سال بعد سنہ 2013ء میں پورا ہو گیا۔ صدارتی منصب پر فائز ہونے سے قبل ایک مضمون میں پوٹن نے لکھا تھا ’’یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ روس اہم عالمی طاقت نہیں رہا۔‘‘انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ روس کو ایک بار پھر عالمی اسٹیج پر واپس لایا جائے گا اور اسے بھی پوٹن نے پورا کر دیا۔ امریکا اور مغربی دنیا کی سخت پابندیوں اور جی8 سے نکالے جانے کے باوجود روس نے اپنی حیثیت منوالی۔ صدر پوٹن نے روس کو ایک مضبوط ریاست بناکر عسکری اور صنعتی شعبوں کو نئے خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں آج کا روس سنہ 2000 کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔

پوٹن کا سیاسی سفر خاصا دلچسپ ہے۔ 1999 سے 2000 تک وہ قائم مقام صدر رہے اس کے بعد باقاعدہ صدر بنے اور سنہ 2004 کے الیکشن میں پھر سے منتخب ہوئے۔اس کے بعد چونکہ دوبارہ منتخب ہونے کی اجازت آئین میں نہیں تھی اس لیے 2008 سے 2012 تک وہ روس کے وزیر اعظم بن گئے۔ اس دوران صدارت کی ذمہ داری اپنے دست راست دمتری میدیدوف کے سپرد کردی ۔ اس کے بعد 2012 اور 2018 میں بھی صدر منتخب ہو گئے۔ 2008 کے بعد انہوں نے صدارت کے عہدے کی میعاد 4 سے بڑھا کر 6 سال کر دی تھی۔ اب انہوں نے نئی آئینی اصلاحات نافذ کر کے اپنے راستے کی رکاوٹ مستقل طور پر دور کر دی اور سنہ 2036 تک اقتدار میں رہنے کی راہ ہموار کر لی۔ اپنی مدت کار کی توسیع کے لیے منعقد کیے جانے والے استصواب میں کامیابی کے لیے پوٹن نے قومی جذبات بھڑکانے کی خاطر دوسری عالمی جنگ میں جان قربان کرنے والے دو کروڑ ستر لاکھ شہریوں اور فوجیوں کی قربانی کو یاد کیا۔ انہوں روسی قوم کے لیے اسے ایک ’’مقدس یادداشت‘‘ قرار دیا۔

روس میں ہرسال ۹ مئی کو ان کی یاد میں’’وکٹری ڈے پریڈ‘‘ کی تقریبات کا انعقاد ہوتاہے ۔ امسال کورونا کے سبب اس کو ۴۰ دنوں کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔ اس کے باوجود 25 جون 2020 کو فوجی پریڈ کا انعقاد ایک غیرذمہ دارانہ حرکت قرار دی گئی۔ کیونکہ اس وقت کورونا وائرس بے قابو ہو چکا تھا اور روس کے اندر اوسطاً روزانہ 8ہزار افراد کورونا وائرس کے چنگل میں پھنس رہے تھے۔ کورونا وائرس کے معاملے میں عالمی سطح پر امریکہ، برازیل اور ہندوستان کے بعد روس چوتھے مقام پر ہے۔ دستوری ترمیمات پر استصواب سے صرف ایک دن پہلے اس تقریب کو منعقد کرنا صدر ولادیمیر پوٹن کا سیاسی ماسٹر اسٹروک تھا۔ قوم پرستی کے الاؤ پر اقتدار کی روٹیاں سینکنا موجودہ جمہوریت میں عام ہو گیا ہے۔ الیکشن جیتنے کے لیے اسرائیل میں غزہ پر حملہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان پر ہندوستان ائیر اسٹرائیک کر دیتا ہے۔ امریکی حکمراں ایران، عراق یا ایران سے جنگ چھیڑ دیتے ہیں۔ روس کے اندر کیے جانے والے جائزے صدر پوٹن کی مقبولیت میں کمی کا اشارہ دے رہے تھے اس لیے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے انہیں یہ حربہ استعمال کرنا پڑا اور وہ مودی جی کی مانند مطلوبہ مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

آئینی ترامیم منظور ہو جانے کے بعد اب پوٹن مزید 16 سال اقتدار میں رہ سکیں گے۔ موجودہ سیاست میں ایسا سربراہِ مملکت کہاں ہے کہ جو کہہ دے کہ اب بس ہوگیا مجھے اجازت دیجیے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اسرائیل کا وزیر اعظم نتن یاہو ہے جس نے یکے بعد دیگرے تین انتخابات کروائے۔ ملک کو انارکی کا شکار بنا دیا مگر اپنی کرسی سے جونک کی مانند چپکا رہا اور پھر سے ڈھائی ڈھائی سال کے فارمولے پر پہلے خود اقتدار سنبھال لیا۔ ویسے اب بھی اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ اپنے عہد کی پاسداری کرے گا۔ صدر پوٹن نے مودی کی طرح اپنے سارے مخالفین کا صفایا کر دیا ہے۔ روس کی عوام کو اب ان کا کوئی سیاسی حریف سجھائی ہی نہیں دیتا اس لیے اگر آئندہ انتخابات میں بھی اسی طرح کامیاب ہوتے رہے تو اُس وقت تک ان کی عمر 83سال ہو جائے گی۔ عصر حاضر کے سیاستداں نہ تو مرنا چاہتے ہیں اورنہ اقتدار کو چھوڑنا چاہتے ہیں ۔ان کے بس میں ہو تو یہ وصیت کر کے جائیں کہ انہیں کرسی سمیت قبر میں اتارا جائے۔ یہ لوگ ناگزیر مجبوری کے بغیر اقتدار نہیں چھوڑتے۔

آئینی ترمیمات کا مقصد صرف مدت کار میں توسیع نہیں بلکہ اختیارات میں بے شمار اضافہ بھی تھا۔ روس کا صدر ہندوستان کی مانند محض ربر اسٹامپ نہیں ہے۔ سربراہ مملکت کی حیثیت سے وہ وسیع تر اختیارات کا مالک ہوتا ہے اور اب نئی تبدیلیوں نے ان اختیارات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ وہ تو پوٹن کی شرافت ہے کہ وہ اختیار کی توثیق کرواتے ہیں ورنہ ہمارے حکمراں تو اسے بلا تکلف ہتھیا لیتے ہیں۔ ترمیم شدہ آئین میں چونکہ صدر کو ’عام معاملات میں حکومت کو ہدایت‘ دینے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے لہٰذا اطاعت گزار ایوان پارلیمان کا کام اب صرف صدارتی احکامات کی انجام دہی رہ جائےگا۔ حد تو یہ ہے کہ ان ترمیمات کے بعد وزیر اعظم کو ایوان پارلیمان کے ارکان منتخب نہیں کریں گے بلکہ صدر اس کا نام تجویز کرے گا۔ ظاہر ہے صدر تجویز کردہ وزیر اعظم کو معزول کرنا بھی اسی دائرۂ اختیار میں ہوگا۔ اس لیے جب مرضی ہو جس کو چاہے گا کٹھ پتلی کی مانند لائے گا اور ہٹائے گا۔

روس میں اب وزیر اعظم کی حیثیت ہمارے ملک کے صدر مملکت کی سی ہو جائے گی۔ ہندوستان کے اندر اگر ایوان پارلیمان کسی آرڈیننس کو دوبار منظور کرکے صدر کو توثیق کے لیے بھیجے تو صدر پر دستخط کرنا لازم ہو جاتا ہے ورنہ بغیر دستخط کے بھی وہ قانون بن جاتا ہے۔ روس میں اس کے بالکل متضاد صورتحال ہو گی۔ اس نئے قانون کے مطابق عوام کے ذریعے منتخبہ روس کی ایوان پارلیمان اگر صدر کی جانب سے نامزد کردہ امیدوار کو تین مرتبہ مسترد کر دے تو صدر کو اس کے تقرر کا اختیار مل جائے گا۔ اسی طرح کابینہ کو تحلیل کیے بغیر قومی صدر کی مرضی نافذ العمل ہو جائے گی ۔ کابینہ کے ارکان بشمول وزراء وزیر اعظم کے بجائے براہ راست صدر کو جواب دہ ہوں گے۔ پوٹن نے اس بار عدلیہ کی بھی نکیل کسنے کا بندو بست کر لیا ہے۔ حالیہ ترمیم میں صدر کو سپریم کورٹ کے ججوں کو خود ساختہ ’وفاقی کونسل‘ کی منظوری کے بعد بر طرف کرنے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ وطن عزیز میں بظاہر عدلیہ خود مختار ہے لیکن کپل مشرا کے خلاف فیصلہ سنانے والے جج مرلی دھر کو راتوں رات ہٹا دیا جاتا ہے اور کسی کان پر جوں نہیں رینگتی ۔ مزاحمت کرنے والے جج لویا کو عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ رنجن گوگوئی سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروانے کے بعد کھلے عام نوازا جاتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے پوٹن بلاوجہ آئین میں تبدیلی کی زحمت کر رہے ہیں۔ ہندوستان جیسی عظیم جمہوریت میں تو بغیر کسی ترمیم کے یہ سب ہوتا رہتا ہے۔ وطن عزیز میں وزیر اعظم کے اختیارات کا یہ عالم ہے کہ اب تو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سی وزارت کا قلمدان کس کے پاس ہے۔ ساری وزارتیں عملاً وزیر اعظم دفتر کے ماتحت ہو گئی ہیں۔ مختلف وزارتوں سے مشورہ کیے بغیر وزیر اعظم اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں۔ نہ تو نوٹ بندی کے لیے وزیر خزانہ سے مشورہ کیا جاتا ہے اور نہ کشمیر میں صدر راج نافذ کرنے کے لیے وزیر داخلہ سے پوچھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ لاک ڈاون کا اعلان بھی متعلقہ وزارتوں سے صلاح و مشورے سے نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ ایسے فیصلوں سے قبل تو حزب اختلاف کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ چین کے حملے پر بھی ایوان پارلیمان کا خصوصی اجلاس ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ مودی ہو یا پوٹن، ٹرمپ ہو یا نتن یاہو ہر کوئی جمہوریت کے نام پر من مانی کر رہا ہے۔

وطن عزیز میں وزیر اعظم کے اختیارات کا یہ عالم ہے کہ اب تو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سی وزارت کا قلمدان کس کے پاس ہے۔ ساری وزارتیں عملاً وزیر اعظم دفتر کے ماتحت ہو گئی ہیں۔ مختلف وزارتوں سے مشورہ کیے بغیر وزیر اعظم اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں۔ نہ تو نوٹ بندی کے لیے وزیر خزانہ سے مشورہ کیا جاتا ہے اور نہ کشمیر میں صدر راج نافذ کرنے کے لیے وزیر داخلہ سے پوچھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ لاک ڈاؤن کا اعلان بھی متعلقہ وزارتوں سے صلاح و مشورے سے نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ ایسے فیصلوں سے قبل تو حزب اختلاف کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ چین کے حملے پر بھی ایوان پارلیمان کا خصوصی اجلاس ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ مودی ہو یا پوٹن، ٹرمپ ہو یا نتن یاہو ہر کوئی جمہوریت کے نام پر من مانی کر رہا ہے۔

 

پوٹن کی ان آئینی ترمیمات نے روس کے ہمسایہ یوکرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس لیے کہ اب روس پر بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلوں کی پابندی لازمی نہیں رہی۔ یعنی وہ اپنے لیے ہر ’نقصان دہ‘ فعل کو آئین کے سہارے مسترد کرنے کا حقدار ہوتا رہے گا۔ اس طرح مستقبل میں روس کے اندر بین الاقوامی قوانین کی اہمیت ختم ہو گئی ہے۔ اس خطرناک صورتحال کا اندازہ اس مثال سے لگائیں کہ سن 2014 میں روسی فوج نے مشرقی یوکرین کی حدود میں ملیشیائی ایئر لائن کی پرواز MH17 کو مار گرایا تھا جس کے نتیجے میں اس جہاز میں سوار 298 مسافر ہلاک ہوگئے تھے۔ اس معاملے میں عالمی عدالت کا فیصلہ قبول کرنا اب ماسکو پر لازمی نہیں ہے۔ فی الحال یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت (ای سی ایچ آر) میں روس کے خلاف قانونی چارہ جوئی چل رہی ہے۔ آئین میں ترمیم کے بعد روس ’ای سی ایچ آر‘ کے کسی بھی فپصلے کو تسلیم نہیں کرے گا۔ تاہم روسی شہریوں کے لیے بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کا حق برقرار رہے گا۔ یعنی روسی دوسروں کو سزا دلانے کے مجاز تو ہیں لیکن خود اپنے آئین کی آڑ میں تعذیب سے محفوظ کر دیے گئے ہیں۔ عدل و انصاف کے نازک معاملے میں بھی یہ اندھیر نگری چونکہ عوام کی مرضی سے ہو رہی ہے اس لیے جمہوریت کی شریعت میں جائز و مستحب ہے۔ الہامی معیار حق سے محرومی انسانوں کی اس عظیم حماقت کو بھی خوشنما بنا دیتی ہے۔

سیاسی نقطۂ نظر سے ہٹ کر دیکھیں تو روس کے منظور شدہ آئینی ترمیمات کا روشن پہلو خدا کے وجود کو تسلیم کیا جانا ہے۔ سرد جنگ کے دوران اور بعد بھی روس اور مغربی دنیا کے اندر تمام تر اختلاف کے باوجود خدا کے تصور کی بابت کمال اتفاق رائے رہا ہے۔ ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار خدا کی موت کا اعلان کرتے رہے اور دوسری جانب اشتراکی دانشور خدا کا مذاق اڑاتے رہے۔ معروف فلسفی نطشے نے کہا ’’خدا مرگیا ہے‘‘ مسولینی نے تو خدا کو دھمکی دے دی تھی کہا اگر تو کہیں موجود ہے تو مجھے مار کر دکھا۔ امریکی صدر جان ایف کینی ڈی نے یہ مضحکہ خیز اعلان کیا تھا کہ :’’امریکہ خدا کا ایجنٹ ہے اور اس کے پاس خدا جیسی صلاحیتیں ہیں۔‘‘ (نعوذ باللہ من ذالک)۔ یووالنواح حراری نے انسان کو خدا بنانے کی کوشش کرتے ہوئے موت پر سوالیہ نشان لگا کر جنت اور جہنم کی ضرورت کا انکار کر دیا تھا۔ اسی کے ساتھ سوویت یونین کےصدر نیکتا خروشچیف نے خلائی سفر کے بعد فرمایا ’’یوری گگارین نے خلا میں جا کر ہر طرف دیکھا مگر اسے کہیں خدا نظر نہیں آیا۔‘‘ اس سے قبل لینن کہہ چکا تھا: ’’تمہاری طرف خدا ہے جو قدامت پسند ہے میری طرف شیطان ہے جو بہت اچھا کمیونسٹ ہے‘‘ جوزف اسٹالن نے یہ کہنے کی جسارت کردی تھی کہ ’’ہم نہ اہلِ ایمان سے لڑ رہے ہیں نہ ملّاؤں سے بلکہ ہم خدا سے لڑ رہے ہیں تاکہ ہم اس سے اہلِ ایمان کو چھین سکیں‘‘ روس کے اندر الحاد کو فی الحال کورونا وائرس چھو گیا ہے اور وہ اس وقت وینٹی لیٹر پر عام نزع میں ہے۔

معاشرتی سطح پر دورِ جدید کی بہت بڑی گمراہی یعنی ہم جنس پرستی پر بھی استصواب کے دوران عوام کی رائے طلب کی گئی اور لوگوں نے اسے مسترد کر دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کے اندر پائے جانے والے جذبۂ خیر کو عارضی طور پر دبایا تو جا سکتا ہے لیکن مٹایا نہیں جا سکتا۔ لوگوں کے اندر غیر فطری فکر و عمل کے خلاف جلد یا بہ دیر بغاوت ہو جاتی ہے۔ ان ترامیم کے الفاظ قابلِ توجہ ہیں کہ مرد اور عورت کی شادی کا تعین خدا نے کیا ہے۔ اس لیے گویا خدا کی اطاعت میں اس فعل قبیح سے اجتناب کیا جائے گا۔ روسیوں کی اکثریت آرتھوڈوکس عیسائیوں کی ہیں لیکن سرکاری طور پر وہ بے دین ریاست ہے۔ یہ آئینی ترمیمات 70 فیصد عوام کی غالب اکثریت سے منظور ہوئی ہیں۔ اس کے بعد ابھی روسی صدر ولادیمیر پوٹن پوری طرح بے فکر بھی نہیں ہوئے تھے کہ 2036 تک کوئی خطرہ نہیں ہے کہ خبرووسک کے زبردست احتجاج نے ان کی نیند اڑا دی ہے۔خیر پوٹن سے مشیت ایزدی اپنا کام لے چکی ہے اب اس کا انجام کسی اہمیت کا حامل نہیں رہا۔ ایسے میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت کے قتل پر قرآنی تبصرہ یاد آتا ہے ’’اگر اللہ تعالیٰ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اس طرح دفع فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے)‘‘۔ اقتدار کے لیے اٹھا پٹخ کرنے والے ولادیمیر پوٹن اور نریندر مودی جیسے حکمراں نہ جانے کیوں راحت اندوری کے اس شعر کو بھول جاتے ہیں ؎

جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے

کرایہ دار ہیں، مالک مکان تھوڑی ہیں