حضرت ابراہیمؑ :ایثاروقربانی کی مثال لازوال

حافظ ہاشمی مصباحی،جھارکھنڈ

 

انبیاء کرام کی تاریخ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ آپ کے کردار کا تذکرہ دنیا کی تمام معروف کتابوں میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ دنیا کا کون سا خطہ ایسا ہے جہاں کے مسلمان ، یہودی اور عیسائی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے واقف نہ ہوں اور انہیں اپنا پیشواورہنما نہ مانتے ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد ﷺ ان ہی کی اولاد میں سے ہیں۔ ان ہی کی پھیلائی ہوئی روشنی سے دنیا روشن ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ۶۷بار آیا ہےاورایک سورۃ کا نام ہی ’’ابراہیم‘‘ ہے۔ آپ کے کردار کو قرآن مجیدمیں ایک مثالی کردار کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃُٗ حَسَنَۃُٗ فِیٓ اِبْرَا ہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ ترجمہ : تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔
(القرآن ، سورہ ممتحنہ ۶۰، آیت ۴) اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے بنیادی کام ہیں جن کی بنا پر سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو مثالی زندگی کے نام سے پیش کیا اور انہیں رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے رہنما اور پیشوا کی حیثیت سے منتخب کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ سے تاجِ امت کی سند ملی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الآخِرِیْنْ(۱۰۸) اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔سَلٰمُٗ عَلٰی اِبْرَاہِیْم(۱۰۹) سلام ہو ابراہیم پر۔کَذٰلِکَ نَجْزِ الْمُحْسِنِیْن (۱۱۰) ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِ نَا الْمُؤمِنِیْن(۱۱۱) بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔
(القرآن سورہ الصّٰفّٰت، آیت ۱۰۸ سے ۱۱۱)
دوسری سند کا اعلان قرآن فرما رہا ہے۔ وَاِذَابْتَلٰی اِبْرَاہِیْمَ رٖبَّہٗ بِکَلِمٰٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّط قَالَ اِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاط ترجمہ: ابراہیم کو اس کے رب نے کچھ باتوں میں آزمایا تو اس نے ان کو پورا کر دکھایا ۔ خدانے کہا تم کو لوگوں کا پیشوا وامام بنانے والا ہوں۔(القرآن سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۲۴)دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے ۔اور یاد فرماؤہمارے (مقبول) بندوں ابراہیم، اسحٰق اور یعقوب کو ،بڑی قوتوںو الے اور روشن دل تھے۔ ہم نے مختص(خاص) کیا تھا انہیں ایک خاص چیز سے اور وہ دارِ آخرت کی یاد تھی اور یہ (حضرات) ہمارے نزدیک چنے ہوئے بہترین لوگ ہیں۔ اور یاد فرماؤ اسمٰعیل، یسع اور ذی الکفل کو ۔ یہ سب بہترین لوگوں میں سے ہیں ۔اور یہ نصیحت ہے اور بے شک پرہیز گاروں کے لیے بہت عمدہ ٹھکانہ جنت ہے۔(القرآن سورہ ص ،آیت ۴۴تا ۴۹)حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل ِپاک کا ذکر خیر ہورہا ہے۔ یہ حضرات بڑی قوتوں والے تھے۔ ان کو جسمانی قوتوں کے ساتھ ساتھ یقین کی قوت ، اعمال صالحہ بجا لانے کی قوت اور روحانی قوت عطا فرمائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ انہیں دین کی بصیرت و معرفت الٰہی بھی عنایت کی گئی تھی۔
پوری سیرت ابراہیم علیہ السلام پر غور کرنے سے آپ کے بہت سے اہم کارنامے اور قربانیاں سامنے آتی ہیں۔ چند ملاحظہ فرمائیں۔
توحید کی دعوت:
سب سے بڑی قربانی اور اہم کارنامہ آپ کا عقیدہ توحید کی دعوت دینا ہے۔ آپ نے شرک کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں توحید کی مشعل روشن کی اور توحید کا ایک فیصلہ کن نظریہ پیش کیا ۔ ساڑھے چارہزار برس سے زیادہ مدت گزر چکی ہے جب توحید کا علمبردار، خدائے واحد کا پیغامبر ،ابو الانبیا ء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرزمین عراق میں آنکھیں کھولیں۔ اس وقت پوری دنیا خدائے واحد کو بھول کر سینکڑوں معبودوں کی پرستش کررہی تھی۔ وہاں کے لوگ سورج، چاند کے علاوہ تاروں کو بھی دیوتا اور معبود مانتے تھے تو آپ نے سب سے پہلے تارے کو نشانہ بنایا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ الَّیْلُ رَاٰکَوْکَباً ج قَالَ ہٰذَا رَبِّی ج ترجمہ: پھر جب ان پر رات کا اندھیرا آیا ایک تارا دیکھا ۔ بولے اسے میرا رب ٹھہراتے ہو۔ پھر جب وہ ڈوب گیا تو آپ نے کہا اگر ہدایت نہ دیتا مجھے میرا رب تو ضرور ہو جاتا میں بھی اس گمراہ قوم سے۔ (۷۵)فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَتً قَالَ ھٰذَا رَبِّی ھٰذَا اَکْبَرْج فَلَمَّا اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّی بَرِیْ ئُٗ مِمَّا تُشْرِکُوْن ترجمہ: پھر جب دیکھا سورج کو جگمگاتے ہوئے(تو) بولے کیا یہ میرا رب ہے(؟) یہ تو ان سب سے بڑا ہے لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو آپ نے فرمایا اے میری قوم ، میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جنھیں تم شریک ٹھہراتے ہو۔(۷۶)اِنِّی وَجَّہْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن(۷۹)ترجمہ: بے شک میں نے پھیر لیا ہے اپنا رخ اس ذات کی طرف جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کویکسو ہوکر اور میں مشرکوں میں نہیں ہوں ۔ حقیقی رب وہ ہے جو مجھے ہر باطل سے بچا کر راہِ حق پر چلا رہا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دلائل کے سامنے وہ لاجواب ہوگئے تو پھر آپ سے جھگڑا کرنے لگے اور زبردست تکلیف دینے لگے۔ اُر کے لوگ تقریباً پانچ ہزار خداؤں کی پوجا کرتے تھے۔ تفصیل کے لیے مطالعہ کریں سر لیونارڈ وولی( Sir Leonard Woolly) کی کتاب ابراہیم(Abraham) جوکہ لندن میں ۱۹۳۲؁ میں شائع ہوئی ہے۔
پھر آپ نے ان کو زبردست منھ توڑ جواب دیا جو قرآن کے لفظوں میں اس طرح موجود ہے: اس کی قوم ابراہیم سے جھگڑنے لگی۔ اس نے قوم سے کہا کیا تم لوگ اللہ کے معاملہ میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ اس نے مجھے راہِ راست دکھائی اور تمھارے ٹھہرائے ہوئے خداؤں سے نہیں ڈرتا۔ ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو وہ ضرور ہوسکتا ہے۔ میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے پھر کیا تم ہوش میں نہیں آؤگے۔ (القرآن ،سورہ الانعام ،آیت ۸۰،۸۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھاتے رہے لیکن ان لوگوں کے ذہنوں سے دیوی دیوتاؤں کا ڈر نہ نکل سکا۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ ان کی شان میں بے ادبی کرنا اپنی بربادی مول لینا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صاف صاف بتادیاکہ ان کو تو تم اپنے ہاتھ سے بناتے ہو۔ یہ خود تمھارے محتاج ہیں نہ کہ تم ان کے محتاج۔ ان میں اپنی حفاظت کرنے کی سکت تو ہے نہیں، تم کو کیا نقصان یا نفع پہنچا سکتے ہیں ۔ اس اعلانِ توحید کے بعد آپ کو بہت سی آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا۔ جلا وطنی جیسی آزمائش سے بھی آپ گزرے۔
وادیِ بے آب و گیاہ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کارناموں اور قربانیوں میں یہ بھی قابلِ عبرت ہے کہ آپ اللہ کے حکم سے اپنی بیوی اور بڑھاپے میں اکلوتے بیٹے کو ایسی سرزمین میں رکھا جہاں نہ تو بظاہر انسان تھے اور نہ ان کی ضروریات کا سامان تھا۔ ایک وادی غیر ذی زرع تھی جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ سنسان وادی تھی۔ لیکن اب دنیا کے تمام انسانوں کی نگاہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔ یہ شہر مرکز رشدو ہدایت ہے۔ سال میں ایک بار بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا ایک عظیم الشان اجتماع ہوتا ہے اور لبیک اللھم لبیک کی صدائیں فضا میں گونجتی ہیں۔ یہ شادوآباد شہر اور شاد وآباد وادی جو کبھی بے آب و گیاہ کے نام سے موسوم تھی اب دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خلوص ،ان کی تگ و دواور راہِ خدا میں آزمائش کا بہترین انعام اور نتیجہ ہے۔
بیٹے کی قربانی:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سب سے بڑا کارنامہ اور قربانی یہ ہے کہ اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کی خاطر انھوں نے اپنی زندگی کی سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب چیز اپنے اکلوتے لختِ جگر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی دی اور یہ بتا دیا کہ اللہ کے راستے میںہر چیز کی قربانی دی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ قرآن اعلان فرمارہاہے: تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچوگے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کروگے اللہ کو معلوم ہے۔(القرآن،سورہ آل عمران ،آیت ۹۲)
دوسری جگہ ارشاد باری ہے: اللہ کو قربانی کا گوشت ، قربانی کا خون نہیں بلکہ اخلاص و تقویٰ پہنچتا ہے ۔(القرآن سورہ الحج،آیت۳۷) یہ تقویٰ قربانی کا اصل جوہر ہے جو بندہ مومن کی زندگی میںہمیشہ نمایاں رہنا چاہئے ۔ قربانی اللہ کی عبادت ہے جس کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے ۔ امت محمدیہ کے علاوہ بھی سبھی امتوں پر قربانی واجب تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی مقرر فرمائی تاکہ وہ ذکر کریں اللہ کا اسمِ پاک ،ان بے زبان جانوروں پر ذبح کے وقت ،جو اللہ نے انھیں عطافرمائی ہیں۔ (سورہ الحج ،آیت ۳۳)حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا ذکر قرآن میںموجود ہے ۔ بلا جھجھک بیٹے نے بھی آمادگی ظاہر فرمادی ۔قَالَ یٰٓاَ بَتِ افْعَلْ مَاتُؤمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْشَآ ئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْن ترجمہ: (حضرت )اسمٰعیل علیہ السلام نے کہا ،ابّا جان ! آپ کو جو حکم دیاجارہا ہے اسے کر ڈالیے۔ آپ انشاء اللہ مجھے صابروں میں پائیں گے۔ (القرآن سورہ الصّٰفّٰت،آیت۱۰۲)
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے پوری آمادگی کے ساتھ اللہ کی راہ میں قربان ہونے کے لیے خود کو پیش کر دیا۔فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْن(القرآن سورہ الصّٰفّٰت،آیت ۱۰۳) ا ترجمہ: توجب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کوماتھے کے بل لٹایا۔اس وقت کا حال کوئی کیا بیان کراور لکھ سکتا ہے ۔ تفسیروں میں بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے۔ یہ بے شک کھلی آزمائش تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو بچالیا اور اس قربانی کابدلہ اورجزا عطا کیا۔ ملاحظہ ہو:بے شک تمھاری قربانی عظیم ہے اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ سلام ہو ابراہیم پر۔ ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔ تو بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوںمیں ہیں۔ یہی قربانی آج ہم سب پر سنت ابراہیمی کے طور پر واجب ہے۔ آقائے دو عالم ﷺ نے اپنے مدینہ طیبہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی دی اور صحابہ کرام کو قربانی دینے کا حکم فرمایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :قربانی کے دنوں میں آدمی کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے)سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے۔ بے شک وہ جانور قیامت کے دن آئے گا اپنی سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے مقامِ قبولیت میں پہنچ جاتاہے تو اسے خوشی سے کرو۔(ترمذی جلدایک صفحہ ۲۷۵)
اے امتِ محمدیہ جانوروں کی قربانی کا حکم صرف تمھیں ہی نہیں دیا گیا ہے بلکہ تم سے پہلے جتنی ہدایت یافتہ امتیں گزری ہیں ان سب کو یہ حکم دیا گیا ہے۔ حکمِ خداوندی اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان لوگوںکا بطلان ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ قربانی اسراف ہے ۔ اسلام اور علم دین سے ناواقف اور مادہ پرستانہ ماحول میںپلے بڑھے کچھ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ کروڑوں روپئے کا سرمایہ محض قربانی پر ضائع کرنے کے بجائے یہ رقم قومی ترقی کے کاموں میں خرچ کی جائے تو ملکی ترقی کے لیے سود مند ہوگا۔
علم دین کی ناواقفیت اور ترقی پسندانہ مزاج نے مسلمانوں کاا یمان اس قدر کمزور بنادیا ہے کہ اسلام کی خاطر جذبہ ِ ایثار (قربانی کا جذبہ) آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ قربانی ایک عبادت ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرناہے اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر عید الاضحی کی قربانی کو سنت ابراہیمی قرار دیا۔(مسند ابن ما جہ)
مسلمان غور کریں:
غورکرنے کی بات یہ ہے کہ ہزاروں یتیم بچوں کی کفالت پر خرچ کی گئی رقم ایک فرض روزہ ترک کرنے کا کفارہ بن سکتی ہے؟ہرگزہرگزنہیں۔کیا ہزاروں مریضوں کے علاج پر خرچ کرنے والی رقم ترک ِ حج بیت اللہ کا کفارہ بن سکتی ہے؟ ہر گز ہرگز نہیں !جبکہ یہ تمام کام بڑے اجر و ثواب کے ہیں۔ اسلام میں ان کی بڑی اہمیت ہے ۔ ٹھیک اسی طرح ملکی ترقی اور رفاہِ عامہ پر خرچ کی گئی رقم اللہ کی راہ میں جانوروں کی قربانی کا کفارہ کبھی نہیں بن سکتی۔
قربانی کی اہمیت و فضیلت:
قربانی کے تعلق سے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں ان کو رسول عربی ﷺ کی سیرت طیبہ ، آپ کی سنت ،آپ کے اسوہ حسنہ کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا ۔ اس سارے عرصے میں آپ ﷺ نے کبھی ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں فرمائی۔ حتٰی کہ دورانِ سفر بھی آپ نے قربانی کا اہتمام فرمایا ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سفر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے، عید الاضحی آگئی اور ہم لوگ ایک گائے پر سات اور ایک اونٹ پر دس آدمی شریک ہوئے ۔(ترمذی) حج الوداع کے موقع پر حضور رحمت عالم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خصوصی طورپر یمن بھیجا جس کا مطلب یہ ہوا کہ اونٹوں کی اتنی بڑی تعداد مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں دستیاب نہ تھی ۔اور پھر یوم النحر جیسے مصروف ترین دن میں اپنے دستِ مبارک سے ترسٹھ (۶۳) اونٹ ذبح فرمائے ۔ یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کام میں آپ کی معاونت فرمائی ہوگی۔ اس کے باوجود اونٹ کو قربانی کی جگہ لانے باندھنے اور پھر ذبح کرنے میں اگر کم سے کم پانچ منٹ کا وقت بھی ٹوٹل کیاجائے تو آپ نے اس کام پر پانچ گھنٹے پندرہ منٹ صرف کئے۔ امت کو دینی مسائل اور احکامات سکھائے ۔اور آپ کا یہ فرمانا کہ مناسکِ حج مجھ سے سیکھ لو۔ اس کے کیا معنی ہیں۔قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے بارے میں یہ فرمانا کہ جو قربانی نہ کرے وہ (نمازِ عید کے لیے) ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔آپ کے اس فرمان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھنے والوں کے لیے آپ کی ذات اقدس بہترین نمونہ ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم دل و جان سے آپ ﷺ کی پیروی و اتباع کریں اوریہ خیال رکھیں کہ وقت آنے پر اللہ کے راستے میں ہر چیز کی قربانی دی جا سکتی ہے اور ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔دنیا کے ایک ارب بیس کروڑ مسلمان سنتِ ابراہیمی کی اتباع میں اسی تقویٰ اور خلوص کو اپنائیں ۔آج طاغوتی طاقتیں آلِ ابراہیم علیہ السلام کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے نام لیوا بیدار ہوں اور طاغوتی طاقتوں کی پروا کئے بغیر اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے
آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے ،نمرودہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصودہے
اللہ ہم سب کو قربانی کی اہمیت کو سمجھنے اور عمل کرنے کی قوت و صلاحیت عطا فرمائے۔ آمین!
***

دنیا کے ایک ارب بیس کروڑ مسلمان سنتِ ابراہیمی کی اتباع میں اسی تقویٰ اور خلوص کو اپنائیں ۔آج طاغوتی طاقتیں آلِ ابراہیم علیہ السلام کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے نام لیوا بیدار ہوں اور طاغوتی طاقتوں کی پروا کئے بغیر اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہوجائیں