روزہ اور شخصیت کا ارتقاء
قرب الہٰی کے ساتھ ساتھ روز مرہ زندگی میں کامیابی کی ضامن عبادت
عمیر محمد خان
شخصیت کے معنی عام طور سے ظاہری شکل و صورت ، ڈیل ڈول، عمدہ کپڑے، لب و لہجے کو سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ شخصیت کے ناقابل ذکر پہلو ہیں۔ وہ لوگ جو ایسا سمجھتے ہیں کہ شخصیت ان کے بغیر نامکمل ہے، وہ یقیناً احساس کمتری کا شکار ہیں۔ اخلاق و کردار، گفتگو، اعتماد، سچائی، دلیری ، پیش قدمی، فعالیت، تندرستی، عادات حسنہ یہ شخصیت کے اہم اجزا ہیں۔ اس کے بغیر شخصیت نامکمل ہے ہاں اگر اس شخصیت میں اول الذکر خوبیاں بھی موجود ہوں تو یہ اس کی شخصیت کو مزید نکھار بخشتے ہیں۔ اگر کوئی شخص خوبرو ہو مگر موخرالذکر خوبیاں اس میں موجود نہ ہوں تو وہ ایک اچھی شخصیت کا مالک نہیں۔ اگر چہ عمدہ کپڑے ایک اچھا تاثر دوسروں پر چھوڑتے ہیں مگر جوں ہی ہم لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں یا ان کے درمیان رہتے ہیں تو ہماری شخصیت صرف عمدہ کپڑے اور اچھی گفتگو بن کر رہ جاتی ہے۔ جو بعد میں کوئی اثر نہیں ڈال سکتی۔ اس طرح صحت و لب و لہجہ کا تعلق ہے۔
روزہ محض ایک عبادت نہیں بلکہ اس سے دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی وابستہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ تمام ہی عبادتوں سے انسانوں کی بھلائی اور فائدہ ہی وابستہ ہے۔ بعض لوگ اس گمان میں ہیں کہ روزہ صرف ایک دینی فریضہ ہے (اگرچہ اس کے دینی فریضہ ہونے سے کسی کو انکار نہیں) اور اس سے آج کے ماڈرن دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ حالانکہ وہ تمام اوصاف جن کو آج کی اس دوڑتی بھاگتی دنیا میں اور مہذب و ماڈرن دور میں انسانوں میں پیدا کرنے کی ان تھک کوشش کی جارہی ہے ، روزے سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔
شخصیت کو نکھارنے اور لوگوں میں عمدہ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے آج کل پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کی مختلف کلاسیس اور کورسس بڑے پیمانہ پر چلائے جارہے ہیں۔ کئی فرمیں، کمپنیاں اور یونیورسٹیاں اس قسم کے لیکچرس کا انعقاد کررہی ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان اوصاف کو روزہ جیسے فریضہ میں مخفی رکھا ہے۔
شخصیت کو نکھارنے میں روزہ اہم کردارادا کرتا ہے۔ ساتھ ہی روزہ کئی خوبیاں انسان میں پیدا کرتا ہے جو نہ صرف روز مرہ کی زندگی میں کامیابی کی ضامن ہیں بلکہ کاروباری تجارتی، دفتری، سیاسی، اقتصادی اور تعلیمی و تکنیکی زندگی میں بھی کامیابی کی کنجی ہیں۔
کئی اوصاف روزہ ہمارے اندر پیدا کرتا ہے مگر یہاں چند اہم خوبیوں پر ہی روشنی ڈالی جارہی ہے۔ جو آج کے دور میں انتہائی ضروری ہیں۔
(۱) مساوات و اتحاد:
روزہ ہم میں اتحاد کی فضا پیدا کرتا ہے۔ مختلف شعبوں کے لوگوں میں ٹیم ورک، فیلڈ ورک کا مزاج بناتا ہے۔ آج کل مختلف کمپنیاں، فرمیں اور یونیورسٹیاں ٹیم ورک کی فضا پیدا کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی طرح کسی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے عوام کا اتحاد و اتفاق سے یکسوہوکر کام کرنے پر ہے۔ جاپان، چین ، امریکا اور دیگر ممالک کے عوام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان کی ترقی کی وجہ صرف اور صرف ٹیم ورک اور اتحاد سے کام کرنا ہے۔
روزہ ہمیں مساوات کا درس دیتا ہے۔ ہمیں اتحاد و اتفاق کا پیغام پہنچاتا ہے۔ مل جل کر کام کرنے پر اکساتا ہے۔ روزے کا ایک مہینہ اور وقت مقرر ہے۔ امیر و غریب، عالم اور ان پڑھ اور جوان ، مرد و عورت، کند ذہن و عقلمند، ہر ایک کی مدت، وقت و معیار اور تعداد یکساں ہے۔ ایسا نہیں کہ عالم کو آدھے دن کا روزہ رکھنے کی تلقین ہو اور غیر عالم و ان پڑھ کو پورے دن کا روزہ رکھنے کی تلقین ہو۔ اورنہ ہی ایسا ہے کہ عورت کو ایک یا دو گھنٹہ زیادہ لمبا روزہ رکھنا ضروری ہے اور مرد کو دو گھنٹے کم۔ بلکہ بلا امتیاز سبھی کے لیے ایک مخصوص مہینہ اور ایک تعداد اور ایک وقت مقررہے۔
کمیونزم جس نے یکسانیت کا درس دیاہے۔ وہ محض ایک درس تھا آج اس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ کاش اس دور کے مسلمان جو اس سے متاثر ہوکر کمیونسٹ ہوگئے اگر ان کو تھوڑی عقل ہوتی تو وہ صرف روزہ کی اصلی روح کو سمجھ لیتے تو انہیں اس خوبصورت چولے کو پہننے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آج یورپ و امریکہ مساوات کا جو نعرہ بلند کرتے ہیں، وہ ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔ مگر اسلام نے عملی طور پر روزے کی شکل میں یکسانیت، اتحاد و اتفاق کی فضا کو قائم کرکے دکھایا ہے۔ افسوس کہ ہم نے کبھی اس پہلو سے روزہ جیسی عبادت کو نہیں دیکھا۔
(۲) مدافعت:
روزہ ڈھال ہے ۔ جس طرح ڈھال دشمن کے وار سے ہمیں محفوظ رکھتی ہے۔ اسی طرح روزہ ہمارے لیے ڈھال ہے جوشیطان کے ہر قسم کے وار سے ہماری حفاظت کرتا ہے اور حفاظت کروانا سکھاتا ہے۔ روزہ نہ صرف برائی سے دفاع کرنا سکھاتا ہے بلکہ ہر پریشانی، مشکل، مصیبت ، موسم کی سختی، ان تمام کا مقابلہ کرنا سکھاتا ہے۔ کسی دشمن یا کسی گروہ کے اشتعال انگیز جملوں سے ہمیں مشتعل نہ ہونے کی تعلیم دیتا ہے۔ کیونکہ انتہائی غصہ کرنے والا فرد ایک اچھی شخصیت کا مالک نہیں ہوتا۔ وہ ٹیم لیڈر نہیں بن سکتا۔ حدیث قدسی ہے ’’اور اگر کوئی اس سے گالی گلوج کرنے یا لڑنے جھگڑنے پر اتر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں میں روزہ دار ہوں‘‘۔ (بخاری و مسلم)
روزہ ہمیں غصہ پی جانا سکھاتا ہے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے کام کرنے پر اکساتا ہے اور یہ ایک اچھی شخصیت اور ایک اچھے اور باکمال لیڈر کی خوبی ہے۔ نہ صرف دنیا خوش مزاج اور نرم دل شخص کو پسند کرتی ہے بلکہ مرد و عورت بھی ایسے ہی افراد کو ترجیح دیتے ہیں جو نرم مزاج ہوں گرم مزاج نہ ہوں۔ روزہ ہمیں گرم پن، اکھڑ پن، جھگڑالو، مباحثی، بد تمیز لوگوں سےنمٹنے اور ان سے صحیح طریقے سے پیش آنے کا درس دیتا ہے ، جو ایک مثالی شخصیت کی خوبی ہے۔ یہ اعلیٰ ظرفی ہے۔ اور ایسے ہی افراد کو بڑے عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے جو ہر قسم کے لوگوں کے درمیان رہ کر ان سے بہتر طریقے سے عمدہ کام لیں اور بے شک روزہ یہ صلاحیت ہمارے اندر پیدا کرتا ہے۔
(۳) دلیری
روزہ ہمیں نڈر اور دلیر بناتا ہے۔ موسم کی سختی جھیلنے اور بھوک و پیاس کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا کرتا ہے۔ روزہ موسم کی سختی بھوک و پیاس کی شدت کی وجہ سے ہمارے جائز کاموں میں رکاوٹ نہیں ڈالتا بلکہ ایسے حالات میں بھی استقلال و دلیری سے آگے بڑھنے کی قوت ہمارے اندر پیدا کرتا ہے۔ اس قسم کی سختیوں اور مشکلات سے رک جانا نہیں سکھاتا ہے۔ بلکہ ان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کامیابی کی طرف گامزن ہونے کی طاقت و خواہش ہمارے اندر پیدا کرتا ہے۔ اور یہ ایک مثالی شخصیت کی اہم ترین خوبی ہے کہ وہ مصیبت و مشکل حالات میں اپنی منزل کی طرف دیوانہ وار بڑھتا ہے نہ کہ ان سے متاثر ہوکر درمیان سے واپس پلٹ آتا ہے۔ دنیا کی تمام مسلم و غیر مسلم نامور شخصیتوں میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی اس لے وہ ایک مثالی فرد بنے۔ روزہ ہمیں ایک مثالی شخصیت بناتا ہے۔
کمپنیوں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔ تجارت میں بھاری نقصان ہوتا ہے کھیل میں ہار ہوتی ہے۔ سیاست میں کراری شکست ہوتی ہے۔ زراعت میں فصلیں اجڑ جاتی ہیں یہ تمام مشکلات حالات کی صورتیں ہیں اور روزہ ہمیں ایسے حالات میں دلیری سے آگے بڑھنا سکھاتا ہے۔ ان کا مقابلہ کرنا سکھاتا ہے نہ کہ فرار! اور دلیری ایک مثالی شخصیت کی خوبی ہے۔
(۴) پابندی وقت
روزہ ہمیں وقت کا پابند بناتا ہے۔ ہر کام کو ایک خاص وقت پر انجام دینے کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا کرتا ہے۔ ایک خاص وقت پر روزہ شروع کرنا اور ایک خاص وقت پر روزہ و افطار کرنا جو ہمیں پابندی وقت کا عادی بناتا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ کام کو صحیح وقت پرانجام دیتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ جو وقت کی قدر کرتے ہیں وقت ان کی قدر کرتا ہے اور انہیں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ دنیا کی تمام نامور ہستیاں وقت کی پابند تھیں۔ انہوں نے اپنے کاموں کو وقت پر انجام دیا اور اسی کی بدولت وہ کامیاب و کامران ہوئے۔
دفاتر میں ، کمپنیوں اور فرموں میں اور دیگر شعبوں میں وقت کوکافی اہمیت دی جاتی ہے اور ایک خاص وقت پر پروجیکٹ مکمل کرنے کو باکمال صلاحیت سمجھا جاتا ہے اور وقت پر کام انجام نہ دینے کی صورت میں لاکھوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے اور کمپنیوں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔ اس لیے چست وچالاک وقت کے پابند لوگوں کو ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور ایسے افراد جلد ہی اپنے حلقے میں لیڈر کے طور پر ظاہر ہوجاتے ہیں اور وہ ایک مثالی شخصیت بن جاتے ہیں ۔
(۵) قوت فیصلہ
روزہ ٹھیک وقت پر صحیح فیصلہ لینے کی قوت ہمارے اندر پیدا کرتا ہے۔ حدیث میںہے: ’’افطار کرنے میں جلدی کرو‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وقت سے پہلے کرلو۔ بلکہ وقت ہوگیا تو اس میں تاخیر مت کرو۔ تاخیر کرکے روزہ مکروہ مت کرو۔ گویا ہمیں اس بات کی تعلیم دی جاتی ہے کہ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ اگر ہم صحیح فیصلہ نہ لے پائیں تو ہمیں نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
آج تجارت میں شیئر بازار میں ، کمپنیوں، زراعتی میدان میں، سیاسی میدان میں کرئیر کا انتخاب کرتے وقت فیصلے کی ضرورت پڑتی ہے۔ صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت ایک اچھی شخصیت کی اعلیٰ ترین خوبی ہے۔ جن لوگوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے وہ ترقی کرتے ہیں اور بہت جلد جو وہ چاہتے ہیں حاصل کرلیتے ہیں۔ اور روزہ بلاشبہ ہمارے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے۔
(۶) خود اعتمادی اور نفس پر کنٹرول
روز ہم میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ روزہ دار گھر میں اکیلا رہتا ہے۔ چاہے تو وہ کچھ کھاسکتا ہے، دو گھونٹ پانی پی سکتا ہے۔ مگرتنہائی میں بھی وہ ایک نوالہ نہیں کھاتا نہ ایک قطرہ پانی حلق سے نیچے اتارتا ہے۔ دوسرے مقام پر شہر جاکر وہ کسی ہوٹل میں پیٹ بھر کھانا کھاسکتا ہے۔ وہ چاہے تو دھوکا دے سکتا ہے مگر وہ ایسا نہیں کرتا۔ یہی وہ چیز ہے جو اس میں اعتماد پیدا کرتی ہے کہ وہ تنہا ہو یا محفل میں ہو ، یا اسے کسی قسم کی دعوت و لالچ دی جائے وہ اپنے عمل سے نہیں ہٹتا یا روزہ نہیں توڑتا اور اسی کا نام اعتماد ہے کہ لوگ آپ پر یقین نہ کریں لیکن آپ کو اپنے آپ پر اعتماد ہو کہ آپ اپنے نفس کو اپنے قابو میں رکھنا جانتے ہیں۔ لوگ آپ کو اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کریں مگر آپ ثابت قدمی سے اور خود اعتمادی سے اس عمل پر ڈٹے رہیں اور اجر کے مستحق قرار پائیں اور بالآخر کامیابی حاصل کرلیں۔ ۔
خود اعتمادی آج کل مختلف شعبوں میں انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر آپ چند قدم بھی چل نہیں سکتے۔ یہ ایک مثالی شخصیت کی نمایاں خوبی ہے۔ اور روزہ بخوبی یہ وصف ہمارے اندر پیدا کرتا ہے۔ جن لوگوں میں یہ وصف پیدا ہوجاتا ہے وہ تنہا ہی بڑے بڑے کام کرجاتے ہیں۔ برے حالات کے دوران بھی اعتماد سے پر شخص اپنے کام کو جاری رکھتا اور کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔ مشکلات میں ہمت نہیں ہارتا اور پریشانیاں اسے متزلزل نہیں کرتیں۔ وہ نامراد نہیں لوٹتا، ایسا شخص مثالی کردار کا حامل ہوتا ہے۔
روزہ وہی رکھتا ہے جو پُراعتماد ہو۔ خود اعتمادی کسی فرد میں کم یا زیادہ ہوسکتی ہے اور جن میں زیادہ ہوتی ہے وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ تیس دنوں تک لگاتار ایک ہی عمل پر ڈٹے رہنا خود اعتمادی اور استقلال نہیں تو اور کیا ہے؟
دنیا کے نامور لوگوں نے خود اعتمادی کی بدولت ہی دنیا کو زیر کیا اور کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرتے چلے گئے اور بے شک روزہ ایک بہترین پرُاعتماد شخصیت کو وجود میں لانے کا موجب ہے۔
ہمیں کئی بار یہ گمان ہوتا ہے کہ روزہ تو سبھی رکھتے ہیں مگر یہ اوصاف ہمارے اندر پیدا کیوں نہیں ہوتے؟ دراصل روزے کی اصل روح سے ہم واقف نہیں۔ ہمارے لیے وہ محض ایک عام سا عمل ہے ۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ سورج تو سبھی کو روشنی اور گرمی پہنچاتا ہے مگر چند ہی لوگ سورج کی کرنوں کو دوسرے فائدوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان ہی کرنوں سے لوگ بجلی بھی پیدا کرتے ہیں، انہی کرنوں کا پانی گرم کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور دیگر کاموں کے لیے ان کرنوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اب یہ افراد پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس سے کیا فائدہ حاصل کریں۔
اوپر بیان کیے گئے اوصاف ہمارے اندر اسی صورت میں پیدا ہوسکتے ہیں جب ہم واقعی روزے کی اصل روح کو سمجھیں۔ ہماری شخصیت ایک مثالی شخصیت اسی صورت میں بن سکتی ہے جب ہم دنیاوی و اخروی پہلو کو مد نظر رکھ کر روزہ رکھیں اور انہی اوصاف کو مزید نکھارنے کی کوشش کریں ۔ ’’آدمی کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ سعی کرے‘‘۔ (قرآن)
اور روزہ یقیناً ہماری شخصیت کو نکھارتا ہے اور ہمیں ایک مثالی شخصیت میں ڈھالنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 تا 09 اپریل 2022