رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ

اُخروی نجات کا ضامن بے مثال عملی نمونہ

عتیق احمد شفیق اصلاحی ،مرادآباد

 

انسانوں کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو بھیجتا رہا ہے ۔سب سے آخر میں حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ کی زندگی کو دنیا والوں کے لیے نمونہ قراردیا۔ اب انسانیت کی فلاح و نجات اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کی زندگی کو اپنائے۔ کسی بھی شخصیت کے نمونہ ہونے کے لیے درج ذیل باتوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔
1 ۔ تاریخی حیثیت مسلّمہ:۔ تاریخی حیثیت سے وہ معروف ہو، اس کے بارے میں جو معلومات ہم تک پہنچی ہوں وہ معتبر و مستند اور درست طریقہ سے پہنچی ہوں اور شک و شبہ سے پاک ہوں۔
2۔ سب لوگوں کے لیے رہنمائی ہو:۔ اس کی تعلیمات میں تمام انسانوں کے لیے رہنمائی ہو، ہر خاندان و قبیلہ، ہررنگ و نسل، ہرملک و وطن، ہر خطہ و علاقہ، بر و بحر کے ہر حصے میں رہنے والے انسان اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا سکیں ۔
3۔ مکمل تعلیمات:۔ اس کی تعلیمات مکمل ہوں۔ زندگی کے ہر شعبے، ہر گوشے، ہر پہلو میں اس کی تعلیمات موجودہوں۔
۴۔ عملی نمونہ:۔ اس شخصیت کی صرف تعلیمات ہی تعلیمات نہ ہو بلکہ اس نے اپنی زندگی میں ان پر عمل کر کے دکھایا ہو۔
جب ہم دنیا کی مشہور ہستیوں کا جائزہ ان چار نکات کی روشنی میں لیتے ہیں تو دنیا میں صرف ایک ذات گرامی ہی نظر آتی ہے اور وہ حضرت محمد ﷺ کی ۔
۱۔محفوظ زندگی، محفوظ تعلیمات :۔ حضرت محمد ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ کی سیرت مکمل طور سے محفوظ ہے ۔آپ کی ایک ایک بات اور ایک ایک عمل محفوظ ہے۔ نبی ﷺ کی تعلیمات وسیرت کو جاننے کے دو ذرائع ہیں ایک قرآن کریم دوسرا حدیث
٭٭قرآن مجید مکمل محفوظ ہے۔ جس طرح رسول اکرم ﷺ پر نازل ہو ا تھا اسی طرح آج بھی پا یا جا تا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کو خود اپنی حیات مبارک میں تحریر کرادیا تھا اور انہی الفاظ و ترتیب پر آج بھی مو جود ہے۔ اس میں کسی قسم کی رد وبدل نہیں کی جا سکی ہے۔ اس میں ایک بھی زبر، زیر ، پیش کا کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ بات صرف دعویٰ نہیں ہے بلکہ اس پرتحقیق ہوئی اور دنیا کے مختلف ملکوں میں پائے جانے والے نسخوں کو یکجا کرکے ملا یا گیا تو پایا گیا کہ ان سب میں کوئی فر ق نہیں ہے ۔
٭ نبی اکر م ﷺ کی حیات مبارک ہی میں اس کو یاد کرنے کا رواج عام ہو گیا تھا صحابہ کی بڑی تعداد حافظ قرآن تھی۔ اور یہ سلسلہ مسلسل و متواتر چلا آرہا ہے ۔ یہ اعجاز قرآن مجید کوہی حاصل ہے اس کے علاوہ دنیامیں جن کتابوں کو آسمانی کہا جاتا ہے ان کے حافظ نہیں ملتے۔
٭ہرسال رمضان میں قرآن مجید مکمل طور سے سننے کا اہتمام مساجد اور تروایح میں ہو تا ہے۔یہ بات دیگر آسمانی کتا بوں یا مذہبی کتا بوں کے ساتھ نہیں ہے ۔
٭جس زبان میں قرآن مجید ناز ل ہو ا ہے وہ آج بھی زندہ ہے ۔دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے ۔بین الاقوامی سطح پر رابطہ کی زبان ہے۔
دوسری چیز نبی ﷺ کی سنت واحادیث ہیں یہ بھی مکمل طور سے محفوظ ہیں نبی کریم ﷺ کے تما م اقوال و اعمال کو صحابہ نے محفوظ کر لیا تھا دورے نبوی ہی میں کتابت حدیث کا آغاز ہو گیا تھا۔خود بنی ﷺ نے بعض صحابہ کو تحریری طور پر احادیث املا کرائیں تھیں اور بعض صحابہ ؓ خود اس کا اہتما م فر ماتے ۔پھر رسول ﷺ کی باتوں کو جانچنے اور پرکھنے کے اصول مرتب کیے گئے ۔ اور صرف نبی ﷺ کی سیرت و سنتیں ہی محفو ظ نہیں کی گئیں بلکہ جن حضرات نے نبی ﷺ کی سیرت کو محفوظ کیا آپ کی باتوں کو تحریر میں لائے۔ ان کی بھی زندگیوں کے احوال محفوظ کیے گئے جس کو اسماء رجال کے فن سے جانا جاتا ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا۔ انی ترکت فیکم امرین لن تضلواماتمسکتم بھا کتاب اللہ و سنۃ رسولہ (موطا) میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں۔ ان کو جب تک مضبوطی سے پکڑے رہو گے گم راہ نہیں ہوگے وہ اللہ کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔
آ ج ملت اسلامیہ کے پاس سب کچھ پڑھنے کا وقت ہے اگر نہیں ہے تو ان ہی دو چیزوں کو پڑھنے و سمجھنے کا نہیں ہے آج مسلمانوں کی جو صورت حا ل ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ان دونوں نصوص قرآن مجید اور سنت سے رشہ کمزور ہو گیا ہے ملت اسلامیہ آج بھی اپنا کھویا وقار پا سکتی ہے تو صرف قرآن مجید و سنت سے اپنے رشتہ کو استوار کرکے ہی پا سکتی ہے۔
دعوت عام:۔ نبی ﷺ کی دعوت تما م انسانوں کے لیے عام ہے ۔ آپ کی تعلیمات کسی خاص وقوم و ملک کے لو گو ں کے لیے نہ تھیں بلکہ ہر قوم ہر ملک ہر زبان بولنے والے کے لیے ہیں کالا ہو یا گورا ، عرب کا ہو یا عجم کا ، مالدار ہو یا غریب، شہر کا رہنے والا ہو یا دیہات کا۔ آپ سارے انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے۔ قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ( اعراف :۱۵۸)اے نبی کہہ دو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیر ا و نذیرا(سبا :۲۸)ہم نے تم کو سارے انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبر دار کرنے والا بنا کر بھیجاہے ۔
وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین (انبیاء:۱۰۷) اے نبی ! ہم نے تم کو دینا جہا ں والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔نبی ﷺ نے فر مایا بعثت الی کل احمر واسود (مسند احمد) میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔
قرآن مجید جو آپ نازل ہوا وہ بھی بار بار انسا نوں کو مخاطب کر تا ہے اور کہتا ہے۔ یا ایھا النا س اے انسانو! اپنے بارے میں کہتا ہے ۔ ھد ی للناس اس میں انسا نوں کے لیے ہدایت ہے ۔ سیرت رسول کا مطالعہ کرنے سے معلو م ہو تا ہے کہ آپؐ کی دعوت مختلف طبقوں، قبیلوں اور ملکوں کے رہنے والوں نے قبول کی ۔ یمن کے ابو ہریرہ ؓ، حبشہ کے بلال ؓ،فارس کے سلمان فارسی ،ؓ روم کے صہیب ؓ، مکہ ومدینہ کے مختلف قبائل، بنی اسرئیل کے عبداللہ بن سلام، مختلف ملکوں کے بادشاہوں نے بھی آپ کی دعوت پر لبیک کہا۔آج بھی سارے انسانوں اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے آپ کی تعلیمات رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہیں گی ۔ اسی میں سارے انسانوں کی کامیابی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت نبی ﷺ کی تعلیمات کو عام انسانوں کے درمیا ن رکھے ۔
جامعیت:۔ دنیا جن ہستیوں کو کوئی خا ص اہمیت دیتی ہے ان کی تعلیمات زند گی کے کسی خا ص پہلو میں تو ملتی ہیں لیکن زند گی کے ہمہ پہلواور مختلف گو شوں میں خاموشی ہے جس کی وجہ سے وہ ہستیاں قابل عمل اور نمونہ نہیں ہو سکتی ہیں ۔جب ہم نبی ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کی شخصیت کا یہ پہلو بہت نما یا ں نظرآتا ہے کہ آپ کی سیرت زندگی کے ہر گوشے و شعبہ میں رہنمائی کرتی ہوئی ملتی ہے۔عبادات، معاشرت، گھریلو، شادی بیاہ، ازدواجی ، تجارت، کاروبار، لین دین، سیاست، امن وصلح، جنگ کے اصول آپ نے بتا ئے۔ حد یہ کہ استنجا کیسے کیا جائے ، بیوی کے ساتھ رات کیسے گزاری جائے ۔جیسے چھوٹے چھوٹے امور میں بھی رہنمائی فرمائی۔
عملی نمونہ :۔ نبیؐ نے زندگی کے مختلف گوشوں کے لیے صر ف ہدایات وتعلیمات ہی نہیں پیش کیں بلکہ ان کو اپنی زندگی میں برت کے دکھایا۔نبی ﷺ اپنے گھر میں کیسے رہتے تھے ، بازار میں کیا طریقہ رہتا تھا ، مسجد میں کس طر ح عبادت کرتے تھے ،بچوں کے ساتھ کیا رویہ ہو تا ، جنگ کے میدان میں کیا عمل ہو تا ، دشمنوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے تھے غرض زندگی کے ہر حصہ میں آپ کی زندگی سے رہنمائی ملتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے دل کے چراغوں کو محمد ﷺ کی زندگی سے روشن کریں ۔آ پ کی سیرت کا مطالعہ کریں اس کو اپنائیں اور برادران وطن کو نبی ﷺ کی سیرت سے واقف کرائیں ۔یہ کام یوں تو ہمیشہ کرنے کا ہے لیکن موجود ہ حالات میں ایمان کا تقا ضا ہے کہ اس کو بڑے پیمانے پر ترجیحاً عام کیا جائے تاکہ نبی ﷺ کی جو صاف شفاف سیرت ہے عوام کے سامنے آسکے اوران کی زندگیاں اس نور سے منور ہو سکیں اور دنیا و آخرت میں فلاح و نجات پا سکیں۔

آج بھی سارے انسانوں اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے آپ کی تعلیمات رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہیں گی ۔ اسی میں سارے انسانوں کی کامیابی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت نبی ﷺ کی تعلیمات کو عام انسانوں کے درمیا ن رکھے ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020