رسائل و مسائل

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

کیاکھڑے ہوکر وضو کیا جا سکتا ہے؟
سوال: کیا کھڑے ہو کر وضو کرنا مکروہ ہے؟ بعض حضرات ایسا کرنے پر ٹوکتے ہیں اور بیٹھ کر وضو کرنے کو کہتے ہیں۔
جواب: وضو اس طرح کرنا چاہیے کہ تمام اعضائے وضو تک پانی اچھی طرح پہنچ جائے، پانی کی چھینٹیں نہ آئیں اور مستعمل پانی سے اعضائے جسم اور کپڑے آلودہ نہ ہوں۔ اس لیے فقہاء نے کسی اونچی جگہ بیٹھ کر وضو کرنے کو آداب میں شمار کیا ہے۔ لیکن بیٹھ کر وضو کرنا ضروری نہیں ہے اور کھڑے ہوکر وضو کرنے کو مکروہ کہنا درست نہیں۔ جس طرح بھی وضو کرنے میں سہولت ہو، اچھی طرح وضو ہوجائے اور چھینٹیں نہ آئیں،اس طریقے سے وضو کیا جا سکتا ہے۔
کتب ِحدیث میں رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ وضو کا تفصیلی بیان ملتا ہے۔ متعدد صحابۂ کرام نے اس کی روایت کی ہے اور وضو کرکے بھی دکھایا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اس طرح وضو کیا کرتے تھے۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ آپؐ کا معمول بیٹھ کر وضو کرنے کا تھا۔ ایک حدیث میں اس کی صراحت بھی موجود ہے۔ حضرت عثمانؓ بن عفان کی خدمت میں وضو کے لیے پانی پیش کیا گیا۔ انھوں نے بیٹھ کر اچھی طرح وضو کیا، پھر فرمایا: ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح بیٹھ کر وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘(بخاری: ۶۴۳۳)
لیکن آپؐ سے بعض مواقع پر کھڑے ہوکر وضو کرنا بھی ثابت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہؓ بنت حارث کے گھر رات میں قیام کیا۔ اس موقع پر نبی ﷺ بھی وہاں موجود تھے۔ جب کچھ رات گزری تو آپؐ اٹھ گئے اور آپؐ نے ایک لٹکے ہوئے مشکیزے سے وضو کیا۔ (قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَتَوَضَّأ مِنْ شَنٍّ مُعَلَّقٍ وُضُوء ًا خَفِیْفاً) [بخاری: ۸۵۹]۔ ظاہر ہے کہ لٹکے ہوئے مشکیزے سے بیٹھ کر وضو کرنا ممکن نہیں۔
بعض فتاویٰ میں قبلہ رخ ہوکر وضو کرنے کو افضل لکھا گیا ہے۔ اس کا کوئی ثبوت احادیث سے نہیں ملتا۔
دوسرے مرد سے نکاح کی بات کرکے خلع حاصل کرنا؟
سوال: ایک عورت شوہر کے ظلم و زیادتی، حق تلفی اور ناانصافی سے پریشان ہے۔ وہ اس حد تک عاجز آچکی ہے کہ اس سے خلع حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ لیکن اسے اندیشہ ہے کہ خلع کے بعد ممکن ہے اس کی دوسری شادی نہ ہو سکے یا ہونے میں کئی سال کی تاخیر ہوجائے۔ اس صورت میں اس کی گزر اوقات دشوار ہوجائے گی۔ اس لیے وہ چاہتی ہے کہ پہلے کسی ایسے شخص کو تلاش کر لے جس سے شوہر سے خلع لینے کے بعد نکاح کرسکے اور اس سے نکاح کا پختہ وعدہ بھی کرالے، اس کے بعد خلع کی کارروائی کرے۔
کیا شرعی اعتبار سے اس کی اجازت ہے؟ کیا خلع سے قبل وہ کسی اجنبی مرد سے نکاح کی بات کر سکتی ہے؟
جواب: نکاح زوجین کے درمیان ہونے والا ایک معاہدہ ہے۔ اس معاہدہ کو طلاق یا خلع کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے شوہر آئندہ بیوی سے ازدواجی رشتہ باقی نہ رکھنا چاہے تو وہ طلاق دے دے گا اور اگر بیوی شوہر سے اپنا تعلق جاری نہ رکھنا چاہے تو وہ خلع کے ذریعے اس سے گلو خلاصی کرسکتی ہے۔
لیکن اسلام رشتۂ نکاح کو محترم قرار دیتا ہے، اس لیے وہ اخلاقی طور پر یہ تعلیم دیتا ہے کہ جب تک یہ رشتہ قائم ہے، اس وقت تک کسی دوسرے رشتۂ نکاح کی بات نہ کی جائے، بلکہ اس کا خیال بھی دل میں نہ لایا جائے۔ قرآن کریم میں ہے:
وَلَا جُنَاحَ عَلَیۡكُمۡ فِیمَا عَرَّضۡتُم بِهِۦ مِنۡ خِطۡبَةِ ٱلنِّسَاۤءِ أَوۡ أَكۡنَنتُمۡ فِیۤ أَنفُسِكُمۡۚ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمۡ سَتَذۡكُرُونَهُنَّ وَلَـٰكِن لَّا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّاۤ أَن تَقُولُوا۟ قَوۡلا مَّعۡرُوفاۚ وَلَا تَعۡزِمُوا۟ عُقۡدَةَ ٱلنِّكَاحِ حَتَّىٰ یَبۡلُغَ ٱلۡكِتَـٰبُ أَجَلَهُۥۚ وَٱعۡلَمُوۤا۟ أَنَّ ٱللَّهَ یَعۡلَمُ مَا فِیۤ أَنفُسِكُمۡ فَٱحۡذَرُوهُۚ وَٱعۡلَمُوۤا۟ أَنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ حَلِیم. (البقرۃ: ۲۳۵)
’’زمانۂ عدّت میں ،خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنایے میں ظاہر کردو، خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تو تمھارے دل میں آئے گا ہی، مگر دیکھو! خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا۔ اگر کوئی بات کرنی ہے تو معروف طریقے سے کرو اور عقد ِنکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک عدّت پوری نہ ہوجائے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ لہٰذا اس سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بردبار ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں سے درگزر فرماتا ہے۔‘‘
سورۂ بقرہ میں طلاق کے احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ (ملاحظہ کیجیے آیات: ۲۲۷۔۲۴۲) اسی کے درمیان میں مذکورہ آیت آئی ہے۔ اس میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ زمانۂ عدت میں عورت سے نکاح کا ارادہ اشارے کنایے میں تو ظاہر کیا جا سکتا ہے، لیکن کھلے طور پر اور واضح الفاظ میں نکاح کی بات نہیں کی جا سکتی۔ جب اتنی سخت تاکید عدّت کے دوران میں کی گئی ہے تو عدّت سے قبل، حالاں کہ عورت ابھی رشتۂ نکاح میں بندھی ہوئی ہے، اس کے اگلے نکاح کی بات کرنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے؟!
ایک حدیث حضرت ابو ہریرۃ ؓسے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ اِمرَأ ۃً عَلٰی زَوْجِھَا (ابو داؤد: ۲۱۷۵)
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے۔‘‘
عربی زبان میں ’خَبَّبَ‘ کے معنیٰ ہیں: بگاڑ دینا، خراب کر دینا، فساد پیدا کردینا، وغیرہ۔ حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے اس شخص کی مذمّت کی ہے اور اس سے اپنی براءت ظاہر کی ہے جو کسی عورت کی اس کے شوہر سے علیٰحدگی کا سبب بنے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلاً وہ بیوی کے سامنے شوہر کی برائی کرے، اس کی خامیاں ابھار کر پیش کرے، اس کی ایسی باتیں نمایاں کرے جس سے بیوی کے دل میں شوہر سے نفرت بڑھے۔ یہ کام اگر وہ عورت سے آئندہ نکاح کرنے کا ارادہ کیے بغیر کرے تو بھی بُرا ہے، لیکن اگر اس کے پسِ پشت عورت سے نکاح کا ارادہ ہو تو اس کی شناعت مزید بڑھ جاتی ہے۔
شوہر سے عورت کا نباہ نہ ہوپارہا ہو تو اسے علیٰحدگی حاصل کرنے کا حق ہے۔ وہ خلع لے سکتی ہے۔ خلع ہوجانے اور عدّت گزر جانے کے بعد وہ اپنے دوسرے نکاح کی فکر کر سکتی ہے اور اس کے سرپرست اس کے لیے دوسرا رشتہ تلاش کر سکتے ہیں۔ لیکن خلع کی کارروائی مکمل ہونے سے قبل ہی دوسرا رشتہ تلاش کر لینا اور کسی مرد سے باقاعدہ نکاح کی بات کرلینا درست نہیں ہے۔
کسی کو تحفہ دے کر واپس لینا
سوال: ایک خاتون کے کئی بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹے نے اسے تحفے میں سونے کے کچھ زیورات دیے تھے۔ اب اس خاتون کا انتقال ہو چکا ہے۔ جب اس کی وراثت کی تقسیم کا وقت آیا تو اُس بیٹے نے کہا کہ میں نے جو زیورات ماں کو تحفے میں دیے تھے وہ مجھے واپس کر دیے جائیں، باقی چیزیں وراثت کے طور پر تقسیم کی جائیں۔ کیا اس کا ایسا کہنا درست ہے؟ یا وہ زیورات بھی مالِ میراث میں شامل ہوں گے؟
جواب: حدیث میں تحفہ دینے کی فضلیت بیان کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
تَحَادَوْا تَحَابُّوا وَتَذْھَبِ الشَّحْنَاءُ (موطا امام مالکؒ: ۲۶۴۱)
’’تحائف کا لین دین کرو۔ اس سے آپس میں محبت پیدا ہوگی اور دلوں کی کدورت دوٗر ہوگی۔‘‘
ام المومنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ہدیہ دیا جاتا تو اسے قبول کرتے تھے اور آپﷺ جواب میں بھی ہدیہ دیا کرتے تھے۔ (بخاری: ۲۵۸۵)
جس شخص کو کوئی چیز ہدیہ دی جائے، وہ اسے قبول کرلے اور اپنے قبضے میں کر لے، اس کے بعد ہدیہ دینے والے کے لیے اسے واپس لینا جائز نہیں ہے۔ احادیث میں بہت سخت الفاظ میں اس کی مذمّت کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
العَائِدُ فِی ھِبَتِه کَالعَائِدِ فِی قَیْئِه (بخاری: ۲۶۲۱، مسلم: ۱۶۲۲)
’’ہدیہ کی ہوئی چیز واپس لینے والا اس شخص کی طرح ہے جو قے کرکے دوبارہ اسے چاٹ لے۔ ‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَایَحِلُّ لِرَجُلٍ اَنْ یُعْطِیَ عَطِیَّةً اَوْ یَھَبَ ھِبَةً فَیَرْجِعَ فِیْھَا
’’کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی کو کوئی عطیہ کرے یا کچھ ہبہ کرے، پھر اسے واپس لوٹالے۔
اس کے بعد آپﷺنے مذکورہ مثال تفصیل سے بیان کی۔ آپ نے فرمایا:
مَثَلُ الَّذِيْ یُعْطِيَ العَطِیَّةَ ثُمَّ یَرْجِعُ فِیْھَا کَمَثَلِ الکَلْبِ یَاکُلُ، فَاِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِي قَیئِهِ (ابو داؤد: ۳۵۳۹)
’’اس شخص کی مثال جو عطیہ کرکے واپس لے لیتا ہے ،کتّے کی سی ہے کہ وہ کوئی چیز کھاتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کا پیٹ خوب بھر جاتا ہے تو قے کر دیتا ہے۔ پھر دوبارہ اسے چاٹ لیتا ہے۔‘‘
ماں باپ کو کوئی چیز تحفے کے طور پر دینے کے بعد اسے واپس لینے کی شناعت اور بھی زیادہ ہے کہ اس میں رشتے کی پامالی اور توہین بھی ہے۔ چاہے یہ تحفہ واپس لینا ان کی زندگی میں ہو یا ان کے مرنے کے بعد، دونوں کا حکم یکساں ہے۔ اس لیے اگر کسی شخص نے اپنی ماں کی زندگی میں انھیں کچھ زیورات تحفے میں دیے ہوں تو ان کے مرنے کے بعد ان زیورات کی واپسی کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔ مرحومہ کو ان زیورات کا مالک سمجھا جائے گا اور انھیں ان کے مالِ وراثت میں شامل کرکے اسے تمام ورثا میں تقسیم کیا جائے گا۔
البتہ اگر کسی شخص نے اپنی ماں یا باپ کو ان کی زندگی میں کوئی چیز دی، لیکن دیتے وقت صراحت کردی کہ اس کا مالک وہ خود ہے، البتہ اسے صرف استعمال کرنے کے لیے دے رہا ہے، تو اس کی بات مانی جائے گی اور ان کے انتقال کے بعد وہ اس چیز کو واپس لینے کا حق دار ہوگا۔
کیا پرندہ پالنا جائز ہے؟
سوال: جو لوگ ’حقوق ِحیوانات‘ کے میدان میں بہت سرگرم ہیں، وہ پرندوں کو پالنے اور انھیں پنجروں میں بند رکھنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں، کیا شرعی اعتبار سے ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب: شرعی اعتبار سے پرندوں، مثلاً طوطا اور جانوروں، مثلاً بلّی، خرگوش وغیرہ کو پالنا جائز ہے، بشرطے کہ ان کی خوراک کا معقول انتظام اور سردی گرمی اور بارش وغیرہ سے حفاظت کا مناسب بند و بست کیا جائے۔ احادیث ِنبوی سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
حضرت انسؓ بن مالک نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر برابر تشریف لایا کرتے تھے۔ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، جس کا نام ابو عمیر تھا۔ آپ ﷺجب بھی آتے ابو عمیر سے خوب ہنسی مذاق، خوش طبعی اور دل لگی کیا کرتے تھے۔ (یُضَاحِکُهُ یُمَازِحُهُ یُلَاطِفُهُ)۔ ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی، جس سے وہ کھیلا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ آپﷺتشریف لائے تو ابو عمیر کو غم گین پایا۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ اس کی چڑیا مر گئی ہے۔ آپ نے ابو عمیر کو چھیڑتے ہوئے فرمایا:
یَا اَبَا عُمَیرُ! مَا فَعَلَ النُغَیْرُ ’’اے ابو عمیر! نغیر کو کیا ہوا؟‘‘
(بخاری: ۶۱۲۹، ۶۲۰۳، مسلم: ۲۱۵۰)
اس حدیث سے پرندوں کو پالنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اگر یہ درست نہ ہوتا تو آپؐ ضرور ایسا کرنے سے منع کر دیتے۔
علامہ ابن حجرعسقلانیؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے:
اِنَّ فِي الحَدِیْثِ دَلَاَلَةً عَلیٰ جَوَازِ اِمْسَاكِ الطَّیْرِ فِي القَفَصِ وَغَیْرِہ، وَیَجِبُ علیٰ مَنْ حَبَسَ حَیْوَاناً مِّنَ الحَیوَانَاتِ اَنْ یُحْسِنَ اِلَیْهِ وَیُطْعِمَهُ مَا یَحْتَاجُ لِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ ۔( فتح الباری بشرح صحیح البخاری:۱۰؍۵۸۶)
’’اس حدیث سے پرندے کو پالنے کا ثبوت ملتا ہے، چاہے اسے پنجرے میں بند رکھا جائے، یا کھلا رکھا جائے۔ جو شخص کسی پرندے کو اپنے پاس رکھے اس پر واجب ہے کہ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور اس کے کھانے پینے کا خیال رکھے۔‘‘
پرندوں یا جانوروں کو پالنے کے بعد ان سے لاپروائی برتی جائے، ان کے کھانے پینے کا معقول انتظام نہ کیا جائے ، یا ایسے کام کیے جائیں تو ان کی اذیت کا سبب بنیں، اس سے روکا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
دَخَلَتْ امْرَأۃٌ النَّارَ فِي ھِرَّۃٍ رَبَطَتْھَا، فَلَمْ تُطْعِمْھَا وَلَمْ تَدَعْھَا تَأکُلُ مِنْ خَشَاشِ الاَرْضِ (بخاری: ۳۳۱۸، مسلم: ۲۲۴۲)
’’ایک عورت صرف اس وجہ سے جہنم میں چلی گئی کہ اس نے ایک بلّی باندھ رکھی تھی۔ اسے نہ تو خوراک دی اور نہ کھلا چھوڑ دیا کہ وہ کیڑے مکوڑے کھاکر اپنا پیٹ بھر لیتی۔ ‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں اور جانوروں کو پالنا شرعی طور پر جائز ہے، بشرطے کہ ان کے کھانے پینے کا خصوصی انتظام کیا جائے، ان کے آرام کا خیال رکھا جائے، انھیں اتنا مانوس کرلیا جائے کہ قید کرکے رکھنے کی ضرورت نہ پڑے اور قید رکھنا مجبوری ہو تو ان کی رہائش کا بہتر اور آرام دہ انتظام کیا جائے اور سختی سے اس کا خیال کیا جائے کہ انھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے۔
مزید یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگر کسی ملک میں پرندوں اور جانوروں کے حقوق کے سلسلے میں کچھ قوانین بنائے گئے ہوں تو ان کی پابندی بھی ضرور کرنا چاہیے۔