رافیل کا جن پھر سے بوتل کے باہر

طیاروںکی خریداری میں بدعنوانیوں کے خدشات صحیح ثابت ہوئے!

ابوعافیہ، حیدرآباد

ایک فرانسیسی جریدہ نے انکشاف کیا ہے کہ رافیل معاہدے میں سوشین گپتا نامی بچولیے (دلال) کو 1.1 ملین یورو (9.51 کروڑ روپے) کی خطیر رقم ادا کی گئی۔ اس انکشاف نے ملک میں ایک بار پھر ایک نیا سیاسی طوفان برپا کر دیا ہے۔ کانگریس نے بی جے پی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے شدید تنقید کی اور کہا کہ ہم ابتدأ سے یہی کہہ رہے تھے کہ رافیل کی معاملت میں گھوٹالہ ہوا ہے۔ سکیت گوکھلے جو ایک سماجی جہد کار ہیں انہوں نے سوشل میڈیا پر سوشین گپتا اور خود ساختہ ست گرو جگّی واسو دیو کی ایک پرانی تصویر بھی شیئر کردی اور اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’’اوہ دیکھو! سوشین موہن گپتا کے ساتھ کون تصویر لے رہا ہے؟ یہ وہی مڈل مین ہے جس کو فرانسیسی اینٹی کرپشن ایجنسی (اے ایف اے) نے بچولیہ کی حیثیت سے شناخت کی ہے جس کو رافیل ڈیل کو ڈسالٹ کی طرف سوئنگ کرنے کے لیے ایک ملین یوروادا کیے گئے‘‘
فرانسیسی جریدے میڈیا پارٹ ڈاٹ ایف آر کے یان فلیپن نے بتایا کہ کیسے رافیل طیارے بنانے والے ڈاسالٹ ایوی ایشن نے جو رافیل طیارے بنانے والی کمپنی ہے، انڈیا اور فرانس کے مابین ۲۰۱۶ میں ہونے والے رافیل معاہدے کو اپنی کمپنی کو اس کا ٹھیکہ دلانے کے لیے سوشین گپتا کو 1.1ملین یورو کی ادائیگی کی۔ فرانسیسی جریدے نے اپنی اشاعت میں یہ بھی لکھا کہ کس طرح فرانس کی انسداد بدعنوانی ایجنسی (اے ایف اے ) فرنچ اینٹی کرپشن ایجنسی نے ڈسالٹ کی آڈیٹ کے دوران پایا کہ اس کمپنی نے سوشین گپتا کو رشوت دی تھی۔ جب کہ ڈسالٹ کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ رقم انہوں نے رافیل طیاروں کے پچاس بڑے نمونوں کو تیار کرنے کے لیے دی تھی لیکن میڈیا پارٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ کمپنی کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ اپنے اس دعوے کو ثابت کر سکے کہ حقیقت میں وہ نمونے بنائے بھی گئے یا نہیں یعنی ڈسالٹ نے نمونے بنانے کے لیے رقم تو دے دی لیکن طیاروں کا کوئی پتہ نہیں۔
تحقیقاتی ٹیم نے آڈٹ میں پایا کہ جو رقم ڈسالٹ نے ڈفسس سلوشنز کو طیاروں کا نمونہ بنانے کے لیے دی تھی اس کو گیفٹ ٹو کلائینٹ بطور تحفہ کے زمرے میں کیوں درج کیا گیا؟ ڈسالٹ نے اس سے متعلق ایک بل پیش کیا جس میں یہ بات درج تھی کہ اس نے ڈفسس سلوشنز کو پچاس طیارہ نمونوں کو بنانے کے لیے ایک ملین یورو کی پچاس فیصد رقم ادا کر دی تھی یعنی ہر نمونے کی قیمت بیس ہزار یورو سے زیادہ تھی لیکن اس رقم کو تحفہ کے زمرے میں کیوں لکھا گیا کمپنی نے اس بات کی وضاحت نہیں کی۔ کانگریس نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر رافیل دفاعی معاہدے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ پارٹی کے مرکزی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے فرانسیسی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق ایک نیوز کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’فرانسیسی انسداد بدعنوانی ایجنسی (اے ایف اے)‘ کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ سنہ 2016 میں معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد رافیل کے مینوفیکچرر ڈاسالٹ ڈیفسس سلوشنز جو ایک انڈین کمپنی ہے جس کی ملکیت گپتا کے پاس ہے۔ یہ وہی گپتا ہیں جن کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے گزشتہ سال وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر (اگسٹا ویسٹ لینڈ) گھوٹالہ کے الزام میں منی لانڈرنگ ایکٹ (پی ایم ایل اے) کے تحت گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں ضمانت بھی مل گئی تھی۔
کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا فرانسیسی پورٹل کی رپورٹ کے انکشاف کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ساٹھ ہزار کروڑ کے دفاعی معاہدے کی قلعی پھر سے کھل گئی ہے انہوں نے مرکزی حکومت پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیر اعظم نریندر مودی تو کہتے تھے یہ دونوں حکومتوں کے درمیان معاہدہ ہوا ہے۔ اگر یہ دونوں حکومتوں کے درمیان کا معاہدہ ہے تو درمیان میں دلال یا بچولیہ کیسے آ سکتاہے؟ جب کہ انڈیا کی یہ پالیسی ہے کہ کوئی دلال نہیں کوئی کمیشن خوری نہیں پھر کیسے اس معاہدے میں دلال اور کمیشن خوری ہوئی۔ کیا اب اس کی مکمل جانچ نہیں ہونی چاہیے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’فرانسیسی انسداد بد عنوانی ایجنسی (اے ایف اے) کی تحقیقات میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ۲۰۱۶ میں ہوئے رافیل معاہدے کے بعد ڈسالٹ نے بھارت کی ایک دلال کمپنی ڈفسس سلوشنز جس کے مالک گپتا ہیں کو مبینہ طور پر ایک اشاریہ ایک ملین یورو رشوت دی‘‘۔ سرجے والا نے کہا کہ ’’کیا یہ اب ضروری نہیں ہو گیا ہے کہ بھارت کے سب سے بڑے دفاعی معاہدہ پر جو سوالات اٹھے ہیں اس کی مکمل جانچ کرائی جائے اور حقیقت کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ کتنی رشوت اور کتنا کمیشن دیا گیا’’ انہوں نے کہا کہ ’’کیا وزیر اعظم نریندر مودی اب قوم کو جواب دیں گے؟’’ دریں اثنا مرکزی وزیر اور بی جے پی کے سینئر رہنما روی شنکر پرساد نے کانگریس کے رافیل معاہدے پر سوال اٹھانے کو بے عقلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ اور سی اے جی نے اس معاہدے میں کسی قسم کی غلطی اورکسی قسم کا گھوٹالہ نہیں پایا ہے۔ میڈیا پارٹ نے کہا کہ بھارت اور فرانس کی حکومتیں اس معاہدے میں بدعنوانی ہونے کو انکار کر لیں اور کتنا ہی بدعنوانی کے دعوے کو مسترد کردیں لیکن تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اس معاملے میں رشوت خوری ہوئی تھی۔ یشونت سنہا، ارون شوری اور پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں طیاروں کی قیمت سے متعلق سوالات تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اس معاہدے میں بدعنوانی ہوئی ہے اور کورٹ اپنی راست نگرانی میں اس کی جانچ کرائے۔ اکتوبر ۲۰۱۸ میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہا کہ وہ ۳۶ لڑاکا طیاروں کی قیمتوں کی معلومات بند لفافے میں دس دن کے اندر داخل کردے۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ حساس اور راز دارانہ معلومات کو محفوظ رکھا جائے گا اسے منظر عام پر نہیں لایا جائے گا۔ پہلے تو مرکزی حکومت اس بات پر راضی ہی نہیں تھی کہ وہ اس لڑاکا طیاروں کی قیمت بتائے لیکن بعد میں اس نے بند لفافے میں اس کی تفصیلات کورٹ میں پیش کر دی۔ کورٹ نے حکومت کی پیش کردہ تفصیلات پڑھیں اور ان کی عرضی کو خارج کر دیا۔ یاد رہے کہ اس وقت چیف جسٹس رنجن گوگوئی تھے جو اب ایوان بالا کے رکن بن چکے ہیں وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہے تھے۔ یشونت سنہا نے اس رپورٹ کے آنے کے بعد کہا کہ ’’سچائی آخر باہر آ ہی گئی۔ مودی جی نے کہا تھا کہ نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا جو حقائق فرانس سے نکل کر آرہے ہیں اس صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس معاہدے میں کھایا بھی گیا ہے اور کھلایا بھی گیا ہے۔ اس طرح مودی جی نے ٹھیک اپنے نعرے کے برعکس کام کیا ہے۔ میڈیا پارٹ کی رپورٹ میں جو باتیں سامنے آئی ہیں ان میں پہلی بات یہ ہے کہ اس معاہدے ایک بھارتی دلال تھا جو ہمارے دفاعی قانون کے خلاف ہے، دوسری بات اس دلال کو رشوت دی گئی ظاہر بات ہے کہ جب دلال کے پاس پیسہ آتا ہے تو اسی کے توسط سے اس پیسہ کو سب میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ میڈیا پارٹ نے کہا کہ ہے کہ اس نے ابھی تو صرف رپورٹ کے پہلے حصہ کی تفصیلات سامنے لائی ہیں جبکہ رپورٹ کا دوسرا اور تیسرا حصہ بہت زیادہ حیران کر دینے والا ہو گا۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ اس پورے معاملے کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں سی بی آئی جانچ کرائی جائے جس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے‘‘
پرشانت بھوشن نے کہا کہ ’’ہم نے سی بی آئی کو ایک درخواست دی تھی کہ وہ اس معاملے میں پوری تحقیقات کرے، یف آئی آر دائر کرے۔ اس وقت سی بی آئی کے ڈائریکٹر الوک ورما تھے وہ اس پورے معاملے کی جانچ کر رہے تھے انہیں راتوں رات اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ایک نئے ڈائریکٹر کا تقرر کر دیا گیا اس کے بعد انہیں سی بی آئی میں آنے نہیں دیا گیا۔ پھر ہم نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا اور ایک عرضی دائر کی لیکن سپریم کورٹ نے ہماری عرضی یہ کہہ کر خارج کردی کہ حکومت نے ہمیں بند لفافے میں اس کی تفصیلات پیش کردی ہیں اور حکومت نے سی اے جی کی آڈیٹ رپورٹ پیش کی ہےجس میں سی اے جی نے کوئی گڑبڑی نہیں پائی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک سی اے جی کوئی رپورٹ نہیں آئی تھی۔ حکومت نے کورٹ کو اور بھارتی عوام کو گمراہ کیا اور جھوٹ بولا کہ سی اے جی کی رپورٹ آئی ہے اسے ایوان پارلیمان میں پیش بھی کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے کہا کہ سی اے جی اپنی رپورٹ میں قیمتوں کی معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔ حقیقت میں جب رپورٹ آئی تو واقعی اس میں قیمتوں سے متعلق معلومات نہیں تھیں‘‘
ہمیں وہ دن یاد ہے جب پچھلے سال رافیل طیارے آنے والے تھے میڈیا جسے گودی بھی کہا جانے لگا ہے انہوں نے اس آمد پر جشن جیسا ماحول پیدا کردیا تھا اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیے تھے رافیل کی خوبیوں بیان کرتے ان کی زبانیں نہیں تھکیں اور اس معاہدے کی مخالفت کرنے والوں کو طعنہ دینے لگے تھے انہیں کوسا جا رہا تھا نریندر مودی کی قدر مدح سرائی کی جارہی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید یہ پہلا دفاعی معاہدہ ہوگا جس میں کوئی دلال بچولیہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو رشوت دی گئی ہے۔ لیکن جیسے ہی یہ خبر آئی کہ اس معاہدے میں کوئی دلال بچولیہ بھی ہے اور اسے رشوت بھی دی ہے تو اسی گودی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ان کی زبانیں گنگ ہوگئیں ان کے گلوں میں نریندر مودی کی تعریفوں کے سریلے گیت گھٹ گئے۔ نریندر مودی کے اور بی جے پی کے دوسرے دعووں کی طرح یہ بھی جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا۔ نریندر مودی اپنے انتخابی جلسوں میں چیخ چیخ کر کہا کرتے تھے کہ وہ نہ کھائیں گے اور نہ کھانے دیں گے۔ جتنے گھپلے گھوٹالے منظر عام پر آرہے ہیں اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بغیر حکومتی سرپرستی کے اتنے بڑے گھوٹالے کرنا کسی عام آدمی کے بس میں نہیں۔ سی بی آئی کے لیے بھی یہ اچھا موقع ہے کہ اس پر حکومتی اشاروں پر کام کرنے کے داغ کو دھو ڈالے اور اس معاملے کی مکمل تحقیقات کر کے اپنی آزاد حیثیت کو پھر سے بحال کرے۔
***

سی بی آئی کے لیے یہ اچھا موقع ہے کہ اس پر حکومتی اشاروں پر کام کرنے کے داغ کو دھو ڈالے اور اس معاملے کی مکمل تحقیقات کر کے اپنی آزاد حیثیت کو پھر سے بحال کرے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021