راجستھان:’’ایکتا کا راج چلے گا ، ہندو مسلم ساتھ چلے گا‘

کھونا گورین‘ میں ہندو مسلم زمینی تنازعہ بات چیت سے حل

میڈیا کی گندی ذہنیت کا پردہ فاش۔ غلط فہمیوں کاہوا ازالہ ۔ امن کی کوشش ثمر آور
میڈیا اگر سماج میں نفرتوں کو فروغ دینے کے لیے کام کرے تو یقیناً اس کا یہ کردار انتہائی قابل مذمت ہو گا ۔ حالیہ برسوں میں ایک خاص طبقہ کی نمائندگی کرنے والا جانب دار میڈیا ایسا ہی کرتا آیا ہے جس سے سماج میں بھائی چارے کی بجائے اختلاف اور انتشار پیدا ہواہےجس کا راست فائدہ سنگھ کے نظریات کی حامل سیاسی پارٹیوں نے اٹھایا ہے۔گزشتہ دنوں راجستھان کے مینا قبائلیوں کے اماگڑھ قلعے پر بھگوا بریگیڈ کی جانب سے جھنڈے لہرانے کی دھمکی آمیز خبر نشر کر کے سدرشن نیوز نے جو انتشار پھیلانے کی کوشش تھی وہ بھی اسی نوعیت کی تھی جس پر وہاں کے قبائیلیوں کے سخت احتجاج کے بعد نفرت کی چنگاری سلگنے نہیں پائی۔ لیکن اس کے باوجود بھی سدرشن نیوز دو فرقوں کو لڑانے یا ان میں پھوٹ ڈالنے کا کام برابر کرتا رہا اور اس سے بالکل بھی باز نہیں آیا ۔ سدرشن نیوز چینل کے ایڈیٹر سریش چوہانکے نے اما گڑھ کے مسئلے پر ایک سیریز چلاتے ہوئے اپنے ٹی وی شو میں بتایا تھاکہ جے پور کے مسلم اکثریتی کھونا گورین میں مینا قبیلے کی زمین پر مسلم کمیونٹی کے لوگوں نےغیر قانونی طور پر قبضہ کیا ہوا ہے اس کے لیے مینا کمیونٹی کو آواز اٹھانی چاہیے۔
مینا قبائلیوں کے دوسرے اہم مقام راجستھان کے کھونا گورین کی آساوری مندر کے تعلق سے جب یہ خبر عام ہوئی کہ مینا قبیلے کے اس قدیم اور تاریخی ورثے پر مسلمانوں نے ناجائز قبضہ کیا ہے تو متوقع طور پر ماحول کچھ گرم ہو گیا۔ حالانکہ اس خبر پر وہاں کے مسلمانوں نے سخت احتجاج کیا اور حکومت سے مداخلت کی اپیل بھی کی اور اس کومیڈیا کا ایک جھوٹاپروپیگنیڈا قراردیا ۔ دوسری جانب حسب امکان میڈیا کی اس غلط خبر سےمتاثر ہو کر مینا سماج اور ان کے لیڈروں نے کھونا گورین جا کر اس قبضے کو ہٹانے کے لیے ریلی منعقد کرنے کا اعلان کیا۔
واضح رہے کہ کھونا گورین میں مینا سماج کے تاریخی ورثہ پر مسلم سماج کی طرف سے قبصہ کی افواہوں کے بعدڈاکٹرکیروڈی لال مینا نے 21 اگست کو ’’جنگ فار کھو گنگھ‘‘ ( کھونا گورین کا دوسرا نام ’ کھوگنگھ ‘)کے نام سے بائیک ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں کھو ناگورین کی مسلم کمیونٹی نے 18 اگست کو اس ریلی کے خلاف احتجاج میں کھو ناگورین بند کی کال دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد انتظامیہ نے بھی معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور تنازعہ حل کرنے کی پوری کوشش کی۔ کہا گیا ہے کہ پولیس کمشنر نے راجیہ سبھا ایم پی کیروڈی لال اور مسلم تنظیموں کے لوگوں کو الگ الگ بلا کر بات کی تھی۔ چونکہ کھونا گورین میں 80فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے اگر وہاں کوئی ایسی بات پیش آتی تو خدشہ تھا کہ حالات بگڑتے مگر کھونا گورین کے مینا قبائیلیوں نے آگے آکر حکام اور پولیس کے اعلی عہدیداروں سے ملاقات کی اور اس سلسلے میں خود وضاحت دی کہ ’ کھونا گورین میں ہندو مسلم برسوں سے ساتھ رہتے آ رہے ہیں اور ہماری کسی زمین پر مسلمانوں نے قبضہ نہیں کیا ہے ۔‘ اس کے بعد بی جے پی رکن پارلیمنٹ اور مینا سماج لیڈر کیروڈی لال مینا اور مسلم تنظیموں کے درمیان امن مذاکرات ہوئے اور یوں کھو ناگورین تنازعہ ختم ہو گیا ۔ جھگڑے کے خاتمے کا اعلان خود رکن پارلیمنٹ کیروڈی لال مینا نے کھو ناگورین پہنچنے کے بعد ایک اجلاس میں کیا۔ اس مذاکرات میں دونوں فریقوں نے تمام متنازعہ معاملات پر اتفاق کیا اور یادداشت مفاہمت تیار کی جس میں لکھا گیا کہ ناگوری مسلم سماج اور مینا قبیلے کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ مینا سماج کی آساوری ماتا مندر میں مینا سماج، مسلم سماج اور انتظامیہ کی موجودگی میں کیروڈی لال نے ترنگا لہرایا اور کہا کہ اب اس مندر کو تاریخی شکل میں محفوظ کرنے کا کام انتظامیہ کرے گی۔
غلط فہمیوں کے ازالے کے ساتھ ہی دونوں فرقوں کے درمیان محبت ورواداری کا مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملا ۔ اس سلسلے میں ہوئے ایک اجلاس میں اسٹیج سے’ایکتا کا راج چلے گا، ہندو مسلم ساتھ چلے گا‘ کے نعرے بھی لگائے گئے ۔باہمی رضامندی سے مینا اور مسلم کمیونٹی کے درمیان تنازعہ حل کرنے کے بعد رکن پارلیمنٹ کیروڈی لال مینا نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا اور کہا کہ ’’کچھ شک و شبہ آپ کے ذہن میں اور کچھ ہمارے لوگوں کے ذہن ودماغ میں پیدا ہوا تھا، اب تمام غلط فہمیاں بے بنیاد نکلیں، ہم پہلے بھی اسی پلیٹ فارم پر تھے آج بھی ہیں اورآئندہ بھی رہیں گے۔ اس بیچ ڈاکٹر کیروڈی لال مینا نے کھونا گورین میں تعلیمی ترقی کی خاطر اسکول کی تعمیر کے لیے 10 لاکھ روپے کی گرانٹ کا اعلان بھی کیا ۔ کیروڈی لال کی طرف سے آساوری ماتا مندر میں قومی پرچم لہرائے جانے کے ساتھ ہی نفرت کی ممکنہ چنگاری خاکستر ہوگئی، فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لوگوں نے فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کی بہت کوشش کی، اگر کھونا گورین کے مقامی قبائلی بیدار مغزی کا مظاہرہ نہ کرتے تو کھونا گورین فرقہ واریت کی آگ میں جھلس جاتا اور ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں حالات نہ صرف مخدوش ہوتے بلکہ فرقہ پرستی کی آگ میں وہاں کا قدیم بھائی چارہ بھی بھسم ہوجاتا ۔ ( سالک ندوی)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021