افغانستان میں سیاسی تبدیلی سے بھارت میں ملاجلاردعمل

جنوبی ہند کے افغانی طلبا دونوں ممالک میں خوش گوارتعلقات کے خواہاں

ڈاکٹرمحمدکلیم محی الدین

افغان اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن کے صدر اور نائب صدر سے ہفت روزہ دعوت کی بات چیت
وزارت تعلیم کے ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں تعلیمی سال 2019-20کے دوران بیرون ممالک کے زیرتعلیم طلبا کی تعداد49348 ہے جب کہ افغانستانی طلبا کی تعداد تقریباً 4500ہے۔ یہ طلبا ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ تلنگانہ اور خاص طور پر حیدرآباد میں افغان طلبا بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانی طلبا کافی فکر مند تھے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ آئندہ دنوں میں افغانستان کو ایک کامیاب مملکت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ چونکہ سابق صدرِ افغانستان کو خود امریکہ بدعنوان بتارہا ہے تو ایسے میں نئی حکومت سے افغان عوام کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ افغانی طلبا کا کہنا ہے کہ وہ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان بہترتعلقات کے خواہاں ہیں۔ وہ یہاں سے جلد جانا نہیں چاہتے۔ طالبان نے 1998 تا 2001 حکومت کی تھی اس وقت بھی ان کی غلط شبیہ پیش کی گئی تھی اور آج بھی جبکہ وہ دوبارہ اقتدار میں واپس آئے ہیں بعض لوگ ان کی شبیہ کو غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ لیکن اب طالبان نے پہلے کے مقابلے میں اپنی شبیہ کو بہتر بنا کر پیش کرتے ہوئے حقوق انسانی کا لحاظ اور خواتین کو مکمل پردے کے ساتھ مختلف میدانوں میں کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر حیدرآباد کے مختلف افراد سے بات چیت کی گئی جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا جارہاہے ۔
افغان اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن کے صدر محمد یوسف نے ہفت روزہ دعوت کو فون پر بتایا کہ حیدرآباد میں رہنے والے طلبا کے والدین افغانستان کے حالات سے فکر مند ہیں اور مزید دو ماہ تک انہیں یہیں قیام کرنے پر اصرار کررہے ہیں۔ بعض طلبا افغانستان کے مستقبل کے بارے میں اندیشوں کا شکار ہیں اس لیے بھی وہ مزید کچھ عرصہ یہاں قیام کرنا چاہتے ہیں۔ کئی طلبا ایسے ہیں جن کے ویزا کی مدت چند ہفتوں میں ختم ہورہی ہے جس سے وہ پریشان ہیں۔ حیدرآباد کے علاوہ بنگلور، دہلی ، پونا کے بشمول ملک کی کئی ریاستوں میں افغان طلبا موجود ہیں۔
محمد یوسف نے مزید بتایا کہ تلنگانہ میں تقریباً 200افغانی طلبا ہیں جو عثمانیہ یونیورسٹی، انگلش اینڈ فارن لینگویجس یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہیں۔ ان طلبا کو انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشن کی جانب سے 24500ماہانہ اسکالرشپ دی جاتی ہے۔ افغان طلبا اچانک اسکالرشپ بند ہو جانے اور واپس جانے کے اندیشے سے پریشان ہیں اس لیے وہ سب ویزااور اسکالرشپ میں توسیع کے خواہش مند ہیں ۔
محمد یوسف نے کہا ہے کہ وہ حکومت سے ربط میں ہیں اور بعض طلبا کی ویزا میں توسیع کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ اسکالرشپ کے تسلسل کو بھی جاری رکھنے کے خواہاں ہیں ۔انہوں نے کہاکہ طالبان نے خواتین کو بھی حکومت میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے جس کی ستائش کی جانی چاہیے ۔ ابھی حکومت بن رہی ہے اس لیے اس پر مزید کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ طالبانی حکومت کی پالیسیوں اور سابق صدر کے بارے میں کچھ کہنے سے انہوں نے معذرت چاہی۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں آنے والے دنوں میں بہتر تبدیلی کی توقع رکھنا چاہیے ۔ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان خوشگوار تعلقات ہیں اس سے ہم طلبا کافی مطمئن ہیں۔ یہاں رہ کر تعلیم حاصل کرنا ان کے لیے نہایت اچھا تجربہ ہے۔ افغان طلبا مختلف یونیورسٹیز میں آرٹس، سائنس، میڈیکل اور دیگر شعبوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کی نئی حکومت سے بھی ہندوستان کے بہتر تعلقات قائم رہیں۔ وہ ہر حال میں امن و سلامتی کی تائید کریں گے۔
افغان اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن کے نائب صدر یونس شریف نے بتایا کہ حیدرآباد میں مقیم طلبا ابھی اپنی پڑھائی پر توجہ دے رہے ہیں۔ انہیں افغانستان کے سیاسی حالات سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ وہ بس یہاں کچھ دن اور رہنا چاہتے ہیں۔ نئی افغان حکومت کی پالیسیوں پر ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ یہاں رہ کر وہ پڑھائی کرنا چاہتے ہیں ساتھ ہی اسکالرشپ جاری رکھے جانے کے بھی خواہاں ہیں۔ زیادہ تر طلبا سیاسی طور پر نہیں بلکہ حیدرآباد میں دستیاب سہولتوں کی وجہ سے یہاں رہنا چاہتے ہیں۔ بعض طلبا جو یہاں سے جاچکے وہ بھی یہاں واپس آنا چاہتے ہیں۔ وہ حیدرآبادی تہذیب اور ہندوستانی روایات سے بہت متاثر ہیں۔ 2020 میں افغانستان واپس ہو چکے سابق طالب علم وحیداللہ نے جو تین سال حیدرآباد میں رہ کر پڑھائی کرچکے ہیں کہا کہ اگر دوبارہ انہیں موقع ملے تو وہ ضرور حیدرآباد آنا چاہیں گے۔
سابق میں طالبان کی شبیہ بے حد خراب تھی جس کی وجہ اسلاموفوبیا تھا۔ خواتین پر مظالم کو بھی میڈیا میں اچھالا جارہا تھااسی وجہ سے طالبان کی واپسی کے بعد خواتین پریشان ہوگئی تھیں۔ اسی تعلق سے صحافی رشیکا نے ہفت روزہ دعوت کو فون پر بتایا کہ حیدرآباد میں تعلیم حاصل کررہی لڑکیاں موجودہ حالات سے پریشان ہیں۔ وہ طالبان سے خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد میں تعلیم حاصل کررہی کابل کی طالبہ نجرابی ان حالات سے کافی مایوس ہے۔ اس نے گھروالوں سے کہا ہے کہ وہ ان تصاویر کو آگ لگادیں جس میں وہ بغیر حجاب کے نظرآرہی ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی پوشیدہ رکھنے کی ہدایت دی کہ ان کی دختر بغیر کسی محرم کے بیرون ملک تعلیم حاصل کررہی ہے۔
افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی کی خبریں یہاں پر تعلیم حاصل کر رہے طلبا کے لیے باعث تشویش تھیں۔ وہ اپنے مستقبل کے تعلق سے کافی پریشان ہورہے تھے لیکن اب وہ پُرامید ہیں کہ آنے والا وقت اچھا ہوگا۔ یکے بعد دیگرے کئی ممالک افغانستان کی نئی حکومت کو قبول کررہےہیں۔ آنے والے دور میں افغانستان کی صورتحال اچھی ہو گی۔ ہندوستان میں موجود افغانستان کے طلبا آنے والے دنوں میں ہندوستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات دیکھنے کے خواہاں ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021