’تھاجو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا‘

آبادی پرکنٹرول کےقانون سے چین کوسنگین سماجی مسائل

مسعود ابدالی

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی Xinhua کے مطابق چینی مقننہ ’بچے دو ہی اچھے‘ یعنی two child policy میں ترمیم پر غور کررہی ہے۔ خیال ہے کہ اب تین بچوں کی اجازت دے دی جائے گی۔ ترمیم کے تحت ’قانونی حد‘سے زیادہ بچوں کی پیدائش پر سزاوں کا نظام بھی کالعدم کیا جارہاہے۔
چین پر آبادی کم کرنے کا خبط 1978میں ماوزے تنگ کے انتقال کے بعد سوار ہوا۔ چئرمین ماو آبادی کم کرنے کے خلاف تھے اور وہ اسے سرمایہ دارانہ چونچلا قرار دیتے تھے۔ پارٹی کے ایک اجلاس میں ماوزے تنگ نے کہا تھا کہ دنیا میں آنے والا ہر بچہ ایک منھ اور دو ہاتھ لے کر آتا ہے یعنی ہر نیا فرد اپنی ضرورت سے دوگنا رزق کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ون چائلڈ پالیسی کو 1980کے بعد سختی سے نافذ کیا گیا جس میں 2002 کے دوران ترمیم کرکے ہر جوڑے کو دو بچوں کی پیدائش کی اجازت دے دی گئی لیکن 2015میں مزید ترمیم کے ساتھ اس قانون کو انتہائی خوفناک بنادیاگیا تھا۔ دوسے زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین کو بھاری جرمانہ، نوکری سے برخاستگی، سرکاری رہائش سے بے دخلی اور دوسری سزائیں دے کر نشان عبرت بنادیا جاتا ہے۔
اس سخت قانون کے نتیجے میں اضافہ آبادی تو قابو میں آگیا مگراس غیر فطری پابندی سے کچھ دوسری قباحتیں پیدا ہوگئیں۔ ایک طرف آبادی سکڑ رہی تھی تو دوسری جانب اقتصادی ترقی کی شرح غیر معمولی ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے خود کو گھرداری کے جھنجھٹ سے آزاد کرلیا، نتیجے کے طور پر فی خاندان اوسط پیدائش دو سے بھی کم رہ گئی۔اسی کے ساتھ آبادی میں بوڑھوں کی شرح بڑھنے سے جہاں طبی سہولتوں پر دباؤ بڑھا وہیں ضعیف والدین کی دیکھ بھال نے سماجی مسائل پیدا کردیے۔
آج سکڑتی آبادی سے پریشان چین، صرف دس برس پہلے تک افزائش نسل پر قابو کے لیے پرعزم تھا۔ نومبر 2011 میں کمیونسٹ پارٹی نے اس ’گھمبیر‘ مسئلے پر ایک ماہ تک طویل بحث ومباحثہ کیا تھا۔ سیر حاصل گفتگو کے دوران جو اعداد وشمار ہیش کیے گئے اس کے مطابق 2000 سے2010 کےدوران چین کی مجموعی آبادی میں سات کروڑ چالیس لاکھ کا اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ دہائی میں یہ اضافہ چھبیس کروڑ کے قریب تھا۔ چین کی وزارت صحت نے اس وقت توقع ظاہر کی تھی کہ 2020کو ختم ہونے والی دہائی میں آبادی کا اضافہ صفر بلکہ منفی ہوجائے گا اور اگر آبادی وخاندانی منصو بہ بندی پالیسی پر اسی طرح سختی سے عمل درآمد جاری رہا تو2050 تک چین کی مجموعی آبادی ایک ارب اور چند کروڑ رہ جائے گی۔ اِس وقت ملک کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
اجلاس کے دوران آبادی میں کمی پر وزارت صحت نے پارٹی کی قیادت سے خوب داد سمیٹی لیکن دبے الفاظ میں اس وقت بھی کچھ صاحبانِ بصیرت نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ایک بہت ہی سینئر رہنما نے نام نہ بتانے کی شرط پرغیر رسمی باتیں کرتے ہوئےکہا کہ آبادی منصوبہ بندی پالیسی ملک کو خوشحال بنانے کے لیے وضع کی گئی تھی مگر اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ چینی قوم خوشحال ہونے سے پہلے ہی معذوراور ضعیف ہوجائے گی کیونکہ آبادی میں بوڑھوں کا تناسب بڑھتا جارہاہے۔
سخت سزاوں سے آبادی توکم ہوگئی مگراس کے نتیجے میں سنگین سماجی مسائل پیدا ہوئے جس میں اسقاطِ حمل، نوزائیدہ بچیوں کا قتل اور بردہ فروشی سر فہرست ہیں جبکہ اس غیر فطری پالیسی کے دوررس منفی اثرات اب ظاہر ہورہے ہیں
ملک کی بڑھتی ہوئی ضعیف آبادی کو تنہائی کے عذاب کا بھی سامنا ہے۔ جسکی وجہ سے عمر رسیدہ جوڑوں کے نفسیاتی مسائل بڑھ رہے ہیں اور معمر افراد میں چڑچڑے پن اور ڈیپریشن کا مرض عام ہورہا ہے۔ عمررسیدہ جوڑوں میں طلاق کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نتیجے کے طور پر بڑی تعداد میں بوڑھی خواتین بالکل تنہا رہ گئی ہیں۔ دوسری طرف عمر رسیدہ والدین میں طلاق سے سعادت مند اولاد کو مزید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیں ماں اور باپ کے لیے الگ الگ رہائش یا نرسنگ ہوم کے اخراجات برداشت کرنے پڑرہے ہیں۔ اس صورتحال کے لیے انسانی نفسیات کے ماہرین نے 4-2-1 Syndromeکی اصطلاح وضع کی ہے یعنی ایک جوان لڑکے کو کم ازکم دو (ماں اور باپ) یا چار (ماں، باپ اور داد،دادی) کی نگہداشت کرنی پڑرہی ہے۔ اس صورتحال کے عبرتناک پہلو کی طرف حال ہی میں ایک تجارتی رسالے نے نشاندہی کی ہے۔ جائزے کے مطابق چین میں بچوں کے مقابلے میں بالغوں کے ڈائپرز کی فروخت بڑھ چکی ہے۔
اس پالیسی کا سب سے افسوسناک پہلو صنفِ لطیف کی ناقدری و بے توقیری ہے۔ اولادِ نرینہ، تیسری دنیا کے ماں باپ کی دیرینہ خواہش ہے جس سے چین کا کمیونسٹ معاشرہ بھی مستثنیٰ نہیں۔ دورِ جدید میں پُر امید خواتین کے لیے بچے کی جنس معلوم کرنا آسان ہے، چنانچہ لڑکی ہونے کی صورت میں پرامید مائیں غیر مولود بچیوں کو ضایع کردیتی ہیں بلکہ بیٹے کی گنجائش رکھنے کے لیے پیدا ہونے والی لڑکیوں کا گلا گھونٹنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ دیہاتوں میں جہاں الٹرا ساونڈ کی جدید سہولتیں موجود نہیں وہاں دائیاں ٹوٹکوں کے ذریعے قریب المولود کی جنس معلوم کرتی ہیں اور لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاط کی جو کوششیں کی جاتی ہیں وہ اکثر اوقات پرامید ماں کی موت کاسبب بنتی ہیں۔ لڑکا جنم دینے کے لیے بھی ٹوٹکے مقبول ہیں اور بہت سے نیم حکیم اس کوشش میں نوجوان خواتین کو نسوانی امراض میں مبتلا کررہے ہیں۔
معاشرے کے اس رجحان نے نوجوان چینی خواتین کو احساسِ کمتری میں مبتلا کردیا ہے۔ وہ خود کو معاشرے پر بوجھ تصور کرتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق چینی خواتین میں ملک سے چلے جانے کا رواج بڑھتا جارہا اور تعلیمی یافتہ چینی خواتین کی بڑی تعداد تائیوان، سنگاپور اورمغرب کا رخ کر رہی ہے۔
تیسرا بچہ ہونے کی صورت میں سزا سے بچنے کے لیے بچے فروخت کردیے جاتے ہیں۔ بچوں کی خریدو فروخت کےلیے بردہ فروشوں نے آسٹریلیا اور تائیوان میں زیر زمین ایجنسیاں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے یہ لاوارث بچے یورپ، امریکہ، کینیڈا اور دوسرے ملکوں میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ فروخت کیے جانے والے اکثر بچے تو اولاد سے محروم جوڑوں کی شفقت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں لیکن بہت سی لاوارث بچیاں قحبہ گروں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں۔
لڑکے کے ہونکے میں لڑکیوں کی تعداد کم ہورہی ہے اور اگلے دس سال میں سولڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی تعداد 120 ہوجائےگی اور یہ تناسب اسی طرح برقرار رہا تو اگلی صدی میں چین خواتین کا ملک ہوگا۔ سب سے دلچسپ انکشاف وزارت ثقافت کا ہے جس کاکہنا ہے کہ 2060کے بعد چینی نوجوانوں کو شادی کے لیے اپنی دلہنیں امپورٹ کرنی ہوں گی۔
افرادی قوت کے باب میں چین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور وزارت محنت نے خیال ظاہر کیا ہے کہ 2050کے بعد چین کی افرادی طاقت میں شدید کمی واقع ہوگی اور فیکٹریوں کو چلانے کے لیے ہر سال دوکروڑ مزدور باہر سے لانے ہوں گے۔
مجوزہ ترمیم میں بچوں کی ولادت کے لیے مراعات اور سہولتیں فراہم کرنےکی سفارش بھی کی جارہی ہے جن میں نومولود کی دیکھ بھال کے لیے اضافی چھٹیاں، گھروں کے قریب بچوں کی دیکھ بھال (Nursery)کے نئے مراکز کی تعمیر، زچہ وبچہ الاونس، نئے پیرخانوں (Elderly Centers) کا قیام اور دوسرے اقدامات شامل ہیں۔
اس صورتحال کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں مرد و خواتین کا تناسب بہت زیادہ متاثر نہیں ہوا کہ مسلمانوں میں اسقاطِ حمل قتلِ عمد تصور کیا جاتا ہے لہٰذا نوزائیدہ بچی کے قتل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں مسلمان آبادی کے اضافے کی شرح کسی حد تک برقرار ہے۔
چین کو ’قلت آبادی‘سے جن مسائل کا سامنا ہے وہ بیجنگ کی اپنی کوتاہ اندیشی کا نتیجہ ہے لیکن یورپ اور ایشیا کےان صنعتی ممالک کو بھی تیزی سے بوڑھی ہوتی آبادی نے مشکلات میں مبتلا کردیا ہے جہاں پیدائش پر کوئی قدغن نہیں لیکن بہتر مستقبل کی تعمیر میں مصروف نوجوانوں کے پاس خانہ آبادی کے لیے فرصت نہیں۔ جدید ٹیکنالوجی خاص طور سے Automationنے افرادی قوت کے دباو کو کچھ کم کردیا ہے لیکن جاپان، جنوبی کوریا، مغربی یورپ اور امریکہ میں افرادی قوت کی کمی بری طرح محسوس کی جارہی ہے۔
کرونا کی حالیہ وبا کے دوران امریکہ کی بہت سی خواتین کو اندازہ ہوا کہ ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ بچوں کی دیکھ بھال (Child Care) ٹیکس، آفس کے کپڑوں اور میک اپ پر خرچ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ کام کرنے والی ایک تہائی کے قریب خواتین نوکری پر جانے کے بجائے اب House Wife بن چکی ہیں۔امریکہ کی جہاز راں اور سیاحتی صنعت کو اس وقت سخت افرادی قوت کا سامناہے۔ جولائی میں امریکی یوم آزادی پرجب لاکھوں امریکیوں نے عزمِ سفر باندھا تو سینکڑوں پروازیں اس لیے منسوخ کردینی پڑیں کہ نہ پائلٹ میسر تھے نہ فضائی میزبان اور نہ ہی زمینی خدمات کا عملہ۔ آبادی میں اضافہ یقیناً مسائل پیدا کرتا ہے لیکن آبادی میں کمی سے جنم لینے والے نقصانات اس سے زیادہ تباہ کن ہیں۔
تیسری دنیا کا ہر دانشور اور کالم نگار بڑھتی ہوئی آبادی کو غربت و ناداری کی جڑ قرار دیتا ہے بلکہ بعض بقراط تو دہشت گردی کا تعلق بھی آبادی میں اضافے سے جوڑ رہے ہیں۔ ریاستی طاقت اور جبر سے آبادی پر قابو کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اس کی عبرتناک مثال چین ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 تیسری دنیا کا ہر دانشور اور کالم نگار بڑھتی ہوئی آبادی کو غربت و ناداری کی جڑ قرار دیتا ہے بلکہ بعض بقراط تو دہشت گردی کا تعلق بھی آبادی میں اضافے سے جوڑ رہے ہیں۔ ریاستی طاقت اور جبر سے آبادی پر قابو کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اس کی عبرتناک مثال چین ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021