دیہی علاقوں میں دعوتی کام کے دوران روح پرور تجربات

قریہ قریہ اور گھر گھرپہنچ کر برادران وطن کو امن و سلامتی کا پیغام پہنچانے کی ضرورت

سید افتخار، عثمان آباد

 

مہاراشٹرمیں ۲۲ تا ۳۱ جنوری ۲۰۲۱ منائی گئی دعوتی مہم کے دوران ارکان جماعت کا ایک وفدجب ضلع عثمان آباد کے ایک دیہات پینچا تو وہاں انہیں خوش گوار تجربہ ہوا۔ ملاقاتوں اور دعوت اسلام کے بعد یہ وفد تعلقہ کے ایک بڑے دیہات (Towh) پہنچا۔ یہ ایسا گاوں تھا جہاں کسی زمانے میں بھیانک زلزلہ آیا تھا۔ پورے گاوں کے مکانات اور دیگر عمارتیں تہس نہس ہوگئی تھیں سینکڑوں لوگ ملبے کے نیچے دب کر مر گئے تھے۔ اس گاوں کو بعد میں ازسر نو تعمیر کرکے آباد کیا گیا ہے۔
یہ وفد جب اس گاوں کی مسجد میں پہنچا تو وہاں پہلے سے دی گئی اطلاع کے مطابق ٹہرے رہے چند افراد سے ملاقاتیں ہوئیں۔ بعد میں وفد کے اراکین نے گاوں کے اندر پہنچ کر ایک مقام پر لوگوں کو جمع کرکے باضابطہ ایک پروگرام رکھا۔ مہم کا تعارف کروانے کے بعد ان لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دی گئی۔ شرکا میں برادران وطن کافی تعداد میں تھے۔ سب نے خوش دلی سے استقبال کیا۔ اس کام کی لوگوں نے بہت تحسین کی اور آنے والے وفد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ وفد میں کئی مقامی ذمہ داران شامل تھے۔ اس پروگرام میں شریک برادران وطن کو مراٹھی زبان میں ترجمہ قرآن بھی دیا گیا۔ اور بھی بہت سارے شریک افراد نے قرآن مجید کا مطالبہ کیا۔ ان کو کسی دوسرے وقت دینے کا وعدہ کیا گیا۔
اس گاوں میں کام مکمل کر کے قریب کے ایک دوسرے تعلقہ جانے کی غرض سے باہر آئے۔ راستہ میں ایک چھوٹا سا دیہات تھا۔ اس مقام سے کچھ پہلے کھیت میں ایک بڑا سا سایہ دار درخت دیکھا تو وفد کے ارکان نے وہاں بیٹھ کر کھانا کھانے کا ارادہ کیا۔ کھیت میں نظر دوڑائی تو ایک شخص کام میں مصروف دکھائی دیا۔ اس کو آواز دے کر پاس بلایا اور اس سے اس درخت کے نیچے کھانا کھانے کی اجازت طلب کی۔ وہی شخص اس کھیت کا مالک بھی تھا جہاں یہ درخت تھا اس نے حیرت سے کہا کہ یہ درخت ہے اس کے سائے میں بیٹھ کر کھانا کھانے کے لیے کسی سے اجازت کی کیا ضرورت ہے۔ اس شخص کا نام اجئے (بدلا ہوا نام ) ہے۔ وفد کے ایک رکن نے دعوتی مہم کا پمفلٹ اس کو دیا اور ہم کھانا کھانے میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ شخص پمفلٹ پڑھنے میں اتنا منہمک تھا کہ اس کو اطراف و اکناف کا ہوش تک نہ رہا۔ ہماری آواز پر اس نے کوئی توجہ نہ دی۔ ہم نے دیکھا کہ وہ جیسے جیسے پمفلٹ پڑھتا جاتا تھا ویسے ویسے اس کی جسمانی کیفیت بدلتی جاتی تھی۔ پورا پمفلٹ پڑھنے کے بعداجئےنے ہماری طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور اس نے یہ بتایا کہ یہ ساری باتیں اس کے بڑے بھائی نے کل رات ہی بتادی تھیں جو اس پمفلٹ میں شائع ہوئی ہیں۔ مزید گفتگو کے دوران اس نے بتایا کہ اس کے بڑے بھائی نے عمر کے ۱۲ ویں سال ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا اور وہ یہاں سے ترک وطن کر کے دوسری ریاست میں رہائش پذیر ہے۔ وہ ایک دن پہلے ہی یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ہماری والدہ ضعیف تھیں اور ان کی صحت کافی خراب تھی ہم نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ دونوں کی ملاقات کروائی تھی۔ میں نے ان کو آنے کے لیے کہا تو انہوں نے کہا کہ میں اگر وہاں پہنچ گیا تو شاید ایک دن میں ہی والدہ کا انتقال ہو جائے گا۔ بہرحال میرے بڑے بھائی اور ان کی اہلیہ وقت رہتے یہاں پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے آنے کے بعد ماں کے سرہانے جانے کیا دعا کی کہ دعا ختم ہوتے ہی والدہ انتقال کر گئیں۔
وفد کے ارکان نے بتایا کہ ہم نے ان سے خواہش کی کہ ہم ان کے بڑے بھائی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے گاوں کے لیے روانہ ہوئے گھر پہنچے تو ان کے بڑے بھائی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنا نام حسن (بدلا ہوا نام ) رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنے چھوٹے بھائی اجئے کو آپ کی آمد کی اطلاع پہلے ہی سے دے دی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ آپ لوگ اس گھر میں یا کھیت پر ہی ملاقات کریں گے۔
انتہائی حیرت و استعجاب کی بات یہ ہے کہ ہم نے ان کے گاوں جانے کا پہلے سے نہ کوئی پروگرام بنایا تھا اور نہ ہی اجئے کو پہلے سے جانتے تھے نہ ہی ہمیں یہ معلوم تھا کہ جس کھیت میں درخت کے نیچے ہم کھانا کھانے بیٹھے تھے اس کی معلومات ان کویا ان کے بڑے بھائی کو تھی۔ ہم نے تو راستے سے اپنی کار سے گزرتے ہوئے اس کھیت میں بڑے سے سایہ دار درخت کو دیکھا تو سوچا کہ یہاں بیٹھ کر کھایا جائے۔ پھر کھیت کے مالک سے اجازت لینے کے لیے ہم نے ان سے بات کی اس وقت تک ہم کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ ان کا نام اجئے ہے اور وہی اس کھیت کے مالک ہیں۔ پھران کے بڑے بھائی نے ہماری آمد کی اطلاع اپنے چھوٹے بھائی کو ایک دن پہلے ہی کیسے دے دی تھی اور یہ کیسے بتا دیا کہ ہماری ان سے ملاقات کھیت میں ہو سکتی ہے۔ یہ ایسا روح پرور واقعہ ہے کہ جتنا ہم لوگ اس پر غور کرتے ہیں اتنے ہی حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ باتیں وفد کے ارکان نے بتائیں۔ دوران گفتگو وفد کے ارکان کو وکاس نے بتایا کہ گاوں کے لوگ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ جب تیرا بڑا بھائی واپس آئے گا تو وہ زرعی اراضی میں اپنا حصہ مانگے گا۔ مگر میرے بڑے بھائی نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے کہا کہ مجھے اس زمین کی مٹھی بھر مٹی میں نہیں چاہیے۔ ہم نے ان دونوں سے کہا کہ گاوں کے لوگ بہکاتے رہیں گے۔ آپ ان کے بہکاوے میں نہ آئیں اور آپس میں فطری برادرانہ جو تعلقات ہیں انہیں بنائے رکھیں اور محبت خلوص کے ساتھ رہیں۔ ہم وہاں سے واپس ہو رہے تھے ان دونوں بھائیوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور یہی کیفیت ہماری بھی تھی۔ چشم نم کے ساتھ وفد کے ارکان نے ان سے اجازت لی اور واپس ہوئے۔
وہاں سے یہ وفد جب دوسرے تعلقہ پہنچا تو وہاں کے ہندو مسلم شہریوں نے پرتپاک خیرمقدم کیا۔ ایک نشست رکھی گئی تھی جس میں وہاں کے دولتمند کاروباری برادران وطن شریک تھے۔ انہوں نے وفد کے ارکان سے جب مہم کا تعارف سنا تو بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ واقعی آج سماج میں جیسی مہیب تاریکی پھیلی ہوئی ہے ویسی کبھی نہ دیکھی تھی اور نہ سنی تھی۔ انہوں نے اس بات کو بھی بڑی اہمیت دی کہ ابھی ہم کورونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاون جیسی مصیبت سے گزرے ہیں اس کے بعد آپ لوگ وہ پہلے افراد ہیں جن کی آمد سے ماحول میں انتہائی خوش گوار تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کام کو بہت بڑے پیمانے پر کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے وفد کے ارکان سے وعدہ کیا کہ اگلی بار ایک بہت بڑا پروگرم کا انعقاد کرنے میں وہ لوگ ہر طرح سے تعاون کریں گے۔ نشست کا انعقاد کرنے والوں کی طرف سے وفد کے ارکان کی گلپوشی بھی کی گئی۔ معززین شہر اور بڑے کاروباری حضرات نے ہمارے فون نمبرات لیے اور کہا کہ جو کام آپ لوگ کر رہے ہیں اس میں اخلاص آپ کے وجود میں ہمیں صاف دکھائی دے رہا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم بھی اس کام کو انجام دیں۔
وفد کے ارکان بتاتے ہیں کہ وہ واپسی کے دوران راستہ بھر حیرت استعجاب اور انتہائی مسرت کے ساتھ ان دونوں واقعات کو یاد کرکے اللہ رب العزت کے حضور شکر گزار ہوتے رہے جس نے اپنے کام میں اتنی برکت عطا کی۔ اتنی خوش دلی سے لوگوں نے اس دعوت کا استقبال کیا ۔ واقعی لوگ نیکیوں کے پیاسے ہیں، کوئی تو ہو جو انہیں گمراہیوں سے نکلنے میں ان کی مدد کرے۔
( مضمون نگار مراٹھی ہفت روزہ شودھن کے مدیر اور مصنف نیزمراٹھی مترجم قرآن ہیں۔)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021