دہلی تشدد: 9 ہلاک ہونے والے افراد کو ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا تھا، پولیس کا کہنا ہے کہ ’’کٹّر ہندو ایکتا‘‘ واٹس ایپ گروپ پر کی گئی تھی تشدد کی منصوبہ بندی

نئی دہلی، جولائی 4: دہلی پولیس نے کہا ہے کہ فروری میں دارالحکومت کے شمال مشرقی ضلع میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد کے دوران ’’جئے شری رام‘‘ بولنے سے انکار کرنے پر لوگوں کے ایک ہجوم نے 9 مسلمانوں کو ہلاک کردیا۔ پولیس نے کہا کہ ملزم اپنی سرگرمیوں کو مربوط بنانے اور ضرورت پڑنے پر افرادی قوت یا گولہ بارود کی فراہمی کے لیے واٹس ایپ گروپ کا استعمال کرتے تھے۔

پولیس نے ایک چارج شیٹ میں کہا کہ ایک واٹس ایپ گروپ ’’کٹّر ہندو ایکتا‘‘ 25 فروری کو رات 12.49 بجے ’’مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔‘‘ دی انڈین ایکسپریس کے مطابق  پولیس نے کہا کہ ممبران نے اس گروپ میں ’’مسلمانوں کو مارنے‘‘ اور ’’ان کی لاشوں کو گٹر میں پھینکنے‘‘ کی باتیں کیں۔ چارج شیٹ کے مطابق ابتدا میں اس گروپ کے تقریباً 125 ارکان تھے، لیکن 8 مارچ تک کل 47 ممبران گروپ سے باہر چلے گئے تھے۔

پولیس واٹس ایپ کی گفتگو کو ’’غیر قانونی اعتراف‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

حمزہ، امین، بھورے علی، مرسلین، آس محد، مشرف، عقیل احمد، ہاشم علی اور اس کے بڑے بھائی عامر خان کے قتل کے معاملے میں 29 جون کو ایڈیشنل چیف آف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ ونود کمار گوتم کے سامنے چارج شیٹ دائر کی گئی ہے۔

تفتیش سے انکشاف ہوا ہے کہ مجرموں نے 25 فروری کی صبح اور 26 فروری کی نصف شب کے درمیان گنگا وہار-بھگیرتی وہار علاقے میں نو مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ بھگیرتی وہار میں ان حملوں کے دوران متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔

پولیس نے بتایا کہ مسلح افراد نے جس کو بھی دیکھا اسے روک لیاْ ان کا نام، پتہ، شناختی کارڈ دیکھا اور انھیں کہا کہ ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگائیں۔ جس نے بھی انکار کیا، یا جو مسلمان انھیں ملا، اس کو بھگیرتی وہار میں بے دردی سے مار دیا گیا اور اس کی لاش کو نالی میں پھینک دیا گیا۔

ایک چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’مجرموں نے ہر اس مسلمان کو قتل کرنے کا عہد کیا جو ان کے سامنے آ جائے۔‘‘ تاہم چارج شیٹ خاص طور پر امین، بھورے علی اور حمزہ کے قتل سے متعلق ہے۔

امین کو 25 فروری کی صبح 9.30 بجے کے لگ بھگ بھگیرتی وہار کے سی بلاک میں ہلاک کر کے نالے میں پھینک دیا گیا تھا، جب وہ برج پوری پلیا سے پیدل آرہا تھا۔ 26 فروری کو صبح تقریباً 10.30 بجے بھورے علی کو بھی امین کی طرح اسی جگہ پر مار ڈالا گیا اور اس کے نعش کو نالے میں پھینک دیا گیا۔ حمزہ کو 26 فروری کی رات 9.15 کے لگ بھگ قتل کیا گیا تھا اور ای بلاک کے ایک نالے میں پھینک دیا گیا تھا۔

پولیس کی چار شیٹ میں کہا گیا ہے ’’تفتیش کے دوران یہ ثابت ہوا ہے گرفتار ہونے والے تمام ملزمان سمیت دیگر شناخت شدہ اور اب تک غیر شناخت شدہ افراد ایک غیر قانونی مسلح ہجوم کے ممبر تھے، جنھوں نے امین سمیت متعدد بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔‘‘

پولیس نے دوسرے دو معاملات میں بھی شناختی بیانات قلمبند کیے ہیں۔

لوکیش سولنکی نے، جس کی شناخت اہم مجرم کے طور پر کی گئی ہے، تمام پیغامات کو حذف کر کے اس گروپ کو چھوڑ دیا تھا۔ تاہم پولیس نے گروپ کے ایک ممبر دیپک سنگھ کا موبائل فون بھی قبضے میں لے لیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ انھوں نے سولنکی کے بھیجے ہوئے پیغامات حاصل کر لیے ہیں جس میں اس نے اعتراف کیا ہے کہ 25 فروری کو انھوں نے دو مسلمان افراد کو ہلاک کیا تھا اور انھیں نالے میں پھینک دیا تھا۔

11.39 بجے پہلا پیغام یہ تھا: ’’بھائی میں گنگا وہار سے لوکیش سولنکی ہوں۔ اگر کوئی پریشانی یا لوگوں کی کمی ہے تو مجھے بتائیں۔ میں گنگا وہار کی پوری ٹیم کے ساتھ آؤں گا۔ ہمارے پاس ضرورت کا سارا سامان ہے، گولیاں، بندوقیں، سب کچھ۔‘‘

11.44 بجے اس نے مبینہ طور پر یہ میسج کیا: ’’رات 9 بجے کے قریب بی وہار کے پاس آپ کے بھائی نے میری ٹیم کے ساتھ دو مسلمانوں کو مار کر نالے میں پھینک دیا ہے۔ ونے! آپ جانتے ہو کہ اس طرح کے کام کو انجام دینے میں آپ کا بھائی ہمیشہ ہی آگے رہتا ہے۔‘‘

عدالت 13 جولائی کو اس معاملے پر غور کرے گی۔