دہشت گرد کارروائیوں میں آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بی جے پی ملوث !

ترجمہ: سلیم الہندی (حیدرآباد)

ڈائرکٹر، این آئی اے دہلی کے نام سنگھ کے سابق پرچارک یشونت سہدیو شندے کا تفصیلی خط
میں یشونت سہدیو شندے سابق پرچارک آر ایس ایس، بچپن ہی سے ممبئی میں قیام پزیر ہوں۔ اس وقت میری عمر 49 سال ہے۔ میرے خاندان کی مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے میری تعلیم صرف نویں جماعت تک ہی ہو پائی ہے۔ ابتدائی دور میں کاروبار سے جڑا ہوا تھا اور ہندی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کیا کرتا تھا۔
میرے دوستوں کے گروپ میں تقریباً پچاس نوجوان تھے۔ ہم مقامی غریب لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے اور غنڈہ عناصر اور غیر سماجی افراد کے خلاف پولیس کی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ ان کاموں کو دیکھتے ہوئے وشو ہندو پریشد نے 1990ء میں مجھے صرف 18 سال کی عمر میں علاقے کا صدر یعنی ’’پرکھنڈ پرمکھ‘‘ مقرر کیا۔ اس کے بعد آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے ساتھ بھی میں نے کام کیا۔ آج بھی میں ان تینوں تنظیموں کے ساتھ جڑا ہوا ہوں، ان کے ساتھ میں نے ریاستی اور مرکزی سطح پر مختلف ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ ان تنظیموں میں کام کرنے کے دوران میرے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور تجربات یہاں قلمبند کر رہا ہوں:
1990ء میں اخبارات اور ٹی وی چینلس پر ان رپورٹوں کا طوفان سا آیا ہوا تھا کہ جموں وکشمیر میں ہندوؤں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور بندوق کی نوک پر انہیں وہاں سے زبردستی باہر نکالا جارہا ہے۔ اس وقت میں ممبئی میں وشو ہندو پریشد کا صدر تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وی ایچ پی اس وقت کشمیری ہندوؤں کے مسائل کوحل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہی ہے۔ اس دوران میں نے وی ایچ پی مہاراشٹرا کے ریاستی صدر ونائک راو دیشپانڈے سے ملاقات کر کے انہیں بتایا کہ میں جموں وکشمیر جا کر وہاں دہشت گردوں سے لڑنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے اس بات پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ جس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں تنہا ہی جموں وکشمیر جاوں گا اور ہندو پناہ گزینوں کو جمع کرکے دہشت گردوں سے لڑوں گا۔ چنانچہ 1994ء میں، میں نے کچھ رقم اکٹھا کی اور خود اپنی فیملی کو کوئی اطلاع دیے بغیر جموں وکشمیر کے لیے روانہ ہو گیا۔ جموں ریلوے اسٹیشن پہنچنے کے بعد میں وہاں ایک مندر میں گیا جہاں مجھے ہندو پناہ گزینوں کے کیمپوں سے متعلق ضروری معلومات حاصل ہوئیں۔ اس رات میں ایک مقامی دھرم شالہ میں ٹھہرا اور دوسرے دن صبح اسی مندر میں ٹھہرے ہوئے ہندو پناہ گزینوں سے بات چیت کی۔ درحقیقت وہ تمام پناہ گزین مجھ سے کسی مالی مدد کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن جب میں نے ان سے کہا کہ میں ان کے لیے صرف اپنی شخصی خدمات پیش کر سکتا ہوں مالی نہیں تو انہوں نے میری شخصی خدمات لینے سے صاف انکار کر دیا اور مجھے آر ایس ایس کے دفتر واقع ویر بھون میں مرلی جی سے ملاقات کرنے کا مشورہ دیا۔ ان پناہ گزینوں کی خواہش پر میں آر ایس ایس کے دفتر پہنچا اور مرلی جی سے ملاقات کی۔ مرلی جی کا تعلق مہاراشٹر ہی سے تھا اور وہ ’ہیماگیری پرانت کے پرچارک اور آفس انچارج تھے۔ مجھ سے انہوں نے اس موضوع پر بہت تفصیلی گفتگو کی۔ جب انہیں میری باتوں پر یقین آگیا تب وہ مجھے اندریش کمار ’ہیماگری‘ کے پرچارک کے پاس لے گئے۔ میں نے اندریش کمار کی خدمت میں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے پرتھمک سنگھ شکشا ورگ یعنی آر ایس ایس کی میری ابتدائی تربیتی کلاس لی اور پھر مجھے پٹھان کوٹ (پنجاب) بھیج دیا۔ یہاں مجھے آر ایس ایس کی مزید ابتدائی تربیت دی گئی۔
پٹھان کوٹ سے واپس آنے کے بعد میں نے ان سے مجھے دہشت گردوں کے علاقوں میں متعین کرنے کی خواہش ظاہر کی، چنانچہ انہوں نے مجھے ضلع راجوری اور ضلع جواہر نگر کے ’وستارک‘ کی حیثیت سے پاکستان کی سرحد سے متصل ضلع راجوری بھیج دیا۔ 1994-95 میں، میں ان دونوں اضلاع میں آر ایس ایس کا کام دیکھ رہا تھا جہاں مجھے اطلاع ملی کہ کشمیر کے سابق چیف منسٹر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ 9 دسمبر 1995ء کو راجوری آنے والے ہیں۔ میں بھی راجوری پہنچ گیا۔ وہاں انہوں نے ایک جلسہ عام کو مخاطب کیا۔ اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جلسہ گاہ میں اعلان کیا کہ جو لوگ ان سے شخصی طور ملنا چاہتے ہو وہ ان سے ان کے ڈاک بنگلے میں مل سکتے ہیں۔ چونکہ میں ان سے ملنا چاہتا تھا، اس لیے میں بھی ڈاک بنگلہ پہنچا۔ اس وقت ڈاک بنگلے میں اطراف و اکناف کے پہاڑی علاقوں سے آئے ہوئے 30تا 32 لوگ ان سے ملاقات کے لیے انتظار کر رہے تھے۔ ملاقاتوں میں اکثر نوجوان تھے اور کچھ بوڑھے بھی۔ اس دوران ڈاکٹر فاروق عبداللہ ہمارے قریب آئے اور وہیں نیچے فرش پر سب کے ساتھ نیم دائروی شکل میں بیٹھ گئے اس وقت ان کے ہاتھ میں چائے کا ایک بڑا گلاس تھا۔ ایک نوجوان نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے پوچھا کہ بھارت سے کشمیر کو آزادی کب ملے گی؟
انہوں نے اس نوجوان کا جواب دینے سے پہلے ان کی سیکوریٹی میں لگے بلیک کیٹ کمانڈوز کو ذرا دور ہٹ کر کھڑے رہنے کو کہا۔ اس کے بعد انہوں نے جواب دیا کہ بہت جلد کشمیر بھارت سے الگ ہو جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مرکزی قائدین بک چکے ہیں، انہیں اس ملک سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، وہ بس زندگی کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ ایسے ماحول میں بہت جلد کشمیر بھارت سے الگ ہو جائے گا۔ اس پر ایک ضعیف العمر شخص نے کہا کہ بھارت سے الگ ہونے کی ایسی باتیں ہم اپنے آباء واجداد سے سنتے آرہے ہیں لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا تو اب وہ ان کی باتوں پر کیسے یقین کرلیں؟ اتنا سننا تھا کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے زور سے اپنی مٹھی زمین پر دے ماری اور کہا کہ اگر مستقبل قریب میں کشمیر بھارت سے الگ نہیں ہوا تو چاہیے کہ تم بھی ہتھیار اٹھالو اور یہاں کے ہندووٗں کو نکال باہر کرو۔ اتنا کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے، ان کے ساتھ ساتھ ہم سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اس جواب پر مجھے غصہ آگیا۔
شدید ناراضگی کی حالت میں میں اٹھا، آگے بڑھا اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ وہ وہیں فرش پر گر پڑے۔ منہ اور ناک سے خون بہنے لگا۔ نیشنل سیکوریٹی کے 50-60 جوان مجھ پر جھپٹ پڑے۔ میں نے سیکوریٹی جوانوں کا مقابلہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ چونکہ میرے اطراف نیشنل کانفرنس کے لوگ بھی موجود تھے اس لیے بلیک کیاٹ کمانڈوز، مجھ پر گولی چلانے کے موقف میں نہیں تھے ورنہ اس دن میری موت یقینی تھی۔ بڑی مشکل سے مقامی پولیس نے مجھے نیشنل کانفرنس کے والنٹیرس کے چنگل سے مجھے چھڑایا کیوں کہ وہ میرے منہ پر بندوق کا کندا رکھ کر مسلسل دبائے جا رہے تھے۔ مجھے گرفتار کر کے راجوری پولیس اسٹیشن لایا گیا جہاں پولیس نے مجھے اس قدر پیٹا کہ میں بیہوش ہو گیا۔ دوسرے دن مجھے جموں کے دہشت گردی تفتیشی ایجنسی (ٹیررزم انٹروگیشن برانچ) کے حوالے کر دیا گیا۔ کچھ دنوں تک انہوں نے مجھ سے تفتیش کی۔ چوں کہ میرا تعلق ممبئی سے تھا، اس لیے تفتیشی عہدہ داروں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے بال ٹھاکرے نے یہاں بھیجا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ یہ کام بال ٹھاکرے جیسے کھوکھلے، بناوٹی لیڈر کا نہیں ہو سکتا۔ یہاں آکر کام کرنے کا فیصلہ میرا اپنا خود کا ہے۔
اس کے علاوہ اس تحقیقی ایجنسی کو میں نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی بات مجھے باغیانہ لگی، اس لیے میں نے ان پر ہاتھ اٹھایا۔ تفتیشی کارروائی مکمل ہونے کے بعد مجھے راجوری واپس لایا گیا۔ اس کے 12-13 دن بعد مجھے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ لیکن عوامی صیانتی ایکٹ کے تحت مجھے دوبارہ گرفتار کر کے جموں وکشمیر سنٹرل جیل میں منتقل کردیا گیا۔ جیل سے مجھے چار ماہ بعد رہا کر دیا گیا۔ اس کے چار سال بعد 1998 میں عدالت نے مجھے اس مقدمے سے باعزت بری کردیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر حملے کے واقعے کی تحقیقات کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔ جموں سنٹرل جیل میں اس کمیٹی کے ارکان پہنچے۔ جیلر کے دفتر میں بلا کر مجھ سے تفتیش کی گئی۔ جب میں نے ان کے سامنے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے کہے ہوئے وہ الفاظ دہرائے تو کمیٹی میں شامل ریٹائرڈ جج نے کہا کہ وہ اس بات کا یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ فاروق عبداللہ ایسی بات کہہ سکتے ہیں۔ میں پیچھے مڑا اور زور دے کر کہا کہ جس وقت فاروق عبداللہ نے یہ جملے ادا کیے تھے اس وقت میں خود وہاں موجود تھا آپ نہیں۔ اور جج صاحب کو میرا بیان جوں کا توں لکھنے کو کہا۔ اس کے بعد انہوں نے وہی لکھا جو میں نے بیان کیا تھا۔ اس کے بعد میرے حساب سے شاید یہ ایک بدبختانہ واقعہ یا حادثہ تھا جب اٹل بہاری واجپائی نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو اپنی وزارت میں وزیر بنایا۔
1996-97ء میں چندی گڑھ میں آر ایس ایس کی دوسری سطح کی ٹریننگ مکمل ہوئی اور اندریش کمار نے ریاست جموں، ضلع ادھم پورکے ریاسی تحصیل میں بطور ’’پرچارک‘‘ میرا انتخاب کیا۔ اس دوران میں نے آر ایس ایس کے تنظیمی ڈھانچے کے ذمہ داروں کے درمیان شدید اختلافات دیکھے جس کی وجہ سے جموں وکشمیر کے تقریباً 17-18 پرچارک اپنا کام بند کرکے کہیں اور جاچکے تھے۔ اس وقت پرفیسر رجّو بھیا (راجندر جی) آر ایس ایس کے ’’سر سنگھ چالک‘‘ (چیف) تھے۔ 1997ء میں جب میں ادھم پور میں کام کر رہا تھا تو رجّو بھیا نے مجھے مہاراشٹر واپس جاکر آر ایس ایس کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا حکم دیا۔ میں نے مہاراشٹر جانے سے صاف انکار کر دیا۔ اس انکار کے بعد ریٹائرڈ فوجی افسروں کے گروپ کے صدر جنیجہ نے مجھ سے کہا کہ مہاراشٹر جانے کے بعد ممکن ہے مجھے ایم ایل اے یا ایم پی بنا دیا جائے۔ میں نے جنیجہ کی اس پیش قیاسی اور مشورے کو بھی نظر انداز کر دیا۔ بچپن میں میری بڑی خواہش اور آرزو تھی کہ دریائے سندھ دیکھوں۔ چنانچہ جب مجھے معلوم ہوا کہ دریائے سندھ بھارت ہی میں ہے تو میں نے اندریش کمار کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود اور آر ایس ایس کے مرکزی نشر واشاعت کے صدر (کیندریہ پرسار پرمکھ) سریکانت جوشی خود سندھ کا دورہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بھی ان کے ساتھ چلنے کو کہا۔ ستمبر 1998ء میں میں نے ان کے ساتھ دریائے سندھ کا نظارہ کیا۔ اسی وقت سے میں سریکانت جوشی کو جانتا ہوں۔ دریائے سندھ دیکھنے کے دوران جب ہم لیہہ کی طرف جا رہے تھے تو سونمرگ میں ہمیں اطلاع ملی کہ پاکستانی فوجیوں نے لیہہ کی پہاڑیوں کی اونچائیوں پر اور سڑک کے کچھ راستوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ دن میں ہمارا اس طرف جانا خطرے سے خالی نہیں ہوگا چنانچہ ہمیں رات میں فوجی دستے کے ساتھ لیہہ جانے کا مشورہ دیا گیا۔ ہم نے اس مشورے کو نہیں مانا اور اپنی ذمہ داری پر دن میں لیہہ کی طرف چل دیے۔ اس سفر کے دوران ہمیں پتہ چلا کہ 1999ء کے لوک سبھا کے انتخابات جیتنے کے لیے اٹل بہاری واجپائی نے ملک پر کرگل کی جنگ مسلط کی تھی جس میں ہزاروں بھارتی فوجی جوان مارے گئے تھے۔ اپنی اسی یک طرفہ معلومات کی بنیاد پر میں نے آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف اپنی ایک بری رائے قائم کر لی۔ اس کے بعد 1999ء میں میں ممبئی لوٹ آیا۔ ممبئی آنے کے بعد مجھے بجرنگ دل کا چیف بنا دیا گیا۔ اس دوران میرا تعارف ملند پرانڈے سے ہوا جو وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) مہاراشٹر کے صدر تھے اور دوسرے شنکر گائیکر تھے جو مہاراشٹرا بجرنگ دل کے صدر تھے۔ ممبئی میں بجرنگ دل کے ساتھ کام کرنے کے دوران مجھے وہی تجربہ ہوا جو مجھے جموں وکشمیر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہوا تھا یعنی میں نے محسوس کیا کہ میری قیادت میں تنظیم جہاں ایک طرف مضبوط ہورہی تھی وہیں دوسری طرف میرے کام کو پسند نہ کرنے والے، حسد، جلن اور شخصی نفرت کی وجہ سے مجھے اس عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے۔ چنانچہ میں نے بجرنگ دل چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ بجرنگ دل کے ساتھ کام کرنے کے چھ ماہ کے دوران میں وی ایچ پی کے ممبئی کے دفتر سے ہی کام کیا کرتا تھا جو گرانٹ روڈ پر فیروزہ مینشن میں واقع ہے۔ یہاں بھی میرے ساتھ وہی ناروا سلوک جاری رہا۔ میں نے اس مقام پر یہ سوچ کر ضبط اور صبر کیا کہ میں تو ملک کی بہبود کے لیے کام کر رہا ہوں۔ بجرنگ دل چھوڑنے کے بعد میں نے طلباء تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کی ایک مردہ بے جان شاخ ’’گرجنا‘‘ کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں نئی جان ڈالنے اور اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے میں نے پوری ریاست مہاراشٹرا کا دورہ کیا۔ ’گرجنا‘‘ کے ذمہ داروں نے ان تمام کاموں کی انجام دہی کے لیے ضروری اخراجات پر پابندیاں عائد کر دیں اور مزید کوئی مالی مدد فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ چنانچہ یہ تحریک اتنا ابھر نہ پائی جس کی توقع کی جارہی تھی۔
1999ء میں اندریش کمار نے مجھ سے کہا کہ چند نوجوان بہادر لڑکوں کا انتخاب کروں اور انہیں جموں لے جاؤں جہاں انہیں جدید اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دی جائے گی۔ 1999ء میں ایسے نوجوان لڑکوں کے انتخاب کے لیے تھانے مہاراشٹرا میں وی ایچ پی نے ریاستی سطح پر ایک میٹنگ کا اہتمام کیا۔ اسی میٹنگ میں پہلی دفعہ میری ملاقات ہمانشو پانسے سے ہوئی۔ ہمانشو پانسے اس وقت گوا میں وی ایچ پی کا کل وقتی ملازم تھا۔ اس میٹنگ میں ہمانشو پانسے کے علاوہ اس کے سات ساتھیوں کو اس فوجی ٹریننگ کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ میں ان آٹھ نوجوانوں کو لے کر جموں آگیا۔ بھارتی فوج کے جوانوں نے ہمیں مختلف جدید اسلحہ کے استعمال کی باضابطہ تربیت دی۔ اس کے بعد اندریش جی نے مجھے حکم دیا کہ ان تربیت یافتہ آٹھ نوجوانوں کو پاکستان لے جاؤں اور وہاں تخریبی کاروائیوں میں سب کو مشغول کردوں۔ اس پر میں نے اندریش کمار سے کہا کہ ہمیں پاکستان جا کر وہاں تخریبی کارروائیاں کرنے سے بہتر تو خود ہمارا ملک بھارت ہے جہاں بہت سارے غدار، نمک حرام اور بے وفا مل جائیں گے، پہلے ہمیں ان سے نمٹنا ہوگا۔ یہ کہہ کر میں نے اس مشن پر جانے سے صاف انکار کر دیا۔ اس دوران جب ہم جموں ہی میں تھے تب کچھ دہشت گردوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا اور بھارت نے سرحدوں پر اپنی فوج کو چوکس و چوکنا کر دیا۔ اس کے بعد اندریش کمار کی ہدایت پر میں اور ہماری ٹیم کے سبھی نوجوان مہاراشٹرا لوٹ آئے۔
2000ء میں اگرتلہ (تریپورہ) کے ایک چرچ کے قریب، آر ایس ایس کے چار پرچارکوں کو اغوا کرلیا گیا۔ سریکانت جوشی نے ان پرچارکوں کو تلاش کرنے کا کام مجھے سونپا۔ اس تلاشی مہم کے دوران میں اگرتلہ کے علاوہ مغربی بنگال کے چند اضلاع میں گیا۔ اسی سال بنگلہ دیش کے فوجیوں نے سرحد سے بارہ بھارتی فوجیوں کو اغواء کر کے انہیں مار ڈالا تھا۔ مغربی بنگال کے وی ایچ پی کے ایک پرچارک گورنگ گڑا نے اس تلاشی مہم میں میری بہت مدد کی۔ اسی تلاشی مہم کے دوران میری ملاقات تریپورہ کے وی ایچ پی کے ضلعی پرچارک سشانت سین سے بھی ہوئی۔ مغربی بنگال کے اضلاع کے دورے کے موقع پر سشانت سین نے کولکاتہ میں میرا تعارف سریکانت جوشی سے کروایا جو آر ایس ایس کے
’’سہ کاریہ واہ‘‘ تھے جو دراصل آج آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت ہیں۔ میں نے انہیں چار اغواکنندگان کی تلاشی مہم کے بارے میں بتایا۔ اس دوران اطلاع آئی کہ اغواکنندگان نے چاروں پرچارکوں کو رہا کرنے کے لیے دو کروڑ روپے کا مطالبہ کیا ہے۔ آر ایس ایس نے ہرجانہ ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ میں نے ان کی تلاش جاری رکھی لیکن کچھ دنوں بعد ہمیں اطلاع ملی کہ ان چاروں پرچارکوں کو جان سے مار دیا گیا۔ ان پرچارکوں کے قتل کی اطلاع ملنے کے بعد سریکانت جوشی نے اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی سے درخواست کی کہ سرکاری مشنری کے ذریعے ان چار پرچارکوں کی موت کی تصدیق کرواکے ان کو اطلاع دی جائے۔ لال کرشن اڈوانی نے ایک ماہ کا وقت مانگا اور ایک ماہ بعد مرکزی حکومت نے ان چار پرچارکوں کی اغوا کنندگان کی جانب سے قتل کیے جانے کی توثیق کر دی۔ اس کے کچھ دنوں بعد، ایک دن سریکانت جوشی نے لال کرشن اڈوانی کو اطلاع دی کہ اغواکنندگان میں سے ان کے دو قائدین جو چار پرچارکوں کے اغواء اور قتل میں ملوث ہیں، اس دن دہلی ایرپورٹ پر اتریں گے، انہیں گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم انہیں گرفتار کرتے ہیں تو پوروانچل میں بہت جلد منعقد ہونے والے انتخابات پر عیسائی برادری کے ووٹوں پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ سننے کے بعد سریکانت جوشی کو ذہنی صدمہ پہنچا اور وہ مجھے یہ واقعہ سنا کر رو پڑے۔ میں سوچنے لگا کہ جو لوگ ملک کے انتہائی ذمہ دار اور اہم عہدوں پر فائز ہیں، وہی اگر ان کے اپنے کارندوں کو جو خود ان کی تنظیموں کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں، ان کی حفاظت نہیں کر سکتے اور قاتلوں کو گرفتار کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے تو ایسے قائدین اپنے وطن اپنے ملک کی حفاظت کیسے کر پائیں گے؟
بی جے پی کے ایسے خود غرض قائدین کے رد عمل پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ اس واقعے کے بعد ان قائدین سے میں نے دوری اختیار کرنی شروع کی البتہ صرف سریکانت جوشی کے ساتھ میرے تعلقات بدستور قائم رہے۔ اس دوران جب کہ میں نے بی جے پی سے دوری بنائی ہوئی تھی، جولائی 2002ء کو مجھے ایک پیغام ملا کہ جنوبی ممبئی کے علاقے کھیت واڑی میں گول دیول میں ایک اہم میٹنگ ہونے والی ہے جس میں مجھے ہر حال میں شرکت کرنی ہو گی۔ میں اس دن گول دیول میں منعقدہ میٹنگ میں وقت پر پہنچا۔ وہاں دیکھا کہ اس میٹنگ میں صرف دو افراد ہی تھے جو آر ایس ایس کے ارکان تھے جو مہاراشٹرا وی ایچ پی قائد ملند پرانڈے کے خاص آدمی تھے۔ انہیں دو افراد نے مجھے اطلاع دی کہ بم سازی کا ایک تربیتی کیمپ منعقد کیا جانے والا ہے جس کے بعد پورے ملک کے چپہ چپہ میں بم دھماکے کیے جائیں گے۔ اس کام کے لیے سب سے بڑی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی کہ مجھے ملک کے زیادہ سے زیادہ علاقوں میں بم دھماکے کرنے ہوں گے۔ یہ سن کر مجھے سخت صدمہ پہنچا لیکن میں نے اپنے اندرونی جذبات کا اظہار نہیں کیا اور ان سے بار بار یہی پوچھتا رہا کہ کیا یہ 2004ء کے لوک سبھا الکشن کی تیاری ہو رہی ہے۔ انہوں نے میرے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ فی الواقع میں نے اس منصوبہ بندی پر اپنی ناراضگی کا کہیں بھی اظہار نہیں کیا لیکن اپنے آپ کو ایسا مصروف رکھا جیسے میں ہی ان بم دھماکوں میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا ہوں۔ دراصل میں اُن لوگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا جو بم سازی کے کاموں میں ماہر تھے اور نوجوانوں کی بم سازی کی تربیت دینے آئے تھے۔ ٹریننگ کا یہ تین روزہ کیمپ پونے سے قریب ایک سنیہگاڈ نامی قلعے کے دامن میں تھا۔ اس کیمپ میں ریاست مہاراشٹر کے علاقوں اورنگ آباد، جلگاوں ، ناندیڑ وغیرہ سے آئے ہوئے تقریباً بیس نوجوان شریک تھے۔ اس کیمپ میں ہمانشو پانسے بھی موجود تھا۔ اس نے اس بم سازی کے اس کیمپ کے بارے میں مجھے پہلے بتا دیا تھا اور میں ہمیشہ اسے اس کام سے دور رہنے کی تاکید کیا کرتا تھا۔ ظاہری طور پر اس نے میرے اس مشورے کو سنی ان سنی کر دیا۔بم سازی کے اس کیمپ میں مجھے دیکھ کر اسے تعجب ہوا لیکن اس نے ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کی جیسے وہ بھی اس کام سے اتفاق نہیں رکھتا۔ ملند پرانڈے اس کیمپ کا اصل سرغنہ اور کرتا دھرتا تھا۔ بم سازی کے اس کیمپ کی ساری ذمہ داری جس شخص کے ہاتھ میں تھی اس کا نام متھن چکرورتی تھا (بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس کا اصلی نام روی دیو ہے اور بجرنگ دل کا نہایت فعال کارکن ہے) راکیش دھاواڑے روزانہ بم سازی کے اس تربیتی کیمپ میں اس شخص کو لاتا اور شام کو ٹریننگ کا وقت ختم ہونے پر اسے واپس بھی لے جاتا۔ یہ راکیش دھاواڑے وہی شخص ہے جسے 2008ء کے مالیگاوں بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ متھن چکرورتی روزانہ صبح دس بجے بم سازی کے کیمپ پہنچتا اور الگ الگ گروپس کو دو گھنٹے تک علیحدہ علیحدہ ٹریننگ دیتا۔ بم بنانے کی ٹریننگ کے دوران ہمیں تین چار قسم کے دھماکو مادے، پائپ کے ٹکڑے، دھاتی تار، بلبس اور گھڑیاں وغیرہ دی جاتیں۔ ٹریننگ کیمپ میں تربیت کے دوران متھن چکرورتی کی غلطی کی وجہ سے ایک مہلک حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا جب ماچس کی ادھ جلی تیلیاں، بارود کے قریب جا گریں۔ متھن چکرورتی نے خود کہا کہ آج ایک بہت بڑا حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس تربیت کے بعد منتظمین تمام تربیت یافتہ نوجوانوں کو ایک گاڑی میں بٹھا کر ایک قریبی ویران اور گھنے جنگل میں لے گئے جہاں تربیت گاہ میں تیار کیے گئے بموں کو دھماکے سے اڑانے کا تجربہ کیا جانا تھا۔ ہم سب نے وہاں کئی گڑھے کھودے، پھر ان میں تیار شدہ بم ٹائمر کے ساتھ رکھے اور انہیں مٹی اور چھوٹے بڑے پتھروں سے بند کر دیا۔ ٹائمر کے ساتھ وقفے وقفے سے تمام بم پھٹنے لگے اور اس میں دبائے ہوئے پتھر بھی دور دور جا گرے۔راکیش دھاواڑے، جو متھن چکرورتی کو روزانہ تربیت گاہ لایا کرتا تھا، وہ اس تربیت کے دوران ہماری رہائش اور دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھتا تھا۔ اس نے بم سازی کی اس تربیت کی تکمیل کے آخری دن اس نے ہم سب کو ایک سادہ کاغذ اور پین دیا اور یہ لکھنے کو کہا کہ ہم نے بم بنانا اور دھماکے کرنا سیکھ لیا ہے اور اب ہم خود بم بنا کر کہیں بھی دھماکے کر سکتے ہیں۔ اگر جواب ’’ہاں‘‘ میں ہو تو لکھیے کہ کن کن جگہوں پر دھماکے کیے جا سکتے ہیں؟ میں نے ان سے فوراً پوچھا کہ کیا ایسا لکھنا ہمارے لیے ضروری ہے؟ اور میں نے ایسی کوئی تحریر لکھنے سے صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے میرے ساتھ تربیت یافتہ تمام نوجوانوں نے بھی ایسا کوئی بیان لکھ کر دینے سے انکار کر دیا، اس پر راکیش دھاواڑے مجھ سے سخت ناراض ہوا۔ دوسرے دن جب ہم کیمپ سے واپس جا رہے تھے تب اس نے مجھ سے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ آئندہ سے میں محتاط رہوں۔ میں نے بھی طنزیہ انداز میں جواب دیا کہ احتیاط تو آپ کو کرنی چاہیے کیوں کہ آپ روز سڑک سے موٹر بائیک پر آتے ہیں۔ اس کے بعد میں کئی بار ناندیڑ گیا اور ہمانشو پانسے کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ بم دھماکوں والے خطرناک کاموں میں نہ پڑے کیوں کہ ملک میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے یہ سنگھ پریوار کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ اس دوران میرا تعارف ناندیڑ کے رہنے والے اس کے ایک دوست کوندیشور سے ہوا۔ یہاں پر بھی میں لگاتار ہیمانشو کو بم دھماکوں کے معاملات سے دور رہنے کا مشورہ دیتا رہا۔ محض مجھے اطمینان دلانے کی خاطر وہ میرے اس مشورے پر ہاں میں ہاں ملایا کرتا تھا۔ لیکن پس پردہ چند مفاد پرست، سیاسی لیڈروں کے فریب کا شکار ہو چکا تھا، چنانچہ وہ کئی جگہ بم دھماکوں میں ملوث رہا۔ اس نے مہاراشٹر ا کے علاقے مراٹھواڑہ میں تین بم دھماکے کیے۔ اورنگ آباد کی جامع مسجد میں دھماکہ کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ناندیڑ میں بم بنانے کے دوران حادثے میں وہ مارا گیا اور اس کے ساتھ اس کا دوست کوندیشور بھی جان سے گیا۔ 2003ء میں سنگھڑ بم سازی ٹریننگ کیمپ کے چار سال بعد یعنی 2007ء میں، آر ایس ایس کے ممبئی کے دفتر ’’یشونت بھون‘‘ واقع پریل میں میری ملاقات متھن چکرورتی سے ہوئی۔ وہیں پر کسی نے مجھے بتایا کہ متھن چکرورتی کا اصلی نام روی دیو ہے۔ اس وقت تک میں اس کے اصلی نام روی دیو سے واقف نہیں تھا۔ جب میں نے پیچھے سے ’’روی جی‘‘ کہہ کر آواز دی تو وہ فوراً پلٹا اور مجھے اس انداز سے دیکھنے لگا جیسے وہ مجھے جانتا ہی نہیں اور خود ہی پوچھا کہ میں اسے کیسے جانتا ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ سنگھڑ بم سازی کیمپ میں آپ ہی نے تو ہمیں تربیت دی تھی۔ یہ سنتے ہی اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور وہ کچھ خوف زدہ بھی لگ رہا تھا۔ وہاں سے وہ تیزی سے فوراً آگے بڑھ گیا۔ میں بھی اسی تیزی کے ساتھ اس کے پیچھے دوڑا۔ وہیں پر اس کی ملاقات ملند پرانڈے سے ہوئی اور وہ رک گیا اور مجھے دیکھتے ہوئے اس نے ملند پرانڈے کے کان میں کچھ کہا۔ مجھے لگا جیسے ملند پرانڈے خود بھی خوف زدہ ہے۔ شاید وہ سمجھے کہ مجھے بم دھماکوں کی سازش میں ان دونوں کے ملوث ہونے کا یقین ہو گیا ہے۔ ویسے بھی تمام بم دھماکوں کی منصوبہ بند سازش کے متعلق ہمانشو پانسے نے مجھے بتا دیا تھا۔ اسی نے مجھے بتایا تھا کہ ملک گیر پیمانے پر ہونے والے تمام بم دھماکوں کا اصل سرغنہ ملند پرانڈے ہی ہے۔ میں یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے بم سازی اور بم دھماکوں کے معاملے میں مجھے اس لیے شامل کیا تھا کیوں کہ میں نے بھی بم سازی اور بم دھماکوں کی مکمل تربیت حاصل کی تھی اور میں خود بم دھماکوں کو انجام دینے کی پوری صلاحیت بھی رکھتا تھا۔ میرا تعلق مہاراشٹرا میں ’گرجنا ’ سے۔ جموں کشمیر، پنجاب، ہریانہ آسام اور اتر پردیش میں ’ہندویووا چھاترا پریشد‘ سے، کرناٹک میں ’سری رام سینا‘ سے اور مغربی بنگال کے ایک قائد تپن سنہا سے بھی رہا تھا۔ اگر میں چاہتا تو ان تعلقات کی بنیاد پر بڑی آسانی سے پورے ملک میں 500تا600 بم دھماکے کرواسکتا تھا لیکن میں ان دھماکوں کے پس پردہ سینئر قائدین کے برے ارادوں کو بھانپ چکا تھا اور ان سے دور رہنے میں کامیاب بھی رہا۔ میں تپن گھوش کے سامنے سیاست دانوں کے بدترین منصوبوں کی تشریح کیا کرتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے بھی ایسے خود غرض قائدین اور ان کے مذموم وقابل نفرت کاموں سے دور رہنے کا وعدہ کیا۔ اسی طرح کرناٹک کی سری رام سینا کے چیف پرمود متالک نے بھی جو مغربی بنگال کے تپن گھوش کے بہت قریبی رہے ہیں، ان کے ناپاک منصوبوں سے اپنے آپ کو عملاً دور ہی رکھا۔ آر ایس ایس اور وی ایچ پی چاہتے تھے کہ ملک گیر پیمانے پر جگہ جگہ بم دھماکے کیے جائیں، بے گناہ انسانوں کی جانیں بلا وجہ تلف ہوں لیکن میں نے ملک میں افراتفری پیدا کرنے کے آر ایس ایس اور بی جے پی کے ناپاک ارادوں پر پانی پھیر دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح میں نے بیشمار معصوم، بے گناہ ہندوؤں، مسلمانوں اور عیسائیوں اور دیگر انسانوں کی جان بچائی۔ بی جے پی کو 2004ء کے عام انتخابات میں شکست ہوئی اور کانگریس نے انتخابات جیت لیے۔ ان انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد ملند پرانڈے جیسے بم دھماکوں کے سازشی اندرونی خوف کا شکار رہے لیکن روپوشی کی حالت میں بھی ہمیشہ اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے موقع کی تلاش ہی میں رہے۔ میرا اپنا نقطہ نظر یہ تھا کہ مخالف قومی سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے والوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ چنانچہ 1998-99 میں، میں نے اندریش جی کے سامنے ایک تجویز رکھی تھی کہ ہمیں جموں وکشمیر کے ان انتہا پسند نام نہاد مجاہدین کو نشانہ بنانا چاہیے جیسے ’’جموں کشمیر لبریشن فرنٹ‘‘ کے قائد یٰسین ملک، شبیر شاہ، عبدالغنی لون اور وہ دیگر کشمیری مجاہدین آزادی، جو ضمانت پر جیل سے باہر تھے۔ میرا خیال تھا کہ اس سے جموں وکشمیر کے ہندوؤں کے دلوں میں پایا جانے والا اندرونی خوف دور ہو گا اور وہ کشمیر چھوڑنے کا ارادہ ترک کر دیں گے۔ میں نے اپنے اس خیال کا تذکرہ اندریش کمار سے بھی کیا تھا لیکن انہوں نے نہ اسے سنجیدگی سے لیا نہ میرے اس منصوبے پر عمل کرنے کی حامی بھری۔ انہیں یقین تھا کہ اگر میرے اس مجوزہ منصوبے پر عمل کیا جاتا تو بی جے پی کو اس سے کوئی سیاسی فائدہ ہونے والا نہیں تھا، جبکہ میں سمجھتا تھا کہ اگر میرے اس منصوبے پر عمل کیا جاتا تو یقینا بی جے پی سیاسی میدان میں مزید مستحکم ہوتی لیکن بی جے پی کے دو کوڑی کے ناکارہ لیڈروں میں سے کوئی بھی اس زاویے سے اس منصوبے پر عمل کرنے کو تیار نہیں تھے بلکہ آر ایس ایس اور وی ایچ پی سے وابستہ اپنی کسی بھی ذیلی تنظیم جیسے ’گرجنا‘، ’ہندو یووا چھاترا پریشد‘، ’ہندو رکھشا سمیتی،‘ ’بجرنگ دل‘ کو بھی اس تجویز پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کے خود غرض سینئر قائدین سمجھتے تھے کہ اس طرح کرنے سے ان کی تمام ذیلی تنظیمیں، خود بخود قومی اور مقامی دونوں سطحوں پر اصلی تنظیموں سے زیادہ طاقتور ہو کر ابھریں گی۔ اس طرح انہوں نے اپنی ان ذیلی تنطیموں سے وابستہ لاکھوں جاں نثار کارکنوں کی زندگی برباد کر دی۔ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں مالیگاوں بم دھماکوں میں ملوث ملزمہ پرگیہ ٹھاکر کو بھوپال حلقہ انتخاب سے منتخب کرواکے شدت پسند ہندوؤں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ صرف مجرمانہ رجحان رکھنے والے شدت پسند ہندوؤں کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں۔ 2014ء کے عام انتخابات میں نریندر مودی نے کامیابی حاصل کی اور مرکز میں بی جے پی حکومت تشکیل دی گئی۔ اس کامیابی کے بعد خفیہ اور پوشیدہ طور پر کام کرنے والی تمام ہندوتوادی تنظیمیں جیسے وشو ہندو پریشد اور ایس ایس کی نفرت انگیز سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ ہم نے دیکھا کہ جو لوگ ریاست مغربی بنگال، جموں وکشمیر ور اتر پردیش میں دہشت گردانہ اور غیر دستوری سرگرمیوں میں مصروف تھے جو جان بوجھ کر عمداً وہاں بے اعتمادی، بد گمانی اور خوف کا ماحول برپا کرنے میں مصروف تھے، اب بی جے پی کے آقاؤں کے حکم پر تخریبی کارروائیوں میں کھل کر سامنے آگئے تھے۔ان تخریب کاروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں سب سے آگے ملند پرانڈے تھا۔ میں نے ملند پرانڈے کی تخریبی کارروائیوں کے متعلق وشو ہندو پریشد کے سینئر لیڈر شری وینکٹیش آبدیو کے علاوہ آر ایس ایس کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے رکن شری سریکانت جوشی کو بھی اطلاع دی تھی۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ اس وقت ملند پراندے وی ایچ پی کے ’’کیندریہ سنگھٹک‘‘ یعنی نیشنل آرگنائزر کے ایک بڑے ذمہ دار عہدے پر فائز ہے۔ اس کا دفتر دہلی کے علاقہ آر کے پورم میں وی ایچ پی کے دفتر کے اندر ہی ہے۔ آج وہ نریندر مودی اور امیت شاہ کا انتہائی قریبی اور سب سے زیادہ وفادار شخص مانا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ملند پرانڈے کے خلاف کچھ بھی کہنے سے وینکٹیش آبدیو نے مجھے احتیاط برتنے کی تاکید کی تھی اور متنبہ کیا تھا کہ میں اس کے بارے میں کہنے کے بجائے اپنی زبان بند ہی رکھوں ورنہ مجھے ساری عمر جیل میں گزارنی پڑ سکتی ہے۔ اس تنبیہ کے باوجود میں خاموش نہیں رہا اور کہا کہ آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے کارکنوں کو بی جے پی کے مفاد کے لیے کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ اس کے بعد میں نےممبئی میں فیروزہ مینشن میں واقع وی ایچ پی کے دفتر میں آبدیو سے کئی بار ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں میں بار بار ان سے یہی سوال کرتا رہا کہ وہ اس بارے میں سنجیدگی کے ساتھ کچھ ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھاتے۔ مجھے اطمینان دلانے کی خاطر وہ کہتے کہ وہ ضرور اس بار ے میں کچھ کریں گے لیکن آج تک انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ جب میں نے اسی موضوع پر سریکانت جوشی سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ انہوں نے موہن بھاگوت سے بات کی ہے، جو اس وقت آر ایس ایس کے ’سکھاریہ واہک‘ اور موجودہ ’سرسنچالک‘ ہیں لیکن انہوں نے بھی اس بارے میں کوئی مدد کرنے سے اپنے آپ کو دور ہی رکھا۔ اس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ 2014ء کے انتخابات کے بعد سے جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے سینئر قایدین، ان کے کارکنوں کی جانب سے کی جانے والی دہشت گرد کارروائیوں پر کچھ کہے بغیر خاموشی، انہماک، تن دہی اور مستقل مزاجی کے ساتھ تائید بھی کرنے لگے ہیں۔ میرا اپنا عقیدہ ہے کہ ہندو دھرم ایک بہترین دھرم ہے۔ عام طور پر ہندو دھرم کو ماننے والے، دہشت گرد کارروائیوں سے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں لیکن چند ہندو مذہبی تنطیمیں جیسے آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل وغیرہ محض بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کے لیے دہشت گرد اور غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔
مندرجہ بالا تفصیلات جو بھی تحریر کیے گیے ہیں میرے علم اور عقیدے کے اعتبار سے بالکل صحیح ہیں۔
۱۔۔ ان تمام واقعات کا، جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، ان کی تصدیق سرکاری ریکارڈ یا اس زمانے کی نیوز رپورٹس سے کی جا سکتی ہے۔
۲۔۔میں ان تمام قائدین اور شخصیتوں سے بالمشافہ بات کرنے کے لیے تیار ہوں جن کا ذکر میں نے اپنی اس خط میں کیا ہے۔
۳۔۔میں ان تمام حقائق کو ایک حلف نامے میں تحریر کرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔
۴۔۔میں عدالت میں تمام شہادتیں پیش کرنے کے لیے تیار ہوں جو میں نے یہ تحریری درخواست نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو اس لیے پیش کی ہے کیوں کہ یہ ایک ایسی مرکزی ایجنسی ہے جو دہشت گردی کے معاملات کی باضابطہ تحقیق کرتی ہے۔ چنانچہ اسی نے 2009-2010 کے درمیان ہونے والے دہشت گردی کے معاملات کی تحقیق کے بعد اصلی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ 2006ء کے مالیگاوں کے بم دھماکے، 2007ء کے سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکے، 2007ء کے اجمیر شریف بم دھماکے، 2006ء کے مکہ مسجد بم دھماکوں کے بعد این آئی اے نے آر ایس ایس، وی ایچ پی اور دیگر ہندوتوادی تنظیموں کے دہشت گردوں کو گرفتار کیا تھا۔ اس کے علاوہ ہمانشو پانسے نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے کارکنوں کے ساتھ مل کر ریاست مہاراشٹر کے علاقوں جالنہ، پورنا اور پربھنی میں تین مسجدوں میں بم دھماکے کیے تھے۔ ان واقعات کی روشنی میں مجھے اس بات کا یقین ہے کہ 2003 کے بعد سے ملک میں وقفے وقفے سے ہونے والے تمام بم دھماکے در اصل آر ایس ایس، وی ایچ پی، بجرنگ دل اور دیگر سنگھی تنظیموں کی قوم مخالف سازش ہی کا نتیجہ ہیں۔
اگرچہ مندرجہ بالا واقعات میں ملوث آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے بیشتر عام کارکنان گرفتار کیے جا چکے ہیں لیکن پس پردہ کام کرنے والے اصل مجرمین پر آج تک کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ملند پرانڈے، روی دیو (متھن چکرورتی) اور شنکرگائیکر جیسے افراد گرفتار کیے جاتے ہیں تو یقینا آر ایس ایس، وی ایچ پی، بجرنگ دل اور بی جے پی کے وہ تمام قائدین بھی سامنے آجائیں گے جو ان تمام دہشت گرد کارروائیوں، بم دھماکوں اور قوم دشمن کارروائیوں میں شخصی طور پر ملوث رہے ہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ دیگر تمام دہشت گرد قوم دشمن کارروائیوں میں بھی یہی تنظیمیں ملوث رہی ہوں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ دہشت گرد مجرمانہ کارروائیوں کی تحقیقات کرنا این آئی اے کی ذمہ داری ہے، اس لیے میں این آئی اے سے گزارش کرتا ہوں کہ 2003ء کے بعد سے وقوع پذیر تمام بم دھماکوں کی تحقیقات از سر نو کی جائیں تاکہ اس سازش میں ملوث مجرموں کو ان کے جرائم کی سزا ملے۔
دستخط: یشونت سہدیو شندے
نقل برائے:
سکریٹری، وزارت داخلہ، حکومت ہند، دہلی

 

***

 نوٹ: آر یس ایس کے سابق پرچارک یشونت شندے کا ایک خط جو اس نے ڈائرکٹر، این آئی اے دلی اور سکریٹری مرکزی وزارت داخلہ کو لکھا ہے جس میں اس نے 2014ء سے قبل ملک کے مختلف مقامات پر کیے گئے بم دھماکوں سے متعلق نہایت اہم معاملات پر سے پردہ اٹھایا ہے لیکن میڈیا میں اسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس خط کا اردو متن قارئین دعوت کی معلومات کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022