عام آدمی پارٹی گجراتمیں

مظاہر حسین عماد قاسمی، کیرالا

سورت میں کامیابی سے کیجریوال پرجوش
گجرات میں فروری 2021ء میں احمدآباد سورت راج کوٹ بھاؤ نگر اور جام نگر کارپوریشن کے انتخابات ہوئے تھے۔ ان کارپوریشنوں کے سیٹوں کی کل تعداد 583 ہے۔ 3 اکتوبر 2021ء کو گاندھی نگر کارپوریشن کے انتخابات ہوئے جہاں کل 44 نشستیں ہیں جن میں دو کانگریس کو ایک عام آدمی پارٹی کو اور بقیہ 41 نشستیں بی جے پی کو حاصل ہوئیں۔
سورت میں عام آدمی پارٹی نے کانگریس کو ختم کیا۔
گجرات کے کارپوریشن انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو زبردست کامیابی ملی اور کانگریس 36 سے صفر پر آگئی جبکہ عام آدمی پارٹی صفر سے 27 پر پہنچ گئی، عام آدمی پارٹی کی وجہ سے بی بی جے پی کو 13 سیٹوں کا فائدہ ہوا اور وہ 80 سے چھلانگ لگا کر 93 تک پہنچ گئی۔
سورت کارپوریشن میں 120 نشستیں ہیں یہاں کانگریس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ 93 سیٹیں بی جے پی کو اور 27 سیٹیں عام آدمی پارٹی کو حاصل ہوئیں۔
2021ء کے سورت کارپوریشن انتخابات میں بی جے پی کو 48.93 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اسے 2016ء کے مقابلے میں 2.42 فیصد ووٹ کم ملے تھے مگر اس کی سیٹوں میں 16.25 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ یہ ہندوستانی جمہوریت کی خوبی یا کمی ہے کہ بعض حالات میں کوئی پارٹی پہلے کے مقابلے میں کم ووٹ حاصل کر کے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کر لیتی ہے۔ کانگریس کو 21.25 فیصد ووٹوں کا نقصان ہوا۔ 2016ء میں اسے 39.85 فیصد ووٹ اور 36 سیٹیں حاصل ہوئی تھی۔ کانگریس کو بی جے پی سے 9.08 فیصد کم ووٹ اور 44 نشستیں کم حاصل ہوئی تھیں۔
2021ء کے سورت کارپوریشن انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو 27 نشستیں حاصل ہوئیں اور 28.00 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ عام آدمی پارٹی نے کانگریس کے 21.25 فیصد ووٹ پر شب خون مارا اور اسے 36 سیٹوں کا نقصان پہنچایا ہے۔ مجموعی طور پر سات کارپوریشن کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے گجرات کے سیاسی میدان میں آنے کی وجہ سے بی جے پی کو ایک 119 سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔ 2016ء میں اسے کل 627 نشستوں میں سے چار 405 نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور 2021ء میں اسے 524 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ بی جے پی کا ووٹ بھی بڑھا ہے، اسے 2016ء میں 49.13 فیصد ووٹ ملے تھے اور 2021ء میں اسے 53.08 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔
کانگریس کو 2016ء میں کل 627 نشستوں میں سے 192 نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور 2021ء میں اسے صرف 57 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اسے 135 نشستوں کا نقصان ہوا ہے۔ کانگریس کا ووٹ بھی گھٹ گیا ہے، اسے 2016ء میں 41.35 فیصد ووٹ ملے تھے اور 2021ء میں صرف 26.90 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اس کا 14.45 فیصد ووٹ گھٹ گیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کو صرف 13.28 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں اور صرف 28 نشستیں حاصل ہوئی ہیں ۔
یہ تجزیہ بتاتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے وجود سے کانگریس کو نقصان اور بی جے پی کو فائدہ ہوا ہے۔ عام آدمی پارٹی بی جے پی کا نہیں بلکہ کانگریس کا ووٹ کاٹ رہی ہے۔ یہی کام اس نے دلی اور پنجاب میں بھی کیا ہے۔
بی جے پی والے گرم ہندوتوا والے ہیں۔ ان کے اندر جہالت اور حکومت کی رعونت کے آثار نمایاں ہیں۔ کیجریوال نرم ہندوتوا کے نمائندے ہیں، وہ اٹل بہاری واجپائی کے نقش قدم پر ہیں بلکہ بعض چیزوں میں ان سے دو قدم آگے ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی ہر جلسے میں وندے ماترم کا نعرہ نہیں لگاتے تھے مگر کیجریوال یہ نعرہ لگانا کبھی نہیں بھولتے۔
اگر دسمبر 2022ء کے گجرات اسمبلی کے انتخابات میں سیکولر ووٹر کیجری وال کے جھانسے میں آگئے تو بی جے پی مزید طاقت ور ہو جائے گی۔
گجرات کی سیاسی تاریخ بیک نظر
کانگریسی دور: یکم مئی 1960ء میں ریاست گجرات کی تشکیل ہوئی تھی، اس سے قبل گجرات بمبئی ریاست کا حصہ تھا۔ یکم مئی 1960ء سے تین اپریل 1967ء تک گجرات میں انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت تھی۔ 1966ء میں اندرا گاندھی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ان سے ناراض کانگریسی لیڈروں نے انڈین نیشنل کانگریس آرگنائزیشن بنائی تھی، گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ہتیندر کنہیا لال دیسائی بھی مکمل اکثریت کے ساتھ انڈین نیشنل کانگریس آرگنائزیشن میں شامل ہوگئے اور تین اپریل 1967ء تا بارہ مئی 1971ء انڈین نیشنل کانگریس آرگنائزیشن کے ممبر کے طور پر گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے رکن کے طور پر وہ انیس ستمبر 1965ء تا تین اپریل 1967ء گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
بارہ مئی 1971ء کو گجرات میں پہلی بار صدر راج نافذ ہوا جو سترہ مارچ 1972ء تک کل دس ماہ پانچ دن رہا۔ 1972ء کے انتخاب میں دوبارہ انڈین نیشنل کانگریس کو گجرات کی باگ و ڈور ملی اسے 140 نشستیں حاصل ہوئیں مگر سیاسی اتھل پتھل جاری رہا۔
سترہ مارچ 1975ء تا نو فروری 1974ء دو سال سے بھی کم عرصے میں یکے بعد دیگرے گھنشیام اوجھا اور چمن بھائی پٹیل وزیر اعلی بنائے گئے تھے۔ نو فروری 1974ء تا اٹھارہ جون 1975ء کل ایک سال چار ماہ نو دن صدرا راج نافذ رہا۔
جنتا پارٹی کے دور اور صدر راج میں ہی 1975ء میں وسط مدتی انتخابات ہوئے جس میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ انڈین نیشنل کانگریس کو 75 اور انڈین نیشنل کانگریس آرگنائزیشن کو 56 نشستیں حاصل ہوئیں۔ انڈین نیشنل کانگریس آرگنائزیشن کے بابو بھائی پٹیل وزیر اعلی مقرر ہوئے۔ وہ بارہ مئی 1976ء تا 24 دسمبر 1976ء کل نو ماہ بارہ دن وزیر اعلی رہے اور دوبارہ 11 اپریل 1977ء تا 17 فروری 1980ء جنتا پارٹی کے رکن کی حیثیت سے وزیر اعلی رہے۔
درمیان میں 24 دسمبر 1976ء تا دس اپریل 1977ء کل تین ماہ سولہ دن انڈین نیشنل کانگریس کے مادھو سنگھ سولنکی وزیر اعلٰی رہے تھے۔
کانگریسی دور (2)
1980ء کے انتخابات میں کانگریس کو 141 سیٹیں اور 51 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ مادھو سنگھ سولنکی پانچ سال وزیر اعلی رہے۔ بی جے پی کو صرف نو سیٹیں حاصل ہوئی تھیں اور 14 فیصد ووٹ ملے تھے۔
1985ء کے انتخابات میں بھی کانگریس کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی اسے 56.5 فیصد ووٹ ملے تھے اور 149 نشستیں حاصل ہوئی تھیں جبکہ بی جے پی کو پندرہ فیصد ووٹ ملے تھے اور گیارہ نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔
کانگریس کے امر سنگھ چودھری وزیر اعلی مقرر ہوئے جو چھ جولائی 1985ء تا نو دسمبر 1989ء وزیر اعلی رہے۔ دس دسمبر 1989ء کو تیسری مرتبہ مادھو سنگھ سولنکی کو وزیر اعلی بنایا گیا جو تین مارچ ا1990ء تک کل دو ماہ ستائیس دن وزیر اعلی رہے۔
جنتادل اور کانگریسی دور
1990ء کے انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی، کانگریس کو شرمناک شکست نصیب ہوئی، اسے صرف 33 نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ 116 نشستوں کا نقصان ہوا۔
اس انتخاب سے قبل کانگریس کے کئی بڑے لیڈر جنتادل یا بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے۔ سابق وزیر اعلی چمن بھائی پٹیل بھی جنتا دل میں شامل ہوگئے تھے۔ جنتادل 70 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی تھی، مگر حکمرانی کے لیے اسے مزید 22 سیٹوں کی ضرورت تھی۔ بی جے پی 67 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی۔ جنتا دل اور بی جے پی نے مل کر حکومت سازی کی۔ جنتا دل کے سابق کانگریسی وزیر اعلی چمن بھائی پٹیل وزیر اعلی اور بی جے پی کے کیشو بھائی پٹیل نائب وزیر اعلی مقرر ہوئے۔ مگر یہ اتحاد زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا۔ مرکز میں بی جے پی کی حمایت سے جنتا دل کے وی پی سنگھ وزیر اعظم تھے۔ بابری مسجد کی بازیابی کے نام پر ہندوؤں کو مشتعل کرنے کے مقصد سے ایل کے اڈوانی رتھ یاترا پر نکلے تھے، ان کی اس یاترا سے امن و امان کو خطرہ ہوگیا تھا۔ 23 ستمبر 1990ء کو بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد نے ایل کے اڈوانی کو سمستی پور بہار میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جس کے نتیجے میں جنتا دل کی مرکزی سرکار اور گجرات کی ریاستی سرکار سے بی جے پی نے حمایت واپس لے لی، اس صورت حال میں چمن بھائی پٹیل جنتا دل کے دو تہائی سے زیادہ ممبران اسمبلی کے ساتھ کانگریس میں شامل ہو گئے اور 25 اکتوبر 1990ء سے اپنی موت 17 فروری 1994ء تک کانگریس کے ممبر کی حیثیت سے وزیر اعلی رہے، ان کے بعد 17 فروری 1994ء تا 21 اکتوبر 1995ء گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔
بی جے پی کا دور
بی جے پی گجرات میں 1995ء سے مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت میں ہے، اسے 1995ء میں 121 نشستیں اور 42.51 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے اور 54 سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا، کانگریس کو 32.86 فیصد ووٹ ملے تھے اور 45 نشستیں ملی تھیں۔ 1990ء میں بی جے پی کو 67 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ 1985ء میں 11 اور 1980ء میں صرف نو سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ بی جے پی کا قیام 1980ء میں ہوا تھا۔ اس کی اصل بھارتیہ جن سنگھ ہے۔ بھارتیہ جن سنگھ 1951ء سے 1977ء تک تھی اس کے بعد یہ جنتا پارٹی میں ضم ہوگئی تھی۔ 1980ء میں اٹل بہاری واجپائی نے پرانی جن سنگھ کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی رکھ دیا۔ بھارتیہ جن سنگھ کو گجرات اسمبلی میں 1967ء میں پہلی بار ایک سیٹ ملی تھی، 1972ء میں تین اور 1975ء میں اٹھارہ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ 1998ء میں اسے 117 اور 44.81 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ کانگریس کو 34.05 فیصد ووٹ ملے تھے اور 53 نشستیں ملی تھیں۔
2002ء میں بی جے پی کو 127 نشستیں ملی تھیں اور 49.85 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ یہ انتخابات نریندر مودی کے وزیر اعلیٰ بنائے جانے اور بدنام زمانہ گجرات فسادات کے بعد ہوئے تھے۔ 1998ء کے مقابلے میں 5.04 فیصد بی جے پی کا ووٹ بڑھ گیا تھا اور دس سیٹوں کا اضافہ ہوا تھا۔کانگریس کو 39.28 فیصد ووٹ ملے تھے اور 51 نشستیں ملی تھیں، اگرچہ 4.43 فیصد ووٹوں کا اضافہ ہوا تھا مگر دو سیٹیں کم ہو گئی تھیں۔
2007ء میں بی جے پی کو 117 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں اور 49.12 فیصد ووٹ ملے تھے۔ دس سیٹیں کم ہوئی تھیں اور 0.63 فیصد ووٹ بھی کم ہوا تھا جبکہ کانگریس کو 38 فیصد ووٹ کے ساتھ 59 نشستیں ملی تھیں۔ 2012ء میں بی جے پی کو 115 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں اور 49.12 فیصد ووٹ ملے تھے، دس سیٹیں کم ہوئی تھیں اور 0.63 فیصد ووٹ کم ہوا تھا۔ کانگریس کو 38.93 فیصد ووٹ ملے تھے اور 61 نشستیں ملی تھیں۔ 2017ء کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 49.05 فیصد ووٹ اور 99 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ 1.15 فیصد ووٹ کے اضافے کے باوجود اسے 16 نشستوں کا نقصان ہوا تھا۔ بی جے پی نے 2017ء کے انتخابات سے چند ماہ قبل احمد پٹیل مرحوم کو ہرانے اور راجیہ سبھا میں پہنچنے سے روکنے کے مقصد سے کانگریس میں بغاوت کرائی تھی اور اس کے 15 تا 16 ممبران کو خرید لیا تھا اور احمد پٹیل کے مقابلے میں اپنا امیدوار بھی اتارا تھا لیکن احمد پٹیل بڑی مشکل سے ہی سہی لیکن راجیہ سبھا کے رکن بننے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بی جے پی کو 32 نشستوں کا نقصان ہوا تھا۔ کانگریس کو 2017ء میں 77 نشستیں ملی تھیں اور 41.44 فیصد ووٹ ملے تھے۔ 2012ء کے مقابلے میں 16 نشستوں اور 2.57 فیصد ووٹ کا فائدہ اسے ہوا تھا۔ 2017ء کے انتخابات کے وقت اس کے 61 میں 16 ممبران اسمبلی بی جے پی میں چلے گئے تھے پرانے ارکان اسمبلی صرف 45 تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کانگریس کو 31 سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا۔ ایک آزاد امیدوار اور بھارتیہ ٹرائبل پارٹی کے دو امیدوار بھی اس کی حمایت سے کامیاب ہوئے تھے۔ نیشنلسٹ کانگریس کا بھی ایک امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ کانگریس اتحاد اور بی جے پی میں صرف 16 نشستوں کا فرق تھا اور کانگریس صرف 11 سیٹوں کے فرق سے گجرات میں حکومت بنانے میں ناکام ہو گئی تھی۔ گجرات اسمبلی کی کل نشستیں 182 ہیں اور حکمرانی کے لیے 92 نشستوں کی ضروت پڑتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیجریوال کے گیم سے کسے فائدہ پہنچتا ہے خود کو، کانگریس کو یا بی جے پی کو؟
عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے رہنما شرد پوار وغیرہ کو چاہیے کہ وہ بی جے پی کے خلاف مضبوط اتحاد قائم کریں۔
1995ء سے گجرات میں بی جے پی بلا شرکت غیرے اقتدار میں ہے، اس نے اب تک لگا تار چھ اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے، اسے 182 رکنی اسمبلی میں 99 تا 127 نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور 42.51 تا 49.85 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔
دوسری طرف گزشتہ 27 سالوں میں ہونے والے چھ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو 45 تا 61 سیٹیں ملتی رہی ہیں، اس طرح گجرات میں کانگریس مضبوط اپوزیشن کا رول ادا کرتی رہی ہے مگر اس کے ساتھ ہمیشہ یہ مصیبت رہی کہ تقریبا ہر انتخاب سے قبل اس کے چند بڑے لیڈر اور ایک ڈیڑھ درجن ممبران اسمبلی بی جے پی میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح بی جے پی کو ہمیشہ کانگریس کا تازہ خون ملتا رہا ہے۔ گجرات میں 1990ء کے بعد سے ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ کوئی تیسری پارٹی مضبوط نہیں ہو سکی۔ بہوجن سماج پارٹی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور جنتا دل یو وغیرہ نے صرف کانگریس کا سیکیولر ووٹ ہی چرایا ہے۔
***

 

***

 بی جے پی کو ہمیشہ کانگریس کا تازہ خون ملتا رہا ہے۔ گجرات میں 1990ء کے بعد سے ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ کوئی تیسری پارٹی مضبوط نہیں ہو سکی۔ بہوجن سماج پارٹی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور جنتا دل یو وغیرہ نے صرف کانگریس کا سیکیولر ووٹ ہی چرایا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022