دور حاضر اور جماعت اسلامی ہند کی تعلیمی خدمات

درسیات کی تیاری ، درسگاہوں کی تعمیر، معیارتعلیم میں بہتری اور تحقیقی شعبے کے قیام کی مساعی

وسیم احمد،دلّی

تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کے لیے ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ تعلیم پر انسانی ترقی کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ تعلیم ہی قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے اور اسی کے ذریعہ انسان اپنی معاشرتی روایات واقدار کا خیال رکھنے کا ہنر سیکھتا ہے۔ تعلیم انفرادی واجتماعی ترقی کے لیے سب سے اہم معیار ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تعلیم ایسی ہو جو انسان کا ذہن کھولے، فکر ونظر کو بلند کر کے طلباء میں پڑھنے اور سیکھنے کا شوق پیدا کرے۔ تعلیم کی اسی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند نے اپنے قیام کے اول روز سے ہی اس کی توسیع وترویج پر خاص توجہ دی ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جماعت کی نگرانی میں متعدد علمی تحقیقی کام شروع کیے گئے ہیں۔ حالات اور جدید تقاضوں کے مطابق نصاب تعلیم تیار کیا گیا جس میں وقتاً فوقتاً نظر ثانی کر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی اور تعلیمی امور کو اعلیٰ معیار تک پہنچانے کے لیے باضابطہ ایک ’مرکزی تعلیمی بورڈ‘ کا قیام عمل میں لایا گیا، اس بورڈ میں پورے ملک سے ایسے افراد کو منتخب کیا گیا جو تعلیمی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں۔ اس کے بعد بورڈ نے تمام صورت حال کا تجزیہ کر کے سات نکات پر مشتمل چار سالہ تعلیمی منصوبہ تیار کیا۔ بورڈ نے تعلیم سے متعلق پالیسی پر خاص توجہ دی لہٰذا ایک تعلیمی پالیسی تیار کی گئی اور طے ہوا کہ اب آگے کی تعلیمی سرگرمیاں اسی پالیسی کے تحت انجام دی جائیں گی۔
سات نکاتی پروگرام کے مطابق درسیات کی تیاری، درسگاہوں کی تعمیر، تعلیمی معیار میں بہتری، تحقیقی شعبے کا قیام جس میں نئے ٹرینڈ پر اپنے فکر کے مطابق تحقیقی کام، طلباء کی کونسلنگ، ان کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل اور رہنمائی پر لازمی سرگرمیوں کا آغاز اور سرکاری اسکیموں سے طلباء کو فائدہ پہنچانے کے طریقہ کار وغیرہ جیسے کاموں کے لیے مستقل ایک شعبہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ بہت سے دیگر شعبے جیسے دینی مباحث کا شعبہ، ٹیچر ٹریننگ کا شعبہ وغیر قائم کیا گیا۔ بورڈ قائم ہونے کے بعد قلیل عرصے میں ہی کئی اہم اور تاریخی فیصلے لیے گئے۔ بورڈ کے چیئرمین جناب نصرت علی نے شعبہ میڈیا کے شکیل الرحمن سے بات چیت کے دوران بورڈ کی سرگرمیوں کے بارے میں کئی اہم پہلو اجاگر کیے جس کا اختصار کے ساتھ اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے۔
تعلیم کے فروغ میں حکومت کی توجہ مبذول کرانا ایک اہم کام ہوتا ہے۔ اس کام کو بورڈ بحسن وخوبی انجام دے رہا ہے اور حکومت کی تعلیمی پالیسیوں پر نگاہ رکھنے کے ساتھ ہی اس کی مثبت پالیسیوں واقدامات کے سلسلے میں تعاون بھی کرتا ہے اور منفی پالیسیوں کے سلسلے میں حسب ضرورت تنقید وتبصرہ بھی کرتا ہے۔ بورڈ نے ایک اہم فیصلہ یہ کیا ہے کہ ایسے عام تعلیمی ادارے جو جماعت کے زیر اثر ہوں اور وہاں سرکاری نصاب پڑھایا جاتا ہو، ان میں ایسے افراد تیار کیے جائیں جو صالحیت کے ساتھ ملک وسماج کی تعمیر نو اور قیام عدل کے لیے دستیاب ہوں۔ نیز ایسے دینی تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں جن میں علوم دینیہ میں تخصص کے حامل افراد تیار کیے جا سکیں۔ اسی طرح جز وقتی مکاتب وعصری مدارس کا قیام بھی اس کے اہم فیصلوں میں شامل ہے۔ دراصل عام طور پر عصری تعلیم گاہوں میں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہوتا ہے، اس لیے جماعت اسلامی جز وقتی دینی تعلیمی اداروں کو بڑے پیمانے پر قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور جہاں بھی اس طرح کی کوششیں کی جا رہی ہیں ان میں وہ اپنا تعاون پیش کرتی ہے۔ اس سلسلے میں چار سالہ نصاب بھی تیار کیا جا چکا ہے۔ بورڈ کا یہ فیصلہ بھی بہت اہم ہے کہ وہ عمومی تعلیمی ادارے قائم کرنے جا رہا ہے ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس ادارے میں ملک کے تکثیری سماج کے تنوع کا مناسب لحاظ رکھا جائے تاکہ مذہبی روادری کو فروغ دیا جا سکے اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔ اگر مؤثر انداز میں کوشش کی جائے تو یقینا ایسے ادارے ہر مذہب وملت کے افراد کے لیے باعث کشش ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ بورڈ جلد سے جلد اس پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہے۔ بورڈ نے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جہاں ایسے علماء ودانشور تیار کیے جائیں گے جو بیک وقت دینی وعصری علوم میں قابل لحاظ دسترس رکھتے ہوں گے۔ خیال رہے کہ مرکزی بورڈ تعلیمی اداروں کے انتظام وانصرام میں بھی دلچسپی رکھتا ہے مگر وہ چاہتا ہے کہ خود مختار ٹرسٹ اور سوسائٹیاں بنائی جائیں اور یہ ٹرسٹ وسوسائٹیاں اپنے ضوابط کے مطابق آزادانہ کام کریں۔ مرکزی بورڈ نے حلقوں کی سطح پر تعلیمی بورڈ تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ یہ بورڈ مرکزی تعلیمی بورڈ کی نگرانی میں کام کرے گا۔
واضح رہے کہ مرکزی تعلیمی بورڈ کے قیام سے پہلے تعلیم کا کام مختلف ٹرسٹوں اور مختلف شعبوں میں بٹا ہوا تھا مثلاً ملی مسائل کا شعبہ تعلیم کو دیکھتا تھا اور کچھ کام فیڈریشن بھی دیکھتا تھا۔ اسی طرح کچھ کام ایس آئی او کے ذریعے انجام دیے جاتے تھے تو کچھ ذمہ داریاں فور فرنٹ فائونڈیشن پر ڈالی گئی تھی۔ کئی شعبوں کے تحت ہونے کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں حسب منشا نہیں ہو پا رہی تھیں اس لیے مرکزی شوریٰ نے یہ طے کیا کہ اگر کوئی کام کسی شعبہ سے براہ راست متعلق ہے تو اسے وہی شعبہ دیکھے اور جو کام براہ راست اس سے متعلق نہیں ہے وہ سب مرکزی تعلیمی بورڈ کے تحت آجائیں۔ اس کے علاوہ جو مختلف طرح کے ٹرسٹ اور سوسائٹیاں یا دوسری آزاد تنظیمیں ہیں ان کے ساتھ بورڈ کوآرڈینیشن کرے، یعنی بورڈ براہ راست بھی کام کرے اور کوآرڈینیشن کے ذریعہ بھی تعلیمی سرگرمیوں کو آگے بڑھائے۔ اس طرح بورڈ کا دائرہ عمل وسیع اور ہمہ گیر بنا دیا گیا ہے۔جماعت اسلامی روز اول سے ہی تعلیم پر خاص توجہ دیتی رہی ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اپنے ابتدائی دور میں بھی اس نے تعلیم کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے ملک کی مختلف ریاستوں میں جا بجا درسگاہیں کھولیں۔ قابل ذکر ہے کہ جماعت کی طرف سے پہلی درسگاہ ملیح آباد میں قائم کی گئی تھی اور اسی وقت سے نصاب کی تیاری کا کام بھی شروع کر دیا گیا تھا۔اس وقت افضل حسین صاحب مرحوم درسگاہ میں پڑھاتے تھے اور ساتھ ہی کتابیں بھی تیار کرتے تھے۔ مکتبہ جماعت اسلامی سے شائع ہونے والی درسیات کی کتابیں جن کے لگ بھگ ساٹھ ٹائٹلس ہیں، اس میں بڑا کام افضل حسین صاحب کا ہی تھا۔ اردو میڈیم کو مد نظر رکھتے ہوئے درسیات تیار کی گئی تھیں جس میں ہندی کی کتابیں بھی شامل تھیں۔ اس کے بعد 1988-1987 سے ان کتابوں پر نظر ثانی کا کام محمد اشفاق صاحب مرحوم نے شروع کیا۔ ان کی قیادت میں ایک مکمل ٹیم کام کر رہی تھی۔اس زمانے میں جغرافیہ کی ایک بہت ہی مشہور کتاب ’نئی دنیا‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔
1990 میں مرکز میں تین یا چار افراد پر مشتمل شعبہ تعلیم قائم تھا۔ اس وقت بھی یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی تھی کہ تعلیم کی طرف ہماری توجہ اور زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ تعلیم انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے، خاص طور پر نظریاتی تحریکوں کے لیے تعلیم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ تعلیم کے ذریعہ ہی نئی نسل کی آبیاری ہوتی ہے اور وہی آگے چل کر تحریک کا دست وبازو بنتی ہے۔ جہاں تک اسلامی تحریک کا تعلق ہے تو وہ اسلامی تناظر میں ہی تعلیم وتربیت پر زور دیتی ہے اور نسلوں کو اس سے آراستہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک اسلامی کے نزدیک تعلیم حاصل کرنا اور تعلیم دینا دونوں فرض ہیں کیونکہ نئی نسل کے تابناک مستقبل کی تیاری اسی سے ممکن ہے۔ تعلیم کے میدان میں اور بھی بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سائنس وٹکنالوجی کے بڑے ادارے اور یونیورسٹیاں کھولنے کی ضرورت ہے مگر اس کو عملی جامہ پہنانا بہت دشوار ہے کیونکہ تمام کام کوئی تحریک یا تنظیم خود اپنے وسائل سے انجام نہیں دے سکتی ہے۔ کچھ کام حکومت کرتی ہے اور کچھ کام تحریکیں اور تنظیمیں اپنے محدود وسائل کے سہارے انجام دیتی ہیں۔مثال کے طور پر تعلیمی وٹکنالوجی یونیورسٹیاں کھولنے کی ضرورت بڑے پیمانے پر ہے مگر کوئی تنظیم زیادہ سے زیادہ ایک یا دو یونیورسٹیاں کھول سکتی ہے۔ بڑے پیمانے پر یہ کام صرف حکومت ہی انجام دے سکتی ہے۔ ہاں یہ تنظیمیں اور تحریکیں حکومت کو اس طرف متوجہ کرتی ہیں اور اس کام کو کرنے کے لیے حکومت پر دباؤ بناتی ہیں۔ اس ذمہ داری کو جماعت اسلامی ہند بخوبی نبھا رہی ہے۔ اس کے منصوبوں میں ایک یونیورسٹی اور کئی کالجز کھولنا بھی شامل ہے۔ وسائل دستیاب ہو جانے کے بعد اسے عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کو تعلیم میں اپنا ایک نصاب تیار کرنا چاہیے تو اس سلسلے میں جماعت کی کوشش مثبت ہے اور تعلیمی سرگرمیوں کو نتیجہ خیز بنانے کی غرض سے مختلف زبانوں میں درسی کتابوں کی تیاری شروع ہو چکی ہے، بعض کتابوں کے ترجمے ہوئے ہیں اور بعض کتابیں ازسر نو تیار کی گئی ہیں۔ ان سب کہ باجود اصل قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ کچھ چیزیں کسی غیر سرکاری تنظیم یا ادارے کے دائرہ کار سے باہر ہوتی ہیں مثلاً جماعت اسلامی ہند اپنے اداروں میں آٹھویں تک اپنا نصاب تعلیم چلاتی ہے مگر دسویں میں کوئی الگ سے نصاب تیار نہیں کر سکتی۔ زیادہ سے زیادہ اپنے یہاں اسلامیات کی کتاب نصاب میں شامل کر سکتی ہے۔البتہ اس کے منصوبوں میں یہ ضرور شامل ہے کہ دینی اور عصری مضامین پر مشتمل ایک مکمل نصاب تیار کر کے حکومت سے تصدیق کرانے کی کوشش کی جائے۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ ہمارے اداروں میں تو یہ نصاب پڑھایا جائے گا ہی ساتھ ہی ملت کے دوسرے اداروں سے بھی کہا جائے گا کہ وہ اس نصاب سے فائدہ اٹھائیں۔ لیکن یہ منصوبہ نصاب کی تکمیل اور ضروری کارروائیوں کے مکمل ہو جانے کے بعد ہی شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ خلاصہ یہ کہ جماعت اسلامی ہند تعلیم کو بڑی اہمیت دیتی ہے، اس نے تعلیم کے فروغ اور معیارِ تعلیم کی بہتری کو ابتدا سے ہی اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور اپنے وسائل اور طاقت سے اوپر اٹھ کر اس میدان میں خدمات انجام دیتی آ رہی ہے۔
***