دنیا کے لیے طبِ اسلامی کو گلے لگانے کا وقت آن پہنچا

صحت کے اسلامی احکام پر عمل کے ذریعہ ہر سال 8 کروڑ سے زیادہ جانیں بچائی جاسکتی ہیں

ڈاکٹر جاوید جمیل

اسلام کی ہدایات زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہیں انسان اگر تھوڑا سا رک کر غور کرے تو وہ زندگی کی صاف اور سیدھی شاہراہ پا سکتا ہے۔ ان تمام شعبوں میں طب وصحت ایسا شعبہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی واضح اور روشن نشانیاں موجود ہیں۔ بد قسمتی سے آج مسلمان تمام علوم کا سر چشمہ اپنے پاس رکھنے کے باوجود معمولی معمولی مسائل میں بھی دوسروں کا محتاج بن کر رہ گیا ہے چنانچہ آج جب کہ ساری دنیا پر کورونا کا وائرس چھایا ہوا ہے مسلمان درد کا درماں تو کیا کرتے خود درماندہ بنے ہوئے ہیں۔کوویڈ۔19 کے وباء کے تناظر میں تازہ ترین خبر یہ ہے کہ چین نے جنگلی جانوروں خاص طور پر شیروں، چمگادڑوں، سانپوں اور پینگوئنوں کے گوشت پر پابندی عائد کردی ہے۔ یہ تمام جانور وہ ہیں جن کا گوشت اسلام میں ممنوع ہے۔ گزشتہ دو صدیوں میں پھیلنے والی تمام وباؤں کا بھی تعلق براہ راست اسلام کے رہنما خطوط سے ہے۔ اگر دنیا سور کا گوشت استعمال کرنے سے باز رہتی تو 8 کروڑ سے زیادہ انسانوں کی سوائن فلو کی وجہ سے اموات نہیں ہوتیں۔ اگر زنا کاری اور ہم جنس پرستی کے خلاف سخت قوانین عمل میں لائے جاتے تو ایچ آئی وی / ایڈز کی وجہ سے لگ بھگ ٤ کروڑ انسانی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔ اگر ختنہ کا دنیا بھر میں رواج ہوتا تو لاکھوں خواتین ایچ پی وی وائرس سے وابستہ سرویکس (عنق الرحم کے سرطان) سے نہیں مرتیں۔ اگر رہائشی علاقوں میں کتوں کی اجازت نہ ہوتی تو لاکھوں لوگ ریبیز سے ہلاک نہ ہوتے اور ہیپاٹائٹس بی (خون کے ذریعہ یا جنسی تعلق کے ذریعہ منتقل ہونے والے وائرس) کی وجہ سے بھی لاکھوں افراد جان کی بازی نہ ہارتے۔ اس کے علاوہ اگر شراب نوشی کو مکمل طور پر غیر قانونی بنا دیا گیا ہوتا تو دس کروڑ سے زیادہ انسان زندگی سے ہاتھ نہ دھوتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا میڈیکل سائنسس، معاشیات اور سیاسی علوم کی بے لگام حکم رانی سے آزادی کا اعلان کرے اور اسلام کے متحرک ماڈل برائے صحت کو اپنی نئی پالیسی کے طور پر قبول کرے۔ اسے اب اپنے صحیح مقاصد کی تکمیل کے لیے غلط راستوں میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
دنیا کو یہ جان لینا چاہیے کہ اگر اسلامی اصولوں پر صحیح طریقے سے عمل در آمد کیا جائے تو ہر سال 8 کروڑ سے زیادہ انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
• ٢٠ لاکھ قتل
• ٢٢ لاکھ خودکشی
• ایڈز سے 25 لاکھ اموات
• تمباکو نوشی سے ٥٠ لاکھ اموات
• شراب سے منسلک ٢٠ لاکھ اموات، نیز شراب نوشی کے سبب حادثات
اور جرائم سے ۵۰ لاکھ افراد شکار ہوتے ہیں۔
• جوئے اور منشیات سے ٢٠ لاکھ افراد کی اموات
• اسقاط حمل کے باعث ٧ کروڑ اموات
• کتوں کے کاٹنے کی وجہ سے 60 ہزار اموات
اور ظاہر ہے کوویڈ۔19 جیسی مہلک وبائی بیماریوں سے بھی بچا جا سکتا تھا یا مؤثر طریقے سے اسے قابو کیا جا سکتا تھا اگر اسلامی قانون اور اسلامی سماجی ومعاشی نظام نافذ ہوتا۔ دہشت گردی کے نام پر دنیا کو یرغمال بنا دیا گیا کھربوں ڈالر کو نذر آتش کیا گیا، شہر برباد ہوئے اور لاکھوں بے گناہ مارے گئے۔ عالمگیریت کی خواہاں قوتوں کے ذریعہ متعین کی گئی معاشرتی اور معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں کروڑوں افراد کی موت ہوتی ہے جب کہ عملی طور پر کچھ کاسمیٹک اقدامات کے سوا کچھ نہیں کیا جاتا۔
بد قسمتی سے ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں عالمگیریت کی آرزو مند قوتوں کے ناپاک عزائم کی بدولت مذہب کو ایک طرح کے شیطان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس کو جڑ سے اکھاڑنا ممکن نہیں ہے تو ان کے خیال میں کم از کم اس کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کو نہیں بلکہ مذہب کے دشمنوں کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ معاشی بنیاد پرستی کے ابلیس کو ہلاک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دنیا میں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں اموات اور امراض میں کمی واقع ہو، بیماریوں کا عالمی بوجھ کم ہو، اوسطِ حیات بڑھ جائے جس کا نقطہ آغاز حمل کے وقت کو قرار دیا جائے اور صحت کو برقرار رکھنے کے لیے اخراجات کے بوجھ کو کم کیا جائے۔ جدید معاشی نظریات میں دیگر نظریات کے علاوہ سرمایہ داری اور سوشلزم مشہور و رائج نظامات ہیں جو ایک طرف لوگوں میں خطرناک سماجی رویوں کو رائج کرتے ہیں اور دوسری طرف علاج و ویکسین کے مصنوعی ذرائع ایجاد کر کے ان سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقتصادیات اور صحت کے درمیان اس ٹکراو میں معاشیات ہی کو واضح فتح حاصل ہوتی ہے اس لیے یہ بظاہر کامیاب محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ صحت سے متعلق معاملات کو درست کرنے کے لیے ہیلتھ سائنسز کو اب اسلام کی طرف رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔
(ڈاکٹر جاوید جمیل ایک مفکر ، معالج ، شاعر ، مصنف اور اسلامی اسکالر ہیں جن کی بیس سے زیادہ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے)


 

کوویڈ ۔19 کے وباء کے تناظر میں ، تازہ ترین خبر یہ ہے کہ چین نے جنگلی جانوروں خاص طور پر شیروں ، چمگادڑوں ، سانپوں اور پینگوئنوں کے گوشت پر پابندی عائد کردی ہے۔ یہ تمام جانور وہ ہیں جن کا گوشت اسلام میں ممنوع ہے۔