دلی تشدد سفاکیت کی بدترین مثال

متاثرین کو ریلیف پہنچانے کے موثرانتظامات کی ضرورت

وسیم احمد، دلی

شمال مشرقی دلی میں ہونے والا حالیہ فساد ملک کے بدترین فسادات میں سے ایک تھا جسے ملک کے کچھ شرپسند عناصر نے منظم طریقے سے انجام دیا۔ اس میں 57 سے زائد افراد کی اموات کے علاوہ ہزاروں کروڑ روپیوں کی املاک تباہ ہوئی ہیں۔ جن کے گھر تباہ کردیے گئے، دکانیں جلا دی گئیں کارو بار تہس نہس کردیے گئے وہ مکمل طور پر بے یارو مددگار ہو چکے ہیں۔ اب ان کے پاس بھوک مٹانے کے لیے کھانا ہے نہ سر چھپانے کے لیے چھت بچی ہے۔ فسادیوں نے انہیں بالکل بے یارو مددگار کر دیا ہے۔ کئی ایسے ہیں جن کے گھر کا اکلوتا کمانے والا اس فساد میں مارا گیا۔ ان پریشان حال خاندانوں کی دادرسی راحت رسانی اور طبی و قانونی امداد وغیرہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ ملک کی متعدد تنظیمیں امدادی کاموں میں لگی ہوئی ہیں۔ جماعت اسلامی ہند نے رضاکاروں کی ایک بڑی ٹیم بنا کر بڑے پیمانے پر راحت رسانی کا کام انجام دیا ہے۔ فساد زدہ علاقوں کے مشاہدے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شمال مشرقی دہلی کا یہ فساد پورے طور پر یکطرفہ تھا۔ یہ 10 پولیس اسٹیشنوں کے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ ان علاقوں میں سب سے زیادہ نقصان موج پور، شیو وہار، چاند باغ اور یمنا وہار میں ہوا جہاں رہائشی مکانات کے علاوہ بیشتر مساجد کو جلایا گیا، زبردست توڑ پھوڑ ہوئی اور مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کی گئی اور معیشت کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا گیا۔
جماعت اسلامی ہند کے قومی سکریٹری برائے خدمت خلق محمد احمد نے ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ میں نے سابق میں ملک کے کئی فساد زدہ علاقوں کا سروے کیا ہے مگر شمال مشرقی دہلی کے 8 کلو میٹر رقبے میں پھیلا ہوا یہ فساد اپنے اندر جتنی سفاکی سمیٹے ہوا ہے اس سے قبل کہیں نہیں دیکھا۔ عورتوں کو زندہ جلایا گیا، بچوں کو بے رحمی سے مار دیا گیا۔ گجرات فساد 2002 کے طرز پر عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ 19 مساجد نذرِ آتش کردی گئیں یا ان کو بری طرح سے نقصان پہنچایا گیا۔ ان مسجدوں کو اڑانے کے لیے دھماکہ خیز مادوں کا استعمال کیا گیا۔ یہ اتنے طاقتور مادے تھے جن کے پھٹنے سے مساجد کی چھتیں اڑ گئیں۔ محمد احمد صاحب کا کہنا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں تھا، فساد تو تب ہوتا ہے جب مقامی لوگوں میں باہم کسی طرح کا تنازع ہو۔ یہاں تو آپس میں کوئی تنازع تھا ہی نہیں۔ باہر سے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے اچانک مسلمانوں پر تباہ کن حملے شروع کر دیے۔ مسلمانوں کے مکانات اور دوکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ منصوبہ بند حملہ تھا جس میں یک طرفہ کارروائی ہوئی۔ پہلے تو مسلمانوں کے گھروں کو لوٹا گیا اور اس کے بعد اس میں آگ لگا دی گئی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جو لوگ خوف ودہشت کی وجہ سے جان بچا کر بھاگ گئے تھے اب وہ اپنے جلے ہوئے مکانوں اور سامانوں کو دیکھنے کے لیے واپس آتے ہیں تو پولیس انہی کو فسادی ہونے کے الزام میں 307 جیسی سخت دفعات لگا کر گرفتار کرلیتی ہے اور ان پر تھرڈ ڈگری کا استعمال کرتی ہے۔ اطراف واکناف میں خوف و دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے۔ نوجوان سہمے ہوئے ہیں۔ ہر وقت پولیس کا ڈر لگا رہتا ہے۔ اس یک طرفہ کارروائی نے مسلمانوں میں عدم تحفظ اور ناانصافی کا احساس پیدا کر دیا ہے۔
جناب محمد احمد سکریٹری جماعت اسلامی ہند نے دہلی وقف بورڈ کے چیئر مین امانت اللہ خاں سے ملاقات کی اور بازآبادکاری کے کاموں بالخصوص مساجد کی مرمت اور دیگر کاموں میں وقف بورڈ کے ساتھ تعاون کی پیش کش کی۔ جماعت راحت کاری کے یہ سارے کام مذہب اور ذات پات سے اوپر اٹھ کر کر رہی ہے چنانچہ اس کی سروے ٹیم نہ صرف مسلمانوں کے نقصانات کا تخمینہ لگا رہی ہے بلکہ برادران وطن کے مالی نقصانات کا بھی اندازہ لگا رہی ہے۔
اس موضوع پر جماعت اسلامی ہند کے ملی امور کے کل ہند سکریٹری جناب ملک معتصم خاں صاحب سے بھی گفتگو کی گئی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے انتظامیہ کی کوتاہیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس سنجیدگی سے اپنی ذمہ داری نبھاتی تو اس تباہی کو روکا جاسکتا تھا۔ مگر پولیس نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوتاہی کی۔ صورت حال کے تجزیے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پولیس نے سیاسی دباو میں آکر فسادیوں کو شر انگیزی کی کھلی چھوٹ دے دی تھی۔ اس فساد کو یک طرفہ حملہ کہنا زیادہ موزوں ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پولیس ایسے مسلمانوں کو بھی گرفتار کر رہی ہے جنہوں نے اپنے محلے کے مندروں کی حفاظت کی تھی۔صورت حال اتنی بھیانک ہوچکی ہے کہ تشدد میں زخمی ہونے والے افراد اپنا علاج کرانے سے بھی گھبرانے لگے ہیں کہ کہیں پولیس انہیں گرفتار نہ کرلے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان تمام واقعات کا پس منظر یہ ہے کہ مسلمانوں کو جانی نقصان پہنچانے کے ساتھ ان کی معیشت کو بھی ختم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے اور مسلمانوں میں حقوق کے لیے جدو جہد کا جو حوصلہ پیدا ہوا ہے اسے پست کرنے کا منصوبہ عمل میں لایا جا رہا ہے۔مبصرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ چونکہ یہاں کی پولیس کا محکمہ مرکزی حکومت کی وزارت داخلہ کے تحت آتا ہے اور دہلی کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی کی بھرپور حمایت کی تھی اور بی جے پی کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا تھا، چنانچہ بی جے پی حکومت مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے فسادات کے ذریعے ان کے حوصلے پست کر دینا چاہتی ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں وہ بی جے پی کی مخالفت کرنے سے بھی خوف کھائیں۔
متاثرہ علاقوں میں متعدد تنظیمیں اپنے اپنے طور پر کام کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے ان تمام راحت رسانی کے کاموں میں ایس بی ایف (سوسائٹی فار برائٹ فیوچر )، قانونی تعاون کے لیے ’اے پی سی آر ‘ ( ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس) اور علاج و معالجہ کی خدمات کے لیے ایم ایس ایس (میڈ یکل سروس سوسائٹی) کے اشتراک سے فسادات کے متاثرین کو مدد پہنچائی جارہی ہے۔ فساد کے فوراً بعد جماعت نے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تیار کی اور جہاں بھی ضرورت پڑی اس ٹیم کے ذریعہ ان کی مدد کی۔ اس طرح سے جماعت نے تقریباً دو ہزار زخمیوں کا علاج کرایا۔ جو مریض زیادہ زخمی تھے جنہیں فوری طور پر اسپتال میں بھرتی کرانے کی ضرورت تھی، ایسے 19 مریضوں کو ’الشفا ‘ اسپتال میں منتقل کیا اور وہاں اپنی نگرانی میں ان کا علاج کروایا۔ عیدگاہ میں 1500 پناہ گزینوں میں غذائی اشیاء کے علاوہ کپڑوں اور بچوں کے نیپکن وغیرہ کا بندوبست کیا۔ جن کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی تھی وکلاء کے ذریعہ ان کی ایف آئی آر درج کروائی گئی۔ بہت سے لوگ خوفزہ تھے اور وہ تھانہ جاکر ایف آئی آر نہیں کرانا چاہتے تھے ایسے لوگوں کی ماہرین کے ذریعہ کونسلنگ کرائی گئی۔ خاص طور پر وہ بچے جنہوں نے اپنے سامنے والدین یا ان میں سے کسی کو قتل ہوتے دیکھا تھا وہ انتہائی دہشت کے عالم میں ہیں اور اس حالت میں نہیں ہیں کہ سالانہ امتحان دے سکیں۔ جماعت ان کی خاص طور پر کونسلنگ کرکے انہیں دہشت کی کیفیت سے باہر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کئی لوگوں کی ای رکشہ، تھری وہیلر، معذور افراد کی سائیکلیں جلا دی گئیں یا توڑ دی گئیں، جماعت انہیں نئی سائیکلیں فراہم کررہی ہے۔ اس کے علاوہ اجڑے کاروبار کو پھر سے بحال کرنے کے لیے مالی مدد دی جا رہی ہے۔
متاثرین کو مدد پہنچانے کے لیے دیگر بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ جمعیت علمائے ہند، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند، تعاون ٹرسٹ و دیگر کے علاوہ دہلی وقف بورڈ بھی پیش پیش ہیں۔ ہر تنظیم مخلصانہ طور پر انتہائی جوش و خروش کے ساتھ کام انجام دے رہی ہے۔ مگر سوال یہی ہے کہ آخر حکومت کب تک مسلمانوں کو حالات کے رحم و کرم پر رکھے گی اور انہیں تعصب کا نشانہ بنتا ہوا دیکھتی رہے گی۔ دہلی کے مسلمانوں کی حالت تو اس لیے بھی بہت زیادہ قابلِ رحم ہے کہ اس طرح کے موقعوں پر دہلی حکومت یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیتی ہے کہ پولیس کا محکمہ اس کے ماتحت نہیں ہے۔ جبکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم سے نظریں چرا رہی ہے۔ آخر مسلمان جائے تو کدھر جائے۔