داعی کو بہادری کے ہتھیار سے مسلح ہونا چاہئے

بزدل اور کم ہمت افراد دعوت کے کاز کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ مخالفت کے ماحول میں داعی مصائب کی پروا نہیں کرتا

عبدالملک ، حیدرآباد

سیرت النبیﷺ کی روشنی میں داعی کی خصوصیات پر ایک یاد گار انٹرویو میں مولانا سید ابوالاعلی مودوی ؒکا اظہار خیال
سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں آپ ایک داعی کی کونسی خصوصیات بیان کریں گے؟
قرآن مجید میں ایک ایسی آیت ہے جس میں ایک داعی الی اللہ کی خصوصیات کو ظاہر کیا گیا ہے:
’’وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ‘‘ (سورة فصلت آیت 33) ’’اور اس سے زیاده اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں‘‘۔
اس بات کی پوری اہمیت محسوس کرنے کے لیے نگاہ میں یہ بات رکھنی ضروری ہے کہ جن حالات میں یہ بات کہی گئی ہے وہ مکہ معظمہ کے حالات ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے پیروؤں پر انتہائی شدید مظالم ڈھائے جارہے تھے اور وہاں یہ کہنا کوئی آسان کام نہ تھا کہ کوئی آدمی کھڑے ہوکر صاف طور پر اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں۔ یہ بات کہنے کے یہ معنی تھے کہ آدمی درندوں کو دعوت دے کہ آؤ مجھ پر حملہ آور ہو۔اس بات کو پیش نظر رکھ کر دیکھیے کہ یہ بات فرمائی کہ بہترین قول اس شخص کا ہے جو اللہ تعالی کی طرف بلائے، دوسرے الفاظ میں ایک داعی کی خصوصیت یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کے مشن میں اس کے پیش نظر کوئی دنیوی ومادی فائدہ نہ ہو، قومی نہ وطنی، نہ خاندانی اور نہ کسی قسم کی غرض و غایت اس کے پیش نظر ہو بلکہ خالص ایک اللہ تعالی کی طرف دعوت دے۔ اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی قرآن مجید کی تعلیمات نگاہ میں رکھے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالی کی توحید کی طرف دعوت دینا ہی اصل ہے۔ اس بات کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے کہ اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے، کسی کا خوف اور کسی سے طمع و امیدیں اس کے سوا وابستہ نہ رکھی جائیں اور اسی کے احکام اور فرامین کی اطاعت کی جائے اور اس کے سوا کسی کی بھی خوشنودی و رضامندی حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی عمل نہ کیا جائے۔
’’عمل صالح‘‘ یعنی نیک عمل کرے، اس بات پر آدمی تھوڑا سا غور کرے تو اس کا مفہوم صاف اس کے سمجھ میں آجائے گا کہ اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے والے کا عمل اگر درست نہ ہو تو پھر اس کی دعوت کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ وہ جس کی طرف دعوت دے رہا ہے اسے اس کاعملی مجسمہ ہونا چاہیے، ایک داعی کو اس کی اپنی زندگی میں اللہ تعالی کی نافرمانی کا اثر نہ پایا جائے اور اس کا حال یہ ہونا چاہیے کہ کسی کو اس کے دامن پر کوئی دھبہ نظر نہ آئے۔ اس کے گھر کا ماحول، اس کا معاشرہ، اس کے عزیز و اقارب سب جانتے ہوں کہ یہ ہمارے ہاں ایک بلند اور پاکیزہ کردار کا حامل ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے سے پہلے چالیس سال تک معاشرہ جس میں آپ نے اپنی زندگی روز بسر فرمائی، اس معاشرہ کا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ تھا جو آپ کی بلندی اخلاق کا قائل نہ تھا اور آپ کی پاکیزہ زندگی کی شہادت نہ دیتا ہو ، آپ کے قریب ترین ساتھیوں سے آپ کی کتاب زندگی کے اوراق بالکل کھلے تھے اور کوئی پہلو کسی سے چھپا نہ تھا، وہ آپ کے اس قدر معتقد تھے کہ اعلان نبوت کے بعد سب سے پہلے انہوں نے بلا تامل آپ کی دعوت رسالت پر لبیک کہا۔ ام المؤمنین سیدہ خدیجہؓ نے پندرہ سال آپ کی زوجیت مبارکہ میں زندگی بسر فرمائی اور وہ کوئی کمسن خاتون نہ تھیں بلکہ آپ کی عمر مبارک سے پندرہ سال بڑی تھیں ۔ آپ ﷺ نے جب نبوت کا اعلان کیا تو اس وقت ان کی عمر پچپن سال تھی۔ پندرہ سال اپنے بابرکت شوہر کی معیت میں رہنے والی ایسی پختہ، سن رسیدہ، دانش مند خاتون سے اپنے شوہر کا کوئی عیب مخفی نہیں رہ سکتا۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی بیوی اپنے دنیوی اغراض ومقاصد سے محرومی کا خوف رکھتے ہوئے اپنے شوہر کی تمام جائز و ناجائز امور میں شریک وساجھی رہے لیکن اس پر ایمان نہیں رکھتی۔ ام المؤمنین آپ کی اس قدر معتقد تھیں کہ جب آپ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو شرف قبولیت اسلام میں ایک لمحہ کا انتظار نہ کیا۔
اسی طرح دوسرے شخص سیدنا زیدؓ بن حارثہ ہیں جو اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ کی خدمت اقدس میں اعلان نبوت سے پندرہ سال قبل غلام کی حیثیت سے آئے تھے اور اعلان نبوت کے بعد ان کی عمر تیس سال تھی۔ یہ امر بالکل بدیہی ہے کہ انہیں بھی حیات نبوی کے عظیم ترین پہلوؤں کو بالکل قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا ہوگا۔ ان کی نبی ﷺ کے ساتھ انتہائے کمال کی گرویدگی کا اندازہ بس اس ایک امر سے لگالیا جاسکتا ہے کہ جب ان کے گھر والوں کو پتہ چلا کہ ان کا لخت جگر غلامی کی بیڑیوں میں ہے تو ان کے والد اور چچا پیغمبر اسلام کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوکر گوش گزار ہوئے کہ آپ انہیں ان کا لخت جگر حوالہ فرمادیں تو احسان عظیم ہوگا، نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’لڑکے کو بلا لیتا ہوں، وہ اگر آپ کے ہمراہ جانا چاہے تو ہمیں اس کی حوالگی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر وہ میرے ساتھ رہنا چاہے تو میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ اس بچہ کو اپنے سے الگ کردوں۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے بہت انصاف کی بات فرمائی ہے، جب سیدنا زید رضی اللہ عنہ آئے تو نبی ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم ان لوگوں کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا : ہاں، یہ میرے والد اور یہ میرے چچا ہیں ۔ آپ نے فرمایا: یہ لوگ تم کو اپنے ہمراہ لے جانا چاہتے ہیں اور اگر تم جانا چاہتے ہو تو بخوشی جاسکتے ہو، حقیقی باپ اور چچا نے بیٹے سے گھر چلنے کے لیے کہا تو سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس عظیم ہستی میں ایسی عظیم ترین خوبیوں کا مشاہدہ کیا ہے کہ آپ کو میں دنیا کی کسی بھی شخصیت پر ترجیح نہیں دے سکتا کیونکہ آپ میرے نزدیک باپ اور چچا کے اعلی مقام پر فائز ہیں ، لہذا سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے اپنے حقیقی باپ کے بالمقابل نبی ﷺ کی معیت میں زندگی بسر کرنا پسند کیا اور یہ صرف اور صرف آپ ﷺ کا ان کے ساتھ حسن معاملہ کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔
یہ نبوت سے قبل کا واقعہ ہے، یعنی نبوت سے پہلے بھی آپ ﷺ کے اخلاق اس قدر بلند تھے کہ سیدنا زیدؓ کی آپ سے اتنی والہانہ محبت تھی۔ ایک خادم وفادار ہوسکتا ہے، احسان مند ہوسکتا ہے لیکن اتنا متاثر نہیں ہوسکتا کہ اس پر ایمان لے آئے۔ ایمان لانے کے لیے آپ کے اخلاق کو اتنا بلند دیکھا کہ انہیں یہ ماننے میں ذرا تامل نہ ہوا کہ یہ نبی کے علاوہ کچھ اور ہو نہیں سکتا اور یہ بھی پیش نظر رکھیے کہ سیدنا زید کوئی معمولی قابلیت کے آدمی نہ تھے، مدینہ طیبہ میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد نبی ﷺ نے بکثرت مہمات میں ان کو سالار لشکر مقرر فرمایا۔
پھر تیسری شخصیت :خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو نبوت سے قبل بیس سال نبی ﷺ کی رفاقت میں رہنے کا شرف حاصل تھا، ایک دوست اپنے دوست کو پسند کرسکتا ہے اور اس سے اتفاق کرسکتا ہے لیکن اتنا معقتد نہیں ہوسکتا کہ اس پر ایمان لے آئے اور یہ مان لے کہ یہ نبی ہے۔ نبوت کے عظیم منصب پر فائز ہونے کا اعتراف تو بس اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ دوست کے اخلاق کو منتہائے کمال تک پائے، یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اعلان نبوت کے بعد آپ کی رسالت کو بلاتامل قبول کرلیا اور یہ ان کی نبی ﷺ کے ساتھ بیس سالہ رفاقت کا اثر تھا۔
پھر چوتھی شخصیت خلیفہ ثالث سیدنا علیؓ بن ابی طالب۔
قبول اسلام کے موقع پر سیدنا علیؓ کی عمر دس برس کی تھی، انہوں نے نبی ﷺ کی زیر کفالت پرورش پائی تھی اور آپ کے اخلاق کریمانہ و مشفقانہ کا شب و روز، لمحہ بہ لمحہ مشاہدہ کیا تھا، آپ کی عظیم عادات و صفات کے عینی شاہد تھے اس لیے انہیں دامن اسلام میں پناہ لینے میں کوئی چیز مانع نہ رہی۔
عمل صالح کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو پیش کر رہا ہے، لوگوں کے سامنے اس کی اپنی زندگی اس کے قول کے مطابق ہو اور وہ اتنے پاکیزہ اخلاق کا حامل ہو کہ جب وہ اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھے تو اس کی بات میں درد ہو، اس کی بات میں اثر ہو اور سننے والے لوگ اس کی بات کو تسلیم کریں کہ یہ شخص اپنے قول میں سچا ہے ، قطع نظر اس کے کہ لوگ اس کے پیش کردہ پیغام کو مانیں یا نہ مانیں لیکن انہیں یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ یہ آدمی اپنے قول وفعل میں صداقت رکھتا ہے اور جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اس بناء پر کہہ رہا ہے کہ وہ خود اس کا قائل ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے بدترین دشمن ابوجہل نے خود رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا کہ :اے محمد ! ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے بلکہ جو پیغام تم لائے ہو اس کو نہیں مانتے، گویا آپ کا سب سے بدترین دشمن بھی آپ کی کتابِ حیات میں موجود ایک ایک حرف کے سچے ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔
تیسری خصوصیت : جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ مکہ معظمہ میں اس ماحول میں کھڑے ہو کر یہ کہنا کہ’’میں مسلمان ہوں‘‘معمولی بات نہ تھی، اللہ تعالی کی طرف دعوت دے اور بدترین ماحول میں اپنے مسلمان ہونے کو نہ چھپائے، نہ شرمائے اور نہ ڈرے، اپنے مسلمان ہونے کا بالکل کھلم کھلا اعلان کرے۔ دوسرے الفاظ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ داعی الی اللہ انتہائی جری اور بہادر آدمی ہو، بزدل آدمی اللہ تعالی کی طرف دعوت نہیں دے سکتا جو ذرا سی چوٹ لگے تو بزدلوں کی طرح بیٹھ جائے وہ کسی طرح بھی اللہ تعالی کے کام کا نہیں ہوسکتا بلکہ حقیقی داعی وہی ہوگا جو مخالفت کے ماحول میں اسلام کا پرچم لے کر اٹھے اور مصائب کی بالکل پروا نہ کرے۔ نبی ﷺ کی ذات گرامی اس صفت سے متصف ہونے کا کامل نمونہ تھی۔ مکہ معظمہ میں نبی ﷺ نے کھلم کھلا اسلام کی دعوت پیش فرمائی، ایسی قوم کے درمیان جو آپ کے خون کی پیاسی ہوگئی تھی اور جنہوں نے ظلم و ستم ڈھانے اور آپ کو زک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی، اس کے باوجود پیغمبر اسلام نے مسلسل تیرہ برس تک ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے دعوتی مشن کو نہیں چھوڑا اور اس راہ میں پیش آنے والی ہر قسم کی سختیاں برداشت کرتے رہے۔ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد بڑی بڑی خوفناک لڑائیاں ہوئیں اور بعض مواقع پر جنگ کی بازی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھی پڑی اور نبی ﷺ کو سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے اپنا ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹایا۔ غزوہ حنین کے موقع پر بظاہر مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی اور لوگ بھاگے جارہے تھے اور آپ کا یہ عالم تھا کہ ایسی سنگین ترین صورتحال میں بھی اپنی جگہ پر ڈٹے رہے بلکہ دشمنوں کی جانب برابر آگے بڑھتے جاتے اور اس وقت بھی زبان مبارک پر یہی اعلان تھا: إليَّ عباد الله: أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب‘‘ اے اللہ کے بندو! میری طرف آؤ، میں ہی نبی ہو، جس میں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘۔ بالفاظ دیگر عین جنگ کی اس سنگین ترین حالت میں جبکہ آپ کے ہمراہ صرف کچھ افراد رہ گئے تھے اور وہ دشمنوں کے نرغےمیں تھے، ایسے موقع پر بھی زبان اقدس پر یہی تھا کہ میں اللہ کا نبی ہوں۔
اس طرح محمد ﷺ کی سیرت داعی الی اللہ کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے کہ اس کو بہادری کے ہتھیار سے مسلح ہونا چاہیے۔ بزدل، ڈرپوک اور کم ہمت افراد اس کاز کو نقصان پہنچائیں گے۔ بس یہ مختصر باتیں تھیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیں تاکہ دعوت الی اللہ کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے۔ الحمد للہ اولہ و آخرہ۔
***

 

***

 (یہ انٹرویو مسلم اسٹو ڈنس اسوسی ایشن امریکہ و کناڈا کی طرف سے جناب انیس احمد صاحب نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودوی ؒکے امریکہ دورے کے موقع پر لیا تھا سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں داعی کی خصوصیات پر انہوں نے مولانا مودودیؒ سے ایک سوال پوچھا تھا۔ مولانا نے اس کا جواب دیتے ہوئے کچھ اہم ترین باتیں بیان کی تھیں۔ ذیل کی سطروں میں مولانا کا وہ انٹرویو جناب عبد الملک نے یوٹیوب چینل (jamaatjpj)پر سن کر قلم بند کیا ہے۔ انٹرویو شروع کرنے سے پہلے مولانا مودودیؒ نے کہا کہ تحریک اسلامی کی طرف سے دعوت کا کام کرنے والوں کی خدمت سلام میری جانب سے سلام پہنچا دیں۔ خیال رہے کہ مولانا اس وقت شدید کمزور ہو گئے تھے، اس لیے شاید انہوں نے کہا تھا کہ ’میں زیادہ دیر تک بات نہیں کر سکتا، مختصر طور پر آپ کے سوال کا جواب دیتا ہوں۔ سوال ملاحظہ کریں اور اس کے نہایت قابل عمل جواب سے بھی مستفید ہوں۔)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  23 جنوری تا 29جنوری 2022