’’خیالستان کی سیر‘‘

’ابتدائی خیال‘ ’وسوسہ‘ ’ تخلیقی خیال‘ سے ’وہم‘تک

از:نعیم جاوید، سعودی عرب

خیالات میں ہونے والی مختلف تبدیلیوں کے اثرات
خیال جب زندگی کے روپ رنگ میں ڈھلتا ہے تو وہ زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ وہ برقی لہر ، خون کی روانی، ذہن کی ترنگ اور فن کی آبرو بن جاتا ہے۔ اگر میں خیال سے جڑی زندگی پر بات کروں تو میں کہوں گا کہ زندگی کے چار یار ہوتے ہیں۔۱۔ روح۔۲۔بدن۔۳۔ ذہن ۔اور۴۔ فن۔
روح سب پر راج کرتی ہے اور باقی تین یار اس کوعزت اور مقام دینے اور بنائے رکھنے میں جڑے رہتے ہیں۔بدن بہتر ہو ذہن زبردست ہو تو فن زندگی فتح کرنے کا ہنرہے۔۔کسی خاص field یا کام میں مہارت حاصل کرنا۔ بدن ، ذہن، اور فن کی ملی جلی توانائی سے روح روشن رہتی ہے ورنہ یہ کمزور ہو جائے تو باقی سب کچھ مردہ ہوجائے۔ یہاں خیال کی پہلی آہٹ اور لہر سے جو روح کی بدن میں سرگوشی ہوتی وہیں سے میں اپنی بات آگے بڑھاؤں گا۔ ۔خیال کی پہلی دھمک دراصل وجدانی ‘Intuitive ،کشف و الہامی سطح سے ابھرتی ہے اس لیے اسے God’s whispering بھی کہتے ہیں کہ اس دنیا میں نظر آنے والی ہر نئی دریافت اور تخلیق جو انسانوں کی کوشش سے نظر آتی ہے وہ دراصل خدا کی طرف سے راست سرگوشی ہوتی ہے۔ اس میں خیال کی گزرگاہ میں دو منزلیں آتیں ہیں ۔ایک فطری مقام ہوتا ہے اور دوسرا غیر فطری ۔پہلے کوئی ابتدائی خیال آیاجو فطری منزل سے ابھرا تھا پھر ہماری غفلت سے وہ ہماری روایت پسند شخصیت کے سبب غیر فطری منزل پر ڈھل جاتا ہے تب وہ ’’وسوسہ‘‘ بن جاتا ہے۔ اگر اسے قوت ملے تو وہ ’’تخلیقی خیال‘‘ بن جاتا ہے۔۔ ’’تخلیقی خیال‘‘ بنتے ہی ہمارے ذہن میں جدت Crafting, Creation اور صناعی کا خیال پیدا ہوتاہے۔اگر یہاں ہم چوک جائیں تو یہ ’’وہم‘‘ بن جاتا ہے پھر ہم شک یا خوف میں گھر جاتے ہیں۔ قیاس کے قیدی بن جاتے ہیں۔گمانوں کی غاروں میں گھر جاتے ہیں۔ شکوک کے شکنجوں میں کسے جاتے ہیں۔اگر اس کڑی مشکل سے خیال کو بچا لائے تو منبع خیال کی فطری منزل میں ۔’’تمنا‘‘ بیدار ہوتی ہے۔ ’’آرزو‘‘ جاگ اٹھتی ہے۔’’اُمید‘‘ دل بڑھاتی ہے اور یہیں سے ’عمل‘ کی بنیاد پڑتی ہے۔خیال کو اگر ہم یہاں زود وکوب کرکے بہانوں کی بہتی ندیوں میں ڈوبنے سے بچالیں تو یہاں سے زبردست مہم کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ورنہ ’’مایوسی‘‘ ’’کاہلی‘‘ ’’مردہ دلی‘‘ روح میں رچ بس جاتی ہے۔ اگر ہم اس سے پہلی منزل پر ’’اُمید‘‘ سے جوڑ کر اپنے سوچے ہوئے منصوبے کا آغاز کردیں تو بات بنی رہتی ہے ورنہ یکایک ’’خیال‘‘ ڈھل کر قنوطیت‘‘ ’’اداسی‘‘ Pessimisim بے عمل زعم اور ’’انا‘‘ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر بندہ ’’اُمید‘‘ اور عمل سے جڑا رہے تو ’’یقین، جستجو، دُھن، انکساری‘‘ اور آخرش جیت اس کا مقدر ہوتی ہے۔ اسی منزل پر ہمیں اس Process میں ’’مثبت شخصیت‘‘ کا تحفہ ایک خیال کی گزر گاہ کی شناخت اور اس کے تحفظ سے ملتا ہے ورنہ اس کا دوسرا تاریک پہلو ’’منفی شخصیت‘‘ Mr.Negative Personality کی تہمت کے داغ دھبے ہمارے وجود پر لگ جاتے ہیں۔ زندگی میں بھروسہ ایک شخص توڑتا ہے اور ہم سب اعتبار سب سے اٹھا لیتے ہیں۔
اچھے خیالات تو مہاجر پرندوں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ اچانک آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ نہ وہ پہاڑوں میں پڑاو ڈالتے ہیں اور نہ گھروندے بناتے ہیں۔ بلکہ پل بھر کو آتے ہیں اور اُڑجاتے ہیں۔ ایسے پرندوں کو نہ روکا جاسکتا ہے نہ ٹال مٹول سے کام لیا جا سکتا ہے۔ یہ قید میں بھی مر جاتے ہیں۔ اسی طرح ایسے مسافر خیالات کو کسی بڑے اقدامات ومہمات سے جوڑ دیں تو ہم خدا کے ارادوں میں شریک ہوسکتے ہیں۔ Gianni Vattimos نے Thought Value Determine کرنے کے لیے خیال کے ’’قدر‘‘ کی شناخت کے لیے اہم ترین خیالات کو نمبرات دیے ہیں۔ جیسے ’برہمی‘ کو دس نمبر ’افسوس‘ کو سات نمبر ’ارادے‘ کو آٹھ نمبر ’غم‘ کو پچیس نمبر اور’ غصہ ‘کو چار نمبر وغیرہ۔ اس نے دلیل یہ دی ہے کہ ’غم ‘ سے انسان کا تزکیہ ہوتا ہے۔ Emotional Catharsis ہوتا ہے۔ لیکن بے معنی غصہ کی سپاٹ سرگرمی سے شخصیت کو زبردست نقصان پہنچتا ہے۔ اس طرح اس نے تمام اہم جذبوں کے پیدا کردہ خیالات کا وزن یا قدر طے کرنے کی کوشش کی۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے کھونے اور پانے کا اعداد وشمار کے روپ رنگ میں اندازہ ہوتا ہے۔ یہ طریقہ مکمل طور پر صحیح ہے نہ سراسر غلط۔ بس Gianni Vattimos کے معیارِ قدر پر انسانی خیالات کو چانچنا ہے۔
اس نے یہ بتایا کہ انسانی دنیا کو جب جب عظیم الشان شخصیتیں جیسے نبی، مصلح، سائنس داں اور ریفارمرس نہ ملیں لیکن اُس سماجی وتاریخی وقفہ میں چند ایک مشترک آرزو اور خیال رکھنے والے مل جائیں تو کم و بیش وہی نتائج آتے ہیں جو ایک بہت بڑی شخصیت کے ہونے سے آسکتے ہیں۔ مشترک تمناؤں کے ساتھ مہمات کی جستجو کرنے والوں کو انتظار کے کرب یا قائد کی محرومی کا ماتم نہیں کرنا پڑتا۔ قیادت نام ہے جذبات کی تنظیم کا ۔ تمناوں کی صورت گری کرنے والے فرد یا گروہ کااعزاز یہ ہے کہ ان کی جاگتی آنکھوں کے خواب مشترک ہوتے ہیں۔ ان کے خیالات ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔ وہ بڑی شخصیات کی کمی کا شکوہ خدا سے بھی نہیں کرتے بلکہ اپنے زمانے میں اپنے ساتھیوں سے جڑکر اپنے مزاج کا سماج، اپنی دل چاہی دنیا آباد کردیتے ہیں۔ ان کی ایسی کوششوں سے حالات بدلتے ہیں۔کامیابیاں ان کا مقدر ہوتی ہیں۔ پھر ایک نئی تاریخ لکھی جاتی ہے۔ انسانی کامیابیوں کی تاریخ کیا ہے؟ کامیاب خیالات کے غلبوں کی تاریخ ہے۔یہاں پر وہ بہانہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے کہ اب ہم میں قائد نہیں ہے۔لیڈر نہیں ہے وغیرہ ۔ Gianni Vattimos کہتا ہے کہ جب آرزوئیں اداراتی روپ رنگ لے کر ابھرتی ہیںDreams Institutionalize ہوتے ہیں تو عظیم الشان مہمات سر ہوتی ہیں۔ Thought Dynamics در اصل تین اجزا کی ترتیب سے مکمل ہوتی ہے۔ ’’خبر، قوت، ترتیب‘‘ یعنی Information, Energy, Organisation یہی ترتیب کسی بھی مادی یا کیمیائی صورت گری سے یا ہیرا بن جاتا ہے یا کوئلہ۔ کوئلے سے ہیرا اس لیے مختلف ہوتا ہے کہ اس میں ترتیب کے تغیر کا انتخاب رہتا ہے۔ سرسری سائنسی معلومات بھی دیکھیں تو ذہن کے سیکڑوں چیمبرس پیشن گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔ خیال دراصل inward bound radiating energy ہوتی ہے۔ ہمارے Neurons ہمارےذہن کے Neural pathways پر ہمیشہ Net practice کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ
Thought is a quantum fluctuation in the field of energy, information & arrangment.
اس لیے اس بات کو ماننا پڑتا ہے کہ خیال ابھرتے ہی ذہن وبدن میں مادی تبدیلیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ Thoughts are things ۔ جیسے کہ ہر خیال ایک Bullet کی طرح پورے بدن کو اپنے نشانے پر رکھتا ہے، چاہے وہ خیر کا خیال ہو یا شر کا شوشہ۔ ہمارا دماغ پانچوں حواس کے ذریعہ خیال کو برقی رو سے پہنچا دیتا ہے۔
***

 

***

 قیادت نام ہے جذبات کی تنظیم کا ۔ تمناوں کی صورت گری کرنے والے فرد یا گروہ کااعزاز یہ ہے کہ ان کی جاگتی آنکھوں کے خواب مشترک ہوتے ہیں۔ ان کے خیالات ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔ وہ بڑی شخصیات کی کمی کا شکوہ خدا سے بھی نہیں کرتے بلکہ اپنے زمانے میں اپنے ساتھیوں سے جڑکر اپنے مزاج کا سماج، اپنی دل چاہی دنیا آباد کردیتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021