پروفیسر محسن عثمانی: تاریخ و ادب کا درخشاں ستارہ

مرسلین احمد، مدھوبنی

دور جدید میں تاریخ و ادب سے دل چسپی ناپید ہوتی جارہی ہے، اور وہ تاریخی و ادبی شخصیات بھی "جو ان کے مالہ وما علیہ سے پوری طرح واقف اور ان علوم پر کامل دست گاہ رکھتی ہیں۔

انھیں محسنین میں سے ایک پروفیسر محسن عثمانی کی عظیم شخصیت ہے جو اس تیرہ و تاریک دور میں ہمارے لیے قندیلِ رہبانی ہے۔ آپ تاریخ و ادب کے افق کے ماہِ تمام ہیں، آسمانِ فکر و نظر کے درخشاں ستارے ہیں۔ میری ان باتوں کو مبالغہ آرائی نہ سمجھا جائے کہ یہ حرف بحرف درست ہیں۔

عثمانی صاحب کی ذات نہایت سنجیدہ، سادہ، دل کش، ادب دوست اور تاریخی و تحقیقی مزاج کی حامل ہے۔ اس بات کا ثبوت ان کی علمی فتوحات میں ہے جو درجنوں تصنیفات، اور مقالات پر محیط ہے۔

ان کی شاہ کار کتابوں میں نقد شعر و ادب، کلیم عاجز، ستاروں کے درمیاں، تقدیرِ اُمم کا راز داں، نجیب محفوظ فی میزان النقد، مصر و شام و فلسطین خوں سے لالہ زار، شام لہو لہو، مصر میں اخوان کا قتل عام، مطالع مذاہب اور مشاہیر کی سیریز (مشاہیر شعر و ادب، مشاہیر علوم اسلامیہ و مفکرین و مصلحین، مشاہیر فاتحین اسلام، مشاہیر خلفاء و سلاطین، مشاہیر مسلم سائنس داں) قابل ذکر ہیں۔

جب آپ ان کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو اپنے دل میں ان کے اسلوب کی سادگی و پرکاری، شگفتگی و جاذبیت، توازن و تناسب، سلاست و روانی، اعتدال و جامعیت، اور فکر و تخیل کی بلندی کو رقص کرتا ہوا پائیں گے۔ سر دست میرے سامنے ان کی مشاہیر سیریز کے دو حصے "شعر و ادب” مشاہیر مسلم سائنس داں” رکھے ہوئے ہیں جو ان کے سلسلۂ مشاہیر کی اہم کڑیاں ہیں۔ ان میں تاریخ و ادب کے قارئین کے ذوق کی تسکین کا سامان موجود ہے۔

اول الذکر میں بہت سے بلند پایہ نثر نگار اور استاد شعرا کا مختصر مگر جامع تذکرہ ہے، خواہ ان کا تعلق عربی سے ہو، یا اردو و فارسی سے۔

اور ثانی الذکر کتاب میں میں ان مسلم سائنس دانوں کے تذکرے پر قلم کو جنبش دی گئی ہے جن سے روشنی لے کر دور جدید سائنس کی سائنس کا خانہ روشن ہوا ہے اور جن کی دی بنیادوں نے دور حاضر کی ترقیات کو ممکن بنایا۔

ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو خوب پڑھیں اور ان عظیم شخصیات سے آگاہ ہوں اور ان کے طریقہ کار سے فائدہ حاصل کریں۔

اس ناقدری کے زمانے میں ہم عثمانی صاحب جیسی ممتاز شخصیت اور ان کی قلمی جولانیوں کی اہمیت کو سمجھیں اور ان کی کماحقہ قدر کریں، جن میں ہماری تسکینِ ذوق کے بیشتر اسباب موجود ہیں۔

ڈھونڈوگے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم