مراکش میں حکمراں جماعت کو شکست

اخوانی فکر سے وابستہ پارٹی کے خلاف مقتدرہ کا پروپگنڈا کام کرگیا

مسعود ابدالی

مراکش کے پارلیمانی انتخابات میں اخوان المسلمون کی فکر سے وابستہ حزب العدل و التنمیہ یا انصاف و ترقی پارٹی PJD(فرانسیسی مخفف) کو بدترین شکست کا منہ دیکھناپڑاجسے 395 رکنی ایوان میں صرف 13نشستیں مل سکیں۔گزشتہ انتخابات میں PJDنے 125نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ دائیں بازو کی احرار یا نیشنل ریلی پارٹی (RNI) نے 97نشستیں جیت کر سادہ اکثریت حاصل کرلی۔ شاہ پرست لبرل حزب لاصلاتہ المعاصرہ (PAM)کا دوسرا نمبر ہے جس نے 87اور بادشاہ کی حامی استقلال پارٹی 81 کے ساتھ تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔
ساڑھے تین کروڑ نفوس پر مشتمل مراکش، بحر روم اور بحر اوقیانوس کے سنگم پر واقع ہے۔ اس ملک کو عرب جغرافیہ داں افریقہ کا غرب الاقصیٰ قرار دیتے تھے اس بناپر مراکش کا سرکاری نام مملکت المغربیہ ہے اور اس پورے علاقے کو مغرب کہا جاتا ہے جس میں الجزائر، تیونس، لیبیا، موریطانیہ اور مراکش واقع ہیں۔ اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مراکش کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ہسپانیہ پر فوج کشی کے لیے طارق بن زیاد کا لشکر مراکش کے شہر طنجہ (Tangier) سے کشتیوں میں سوار ہوکر بحر روم و بحر اوقیانوس کو ملانے والی آبنائے کو عبور کر کے اس چٹان پر اترا تھا جو بعد میں جبل الطارق کے نام سے مشہور ہوئی۔ افریقہ اور یورپ کو ملانے والا یہ تنگ سا آبی راستہ بھی آبنائے جبل الطارق یا Strait of Gibraltar کہلاتا ہے۔ آبنائے جبل الطارق علاقے کی آبی شہ رگ ہے کہ بحر اسود و بحر روم کا سارا بحری ٹریفک اسی آبنائے سے گزر کر بحر اقیانوس میں داخل ہوتا ہے۔ بحر روم سے نکلنے کا دوسراراستہ نہر سوئز ہے جو بحر احمر میں کھلتی ہے۔
یہاں آزادی کے بعد سے مطلق العنان ملوکیت کا نظام قائم تھا۔ دسمبر 2010میں تیونس سے جنم لینے والی پرامن تحریک ساری عرب دنیا بالخصوص شمالی افریقہ میں بیداری کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔ اس سے متاثر ہوکر مراکشی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے اور العدل والاحسان کے عنوان سے سماجی انصاف، جمہوریت اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مظاہرے شروع ہوئے۔ اپنے تیونسی، مصری، شامی اور یمنی ہم منصبوں کے برعکس مراکش کے فرمانروا محمد السادس (ششم) نے ان مظاہروں کو کچلنے کے بجائے عوامی خواہشات کے مطابق دستور میں ترمیم کا ایک مسودہ پارلیمان میں پیش کر دیا جس کے مطابق حکمرانی کے تمام اختیارات منتخب وزیر اعظم کو تفویض کر دیے گئے۔ نئے دستور کی رو سے پالیمنٹ کی تحلیل، بین الا قوامی معاہدات، سزاوں کی معافی، قومی میزانیے کی ترتیب، اسٹیٹ بینک اور سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہوں کا تقرر اور انتخابات کے انعقاد سمیت تمام اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کر دیے گئے۔
بائیں بازو کی کچھ جماعتوں کے لیے یہ آئینی ترامیم قابل قبول نہیں تھیں جن کی قیادت مزدور رہنما نجیب شوقی کر رہے تھے۔ جناب شوقی کا کہنا تھا کہ بادشاہت اور جمہوریت ایک دوسرے کی ضد ہیں اور بادشاہ سلامت کے زیر انتظام انتخابات اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمان محض ربڑ کی مہر ثابت ہو گی۔ شوقی صاحب نے اس وقت بادشاہت کے مکمل خاتمے کی تحریک جاری رکھنے کے لیے اخوان سے رابطہ کیا لیکن اخوانی رہنما سعد الدین عثمانی کا خیال تھا کہ اس وقت مقتدرہ سے تصادم مناسب نہیں۔ ایک بار آزادانہ انتخابات کا نظام قائم ہوجائے تو ترامیم کے ذریعے پارلیمان کو مزید بااختیار بنانا آسان ہو گا۔ چنانچہ اخوان نے جولائی کے قومی استصوابِ رائے میں ترمیم کی حمایت کی۔
نومبر 2011 کو مراکش کی تاریخ کے پہلے آزادانہ انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں ایوان نمائندگان کے 305 ارکان کا انتخاب ہوا۔ ایوان کی 50 نشستیں خواتین کے لیے مختص ہیں جبکہ 40 نشستیں نوجوانوں کے لیے وقف ہیں جنہیں بعد میں ارکان پارلیمان منتخب کرتے ہیں۔ اس انتخاب میں PJD نے 107 نشستیں حاصل کیں، شاہ کی وفا دار استقلال پارٹی 60 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئی جبکہ 52نشستوں پر RNI کامیاب ہوئی۔
پانچ سال بعد اکتوبر 2016کے انتخابات میں PJD نے 125 نشستیں جیت کر اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرلی۔ شاہ کی حامی PAM نے 102 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور 46 نشستوں کے ساتھ استقلال پارٹی ایوان نمائندگان کی تیسری بڑی جماعت بن گئی۔ تیونس کی طرح مراکش کی سیاسی جماعتوں میں بھی برداشت اور باہمی تعاون مثالی ہے۔ اخوان کی کامیابی کو لبرل، سیکیولر اور بائیں بازو کی جماعتوں نے دل سے تسلیم کیا۔ اسی باہمی اعتماد و یگانگت کا اثر تھاکہ وزیر اعظم سعدالدین عثمانی نے اپنے پڑوسیوں کے درمیان بھی مصالحانہ کردار ادا کیا۔ لیبیا میں وفاقی حکومت اور حفتر ملیشیا کے درمیان معاہدہ مراکش کی مثبت سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
اسی کے ساتھ جناب سعدالدین عثمانی نے مغربی صحارا کے تنازعے کو پرامن طور پر حل کرنے کے لیے الجزائر اور آزادی کے خواہشمند پولیساریو (POLISARIO) محاذ سے بات چیت شروع کر دی۔ مراکش کے جنوب مغرب میں الجزائر کی سرحد سے بحر اوقیانوس کے کنارے 2 لاکھ 66 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل اس صحرا کے بڑے حصے پر مراکش کی عملداری ہے جبکہ 20 فیصد علاقہ جمہوریہ صحراویہ کے نام سے خود مختار ریاست ہے۔ یہاں رہنے والوں کی اکثریت بربر نسل کے عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بھی بربر تھے۔
مراکش کا خیال ہے کہ الجزائر پولیساریو کو مالی اور عسکری مدد فراہم کر رہا ہے، اسی بنا پر رباط اور الجزائر کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ پولیساریو اور مراکشی فوج کے درمیان مسلح تصادم کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔صحارا کی قسمت کے فیصلہ کے لیے کئی بار یہاں استصواب کی تاریخ طئے ہوئی لیکن ووٹروں کی فہرست پر اب تک اتفاق نہ ہو سکا۔
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی مسلم ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کریں۔ مئی 2017 میں سعودی عرب کے دورے کے ساتھ مسلم اور عرب ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کےلیے دباو بڑھا دیا گیا۔ گزشتہ برس کے آغاز سے اس مہم میں شدت آگئی۔ فلسطینیوں نے اس کی شدید مزاحمت کی چنانچہ تحریک کے روح رواں، سابق داماد اول اور مشرق وسطیٰ کے امور پر صدر ٹرمپ کے مشیر جیررڈ کشنر نے اسرائیل تنازعے سے فلسطین کے معاملے کو نکال کر لاٹھی اور گاجر کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یعنی حکم عدولی کی صورت میں کڑی سزا اور تابعداری پر مراعات کی شاندار پیشکش۔
جیرڈ کشنر کی کوششوں سے ستمبر 2020 میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ اس نئی تحریک کو صدر ٹرمپ نے معاہدہ ابراہیم کا نام دیا یعنی حضرت ابراہیمؑ سے منسوب تینوں ادیان کے ماننے والوں کے درمیان مصالحت۔ اسی دوران یورپ کے ایک مسلم اکثریتی ملک کوسووو نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔خلیجی ممالک کے ساتھ شمالی افریقہ کے ممالک کو بھی ترغیب دی گئی کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ سوڈان دہشت گردوں کی اعانت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے سخت معاشی پابندیوں کا شکار تھا۔ خرطوم کو پیشکش کی گئی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں اسے دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔
مراکش کے معاملے میں شہنشاہانِ برصغیر کے سے کروفر کا مظاہرہ کیا گیا کہ جیسے اچھے وقتوں میں ’ظل الٰہی‘ خوش ہوکر لوگوں کو رقبے اور مربعے بخش دیاکرتے تھے ایسے ہی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے عوض شاہِ مراکش کو مغربی صحارا عطا کرنے کی نوید سنادی گئی۔ شاہ محمد پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا دباو بھی تھا۔
وزیر اعظم عثمانی نے معاملہ پارلیمان میں لے جانے کا عندیہ دیا، اسی کے ساتھ انہوں نے تنازعہِ صحارا کے پرامن حل کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ان کا کہنا تھا کہ جب تمام فریق استصواب کے ذریعے اس معاملے کو جمہوری انداز میں حل کرنے پر تیار ہیں تو امریکہ کا احسان لینے کی کیا ضرورت ہے؟
شاہ صاحب کو وزیر اعظم کا موقف ’باغیانہ‘ محسوس ہوا اور انہوں نے ایک شاہی فرمان کے تحت سفارت و بین الاقوامی تعلقات کے اختیارات وزیر اعظم سے واپس لے لیے۔ حکمنامے میں کہا گیا کہ حکومت کی غیر ضروری سفارتی مہم جوئی سے مغربی صحارا کی صورتحال خراب ہوگئی ہے اور مملکت کو لاحق خطرات کے پیش نظر یہ معاملات اب ’ظِل الٰہی‘ (His Excellency) خود دیکھیں گے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر وزیر اعظم نے مملکت سے تصادم کی روش برقرار رکھی تو پارلیمان تحلیل بھی کی جاسکتی ہے۔ گویا مزدور رہنما نجیب شوقی کے وہ خدشات درست ثابت ہوئے جن کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔
وزیراعظم کو بے دست وپا کرنے کے بعد شاہ محمد نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس فیصلے پر شکریے کے لیے جب صدر ٹرمپ نے بادشاہ سلامت کو فون کیا تو شاہ صاحب کو یہ بھی باور کرادیا کہ پولیساریو فرنٹ مغربی صحارا پر رباط کے قبضے کو ٹھنڈے پیٹوں برادشت نہیں کرے گا چنانچہ باغیوں کا دماغ درست کرنے کے لیے مراکش کو جدید امریکی اسلحے کی ضرورت ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ذرائع نے بتایا ہے کہ مراکش امریکہ سے جدید ترین ڈرون، صحرائی جنگ کےلیے ٹینک اور آبدوزیں خریدے گا جس کی مالیت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اسی کے ساتھ اسرائیل نے سیکیورٹی کے حوالے سے جاسوسی کی خدمات اور گوریلوں سے لڑنے کے لیے ہلکے ہتھیار کی پیشکش کر دی جس کا حجم 20 کروڑ ڈالر بتایا جا رہا ہے۔
شاہ صاحب کی خواہش تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے شاہی فرمان کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل سے اسلحہ کے سودوں کی حمایت میں ایک قرارداد پارلیمان سے منظور کرائی جائے۔ اخوانیوں کے علاوہ سوشلسٹ پاپولر فورس بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مخالف ہے۔ اس کے علاوہ دوسری جماعتوں کے بہت سے ارکان نے بھی اس فیصلے کی کھل کر مخالفت کی چنانچہ وزیر اعظم نےشاہ صاحب کو یہ بات گوش گزار کردی کہ ایوان سے قرارداد کا منظور ہونا مشکل ہے اور ناکامی کی صورت میں مقتدرہ کی سبکی ہو گی۔
حکومت اور شاہ صاحب کی کشیدگی نے صحارا کے محاذ پر ہیجان پیدا کر دیا۔ پہلے وزیر اعظم عثمانی کی کوششوں سے صحارا کے معاملے پر الجزائر اور مراکش بات چیت میں مصروف تھے اور تنازعے کے پرامن حل کی توقع میں پولیساریو نے بھی غیر اعلانیہ جنگ بندی کر رکھی تھی لیکن شاہی فرمان کے تحت عالمی امور پر سفارتکاری کا اختیار عثمانی حکومت سے واپس لے لیا گیا جس کی وجہ سے سفارتی کوششیں منجمد ہوگئیں اور میز کے بجائے میدان سج گیا۔ تادم تحریر تشدد کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا لیکن پولیساریو کی نقل وحرکت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ الجزائر اور مراکش کے درمیان سفارتی سرد مہری اتنی بڑھی کہ 25 اگست کو الجزائر نے مراکش سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔ مقتدرہ نے سفارتی ناکامی کے لیے حکومت کو موردِ الزام ٹھیرایا۔ شاہی محل کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کے غیر ذمہ دارانہ طرزعمل سے پڑوسی ناراض ہو رہے ہیں اور شاہ صاحب نے الجزائر سے ثالثی کے لیے ریاض اور ابوظبی کو مدد کے لیے پکارا۔
اس وقت انتخابی مہم عروج پر تھی۔ایک عام تاثر یہ پیدا ہوا کہ بادشاہ سلامت اور PJD کے درمیان کشیدگی اب اس نہج پر آچکی ہے کہ شاہ صاحب کے لیے اخوانیوں کے ساتھ چلنا مشکل ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے تیونس میں بھی النہضہ کی حکومت اور صدر قیس سعید کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور 25 جولائی کو تیونسی صدر نے پارلیمان کو منجمد کرکے حکمرانی و قانون سازی کے جملہ اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ یہ افواہ بھی ہے کہ النہضہ کے قائد راشد الغنوشی سمیت پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر غداری کے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔
شاہی ذرائع اور PJD کے مخالفین نے یہ تاثر دیا کہ اخوان کو مقتدرہ کے ساتھ چلنے کا تجربہ نہیں، الجزائر، مصر، تیونس اور مراکش ہر جگہ ایک ہی جیسا حال ہے۔ اس خوف کو عام کیا گیا کہ اگر PJD دوبارہ اقتدار میں آگئی تو مشتعل ہو کر شاہ صاحب سارا نظام ہی لپیٹ دیں گے۔ ان انتخابات میں مبینہ طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے گہری دلچسپی لی اور RNI کو بھرپور مالی امداد فراہم کی گئی، کہا جا رہا ہے کہ استقلال پارٹی کو بھی درہم و دینار نذر کیے گئے ہیں۔
زبردست منفی پروپیگنڈے کی بناپر PJDکو شکست کا ڈرتو تھا لیکن اس شرمناک کارکردگی کی پارٹی کے بدترین مخالفین کو بھی توقع نہ تھی کہ 10 سال سے برسراقتدار جماعت ایوان میں آٹھویں نمبر پر آجائے گی۔ فتح و شکست انتخابات کا حصہ ہیں چنانچہ سیاسی جماعتیں بدترین نتائج کے لیے ہروقت تیار رہتی ہیں لیکن مراکش میں حکومت اور برسراقتدار جماعت کے خلاف مقتدرہ نےجس انداز میں مہم چلائی ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ تاہم اس کا سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ نتائج کا اعلان ہوتے ہی سابق وزیر اعظم سعدالدین عثمانی نے کہا کہ ہمیں عوام کا فیصلہ دل و جان سے قبول ہے۔ قوم نے ہمیں آئینہ دکھادیا ہے۔ نتائج کی روشنی میں ہم اپنا احتساب کریں گے اور خدمت کے نئے عزم سے اپنا سفر جاری رکھیں گے۔ دوسری طرف نئے وزیراعظم عزیز اخنوش نے ملک کےلیے عثمانی صاحب کی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی انتظامیہ سابق وزیر اعظم کے تجربے سے فائدہ اٹھائے گی اور ملک کی تعمیر و ترقی کے ہر کام میں PJDکو شریک رکھا جائے گا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 تیونس کی طرح مراکش کی سیاسی جماعتوں میں بھی برداشت اور باہمی تعاون مثالی ہے۔ اخوان کی کامیابی کو لبرل، سیکیولر اور بائیں بازو کی جماعتوں نے دل سے تسلیم کیا۔ اسی باہمی اعتماد و یگانگت کا اثر تھاکہ وزیر اعظم سعدالدین عثمانی نے اپنے پڑوسیوں کے درمیان بھی مصالحانہ کردار ادا کیا۔ لیبیا میں وفاقی حکومت اور حفتر ملیشیا کے درمیان معاہدہ مراکش کی مثبت سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021