خليجی ممالک کے بدلتے تيور: ملکی معيشت پر منفی اثرات

بھارت میں ہندتوا کی سیاست پر عربستان کا سخت رد عمل

پروفيسر ظفير احمد، کولکاتا

کورونا وائرس کے قہر اور اس کي وجہ سے عالمي تالہ بندي نے دنيا کي کايا پلٹ دي ہے۔ دنيا کي ۹۱ فيصد آبادي يعني ۷ ارب ۱۰ کروڑ افراد اپنے گھروں ميں بند رہنے پر مجبور ہيں۔ سارے ترقي يافتہ ممالک اپني گرتي ہوئي معيشت اور بڑھتي ہوئي بيروزگاري پر کافي متفکر ہيں۔ کورونا وائرس نے انساني زندگي کے تمام شعبوں حتيٰ کہ انسانوں کے نقاطِ نظر کي تک جڑ بنيادوں کو ہلا کر رکھ ديا ہے۔ اس کے اشارے خليجي رياستوں سے بھي نظر آ رہے ہيں۔ خليجي رياستوں سے لوٹنے والے لاکھوں تارکين وطن مزدوروں سے ہماري معيشت پر جيسے کچھ بھي منفي اثرات پڑيں گے اس کے ليے ملک کو تيار رہنا چاہيے۔ دبئي مشرق وسطيٰ کا ايک اہم معاشي مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ عالمي معيشت ميں اپنا خاصا عمل دخل رکھتا ہے۔ دبئي اور خليجي رياستوں سے ہمارے شہروں کے درميان ہر ہفتہ چلنے والي ۴۰۰ سے زائد اڑانيں بھي اس سچائي کو سامنے لاتي ہيں کہ بھارتي معيشت اور سماج کے ليے وہ کتنا اہم ہے۔ غير ممالک ميں کورونا سے متاثر ۳۴۶۰ بھارتيوں ميں سے ۲۰۹۱ خليجي رياستوں ميں ہيں۔ مگر عالمي معيشت ميں تيزي سے گراوٹ کي وجہ سے يہاں آنے والي بڑي مشکليں بھي ہمارا انتظار کر رہي ہيں۔ کچھ ماہرين کا خيال ہے کہ يہ مصيبت ۱۹۳۰ کے دہے کي گريٹ ڈيپريشين سے بھي بڑي ہے۔ ويسے خليجي معيشت ميں بھي دراڑيں نظر آنے لگي ہيں۔ بازار ٹوٹ رہے ہيں کيوں کہ لاک ڈاؤن لگائے گئے ہيں۔ کاروبار تھم گئے ہيں۔ اوپيک اور ديگر تنظيمي ملکوں ميں تيل کے مسئلے پر کہرام مچا ہوا ہے۔ تمام خليجي رياستوں ميں کل ملا کر ۸۹ لاکھ ۹۵ ہزار ۶۶۵ محنت کش تارکين وطن ہر حال ميں ۵۰ ارب ڈالر سے زيادہ زر مبادلہ ملک کو بھيجتے ہيں۔ عالمي بينک کا تخمينہ ہے کہ اس رقم ميں امسال ۲۳ فيصد کي گراوٹ رہے گي۔ يہ بھي کہا جا رہا ہے کہ خليجي رياستوں کو کورونا وائرس سے لڑنے کے ليے ۱۴۰ ارب ڈالر سے زيادہ کي ضرورت پڑ سکتي ہے۔ اس کي وجہ سے بھارتي ہنر مند محنت کش اور نيم ہنر مند محنت کشوں کي تعداد ميں کافي کمي کرني پڑے گي۔ ايسا اس ليے بھي ہوگا کيونکہ دبئي ايکسپو اور ديگر کام کاج اگلے سال تک موخر ہونے کي وجہ سے بھارتي محنت کشوں کا تسلسل ختم ہو سکتا ہے۔ صرف کيرالا کے ۱۵ لاکھ لوگ خليجي ممالک ميں کام کرتے ہيں جس ميں قريب ۴ لاکھ لوگوں کو لاک ڈاؤن کي وجہ سے واپس بھيج ديے جانے کا اندازہ ہے۔ اس مصيبت کے علاوہ يہ وبا علاقائي معاشي اصلاحات کي کوششوں کو بھي متاثر کرے گي۔ جيسے تيل پر انحصار کم کرنے کے محمد بن سلمان (ايم بي ايس) کے منصبوں کو گرہن لگ سکتا ہے اس کي وجہ سے ويژن ۲۰۳۰ کو موخر کرنا پڑ سکتا ہے جس کا وہاں کے غير ملکي کرنسي کے خزانے پر بھي اثر پڑ سکتا ہے۔ ہمارے ملک ميں بھي شديد تناؤ کي کيفيت پيدا ہو سکتي ہے۔ بحران کي وجہ سے تيل کي عالمي طلب ميں کمي آئي ہے۔ بالواسطہ کمي اور کچے تيل کي پيداوار پر امريکہ، روس اور سعودي عرب کے درميان نا اتفاقي کي وجہ سے تيل کي قيمت ۳۰ ڈالر في بيرل سے بھي نيچے آگئي ہے۔ خليجي رياستوں ميں سياسي حالات کي وجہ سے قطر کو حاشيے پر رکھنے کي کوشش پہلے سے ہي جاري ہے۔ ہمارے ملک کے ليے تيل کي قيمت ميں کمي کا ہونا خوشي کي بات تو ہے مگر يہ حالت اس وقت سود مند ہوگي جب ہماري معيشت متحرک ہو اور کھپت بھي زيادہ ہو۔ خليجي رياستوں ميں چھوٹي رياست ہو يا بڑي کسي کو نظر انداز کرنا ممکن نہيں کيونکہ کويت جيسے چھوٹے ملک ميں بھي ۱۰ لاکھ ۲۹ ہزار ۸۶۱ بھارتي برسر روزگار ہيں۔ سفارتي تعلقات کي پختگي کي خاطر حکومت ہند نے تمام طبي آلات سے ليس ڈاکٹروں اور نرسيز کي ميڈيکل ٹيم بھي کورونا کے علاج کے ليے روانہ کي ہے۔ 

واضح رہے کہ کورونا وائرس کا قہر تھمنے کے بعد جب ان ممالک سے تارکين وطن محنت کشوں کي واپسي ہوگي تو ہماري خستہ حال معيشت پر شديد دباؤ بڑھے گا کيوں کہ واپس لوٹنے والے تارکين وطن ملک ميں پہلے سے موجود ۲۴ فيصد سے زائد بے روزگاروں کي فوج ميں مزيد اضافہ کريں گے۔ اس سے ان ممالک سے آنے والے خطير زر مبادلہ ميں بھي کٹوتي ہوگي۔ نتيجتاً ملکي خزانہ کو اربوں ڈالر کا خسارہ ہوگا۔ يہ بھي حقيقت ہے کہ بھارت نے بہتر سفارتي روابط کے خاطر کورونا وائرس کے وبائي قہر کے دوران اپني ضرورتوں کا خيال کيے بغير، ايران، اسرائيل وديگر خليجي ممالک ميں طبي سامان، ڈاکٹرس وپيرا ميڈيکل اسٹاف اور ادويات کي سپلائي کو جاري رکھ کر مشرق وسطيٰ ميں اپني گرفت مضبوط کرنے کي کوشش کي ہے۔ حالانکہ حکومت کو اس بحران کے دوران اپني رياستوں کے صحت عامہ اور ديگر شعبوں کو مضبوط بنانے کي کوشش کرني چاہيے تھي۔

جب سے تبليغي جماعت کے لوگوں کي ايک بڑي تعداد کورونا وائر سے متاثر ہونے کي خبر موصول ہوئي ہے تب سے سياسي قائدين، زہريلي گودي ميڈيا اور سوشل ميڈيا کے اندھ بھکتوں نے اسے زبردست طريقے سے فرقہ وارانہ رنگ دے کر مسلمانوں کا کورونا جہاد بھي کہا۔ بھارت ميں کورونا وائرس کا قہر اب تک کسي حقيقي بحران کي وجہ نہيں بنا۔ اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے اس کے ذريعے مسلمانوں کو معتوب کرنا شروع کر ديا گيا ہے۔ اس کا سلسلہ ہنوز جاري ہے اور ملک کے طول وعرض ميں دن بہ دن شدت ہي آتي جا رہي ہے۔ کورونا وائرس سے زيادہ اسلام اور مسلمان دشمني کا زہر ميڈيا کے ذريعے ملک کے گوشہ گوشہ ميں پھيلايا گيا جس کا نتيجہ يہ ہے کہ ہاسپٹلس ميں تک ہندو۔ مسلم وارڈس بننے لگے ہيں۔ اس کي وجہ سے ساري دنيا ميں عموماً اور عرب دنيا ميں خصوصاً شديد برہمي پائي جا رہي ہے۔ ہندتوا بريگيڈ، منو وادي حکومت کے بل پر چلنے والا گودي ميڈيا اور سوشل ميڈيا کے شر پسند عناصر، ان سب نے مل کر مسلمانوں کا جينا حرام کر ديا ہے۔ آر ايس ايس کے پروردہ بھگوا دھاري اپنے بکاؤ ميڈيا کے ذريعے يہ غلط تاثر پھيلانے ميں مصروف ہيں کہ دنيا بھر ميں کورونا وائرس کو پھيلانے والے مسلمان ہيں۔ اسي زہريلي ذہنيت کے لوگوں نے جو عرب ممالک ميں روزگار کے ليے گئے ہيں ايک کمپين کا آغاز کرتے ہوئے نفرت پر مبني تصاوير اور کمنٹس پوسٹ کرنا شروع کر ديا ہے۔ ہندوستان ميں ان لوگوں نے جس طرح ماحول کو بگاڑ کر رکھا ہے عرب ممالک ميں بھي يہي حرکتيں شروع کر دي ہيں۔

سوربھ اپادھيائے نامي ايک جنوني نے تبليغي جماعت، سني اور ديو بندي مسلمانوں کو دہشت گرد قرار ديا ہے۔ خليج ميں مقيم جي پريتي گري اور اس کي بيوي نے اداکار عامر خان کو تبليغي بنا ديا ہے۔ شہر بنگلور کے ايک سنگھي ممبر پارليمنٹ کا ايک پرانا ٹويٹ پکڑا گيا جس ميں اس نے خواتينِ عرب کے متعلق انتہائي نازيبا کلمات کہے تھے۔ پھر کيا تھا بھارتي مسلمانوں کے معاملات ميں ابھي تک خاموش عرب کا غصہ پھوٹ پڑا۔ ان ہندتوا واديوں کے ريمارک پر متحدہ عرب امارات، جہاں ۳۴ لاکھ ۲۵ ہزار ۱۴۴ بھارتي محنت کش رہتے ہيں، کے شاہي خاندان کي ايک خاتون ہند فيصل القاسمي نے ان ٹويٹس پر شديد برہمي کا اظہار کرتے ہوئے بھارتيوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کي دھمکي دي اور کہا کہ َخليج ميں کسي بھي مذہب کے خلاف نفرت پھيلانے کي اجازت نہيں دي جائے گي۔ چنانچہ اس حماقت کي پاداش ميں کم از ۱۰ دولت مند بھارتي جو سوشل ميڈيا پر نفرت کا کاروبار کر رہے تھے اپني غليظ حرکتوں سے روزگار گنوا بيٹھے۔ دبئي کے ہند نژاد کاروباري بي آر شيٹي کے ايم اين سي کمپني کو سيل کر ديا گيا ہے اور اس سے منسلک تمام املاک پر قدغن لگا دي گئي ہے کيوں کہ وہ آر ايس ايس کے کٹر حمايتي تھے۔ اس طرح کورونا نے عربوں کا رويہ تبديل کر ديا ہے۔ بھارتي مسلمانوں پر ہو رہے مظالم، لينچنگ، کشمير کي ۹ ماہ سے تالہ بندي اور بابري مسجد پر نا جائز قبضے تک مسلسل خاموش رہنے والے عربوں کي سمجھ ميں اب يہ بات آگئي کہ ہندو راشٹر وادي حکومت کے کھانے کے دانت الگ اور دکھانے کے الگ ہيں۔ ان لوگوں نے مودي جي کي چکني چپڑي باتوں سے گاندھي جي کے ديش کا تاثر ليا تھا۔ مگر انہيں جلد ہي اندازہ ہوگيا کہ وزير اعظم مودي در اصل آر ايس ايس کے کيڈر ہيں جو بھارت ميں ہندو راشٹر کے ايجنڈے پر کام کر رہے ہيں۔ يہ آر ايس ايس کے تربيت يافتہ بھاجپائي لوگ سب کے سب ساورکر۔گولوالکر کے بھکت ہيں۔ اس ليے سعودي عرب جہاں ۲۵ لاکھ ۹۵ ہزار ۹۴۷ بھارتي، عمان اور قطر جہاں ۱۵ لاکھ بھارتي مقيم ہيں، کے حکم رانوں نے بھارت ميں فرقہ واريت کے زہر کے پھيلاو کي شديد الفاظ ميں مذمت کي ہے اور مسلم دنيا کي ۵۷ فيصد ممالک پر مشتمل آرگنائزيشن آف اسلامک کوآپريشن نے بھارت ميں بڑھتي ہوئي اسلام ومسلم دشمني پر سخت تنقيد کي ہے اور بھارتي حکومت سے مطالبہ کيا ہے کہ ملک ميں مسلم اقليت کے خلاف تشدد اور بھيد بھاو کو روکے اور عالمي حقوقِ انساني کي پاسداري کرتے ہوئے ان کي جان مال، عزت وآبرو کے تحفظ کو يقيني بنائے۔ کويت نے او آئي سي کا اجلاس جلد بلانے کي تجويز رکھي ہے۔ اس کے ساتھ ہي کويت نے عرب ليگ کے ۲۲ ممالک کے سربراہي اجلاس کا بھي عنديہ ديا ہے۔ اس کے ليے رکن ممالک کو نوٹس جاري کر ديا گيا ہے۔ کويت نے واضح کيا ہے کہ بھارت نے ہماري تہذيب پر حملہ کيا ہے جس کا جواب دينے کا وقت آگيا ہے۔ اب عرب ممالک نے انتہا پسند ہندووں کو ان کے بيہودہ حرکات پر ملک بدر کرنے، نوکريوں سے برخاست کرنے اور بعض کو جيل بھيجنے کے اقدام کيے ہيں۔ يو اے اي نے ملکي قانون کے مطابق غير شہري ورکروں کو کوئي بھتہ ديے بغير پيڈ يا ان پيڈ رخصت پر بھيجنے کا فيصلہ کر ليا ہے۔ اس طرح ايچ ايچ مونا بنت فہد السعد نے عمان ميں کام کرنے والے ۷ لاکھ بھارتيوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے ديا ہے۔ واضح ہو کہ مونا بنت فہد شاہي خاندان سے تعلق رکھتي ہيں۔ کويت کے ايک وزير نے کہا کہ اگر بھارت ميں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھيلانے کا کام بند نہيں ہوا تو بھارتي مال کا بائيکاٹ کيا جائے گا۔ اگر ہندو وادي يہ سوچتے ہيں کہ کاروباري مفادات کي وجہ سے عرب ممالک بھارتي مسلمانوں کي حفاظت کي فکر نہيں کريں گے تو ان کا ايسا سوچنا غلط ہے۔ کويت ہي کے نامي گرامي وکيل عبدالرحمن انصار کي سربراہي ميں وکلا کي تنظيم نے بھارتي مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور ان کي جنونيت وبربريت کو انٹرنيشنل کريمنل کورٹ اور ادارہ عالمي حقوقِ انساني ميں اٹھانے کے بارے ميں غور وفکر کرنا شروع کر ديا ہے۔

مذکورہ حقائق کو سامنے رکھ کر اندازہ کريں کہ عربوں ميں اٹھنے والا ہند مخالف طوفان ہماري ملکي معيشت کو کس طرح تاخت و تاراج کرکے رکھ دے گا۔ اس ليے اپنے اندھ بھکت سوشل ميڈيا، گودي ميڈيا اور بھاجپائي زہريلے عناصر پر نکيل کسے بغير مودي جي نے کہا کہ اتحاد بھائي چارہ کورونا وائرس کو روکنے کے ليے ضروري ہے۔ يہ وائرس نسل، مذہب، زبان، رنگ، ذات پات اور سرحد کو نہيں ديکھتا۔ اس کے ساتھي ہي مودي جي نے خود اور وزير ايس جے شنکر نے خليجي اور عرب ممالک کے اپنے ہم منصبوں سے فون پر رابطہ کرکے يقين دہاني کراني شروع کي کہ بھارت ميں سب ٹھيک ٹھاک ہے۔ اپريل کے دوسرے ہفتے سے لے کر آخري ہفتے تک وزير خارجہ بذريعہ فون درجنوں ملکوں کے وزرائے خارجہ بشمول عرب ممالک کے وزرائے خارجہ سے سفارتي تعلقات کي درستگي ميں لگے ہوئے ہيں۔ اس ليے امارات وخليجي رياستوں کے ہندوستان سفير اور وہاں رہ رہنے والے بھارتيوں کو تنبيہ کرتے نظر آرہے ہيں کہ وہ ايسي بے تکي اور بيہودہ باتيں نہ کريں جن سے ملکي مفاد کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کي لپٹيں بھارت سے نکل کر بيرون ممالک تک پہنچ گئيں اور خليجي ممالک ميں مقيم لاکھوں ہندووں کے خلاف ماحول بري طرح مکدر ہوگيا ہے۔ بڑے بڑے کاروباري بھي اس کي زد ميں آچکے ہيں۔ مندر کي جگہ دينے والے عربوں نے بھارتيوں کو دہشت گرد کہنا شروع کر ديا ہے۔ محنت کشوں کو کورونا سے زيادہ بے روزگاري کا خوف ستا رہا ہے۔ ايسے موقع پر ملک ميں چند بيوقوف اور جنوني راشٹر واديوں کي قبيح حرکتوں کي وجہ سے بھارتي معيشت کہاں پہونچے گي اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ لہٰذا مودي جي اب شمشان اور قبرستان، علي اور بجرنگ بلي کے ذريعے کرسي کا کھيل کھيلنا بند کيجيے۔ عرب ممالک سے نکالے جانے والے تارکين وطن بے روزگار محنت کشوں کي باز آبادکاري کے ليے بہترين منصوبہ بندي کيجے۔ فرقہ پرستوں کو لگام ديجيے۔ اگر ملک ميں بسنے والے امن پسند اقليتوں اور کمزوروں کو انصاف نہيں ملے گا اور امن وامان قائم نہيں ہوگا تو ہم ہر جگہ سے دھکار ديے جائيں گے اور ہماري معيشت کا ستيا ناس ہوگا۔