کورونا وائرس ايک اِنتباہ يا عذاب

دنیا کو تاریخ کے کئی ادوار میں خدا سے بے نیازی کی سزا ملی ہے

منير احمد خليلي

تاريخ ميں بے شمار جنگوں، وباؤں، زلزلوں، سيلابوں، ٹڈي دَلوں، طوفاني بارشوں اور دوسري کئي قدرتي آفات آتي رہي ہيں جنہوں نے انساني زندگي اور اسبابِ زندگي کو بُري طرح نقصان پہنچايا ہے۔ پانچ ہزار سال قبل از تاريخ شمال مشرقي چين ميں ايک ہولناک وبا آئي تھي وہاں کي آبادي کا بڑا حصہ اس کي لپيٹ ميں آگيا تھا۔بظاہر لگتا تھا کہ لقمۂِ اجل بننے والوں نے ايک مکان کو مقدس سمجھا اور مختلف جگہوں سے بھاگ کر اس ميں جمع ہو گئے تھے يا بعد مرنے والوں کے ڈھانچے اُٹھا کر اُس مکان ميں پھينکے گئے اور اس کو آگ لگا دي گئي تھي۔ يہ الميہ اب Mangha Hamin کے نام سے تاريخ ميں محفوظ ہے۔ پھر سيّدنا عيسيٰ عليہ السّلام کي ولادت سے 430سال پہلے يونان ميں افلاطون اور ارسطو کي معروف اکيڈميوں والي شہري رياست ايتھنز ميں طاعون پھوٹا جس ميں ايک لاکھ افراد موت کے منہ ميں چلے گئے تھے 42-541 ء ميں بازنطيني شہنشاہ جسٹينين اول کے نام سے منسوب ہونے والي Justinian وبا نے وسطي سے مغربي يورپ کے بڑے حصے کي انساني آبادي ميں تباہي پھيلائي تھي۔ اس کے تقريباً آٹھ سو سال بعد 1346 سے 1353ء تک ’کالي موت‘ (Black Death) ايشيا سے چلي اور سارے يورپ کے ليے آدم خور وبا بن گئي۔ اس نے ڈيڑھ کروڑ انسانوں کو چاٹ ليا تھا۔ سولہويں صدي ميں امريکي طاعون بھي کچھ کم تباہ کن نہيں تھا جس نے ويسٹرن ہمپشائر کي نوے فيصد آبادي نگل لي تھي۔ تقريباً تين سو سال سوئي رہنے کے بعد ’کالي موت‘ پھر بيدار ہوئي اور 66-1665ء ميں انگلينڈ کے شہر لندن پر جھپٹي۔ اس شہر کي پندرہ فيصد آبادي اس کي بھينٹ چڑھ گئي تھي۔ اس کے تقريباً ايک سو سال بعد 72-1771ء ميں دنيا کي ايک اور وحشت ناک بيماري روسي طاعون کي صورت ميں آئي اور ايک لاکھ جانيں لے گئي تھي۔1889 سے 1890ء ميں ہندوستان ميں ايک مہلک نزلہ پھيلا اور ايک لاکھ افراد لقمۂِ اجل بن گئے۔ بيسويں صدي کے دوسرے عشرے کے اواخر ميں پہلي عالمي جنگ کي بلائے عظيم ابھي ٹل ہي رہي تھي کہ کروڑوں افرادا مريکي پوليو اور پھر ہسپانوي نزلہ (Spanish Flu) کا نشانہ بنے۔ گزشتہ صدي کے آخري بيس برسوں ميں ’ايڈز‘ کے نام سے ايک پر اسرار اور انتہائي ہلاکت خيز بيماري نمودار ہوئي جو ابھي تک انساني جانيں لے رہي ہے۔ ابھي بہت دور کي بات نہيں 2009 ميں Swine Flu کا بے شمار لوگوں کو تجربہ ہوا۔ يہ تاريخ ميں وباوں کي ايک مختصر سي جھلکي ہے۔ تفصيل ميں جائيں تو تاريخ کے مختلف مراحل ميں بارہا اولادِ آدم بيسيوں ديگر ہلاکت خيز قدرتي آفات کا لُقمہ بنتي رہي۔

وباؤں کے اسباب

بے شک اللہ تعاليٰ کي ذات بڑي ارفع و اعليٰ ہے۔اس سے بلند تر اور کوئي ہستي نہيں جو اس پر اپني مرضي اور قانون چلائے۔ اس نے اس کائنات کو قوانينِ فطرت کا پابند بنا کر رکھا ہوا ہے ليکن يہ طبعي قوانين اللہ کے ارادے پر غالب نہيں بلکہ اس کے تابع ہيں۔ جب اُس کي مشيّت ہوتي ہے تو وہ ان طبعي قوانين کي بندشيں کھول ديتا ہے اور ماورائے قوانينِ جو طبعي حوادث رونما ہونے لگتے ہيں۔ اللہ تعالٰي اپنے نبيوں اور رسولوں کے ہاتھوں جو معجزات دکھاتا رہا وہ ان طبعي قوانين کي بندشيں وقتي اور عارضي طور پر توڑنے کي مثاليں ہيں۔ وہ اس بات کا پابند نہيں کہ معجزے  اپنے بندوں ہي کے ذريعہ دکھائے۔ کبھي کبھي وہ اپني کسي خاص حکمت و مصلحت يا قوموں کي باغيانہ روش کي وجہ سے غير طبعي طور پر بھي الميوں اور سانحات کو ظہور بخشتا ہے۔

’وہ تو جب کسي چيز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس يہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا تووہ ہو جاتي ہے۔‘(يٰس82:)۔۔۔اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘(اٰل عمران40:) 

 سُنَّتُ اللّٰہ

اس دنيا ميں ايک عِلّت و معلول (Cause and Effect) کا قاعدہ لاگو ہے جسے ہم قانونِ قدرت کہتے ہيں۔ يہي وہ چيز ہے جسے قُرآن پاک ميں سُنَّتُ اللّٰہ کہا گيا ہے۔ يہ بھي فرمايا گيا ہے کہ يہ سُنّت اَٹل ہے ۔جس طرح معجزات روز رونما نہيں ہوتے اسي طرح يہ سُنّت روز نہيں بدلتي۔ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِيْلًا ج وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَحْوِيْلًا (فاطر،43 ) يہ مصائب وحوادث جن کو ہم ’قُدرتي آفات‘ کہتے ہيں ان کے کچھ اسباب و وجوہ (Causes) ہوتے ہيں جن کے بڑے ہولناک اور لرزہ خيز نتيجے (Effects) ہمارے سامنے آتے ہيں۔ اللہ تعاليٰ نے بني آدمؑ کے ليے قاعدہ مقرر کيا کہ وہ حلال اور پاک غذائيں کھائيں۔ ليکن اگر کُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ کي ہدايت کو پسِ پشت ڈال ديا جائے، طہارت کے اصولوں کا لحاظ نہ رکھا جائے، پاکيزہ فطرت کو مسخ اور ذوقِ لطيف کو کچل ديا جائے اور طبع ومزاج کي نفاست کے منافي چوہوں، سانپوں، نيولوں، گوہوں، کُتوں، بليوں، سؤروں، درندوں اور چمگادڑوں کو اپني خوراک بنا ليا جائے تو فطرت انتقام ليتي ہے۔ وبائيں پھوٹتي ہيں اور ايسے ايسے امراض پيدا ہوتے ہيں جن کا کسي نے کبھي نام بھي نہ سنا ہو گا۔ يہ سب فطرتِ انساني سے متصادم غير طبعي عوامل کے نتائج ہيں۔

گناہوں کے اثرات

طبعي قوانين کي مخالفت کي طرح شرعي قوانين توڑنے پر بھي اللہ کي لاٹھي حرکت ميں آتي ہے۔ انساني معاشروں ميں جب فسق وفجور، معصيت وعصيان، بے حيائي اور برائي، زناکاري، سرکشي اور بغاوت کے مظاہر اور اللہ کے شرعي قوانين کي نافرماني کے مناظر پھيل جاتے ہيں تو اللہ کا غضب جوش ميں آتا ہے۔ سورہ فاطر کي سُنَّتُ اللّٰہ والي آيت کے سياق وسباق پر نظر ڈاليں تو انکارِ حق اور استکبار پر اللہ کي سخت پکڑ کا قانون نظر آتا ہے جس طرح سورج سے روشني اور حرارت کا نکلنا، چاند کا گھٹنا بڑھنا، ہواوں کا چلنا، زمين سے نباتات کا اگنا قانونِ قدرت ہے۔قانونِ فطرت اور قانونِ شريعت سے بڑے پيمانے پر انحراف پر فطرت کي تعزيريں اور اللہ کي پکڑ اس قانون کا حصہ ہے۔ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِيْدٌ ۔’ تمہارے رَب کي پکڑ بڑي سخت ہوتي ہے۔ ايک حديث ميں پانچ اجتماعي اعمالِ بد کے بڑے عبرت ناک انجام بتائے گئے ہيں۔ ناپ تول ميں کمي کرنا، زکٰوۃ نہ دينا، عہد و پيمان کو توڑنا اور حکم رانوں کا خُدا کي شريعت ميں سے اپني پسند کے مطابق احکام ماننا اور باقي سب کو پسِ پشت ڈال دينا وہ پانچ بُري روشيں ہيں جن کے بڑے لرزہ خيز کے نتائج نکلتے ہيں۔ اس وقت ساري دنيا ان ميں سے پہلي انتہائي ناپسنديدہ روش کے عواقب بھگت رہي ہے۔ حضور ﷺنے جو پہلي روش بتائي اس کا مفہوم درج ذيل ہے:

’اے گروہِ مہاجرين! پانچ خصلتيں ايسي ہيں جن ميں تمہارے مبتلا ہونے سے ميں اللہ کي پناہ مانگتا ہوں۔ کبھي ايسا نہيں ہو گا کہ کسي قوم ميں بے حيائي، فحاشي اور بدکاري پھيل جائے اور اس پر بطورِ سزا اس ميں طاعون جيسي وبائيں نہ پھوٹ پڑيں جن کا ان کے گزرے ہوئے آباء واجداد کے زمانے ميں کسي نے نام بھي نہيں سنا ہوگا۔‘

اللہ کے پيغمبروں نوح، ہود اور صالح، شعيب اور لوط عليہم السّلام کي قوموں پر جو عذاب آئے اور نمرود اور فرعون جس طرح عبرت ناک انجامِ تک پہنچائے گئے وہ خُدائي عذاب کي ہولناک صورتيں تھيں۔ فرعون اور اٰلِ فرعون کو نافرماني کي پاداش ميں غرق کرنے سے پہلے اُن پر بڑي عجيب ابتلائيں آئيں۔

’آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھيجا، ٹڈي دَل چھوڑے، سُرسُرياں پھيلائيں، مينڈک نکالے اور خون برسايا۔‘(اعراف133:)

بني اسرائيل کے کچھ گروہوں کي شکليں بندروں ميں بدل دينا ايسي ہي سزاوں اور عذابوں کي مثاليں ہيں۔

کورونا ايک عذابِ اِلٰہي

موجودہ دور کو جديد علوم، سائنس اور ٹيکنالوجي، تحقيق اور دريافت کي معراج کا دَور سمجھا جاتا ہے۔ انسان کو چاند پر کمند ڈالے کافي عرصہ ہو چکا ہے۔تسخيرِ کائنات کے ديگر کارنامے بھي کئي حيران کن نتائج لا چکے ہيں۔ ترقي کي ان بلنديوں کو چھو ليا گيا ہے کہ امريکہ اور مغربي ممالک کے لوگ زندگي کي راحت وسکون اور سہولت وآسائش سے بہت آگے نکل کر تعيشات کي زندگي گزار رہے ہيں۔ زندگي جسماني لذّتوں، نفساني خواہشات، لہو ولعب اور عيش وطرب کے گرد گھوم رہي ہے اور يہي زندگي کا مقصد سمجھ ليا گيا ہے۔ امريکہ کے فلسفۂِ تاريخ کے ماہر فرانسس فوکوياما نے تو حتمي طور پر فيصلہ سنا ديا کہ انساني تمدّن کا جو قافلہ آدم عليہ السّلام سے چلاتھا اس کي آخري منزل گويا وہ سيکولر جمہوري سياسي نظام اور اس کے تحت ہونے والي علمي، اقتصادي، سماجي، تہذيبي وثقافتي اور صنعتي وعسکري ترقي تھي جو امريکہ کي قيادت ميں مغربي دنيا نے کر لي ہے۔ اس کے آگے کوئي منزل نہيں ہے۔ فوکوياما نے 1992 ميں The End of    History and the Last Man لکھ کر يہ باور کرانے کي کوشش کي کہ يہ تاريخ کي انتہا ہے۔

بامِ ترقي اور بے بسي

ايک طرف ترقي کي يہ معراج ہے اور دوسري طرف ذرا آج کي حالت ديکھيں۔ ايٹم، ہائڈروجن اور نيپام بموں کے انبار، کيميکل ہتھياروں سے عسکري گودام بھرے ہوئے ہيں، برّ اعظموں کو لمحوں ميں پھلانگ کر لاکھوں زندگيوں کے چراغ گل کرنے اور تمدّن کے خرمن کو خاکستر کرنے والے ميزائلوں کے ڈھير لگے ہوئے ہيں۔ بزعم خود تنہا ’سُپر پاور‘ کے بے پناہ اختيار کا مالک نمرود صفت صدر فرعوني لہجے ميں بيانات اور Tweets کر رہا ہے اور دوسري طرف خوردبين سے بھي بڑي مشکل سے نظر آنے والے ايک حقير سے جرثومے نے دنيا کو ہلا کر رکھ ديا ہے۔ ساري بڑي طاقتيں اس کيڑے کے سامنے بے بس اور عاجز ہيں۔ کوئي ہتھيار اس پر کارگر ثابت نہيں ہو رہا ہے۔ کوئي دوا اس کا علاج نہيں بن رہي ہے۔اوپر ابتدا ميں پانچ ہزار سال ميں آنے والي قدرتي آفتوں اور ان سے ہونے والي ہلاکتوں کا جو تذکرہ ہوا ہے ان ميں روزانہ اموات کي تعداد بہت زيادہ ہوتي تھي۔ کورونا وائرس کے ظاہر ہونے کے بعد دو ڈھائي مہينوں ميں کُرّۂِ ارض کے جنوب سے شمال اور مشرق سے مغرب تک مرنے والوں کي جو تعداد سامنے آئي اور آ رہي ہے اس سے کئي گنا زيادہ لوگ روزانہ طبعي موت، حادثات، کينسر، ٹي بي،حرکتِ قلب بند ہونے، شوگر اور بلڈ پريشر اور ديگر بيماريوں سے مرتے ہيں۔ ليکن يہ وائرس زيادہ اموات کي وجہ سے نہيں بلکہ اعصاب شکن خوف کي وجہ سے اللہ کا عذاب بنا ہوا ہے۔ تاريخ ميں بڑي تباہ کن جنگيں ہوتي رہيں ليکن تمدّن کي چلتي ہوئي گاڑي کبھي اس طرح بالکل رُک نہيں گئي تھي جيسے اس وائرس کے خوف سے رک گئي ہے۔ پہلے کبھي زمين کے ہر حصے پر بيک وقت زندگي کي نبضيں اس طرح بند نہيں ہوئي تھيں جيسے کورونا وائرس کے خوف سے بند ہو گئي ہيں۔ معاشي بحران پہلے بھي آتے تھے ليکن کبھي ايسا نہيں ہوتا تھا کہ ريڑھيوں، خوانچوں اور پرچون کي دکانوں سے لے کر بہت بڑے بڑے شاپنگ مال تک مکمل بند ہو گئے ہوں۔ سڑک کے کنارے بيٹھے ہوئے جوتے گانٹھنے والوں سے لے کر بڑي بڑي فيکٹرياں اور کارخانے بند ہو گئے ہوں۔ چائے خانے اور چھوٹے موٹے ريسٹورنٹ ہي نہيں فائيو سٹار اور ڈيلکس ہوٹلوں ميں بھي الو بول رہے ہوں۔ جنگوں اور وباوں ميں انسانوں کي نقل وحرکت اور کسي نہ کسي پيمانے پر دوڑ دھوپ جاري رہتي تھي ليکن کورونا کے خوف نے ہر چيز پر بريک لگا دي ہے۔ موٹروں، ريل گاڑيوں اور ہوائي جہازوں کي حرکت جام ہو گئي ہے۔

سماجي دُورياں(Social  Distance ) 

پہلے اجتماعي مصيبتيں اور آزمائشيں آتي تھيں تو لوگ ايک دوسرے کے قريب ہو جاتے تھے۔رشتوں کي قربتيں بڑھ جاتي تھيں۔ ہمدردي اور تعاون اور اپنائيت کے جذبوں ميں فراواني آ جاتي تھي، دکھ درد ميں شراکت کے جذبے بڑھ جاتے تھے ليکن اس وائرس نے فاصلے بڑھا ديے، بے تعلقي پيدا کر دي، ’سماجي فاصلہ (social distance)‘ والي اصطلاح کو ساري دنيا کا مشترکہ کلچر بنا ديا ہے۔ ہر شخص دوسرے سے خوف کھا رہا اور بھاگ رہا ہے۔ قُربتيں دُوريوں ميں بدل گئي ہيں۔ ميل جول ختم ہو گيا ہے۔ملاقات ہو بھي تو گلے ملنا تو درکنار ايک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے گريز کيا جا رہا ہے۔ ايک دوسرے سے فاصلہ رکھ کر بيٹھتے ہيں۔ حضرت موسٰي عليہ السّلام جب اپنے رَب کے بلاوے پر چاليس راتوں کے ليے کوہِ طور پر گئے تھے تو پيچھے سامري نے زيورات سے بچھڑا بنا کر اس کي پرستش شروع کرا دي تھي۔ حضرت موسيٰ عليہ السّلام کي واپسي پر اس کي سزا ميں ايسا اچھوت قرار ديا گيا تھا کہ کسي کو اسے اچھوت کہنے کي ضرورت نہيں ہوتي تھي، وہ خود بول بول پڑتا ’لَا مَسَاس‘ يعني’ميرے قريب مت آؤ‘، مجھے چھوو نہيں، ميں اچھوت ہوں۔‘ کورونا وائرس کے خوف سے اس سے بھي زيادہ عبرت ناک اور لرزا دينے والي کيفيت ہے کہ مريض تو مريض، تندرست بھي ايک دوسرے سے دُور بھاگنے ہيں۔ يہ روح کو ہلا دينے اور رگوں ميں سرايت کر جانے والا ايسا خوف ہے جسے کوئي جديديت پسند مانے نہ مانے ليکن حقيقت يہ ہے کہ يہ اللہ کا عذاب ہے۔ کوئي اسے پرہيز کہے يا احتياط مگر کيا يہ سوچ کر کليجا پھٹ نہيں جاتا کہ کورونا کے مريض کي نہ کوئي مزاج پرسي کر سکتا ہے نہ تيمارداري۔ جب وہ دَم توڑ جاتا ہے تو نہ قريبي عزيز غسل دے سکتے ہيں، نہ کفن پہنا سکتے ہيں نہ جنازہ پڑھ سکتے ہيں اور نہ اپنے ہاتھوں سے قبر ميں اتار سکتے ہيں۔ سفيد لباس ميں بھوتنا نما چند ہيولے ہوتے ہيں جو دو دو فٹ پر کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھتے ہوئے دکھائے جاتے ہيں۔فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ ’پس عبرت حاصل کرو اے دِيدۂِ بينا رکھنے والو!‘ 

مسلم وغير مسلم سب مبتلائے عذاب

لوگ پوچھتے ہيں کہ چليں کفّار کے ليے تو يہ عذاب ہے ليکن مسلمان کيوں اس کي لپيٹ ميں آ گئے ہيں؟ يہ تو اللہ کي پسنديدہ اُمّت ہيں؟ پہلي بات تو يہ ہے اللہ کے مطلوب وہ مسلمان ہيں کہاں جن کي تصوير ہميں قُرآن اور احاديث ميں ملتي ہے۔ اللہ کے مطلوب مسلمان ڈھونڈے سے کہيں خال خال ہي ملتے ہيں۔ ہماري مارکيٹيں اور بازار، شاپنگ مال، تفريح گاہيں، ٹي وي چينل، اخبارات و رسائل، بيروني مدد پر چلنے والي اين جي اوز سب طويل مدت سے عرياني، فحاشي اور بے شرمي وبے حيائي پھيلانے کي مہم ميں لگے ہوئے ہيں۔ نام نہاد ’يومِ نسواں‘ پر ہونے والے مظاہرے اور لگنے والے نعرے سامنے کي دليل ہيں۔ يہ سب کيا اس کورونا وائرس کي صورت ميں اللہ کا قہر وغضب ٹوٹنے کے ليے کافي نہيں؟ کم سن بچيوں اور لڑکوں کے ساتھ بدکاري کر کے انہيں بڑي سفّاکي سے قتل کرنے کي وارداتوں ميں مسلسل اضافہ نہيں ہو رہا ہے؟ 

ہماري عدالتوں ميں انصاف نہيں، تھانوں کچہريوں ميں عزت، امن اور تحفّظ نہيں، سيدھے ہاتھوں اپنا حق نہيں ملتا۔ رشوت اور بدعنواني کا چلن ہے۔ کرپشن کے ہزار رنگ اور سينکڑوں دائرے ہيں۔ حلال خوري کا تصوّر مٹ گيا ہے۔ دوکاندار پورا تولتا نہيں، صنعت کار کھرا مال بناتا نہيں، اہل کار ’اوپر والي‘ آمدني کے بغير رہتا نہيں۔دوسروں کا حق مارنے کي علّت جاتي نہيں۔ امير گھرانوں اور جاگيرداروں کا مزارعوں پر، سرداروں اور وڈيروں کا اپنے زير دستوں پر ظلم ڈھانا ان کا روايتي کلچر ہے جس پر نہ کسي قانون کي گرفت ہے اور نہ کسي عدالت کي نظر ہے۔ ہر کسي پر کورونا وائرس کا خوف طاري ہے ليکن اللہ کا خوف کسي ميں نہيں ہے۔ ہم اپنے اعمال سے اللہ کے قہر وغضب کو دعوت ديتے ہيں۔ اس ليے کورونا وائرس ہمارے ليے کسي بڑے عذاب کا انتباہ ہونے ميں شک نہيں ہے البتہ اس پر شکر کرنا چاہيے کہ مسلمان ممالک ميں ابھي اس وائرس کي تباہ کاري محدود ہے۔اس وائرس کو اللہ کے عتاب کا نتيجہ نہ ماننے والے سيکولر، لبرل اور لبرل اسلامسٹ جب غير مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے گرفتارِ وبال ومصيبت ہونے کا نکتہ اٹھاتے ہيں تو وہ اللہ کے اس اصول کو بھول جاتے ہيں کہ قوميں اور انساني گروہ اسي وقت تک اللہ کے محبوب ہوتے ہيں جب تک وہ اُس کے دِين کي حقيقي اور سچي تعليمات کا پرچم اٹھائے رکھتے ہيں اور زمين پر اپنے اپنے دائرۂِ اختيار ميں اس دِين کو زندگي کا دستور بناتے ہيں۔جب دِين کي روح نکل جاتي ہے اور اسے دروس واسباق کا بے جان دفتر بنا ديا جاتا ہے تو وہ قوميں اور گروہ اللہ کے کام کے نہيں رہتے۔ اللہ تعاليٰ کے نزديک اصل حُرمت دِين کے شعائر کي ہے۔ مسلمان اللہ کے چہيتے اسي صورت ميں ہو سکتے ہيں جب وہ ان حرمتوں کا پاس ولحاظ رکھتے ہوں اور اس دِين پر خود مکمل کاربند ہوں اور اسے غالب و نافذ کرنے کي خواہش رکھتے ہوں اور اس مقصد کے ليے کوشش کرتے ہوں۔ اگر صورتِ حال يہ ہو کہ: 

وضع ميں تم ہو نصاريٰ تو تمدّن ميں ہنود 

 يہ مسلمان ہيں جنہيں ديکھ کے شرمائيں يہود

تو پھر اللہ ان کو انہي نصاريٰ، ہنود اور يہود سے مرواتا ہے۔ بني اسرائيل کو ايک وقت جب اللہ تعاليٰ نے اپنے دِين کي امانت سونپي تھي تو واقعي وہ اَلشَّعْب الْمُختَار‘ يعني ايک چيدہ اور اللہ کا چہيتا گروہ تھے ليکن جب انہوں نے اللہ کي کتاب اور اس کے پيغمبر کي تعليمات کو تمسخر اور کھيل بنا ليا اور اللہ کي بخشي ہوئي نعمتوں پر شکرگزار نہ رہے تو وہ نہ صرف دھتکار ديے گئے بلکہ ان پر پے در پے تنبيہ کے تازيانے پڑتے رہے۔

’آخر کار نوبت يہاں تک پہنچي کہ ذِلّت وخواري اور پستي و بدحالي اُن پر مسلّط ہو گئي اور وہ اللہ کے غضب ميں گھِر گئے ۔يہ نتيجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کي آيات سے کفر کرنے لگے تھے اور پيغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے تھے۔ يہ نتيجہ تھا اِس کا بات کا کہ وہ حدودِ شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔‘ (البقرۃ61)آج عين اسي طرح مسلمانوں پر انتباہي کوڑے برس رہے ہيں۔ يہ اُمّت نيک لوگوں کے وجود سے بالکل خالي نہيں ہے ليکن فتنہ اور آزمائش بن کر جب ايک عتاب اترتا ہے تو پھر نيک وبد کو چھانٹا نہيں جاتا۔ پرہيز گار اور گناہ گار دونوں پر گندم کے ساتھ گھُن کے پِس جانے کا اصول لاگو ہوتا ہے۔ اس ضمن ميں ارشادِ باري ہے:’اور بچو اُس فتنے سے جس کي شامت مخصوص طور پر صرف انہي لوگوں تک محدود نہ رہے گي جنہوں نے تم ميں سے گناہ کيا ہو۔ اور ياد رکھو کہ اللہ سخت سزا دينے والا ہے۔‘(انفال25:)

تمرّد وطغيان اور کورونا وائرس

سوچ، ذہنيت، عمل اور روش ميں مسلمان اور کافر کا فرق بہت کم رہ گيا ہے لہٰذا سب پر يکساں طور پر کورونا کي لاٹھي برس رہي ہے۔ 

سلسلہ صفحہ نمبر۲۱

طاقت کے نشے ميں چُور ساري طاقتور قوموں کے منہ پر کورونا وائرس طمانچہ بن کر برس رہا ہے، اس ليے کہ ہر جگہ انسانوں نے تمرّد وطغيان کي روش اختيار کر رکھي ہے۔ اکيسويں صدي طلوع ہوئي تو بتايا گيا تھا کہ اس صدي کے چمن ميں ساري انسانيت کے ليے خوش حالي کے پھول کھليں گے اور امن وسکون اور انساني تکريم کي خوشبو پھيلے گي۔ محروم طبقات کو ان کے حقوق مليں گے، آمريّتوں کا خاتمہ ہوگا، ظلم مٹايا جائے گا اور عدل کا بول بالا ہو گا۔ پسماندہ معاشروں کي عزّت، عدل اور ’روٹي‘ چھيننے کي کوئي حکم راں جرأت نہيں کرے گا۔ فوجي ڈکٹيٹر مہذّب دنيا کي نظر ميں بے توقير ہوں گے۔ عوامي رائے کو وقار بخشا جائے گا ليکن اس صدي کا آغاز ہوتے ہي مہلک ہتھياروں کي بارش اور بمبار طياروں کي گھن گرج سنائي دينے لگي۔ ’دہشت گردي کے خلاف جنگ‘ کے عنوان سے افغانستان اور عراق پر وحشيانہ يلغار ہوئي۔ لاکھوں لوگ مارے گئے اور ہزاروں کنبے در بدر ٹھوکريں کھانے پر مجبور ہو گئے۔ آمريّت نام نہاد جمہوري ملکوں کے زيرِ سايہ پھلنے پھولنے لگي۔ مسلم ممالک ميں عوام کے بنيادي حقوق، آزادي، خوش حالي اور انصاف کا خواب امريکہ اور يورپ کي حمايت سے چکنا چور ہوا۔ مصر ميں ساٹھ سال کي وحشيانہ آمريّت کے بعد پہلے منتخب صدر محمد مُرسي کي قيادت ميں ايک جمہوري حکومت آئي ليکن چونکہ وہ اسلام اور پيغمبرِ اسلام سے عہدِ وفا نبھانے والے تھے اس ليے امريکہ، يورپ، اسرائيل اور خليجي عرب ملکوں کي نظر ميں کانٹے کي طرح کھٹکنے لگے تھے۔ آخر انہي قوتوں کے دست آموز اور حمايت يافتہ جرنيل عبد الفتاح السّيسي نے مرسيؒ کا تختہ اُلٹ ديا اور جمہوريت کي پھوٹتي ہوئي کونپل کچل دي گئي۔ محمد مرسيؒ کے ہزاروں حاميوں کو بلڈوزروں اور ٹينکوں سے کچلا گيا۔ ہزاروں کو جيلوں ميں ٹھونسا گيا اور بيسيوں کو سُولي پر لٹکا ديا گيا۔

ان قوتوں کي آنکھوں کے سامنے فلسطين، برما اور بھارت کے کچھ حصوں ميں مسلمانوں کا خون بہتا رہا اور يہ خونِ مسلم کي ارزاني سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ آج امريکہ، يورپ اور روس وچين سميت ساري دنيا ’لاک ڈاؤن‘ ميں کسي ہوئي ہے اور لوگ اسے في الواقع بہت بڑا وبال سمجھ رہے ہيں ليکن مظلوم کشميري کئي مہينوں سے لاک ڈاؤن کي زنجيروں ميں کسے ہوئے ہيں، کسي کو ان کي حالت پر رحم نہيں آيا۔ وہ جمہوريت جس کے پھل کي خوش ذائقگي کے گن گاتے ہيں اس کے پودے نے تقريباً تين عشرے قبل الجزائر ميں سر نکالا تو اسے فوجي جبر سے اکھڑوا ديا گيا۔ فلسطين ميں حماس نے اس کي آبياري شروع کي تو اس کي نمو کے سارے سر چشمے بند کر ديے گئے۔ مصر ميں اخوان المسلمون اور بنگلہ ديش ميں نام نہاد مہذّب دنيا کي آنکھوں کے سامنے جماعت اسلامي پر قہر کي بجلياں گر رہي ہيں۔

اس پر کسي کو شک يا تعجب نہيں ہونا چاہيے کہ کہ کورونا وائرس خُدا کا عذاب بن کر نازل ہوا ہے۔ يہ اَمرربّي ہے آيا اور اسي وقت جائے گا جب اللہ اسے ٹالے گا۔ کورونا وائرس ہم سب کے ليے خُدائي اشارہ ہے کہ اللہ کي طرف متوجہ ہو جاؤ، اپنے گناہوں کي اللہ سے بخشش مانگو اور آئندہ کے ليے سچے دل سے توبہ کرو۔ غفلت چھوڑ دو۔حقوق اللہ اور حقوق العباد کي ادائيگي ميں جو کوتاہياں اور لغزشيں ہوئيں پورے خلوص واخلاص سے ان کا ازالہ کرو۔ اللہ کي رسّي کو مضبوطي سے تھام لو۔ اس کي شريعت کے سائے ميں پناہ لے لو۔ زندگي کے انفرادي اور اجتماعي نظام کو اس کي نازل کردہ کتاب اور اس کے نبيﷺکي سُنّت وسيرت کے سانچے ميں ڈھالو۔