خبر و نظر

پرواز رحمانی

افغانستان
افغانستان پر طالبان کا قبضہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ آخری مضبوط مزاحمتی یونٹ وادی پنج شیر پر بھی طالبان حاوی ہو گئے ہیں۔ یہ علاقہ مرحوم احمد شاہ مسعود کے حامیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں باقاعدہ مزاحمتی اتحاد قائم تھا۔ ملک میں طالبان کی عبوری حکومت بھی قائم ہو گئی ہے جس کے وزیر اعظم محمد حسن اخوند ہیں۔ ان کے وزرا کے ناموں کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے تاہم اس عبوری حکومت کے بارے میں دنیا ابھی تک پس وپیش اور تذبذب میں ہے۔ ابھی کسی ملک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ البتہ روس، چین اور پاکستان متحدہ طور پر طالبان کے حامی ہیں۔ 9 ستمبر کو سعودی عرب سے بھی خبر آئی کہ وہ طالبان کی عبوری حکومت سے قیام امن کی امید رکھتے ہیں۔ حکومت ہند کا تذبذب ابھی باقی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چین اور پاکستان طالبان کے ساتھ سرگرم ربط رکھتے ہیں۔ طالبان نے پاکستان کے حمایت یافتہ حقانی گروپ کو بھی اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے جس طرح انہوں نے دیگر مختلف الخیال گروپوں کو ساتھ لیا ہے حالانکہ طالبان کے ساتھ حکومت ہند ربط میں ہے۔ گزشتہ دنوں طالبان کے لیڈر کے ساتھ وزیر خارجہ ہند کی دبئی میں ملاقات ہو چکی ہے اس کے باوجود طالبان کے تعلق سے حکومت ہند تحفظات کا شکار ہے۔

حالات بدل گئے ہیں
یہ بات ذمہ دار مبصرین کی جانب سے اس سے پہلے بھی کہی جا چکی ہے کہ طالبان اب وہ نہیں ہیں جو بیس سال پہلے تھے۔ بلکہ بیس سال پہلے بھی طالبان کو غلط سمجھا گیا تھا۔ ان کے اندر کمی یہ تھی کہ وہ اپنی بات دنیا کے سامنے سلیقے سے نہیں رکھ سکتے تھے۔ انہیں اس سے بھی غرض نہیں تھی کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے کیا کہتی ہے۔ گیارہ ستمبر 2001 کے نام نہاد دہشت گردانہ حملے کے بعد امریکہ نے اپنے قائم کردہ عسکری گروپ القاعدہ کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور طالبان سے القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا مگر طالبان کی حکومت نے یہ شرط رکھی تھی کہ پہلے امریکہ ثبوت پیش کرے کہ بن لادن ہی حملوں کے لیے ذمہ دار ہیں لیکن امریکہ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا تھا۔ لہٰذا طالبان نے امریکہ کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ جس کے بعد امریکہ نے افغانستان پر فوجی یلغار کر دی تھی اس طرح طالبان کی حکومت جاتی رہی۔ اس دوران افغانستان میں امریکہ کی پسند کی حکومتیں بنتی رہیں جن کے ساتھ مل کر امریکہ اور ناٹو کے اتحاد نے طالبان کے خلاف جنگ تیز کر دی۔ یہ جنگ پورے بیس سال جاری رہی۔

انتظار کیجیے
گزشتہ بیس سال کے دوران طالبان مختلف ملکوں میں پھیل گئے اور سیاست وحکومت کے سلسلے میں انہوں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ اب ان کے سیاست کار اور ترجمان ہر جگہ اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانستان کی سب سے بڑی اور منظم تنظیم حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار ان کے ساتھ ہیں۔ طالبانی لیڈر اِن سے ملتے رہتے ہیں۔ وہ ماہر اسلامیات ہونے کے ساتھ ساتھ جنگ وصلح کے طور وطریقے بھی خوب جانتے ہیں۔ موجودہ حالات میں طالبان سے ان کا یہ مطالبہ ہے کہ عام انتخابات جلد از جلد کرائیں اور ان کے نتائج کی روشنی میں نئی حکمت عملی تیار کریں۔ دنیا کے لیے بھی منتخب حکومت ہی قابل قبول ہو سکتی ہے۔ بھارت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ کشمیر یا کوئی اور مسئلہ افغانستان نہ پہنچے۔ ایسی صورت میں حکومت ہند بھی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ ویسے بھی ماضی میں حکومت ہند برے طالبان کے مقابلے پر ’’اچھے طالبان‘‘ کی تھیوری پیش کرتی رہی ہے۔ افغانستان میں پاکستان کو ناکام بنانے کا بھی یہی موثر طریقہ ہے۔ بہر حال موجودہ حالات میں افغانستان کے بارے میں کوئی حکمت عملی وضع کرنا قبل از وقت ہو گا۔ ہمیں انتظار کرنا چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021