خبر و نظر

پرواز رحمانی

پاکستان میں جہالت
پاکستان میں جہالت اور خوں ریزی کا ایک نیا دور برپا ہوا ہے۔ غیرت ایمانی اور جذبہ عشق رسولؐ کے نام پر ایک نئی تحریک اٹھی تھی۔ ابتدا میں جب اس تحریک لبیک کی خبریں آئیں تو اندازہ تھا کہ یہ اسلامی طریقے سے مسلمانوں کے اندر ایمانی قوت پیدا کرے گی اور مسلمانوں کو حب رسولؐ کے تقاضے بتائے گی۔ مخالفین کے سامنے پُرامن طریقے سے دعوت اسلامی پیش کرے گی لیکن جب اس کی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو آغاز ہی میں واضح ہو گیا کہ یہ ایک پُرتشدد گروہ ہے اور حب رسولؐکے نام پر اسلام کو بدنام کرنے کے درپے ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ 14اپریل کو دیکھا گیا جب تحریک کے کارکنوں نے فرانس کے سفیر کو پاکستان سے رخصت کیے جانے کے مطالبہ پر زور دینے کے لیے جگہ جگہ تشدد کا کھیل کھیلا۔ سرکاری اور نجی گاڑیوں کو آگ لگائی، پولیس پر حملے کیے، پولیس والوں سمیت کئی لوگ جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ فرانس کے خلاف غصہ اس بات پر تھا کہ وہاں کے میگزین چارلی ہیبدو نے ایک بار پھر پیغمبر اسلام کے وہ کارٹون دوبارہ شائع کیے جو اس نے چار ماہ قبل شائع کیے تھے اور فرانس کے صدر میکرون نے اس شیطانی حرکت کی حمایت کی تھی۔ میکرون نے اس سے قبل بھی اسلام اور امت اسلام کے خلاف کچھ بیانات دیے تھے اور نہایت گندی زبان استعمال کی تھی۔ میکرون ایک بد زبان اورغیر سنجیدہ لیڈر ہے۔ اس کے خلاف مسلمانوں نے دنیا میں کئی جگہ مظاہرے کیے تھے لیکن یہ مظاہرے پُرامن تھے۔
یہ لعنت کب سے ہے
پیغمبر اسلام کے خلاف کارٹونوں کی یہ لعنت دراصل چند سال قبل ڈنمارک سے شروع ہوئی تھی۔ اس وقت بھی دنیا بھر میں ان کی مذمت ہوئی تھی۔ مسلمانوں نے دنیا بھر میں پُرامن احتجاج کیا تھا۔ ڈنمارک کی اس شرارت کے بعد دنیا میں مختلف اسلام دشمن حلقے بھی سرگرم ہو گئے تھے۔ شرارتیوں کی کوشش تھی کہ ان کی شیطنیت پر مسلمان مشتعل ہوں تاکہ انہیں اسلام اور امت کو بدنام کرنے کا موقع مل جائے۔ ان حرکتوں کا مقصد آج بھی یہی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی نئے نئے بد زبان پیدا ہو رہے ہیں لیکن اب تک دنیا بھر میں مسلمانوں کا ردعمل معقول رہا۔ انہوں نے احتجاج کیا مگر پُرامن طریقہ سے تاکہ بد خواہوں کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف پروپگنڈے کا موقع نہ مل سکے۔ مگر اب پاکستانیوں نے انہیں یہ موقع دے دیا ہے۔ فرانس کے سفیر کو رخصت کرنے کا مطالبہ ایسا نہیں تھا کہ اس پر زور دینے کے لیے تشدد کا سہارا لیا جاتا لیکن جذباتی لوگوں نے حسب عادت وہی کام کیا جو دشمن چاہتا ہے۔ حکومت پاکستان نے تحریک لبیک پر پابندی تو لگا دی، فرانس کے شہریوں کو پاکستان سے نکالا بھی جا رہا ہے لیکن پاکستان کو شہریوں کی تربیت کے ساتھ حکومت فرانس سے یہ مسئلہ اعلیٰ سطح پر بھی اٹھانا چاہیے۔ میکرون مغربی دنیا کا پہلا حکمراں ہے جس نے ملک کا صدر ہوتے ہوئے اپنے شر پسند شہریوں کی تائید کی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اپنے پیشرووں کی طرح وہ شرارت کو ابتدا میں ہی دبا دیتا۔
یلغار کا سبب
کوئی شک نہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے مغربی دنیا میں اسلام کی مخالفت بڑھ گئی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مغرب میں اسلام روز بروز فروغ پا رہا ہے مغربی خواتین بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہو رہی ہیں۔ یہ بات مغرب کے اسلام دشمنوں کے لیے ناقابل برداشت بن گئی ہے اور وہ بہت بے شرمی کے ساتھ اسلام کی مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ اس کے خلاف نہایت بیہودہ اور گھٹیا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ پیغمبر کی شان میں گستاخیاں کر رہے ہیں۔ اس پر امت مسلمہ کے اندر غم و غصہ پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ لیکن مسلمانوں کو بہر حال اپنے پیغمبر کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اس مسئلہ کا حل ڈھونڈنا ہوگا۔ بدقسمتی سے عرب حکمرانوں نے خود کو اسرائیل ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے۔ اپنے مالی وسائل اور اپنی سیاست و معاشرت اسی کے سپرد کر رکھی ہے۔ اسلام مخالف دنیا کے حوصلے اس لیے بھی بڑھ گئے ہیں۔ خود امت کے ایک طبقے کا حال یہ ہے کہ اسے مالدار عرب حکمرانوں کی اس بے راہ روی پر کوئی افسوس نہیں۔ وہ آج بھی عربوں کی خیرات سے اپنے خاندانوں کی پرورش کر رہے ہیں۔ اس صورت میں کیا ہم مسلمانوں کا یہ فریضہ نہیں کہ پہلے اپنا قبلہ درست کریں۔ عربوں کی دولت نے مسلمانوں کے اندر مسلکی جھگڑے بھی بڑھا دیے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو پہلے اس طرف متوجہ ہونا چاہیے ورنہ تحریک لبیک جیسے گروپ پیدا ہوتے رہیں گے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021