خبر و نظر

پرواز رحمانی

ماہرینِ قانون کی بے چینی
یہ 12؍جنوری 2018ء کی بات ہے۔ سپریم کورٹ کے چار فاضل ججوں نے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس طلب کی تھی جسے بجا طور پر ججوں کی غیر معمولی میڈیا کانفرنس کہا گیا۔ ان ججوں نے اہل ملک کو خبردار کیا تھا کہ عدالتِ عظمیٰ کے امور میں گورنمنٹ کی بے جا مداخلت سے اس کا وقار متاثر ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ خطرات مزید بڑھ بھی سکتے ہیں۔ اس لیے باشندگانِ ملک کو چوکنا رہنا ہوگا۔ یہ چار ججس جسٹس رنجن گوگوئی کے علاوہ تین سبکدوش جج جے ایس چیلا میشور، جسٹس مدن بی لوکُر اور جسٹس کورین جوزف تھے۔ یہ پریس کانفرنس ایسے وقت بلائی گئی تھی جب حکومت کے طرزِ عمل سے عدالت عظمیٰ کے بہت سے جج صاحبان بے چینی محسوس کر رہے تھے۔ اسی دوران جج لویا کی اچانک موت کا واقعہ بھی پیش آگیا تھا۔پریس کانفرنس میں جسٹس رنجن گوگوئی نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ جس صورت حال سے دو چار ہے اس سے باشندگانِ ملک کو باخبر کرنے کے لیے ہم نے یہ پریس کانفرنس طلب کی ہے اور اس طرح اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ دیگر تین ججوں نے بھی اِسی قسم کے احساسات ظاہر کیے تھے کہ اگر یہی صورت رہی تو عدلیہ پر عوام کا اعتماد مجروح ہو جائے گا۔
تازہ صورت حال
اب تازہ صورت حال یہ ہے کہ اُن چار میں سے ایک ریٹائرڈ جسٹس رنجن گوگوئی نے حکومت کی پیش کردہ راجیہ سبھا کی رکنیت قبول کرلی ہے۔ جب کہ انہوں نے گزشتہ بیان میں یہ بھی کہا تھاکہ ججوں کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی سرکاری منصب قبول کرنا غلط ہے۔ اب انہی کی جانب سے راجیہ سبھا کی سیٹ قبول کیے جانے پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے بیشتر موجودہ اور ریٹائرڈ جج صاحبان دم بخودرہ گئے ہیں اور انتہائی ناراضی اور برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ جسٹس کورین جوزف نے کہا ہے ’’میں سخت حیرت زدہ ہوں کہ جسٹس رنجن گوگوئی نے عدلیہ کی آزادی کے زریں اصولوں سے سمجھوتہ کرلیا ہے‘‘۔ بہت سے ججوں نے رنجن گوگوئی کے عمل پر اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں اپنی آراء ظاہر کی ہیں۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ گوگوئی کو ہندتوا کی حامی سرکار نے یہ صلہ اُن چند فیصلوں کے عوض عطا کیا ہے جو انہوں نے چیف جسٹس کی حیثیت سے ایک بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے سنائے تھے۔ ان میں طلاق ثلاثہ، بابری مسجد کی اراضی کو ہندو فریق کے حوالے کرنا اور کیرالا کے سبری مالا مندر سے متعلق امور شامل ہیں۔ بابری مسجد کے مقدمہ میں تو مسلم فریق کے دلائل کی معقولیت تسلیم کرنے اور ان کے موقف کو جا بجا وزن دینے کے باوجود گوگوئی کی بینچ نے فیصلہ مسلمانوں کے خلاف دیا تھا۔
یہ تاریخ پرانی ہے
ملک کی عدلیہ پر بدعنوانی کے سائے ایمرجنسی اور اس کے بعد سے اُس وقت پڑنا شروع ہوگئے تھے جب آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ضابطوں کے برعکس اپنی پسند و ناپسند کو ترجیح دی تھی۔ یہ بھی ہوا کہ کسی چیف جسٹس نے وزیر اعظم کی مرضی کے خلاف جانا چاہا تو اسے برطرفی کی سزا ملی (ایچ آر کھنہ) مگر موجودہ حکومت اور اس کے چیف جسٹس کا یہ اقدام (طرز عمل) ان سب میں غیر معمولی ہے۔حکومت تو اپنی سیاسی بنیاد مضبوط کرنا ہی چاہے گی۔ مگر یہ کام وہ عدلیہ کے تعاون سے کرنا چاہے اور عدلیہ اس کے ساتھ تعاون بھی کرے تو یہ معاملہ انتہائی سنگین ہو جاتا ہے۔ جن ججوں نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے ان کی تشویش کی وجہ یہی ہے۔ وہ اس کے دُور رس نتائج دیکھ رہے ہیں۔ اس لحاظ سے ملکی عوام کے لیے یہ ایک خوش آئند اور اطمینان کی بات ہے کہ اس سلسلے میں ہمارے جج صاحبان، دانشوروں کے کچھ حلقے اور بعض سیاسی مبصرین بیدار ہیں۔ عوام کو ان کے مشوروں اور ہدایات پر توجہ دینی چاہیے۔ جسٹس گوگوئی نے راجیہ سبھا کی ممبری قبول کرنے کا جو مقصد بتایا ہے وہ ان کے موقف کو مزید کمزور اور مخالفین کے موقف کو مزید مضبوط کرتا ہے۔