خبر و نظر

افغانستان اور انڈیا

پرواز رحمانی

 

ہندوستانی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ افغانستان میں قیام امن کے سوال پر روس اور چین کے لیڈروں سے بات کرنے کے لیے ماسکو گئے تھے۔ یہ میٹنگ شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن نے طلب کی تھی۔ اس میٹنگ میں افغانستان کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر مسائل بھی زیر غور آئے۔ افغانستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں حکومت اور انتظامیہ کی سطح پر جلد ہی کوئی بڑی اور ٹھوس تبدیلی ہونے والی ہے۔ اشرف غنی احمد زئی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت کے ساتھ طالبان لیڈروں کا تصفیہ ہوگیا ہے۔ حکومت گرفتار شدہ طالبان کو بڑی تعداد میں رہا کر رہی ہے۔ افغان دستور پر بھی سمجھوتے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں بھارت کا مفاد یہ ہے کہ وہاں بنیادی سہولتوں کی تعمیر اور فراہمی پر اس نے بہت کام کیا ہے۔ ٹھیکوں کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے اور حکومت ہند چاہتی ہے کہ یہ آئندہ بھی جاری رہے خواہ حکومت کسی کی بھی ہو۔ ماضی میں جب اسامہ بن لادن کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے امریکہ نے طالبان کو کچلنے کے لیے افغانستان پر پے در پے حملے کیے تھے تو بھارت کی حکومت بھی امریکہ کے ساتھ تھی۔ لیکن اب حالات بڑی حد تک درست ہیں۔ طالبان نہیں چاہتے کہ نئی افغان حکومت کی تشکیل میں بھارت بہت زیادہ دخل دے۔
ایران اور انڈیا
ماسکو سے واپس ہوتے ہوئے مسٹر راج ناتھ سنگھ 4 ستمبر کو تہران پہنچے اور وہاں اپنے ہم منصب امیر حقانی سے باہم دلچسپی کے امور اور افغانستان سمیت خطے میں قیام امن کے سلسلے میں مذاکرات کیے۔ اس موقع پر ایران نے وزیر دفاع ہند سے یہ بھی کہا کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے آئینی حقوق پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ خبر دیتے ہوئے انگریزی روز نامے ’’ہندو‘‘ نے مذہبی اقلیتوں سے مراد صرف شیعہ برادری لی ہے اور لکھا ہے کہ لکھنؤ میں اہل تشیع کی خاصی آبادی ہے۔ ’ہندو‘ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایران کی یہ بات پروٹوکول کے خلاف ہے۔ لیکن یہ تبصرہ درست معلوم نہیں ہوتا۔ گزشتہ چھ سال کے دوران مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلم اقلیت کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کی خبریں دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشل اور حقوق انسانی کی امریکی ایجنسیوں نے بھی ان کا نوٹس لیا ہے۔ شیعہ حضرات کے حوالے سے ممکن ہے ایران نے اس سال کے محرم کے جلوسوں اور یو پی وغیرہ میں تعزیے دفنانے کی اجازت نہ ملنے کی طرف اشارہ کیا ہو، لیکن بھارت میں مسلم اقلیت کے حالات سے ایران بے خبر نہیں ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کو ایران کی بات کا برا نہیں ماننا چاہیے بلکہ اس کی بات کو دوستانہ انداز میں لینا چاہیے۔
مسلم دنیا اور میڈیا
مسلم دنیا سے بھارتی سفارتی تعلقات بحیثیت عمومی اچھے رہے ہیں۔ آج بھی بیشتر مسلم ملکوں سے روابط خوشگوار ہیں۔ گلف میں بھارت کے خاص اثرات ہیں۔عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے بعد تو ان تعلقات میں بہت جوش پیدا ہوا ہے۔ بھارت کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ عرب ملکوں کے تعلقات بہتر ہو جائیں۔ بعد میں یہ خواہش کوشش میں بدل گئی۔ اب جو دبئی کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات قائم ہو رہے ہیں تو اس میں بھارت کی کوشش بھی شامل ہے۔ لیکن بھارت یہ بھی جانتا ہے کہ ایران کے ساتھ عرب ملکوں کے تعلقات خوشگوار نہیں ہیں بلکہ کشیدہ ہیں۔ اس صورت میں ہمارے وزیر دفاع کا ایران جانا اور خوشگوار ماحول میں مذاکرات کرنا یقیناً خوش آئند ہے۔ بھارت اگر عرب ایران تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرے تو یہ اور بھی اچھا ہوگا۔جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے وہاں طالبان کے دوبارہ زور پکڑنے اور اقتدار میں آنے سے ہمیں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ سبھی جانتے ہیں کہ طالبان دین اسلام سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ وہ افغانستان کو منشیات کی کشید اور فروخت سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ بے حیائی، عورتوں کی بے راہ روی، چوری، قتل و غارت گری، آوارگی و اوباشی جیسی برائیوں کے وہ دشمن ہیں۔ بھارت کو اُن کے اِن کاموں کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس سے پاس پڑوس میں بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

ماسکو سے واپس ہوتے ہوئے مسٹر راج ناتھ سنگھ 4 ستمبر کو تہران پہنچے اور وہاں اپنے ہم منصب امیر حقانی سے باہم دلچسپی کے امور اور افغانستان سمیت خطے میں قیام امن کے سلسلے میں مذاکرات کیے۔ اس موقع پر ایران نے وزیر دفاع ہند سے یہ بھی کہا کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے آئینی حقوق پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ خبر دیتے ہوئے انگریزی روز نامے ’’ہندو‘‘ نے مذہبی اقلیتوں سے مراد صرف شیعہ برادری لی ہے اور لکھا ہے کہ لکھنؤ میں اہل تشیع کی خاصی آبادی ہے۔ ’ہندو‘ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایران کی یہ بات پروٹوکول کے خلاف ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020