خبر و نظر: اسلامی مدارس

پرواز رحمانی

 

مدھیہ پردیش کی ایک خاتون وزیر اوشا ٹھاکر نے اسلامی مدارس کے بارے میں وہ سب کچھ اگل دیا ہے جو ایک غلیظ زہریلے اور ناواقف دماغ میں بھرا رہتا ہے۔ ایک بیان میں کہا ’’اِن اسلامی مدرسوں میں دہشت گرد، شدت پسند اور سماج میں شر پھیلانے والے پلتے ہیں انہیں بند کر دینا چاہیے۔ آسام میں ہم نے بند کرکے دکھا دیا ہے اب مدھیہ پردیش میں بھی بند کرنا ہے‘‘ اس بیان پر نہ وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان یہ کہہ سکتے کہ یہ خاتون وزیر کی اپنی رائے ہے نہ وزیر اعظم یہ کہہ سکتے کہ یہ ریاست کا معاملہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ریاستوں کے وزراء اور دوسرے چھوٹے موٹے لیڈر وزیر اعظم اور چیف منسٹروں کا رخ اور رجحان دیکھ کر ہی یہ زہر اگلتے ہیں۔ جیسا کہ کانگریس کے ایک رہنما افضل نے اوشا ٹھاکر کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ان لوگوں کو اوپر سے ہری جھنڈی دکھائی جاتی ہے‘‘۔ اور یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ: (1) یہ بی جے پی یعنی آر ایس ایس کا خاص ایجنڈا ہے(2) یہ حکمراں پارٹی اور اس کے لوگوں کی مخصوص زبان ہے(3) حکومت کو یہ زہر اگلوانے کی آج خاص ضرورت ہے اس لیے کہ وہ چاروں طرف سے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ آسام کے لیڈروں (آل آسام اسٹوڈنٹس یونین یا آسام گن پریشد) نے اسلامی مدارس کو مسئلہ کبھی نہیں بنایا۔ آج بھی وہاں اصل مسئلہ سی اے اے (سٹی زن شپ امنڈمنٹ ایکٹ) ہے مگر بی جے پی اسے دوسرا رخ دینا چاہتی ہے۔
رد عمل لا حاصل ہے
ان بیانوں اور اُن کی خبروں سے مسلمانوں کو یقیناً تکلیف ہوتی ہے اور بھی ذمہ دار اور نیک شہری ہیں جو اِن مغلظات کو پسند نہیں کرتے لیکن ان پر ردعمل ظاہر کرنا یا ان کے جواب میں کچھ کہنا لاحاصل ہے کیونکہ یہ ان لوگوں کی مجبوری ہے۔ سنگھ نے جس چیز کو اپنا ایجنڈا یا مقصد بنایا ہے، ایسی زبان اس کے حصول کا تقاضا ہے۔ اچھے مقصد کے لیے اس کے حصول کا طریقہ بھی اچھا ہونا چاہیے لیکن سنگھ اِس اصول کو نہیں مانتا۔ ماضی میں گرو چانکیہ نے جب ایک نوجوان کو راجہ بنانے کا عہد کیا تو ابتدا میں اس کے طریقے بھی اچھے تھے لیکن اُن سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا تھا لہٰذا ایک دن عالم طیش میں اس نے اعلان کیا کہ ’’اب ہم بھی وہی طریقے اور ہتھکنڈے استعمال کریں گے جو دوسرے لوگ دنیا بھر میں کرتے ہیں‘‘ اس کے بعد اسے کامیابی پر کامیابی ملنے لگی۔ کچھ یہی حال سنگھ کا بھی ہے۔ ابتدا میں اس کی سیاسی پارٹی جن سنگھ نے اپنی مدر پارٹی کے ایجنڈے کے برعکس سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اختیار کی تھی، پھر بی جے پی نے گاندھیائی سوشلزم کا نعرہ بھی لگایا اور بھی کئی تجربے کیے لیکن ناکام رہی۔ بعدہ پارٹی کے نائب صدر آر کے سلکانی نے وہی اعلان کیا جو کئی صدیوں پہلے چانکیہ نے کیا تھا۔ اس کے لیے پارٹی کے پاس ہندتوا کا ایجنڈا پہلے سے موجود تھا چنانچہ اس نے اچھل کود شروع کر دی۔ رام رتھ یاترا نکالی گئی جس کی بدولت اڈوانی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد پارٹی میں گجرات میں خون خرابہ کرکے دوسری صف کی لیڈر شپ تیار ہو گئی اور اب وہی لیڈر شپ اس کے امور پر قابض ہے۔
اصل ایجنڈے پر بات کیجیے
یوں معلوم ہوا کہ غلط اور منفی طریقے واقعی کام کر جاتے ہیں لیکن یہاں سوال ہے ایجنڈے کا۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کا ایجنڈا تو صحیح اور مثبت ہے لیکن طریقے اس نے منفی اختیار کر رکھے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ پارٹی کا ایجنڈا ہی اول روز سے منفی اور غلط ہے۔ ثبوت کے طور پر اس کا لٹریچر اور نصابی کورس موجود ہے جو پاٹھ شالاؤں سے لے کر یونیورسٹیوں تک پڑھا یا جاتا ہے اور جسے پڑھ کر تین نسلیں تیار ہو چکی ہیں۔ آج آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگ بہت شاداں ہیں کہ انہیں حالات نے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا ہے۔ لیکن کیا یہ ایجنڈا ملک اور یہاں کے باشندوں کی نیّا پار لگا سکتا ہے؟ عوام میں بی جے پی اور اس کے طریق کار کے مخالف متعدد گروپ ہیں۔ مذہبی اقلیتیں، دلت اور پسماندہ حلقے، خواتین کی تنظیمیں، بائیں بازو کی پارٹیاں، کسان و مزدور طبقات، اسٹوڈنٹس یونینیں وغیرہ۔ لیکن پارٹی نے مسلم اقلیت کو بطور خاص ہدف بنایا ہوا ہے اس لیے کہ اس کا فائدہ اسے فی الفور مل جاتا ہے۔ چنانچہ رام مندر، گاؤ کشی، طلاق ثلاثہ، کشمیر، یکساں سول کوڈ اور اسلامی مدارس کے بعد اس نے اب اسلامی مدرسوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ اس کے رد عمل میں الجھنا غلط ہوگا، بہتر یہی ہے کہ ملک کے صاف ذہن دانشوروں، مبصروں، سیاستدانوں اور میڈیا کے اچھے لوگوں کے ساتھ مل کر بی جے پی (آر ایس ایس) کے اصل ایجنڈے پر بحث چھیڑی جائے۔۔

یوں معلوم ہوا کہ غلط اور منفی طریقے واقعی کام کر جاتے ہیں لیکن یہاں سوال ہے ایجنڈے کا۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کا ایجنڈا تو صحیح اور مثبت ہے لیکن طریقے اس نے منفی اختیار کر رکھے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ پارٹی کا ایجنڈا ہی اول روز سے منفی اور غلط ہے۔ ثبوت کے طور پر اس کا لٹریچر اور نصابی کورس موجود ہے جو پاٹھ شالاؤں سے لے کر یونیورسٹیوں تک پڑھا یا جاتا ہے اور جسے پڑھ کر تین نسلیں تیار ہو چکی ہیں۔ آج آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگ بہت شاداں ہیں کہ انہیں حالات نے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020