خبرو نظر

پرواز رحمانی

مدھیہ پردیش میں اچھل کود
مدھیہ پردیش میں گوالیار کے شاہی خاندان کے ایک لیڈر جیوتی رادتیہ سندھیا کا اچانک کانگریس چھوڑ کر بی جے پی کے زیر سایہ چلے جانا کچھ سیاسی حلقوں اور مبصرین کے لیے حیرت کا باعث بنا ہوا ہے لیکن یہ حیرت انگیزی صرف سادہ لوح افرادکے لیے ہے۔ورنہ جو لوگ ہندوستانی سیاست کے اجزائے ترکیبی سے واقف ہیں،ان کے لیے یہ ذرا بھی تعجب کی بات نہیں ۔سندھیا رجواڑہ ابتداہی سے آر ایس ایس اور جن سنگھ کے ساتھ رہا ہے ۔جیوتی را کے باپ مادھورائو سندھیا پہلے آدمی تھے جنہوں نے تقریباً تیس سال قبل بی جے پی چھوڑ کر انڈین نیشنل کانگریس کا دامن تھاما تھا۔بیس سال قبل ایک ہوائی حادثے میں ان کی موت ہو جانے کے بعد جیوتی رادتیہ نے ان کا مقام سنبھالا اور اس کے بعد سے بی جے پی کی شدید مخالفت کررہے تھے۔ابھی کچھ ہی دن پہلے کانگریس کی ایک میٹنگ میں وزیر اعظم اور ان کی حکومت کی پالیسیوں کی شدید تنقید کی تھی۔لیکن گزشتہ سال مئی میں لوک سبھا کے الیکشن میں ہار جانے کے بعد سے سندھیا کچھ بجھے بجھے سے رہتے تھے ۔البتہ تھوڑے ہی عرصے بعد کانگریس مدھیہ پردیش ،راجستھان اور چھتیس گڑھ اسمبلیوں کے انتخاب میں کامیاب ہوئی تو سندھیا کو بھی امید بندھی کہ اب شاید ان کا سیاسی مقدر بھی سنبھل جائے گا۔
کانگریس کی حکمت عملی
لیکن کانگریس کے گھاگھ لیڈر کمل ناتھ وزیر اعلیٰ بن گئے اور ریاستی کانگریس کمیٹی بھی نہ چھوڑی ۔بس یہیں سے جیوترآدتیہ کا دماغ گرم ہونے لگا ۔ادھر بی جے پی جو سندھیا کو کانگریس سے توڑنے میں لگی ہوئی تھی،حرکت میں آگئی ۔اور یوں سندھیا ۱۱؍مارچ کو باقاعدہ بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ہندوستانی سیاست کی روایت کے مطابق وہ حکمراں پارٹی کی قصیدہ خوانی اور کانگریس کی نوحہ خوانی میں لگ گئے ۔لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا یعنی کمل ناتھ کی جگہ سندھیا وزیر اعلیٰ بن جاتے تو کمل ناتھ بھی وہی کرتے جو سندھیا نے کیا،ماضی قریب میں وہ کئی بار اس کے اشارے دے چکے ہیں۔اس لیے کہ مروجہ ہندوستانی سیاست کوئی اصولی اور شریفانہ سیاست نہیں ہے۔موقع پرستی اور مفاد پرستی کی سیاست ہے۔بہت کم لوگ ہیں جو پارٹیوں کی پالیسی اور طریق کار کو سمجھ کر اُن میں شامل ہوتے ہیں۔رائے دہندگان کو بھی پارٹیوں کے انتخاب میں دقت پیش آتی ہے۔فی زمانہ مسلم رائے دہندگان کے لیے بھی یہ الجھا ہوا مسئلہ ہے ۔آزادی کے بعد سے مسلمان ملک گیر سطح پر بالعموم کانگریس کو ووٹ دیتے آرہے ہیں ۔کانگریس ووٹ تو بٹورتی رہی لیکن مسلم اقلیت کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا ۔کچھ کرنے کے نام پر مسلمانوں کو سنگھ سے ڈراتی رہی۔ملکی سطح پر آج بھی صورتِ حال یہی ہے۔
کانگریس کہاں کھڑی ہے؟
مدھیہ پردیش میں ہونے والی تبدیلی سے بہت سے مسلمانوں کو ،مایوسی ہوئی ہوگی،سبب اس کا یہ ہے کہ مسلم رائے دہندگان بی جے پی کو تو پہلے سے دیکھتے آرہے ہیں اب گزشتہ چھ برسوں میں اس کے رنگ ڈھنگ کچھ زیادہ ہی نمایاں ہوگئے ہیں۔ملکی سطح کی کوئی اور پارٹی متبادل کے طور پر موجود نہیں ہے۔کچھ ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں ہیں جو کسی نہ کسی درجے میں ان کے لیے قابلِ قبول ہیں۔دہلی کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عام لوگوں کے سامنے جن میں مسلمان بھی شامل ہیں ،عام آدمی پارٹی کا آپشن تھا۔لیکن بیشتر ریاستوں میں آج بھی کانگریس ہی متبادل ہے۔اور یہ ایک مجبوری ہے۔دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں نے کانگریس کا طرز عمل بھی دیکھ لیا۔ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دور میں اس سلسلے میں جو کچھ ہوا ،پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔آج بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں دوسرے طریقوں سے تو مسلمانوں کو ہراساں کررہی ہیں لیکن ’’مسلم دہشت گردی ‘‘کا ہوا وہ نہیں ہے جو پچھلی کانگریسی حکومت میں تھا۔لیکن اس کے باوجود مسلمان کا نگریس کو بی جے پی کے مقابلے میں چھوٹی برائی گردانتے ہیں۔اس لیے کسی ریاست میں مدھیہ پردیش جیسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس پر تاسف قدرتی ہے۔کانگریس کے لیے اب صرف یہ آپشن ہے کہ بی جے پی سے ڈرنا بند کرے اور صحیح معنی میں غیر جانبدار ی اختیار کرکے عام شہریوں کی خدمت پر کمر باندھ لے ۔