آرکیٹکٹ عبدالرحمن سلیمؔ
’’میرا پیغام تبسم ہے جہاں تک پہنچے‘‘
حشمت سہیل صاحب کو شکاگو میں ادبی دنیا سے تعلق رکھنے والا ہر شخص بخوبی پہچانتا ہے۔ حشمت سہیل کے قلم میں مزاح اور ظرافت دونوں کا امتزاج ہے۔ ان کا وسیع تجربہ لوگو ں کو ان کے اشعار سننے کے بعد بے ساختہ قہقہہ لگانے پر مجبور کردیتا ہے۔ بہ حیثیت مزاحیہ شاعر حشمت صاحب نے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔
میں جب 2010میں امریکہ آیا تو ایک محفل میں سرسری ملاقات ہوئی۔ لکھنو سے تعلق رکھنے والی حشمت سہیل صاحب کی شخصیت نے پہلی نظر میں اپنا تاثر چھوڑدیا۔ پھر اکثر محفلوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔
زندگی کے آٹھویں دہے میں آج بھی جوان نظر آتے ہیں اور جب مزاحیہ شاعری کرتے ہیں تو ان کے دل کے جوان ہونے کی گواہی دینی پڑتی ہے۔ حشمت سہیل بلاشبہ شکاگو کے ادبی شاعروں کے روح رواں ہیں اور ان کا نام مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔
امریکہ آنے سے قبل دبئی میں رہائش اختیار کی۔ پہلی اہلیہ کے انتقال کے بعد کچھ عرصہ مجرد رہے پھر دوسری شادی کی۔
آپ نے مزاحیہ شاعری کے علاوہ نثری یادوں کی کہکشاں کے نام سےاپنے واقعات قلمبند کیے ہیں۔ آپ نے جو کچھ لکھا وہ آپ کی زندگی کے مشاہدات اور آپ بیتی پر مشتمل ہے۔
خواجہ کمالدین صاحب، حشمت سہیل صاحب کی اس تخلیق کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’حشمت سہیل صاحب کی اس تخلیق سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ مصنف کے پاس اپنے دور کے زمانوں کا شعور بدرجہ اتم موجود ہے‘‘۔ ان کا طرز بیان شگفتہ، دلنشین اور سلیس ہے- منظر نگاری میں وہ ایک کامیاب مصور کی طرح ہر کردار کو اجاگر کرنے میں کامیاب بھی ہیں۔
ان کا مزاحیہ شعری مجموعہ ، کرن کرن تبسم، کے نام سے کچھ سال قبل شائع ہوچکا ہے وہ خود اپنے آپ کو پانچواں درویش کہتے ہیں اور ان کا اپنا کہنا یہ ہے کہ
سن لیجیے اک عام سا افسانہ ہستی
کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے
قابل مبارکباد ہے عالمی دبستان ادب شکاگو یو ایس اے کے زیر اہتمام بہ سلسلہ ’شکاگو شناسی ایک منفرد شام‘ شکاگو و امریکہ کے مشہورو معروف منفرد لہجہ کے مزاحیہ شاعر حشمت سہیل کے ساتھ اس محفل کا انعقاد عمل میں آیا۔
میں مبارکباد دیتا ہوں ڈاکٹر مسرور قریشی اور ڈاکٹر افضال الرحمن افسر کو ان اور ان تمام تنظیموں کو جنہوں نے اس محفل کے سجانے میں تعاون کیا ہے۔ اردو کی ان محافل کے انعقاد سے اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ اردو زبان ایک زندہ اور تابندہ حقیقت ہے جو زماں اور مکاں کی بندھنوں سے آزاد ہے۔
آج کی شام اس وجہ سے بھی یادگار ہے کہ ایک عظیم مزاحیہ شاعر کی زندگی میں اس کے اعتراف میں یہ محفل سجئی گئی ہے۔ ورنہ برصغیر میں محفلیں شاعر کی زندگی میں کم اور ان کے اس دنیا سے گزر جانے کے بعد زیادہ سجائی جاتی ہیں۔
ان کے اردو کے ترانہ کے ایک بند پر آج کا یہ مضمون ختم ہوں گا۔
جب نہ ہوگا کوئی بھی اپنی زباں کا آشنا
یہ خزانہ علم و حکمت کا فنا ہوجائے گا
جیسے غالب نے کہا وہ حال ہوگا بزم کا
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا
قول ہے اقبال، تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 7 نومبر تا 13 نومبر 2021