حق آیا اور باطل مٹا ،باطل کو تو مٹنا ہی تھا

افغانستان میں امریکہ ہارچکا اپنی تاریخ کی سب سے طویل جنگ

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

 

اکیسویں صدی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس نے سوا دو سو سال بعد امریکہ کا قومی دن بدل دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے فی الحال گیارہ ستمبر کو چار جولائی سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ قارئین پریشان ہوں گے کہ درمیان میں چار جولائی کہاں سے آ گئی؟ جبکہ گیارہ ستمبر کے بارے میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی بابت تو اتنا کچھ لکھا، پڑھا، بولا، سنا اور وہ سب منسوب کیا جاچکا ہے جس کا اس سے کوئی دور کا واسطہ نہیں ہے۔ پندرہ اگست کی مانند چار جولائی ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں آزادی کا دن ہے۔ 1776کو اسی دن امریکہ نے برطانوی غلامی کا قلادہ اپنی گردن سے نکال کر پھینک دیا تھا۔ اس دن برطانوی نسل پرستانہ، سرمایہ دارانہ اور استحصالی استعمار سے نجات حاصل کر کے ایک آزاد ریاست عالم وجود میں آئی تھی لیکن چونکہ وہ خود بھی انہیں فرسودہ نظریات کی حامل تھی اس لیے پرانی شراب کو ایک نیا پیمانہ میسر آگیا۔ آگے چل کر امریکی سامراج نے برطانوی استعمار کی جگہ لے لی اور ایک ناقابلِ تسخیر طاقت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
گیارہ ستمبر 2001 کو دنیا کے نقشے سے امریکہ کی شناخت سمجھے جانے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاور زمین بوس ہو گئے۔ امریکہ نے اس رسوائی کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان پر فوج کشی کردی اور بیس سال کے بعد سوویت یونین کی مانند اپنے زخموں کو چاٹتے ہوئے لوٹ رہا ہے۔ کاش کہ سوویت یونین کے تباہ کن انجام سے عبرت پکڑ کر وہ اپنے کو روکتا تو آج اس رسوائی سے بچ جاتا۔ امریکی صدر جو بائیڈن افغانستان میں اپنا فوجی مشن 31 اگست تک ختم کر چاہتے ہیں تاکہ اس سال گیارہ ستمبر کی نوعیت بدل جائے اور جو تاریک رات بیس سال قبل شروع ہوئی تھی اس کی صبح کا اعلان کر دیا جائے۔ اس موقع پر بائیڈن نے اعتراف کیا کہ ”ہم افغانستان میں ملک کی تعمیر کرنے نہیں گئے تھے۔ اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا افغان رہنماوں کی ذمہ داری ہے۔ وہ ایک ساتھ مل کر فیصلہ کریں کہ انہیں اپنا ملک کیسے چلانا ہے۔‘‘ کاش کے یہ بات جارج ڈبلیو بش کو بیس سال قبل سمجھ میں آجاتی تو عالم انسانیت اس عظیم تباہ کاری سے بچ جاتی جس کو ایک فرضی رقابت اور انتقام کی آگ نے جنم دیا تھا۔
اس وقت کسے خبر تھی کہ یہ امریکہ کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ثابت ہو گی اور کس کے خواب وخیال میں یہ بات تھی کہ اس میں امریکہ کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑے گا۔ تھک ہار کر اقتدار انہیں لوگوں کو سونپنا پڑے گا جن کو بے دخل کرنے کی خاطر وہ سارے یوروپ کے ہمراہ ناٹو کے پرچم تلے افغانستان میں داخل ہوا تھا۔ اللہ کی مشیت کا یہ عظیم معجزہ ہے کہ طالبان کو دوبارہ اقتدار سے نوازا جارہا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے‘‘ ساری دنیا ماسکو میں طالبان کے اس اعلان پر ایمان لارہی ہے کہ 85 فیصد افغانستان ان کے قبضے میں آچکا ہے۔ ’’کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے‘‘۔ ان لوگوں کے اقتدار کا راستہ ہموار ہو گیا جو کبھی تورہ بورہ کی سنگلاخ پہاڑیوں میں روپوش ہونے پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ اسی کی بابت آگے فرمایا: ’’بھلائی تیرے اختیار میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
گردش ایام کے اس الٹ پھیر کے دوران یہ تلقین بھی کی گئی :’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں، جو کوئی ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ امریکہ اور ناٹو کو جن لوگوں نے اپنا رفیق و دمساز بنایا تھا آج وہ تنہا ہو گئے ہیں۔ ان کے دوست بھاگ کھڑے ہوئے اور اقتدار محض پندرہ فیصد رقبے تک سمٹ گیا ہے اور مزید سمٹتا جارہا ہے، بعید نہیں کہ بہت جلد صفر پر آجائے۔ اس کے ساتھ یہ رعایت ضرور دی گئی تھی کہ: ’’ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ ساری دنیا سے بے خوف ہو کر باطل سے سینہ سپر ہونے والے طالبان کو اللہ تعالیٰ نے عظیم کامیابی وکامرانی سے نواز کر بتا دیا کہ بھلائی اسی کے اختیار میں ہے اور بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
پھولوں کی سیج نظر آنے والی یہ فتح بیس سال قبل کانٹوں کا تاج تھی۔ امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کے مطابق سن 2001 میں شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک 2448 امریکی ہلاک ہو چکے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے علاقوں میں یہ جنگ اب تک دو لاکھ اکتالیس ہزار سے زیادہ انسانی جانیں نگل چکی ہے، جس میں اکہتر ہزار سے زیادہ عام شہری ہیں۔ ان اعداد وشمار کا اگر گیارہ ستمبر کے دن نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے سے موازنہ کیا جائے جس میں مجموعی طور پر 2996 لوگ مارے گئے تو انسانی روح کانپ اٹھتی ہے۔ امریکہ نے اس جارحیت پر دو ٹریلینز سے زیادہ رقم صرف کی ہے اور رائے عامہ کے جائزے گواہی دے رہے کہ بیشتر امریکی افغانستان سے انخلاء کی تائید کرتے ہیں یعنی نہ صرف سرکاری بلکہ عوامی سطح پر اس شکست کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔
سال2001 میں آٹھ اکتوبر کو جب امریکہ نے افغانستان میں فضائی حملے شروع کیے تھے تو طالبان اپنے شہروں سے یکے بعد دیگرے بے دخل ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آخری مضبوط گڑھ قندھار بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ اسلام سے پرخاش رکھنے والے یار دوستوں نے تو طالبان کا فاتحہ پڑھ دیا اور طرح طرح کے لطیفے گھڑنے لگے لیکن کشمکش کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ بیس سال گزر جانے کے بعد بھی امریکہ اور اس کے حلیفوں کی وہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں جن کا خواب دیکھا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ منتشر طالبان پھر سے منظم ہوگئے۔ افغانستان کے مختلف حصوں میں ان کا اثر ورسوخ بڑھے بڑھتے اب پچاسی فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ان بیس سالوں میں امریکی سیاست خوب قلا بازیاں کھاتی رہی۔ اس عرصے میں چار مختلف امریکی صدور اقتدار پر فائز ہوئے۔ ان میں جارج بش اور ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ریپبلکن پارٹی نیز سابق صدر بارک اوباما اور موجودہ صدر جو بائڈن ڈیموکریٹک پارٹی ہیں۔
افغانستان کے حوالے سے ان سب میں عقلمند ترین جارج بش تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے بھانپ لیا کہ افغانیوں کو ہرانا ناممکن ہے اور امریکی عوام شکست خوردہ صدر کو دوبارہ منتخب نہیں کریں گے اس لیے عمومی تباہی کے ہتھیار کا الزام لگا کر اپنے اتحادیوں کی مدد سے عراق کے خلاف جنگ چھیڑ دی تاکہ افغانستان کا معاملہ پس منظر میں چلا جائے۔ صدام حسین جیسے نرم چارہ کو شکست دے کر وہ دوبارہ انتخاب جیت گئے۔ ان کے بعد ڈیموکریٹ صدر بارک اوباما آئے تو امید تھی عقل کے ناخن لیں گے لیکن انہوں نے خلاف توقع فوجیوں کی تعداد بڑھا کر ایک لاکھ سے زیادہ کر دی۔ بارک اوباما جیسے پڑھے لکھے انسان نے دوبارہ منتخب ہونے کی خاطر سب سے زیادہ مضحکہ خیز حرکت کی۔ ان کے ذریعہ اسامہ بن لادن کو موت کے گھاٹ اتارنے کا دعویٰ اگر سچ ہوتا اور مہلوک شخص واقعی اسامہ ہوتے تو ان کی لاش کو سمندر میں غرقاب کرنے کے بجائے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے نمائش گاہ کے اندر شیشے کے تابوت میں رکھا جاتا تاکہ ساری دنیا کو دکھایا جاسکے کہ امریکہ کس طرح انتقام لیتا ہے لیکن اس جھوٹ کر دریا برد کر دیا گیا۔
اوباما کے بعد آنے والے صدر ٹرمپ شروع میں افغانستان سے تمام امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن سیاسی نقصان کے خوف سے بہانے بازی کرتے رہے۔ صدر جو بائڈن نے بالآخر آٹھ جولائی 2021 کو اعلان کر دیا کہ افغانستان میں امریکہ کا مشن اکتیس اگست کو ختم ہو جائے گا۔ اس طرح گویا انہوں نے گیارہ ستمبر 2021 سے پہلے افغانستان سے تمام امریکی فوجوں کی وطن واپسی کا وعدہ نبھا دیا۔ اس موقع پر ان کی شکست خوردگی کا یہ عالم ہے کہ مایوس صدر بائیڈن کہہ رہے ہیں ’’ہم افغانستان میں انخلا کے لیے سازگار حالات پیدا ہونے کی توقع پر اپنی فوجی موجودگی کی مدت یا تعداد بڑھانے کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ میں چوتھا امریکی صدر ہوں جس کے دور میں افغانستان میں امریکی فوجی دستے موجود ہیں۔ میں یہ ذمہ داری پانچویں امریکی صدر کو سونپ کر نہیں جاؤں گا۔ افغانستان میں مزید ایک سال لڑائی اس مسئلے کا حل نہیں۔ اس سے ہم وہاں ہمیشہ کے لیے لڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ”میں ایک مختلف نتیجہ حاصل کرنے کی معقول توقع کے بغیر امریکیوں کی ایک اور نسل کو افغانستان کی جنگ میں نہیں بھیجوں گا۔ آپ مزید کتنے ہزار بیٹوں اور بیٹیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔“ یہ واضح اعترافِ شکست نہیں تو اور کیا ہے؟
ایک زمانے میں طالبان کے خلاف جن لوگوں نے امریکہ پر بھروسا کیا تھا ان کے لیے جو بائیڈن کا پیغام یہ ہے کہ وہ طالبان پر اعتبار نہیں کرتے لیکن انہیں امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کی فوجی صلاحیت پر بھروسا ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے امریکی صدر نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ افغانستان میں طالبان کا مکمل قبضہ ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس قریب پچھتر ہزار جنگجو ہیں جن کا مقابلہ افغانستان سکیورٹی فورسز کے تین لاکھ جوانوں سے ممکن نہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ چار گنا زیادہ امریکی تربیت یافتہ فوج کا قبضہ امریکی موجودگی کے باوجود صرف پندرہ فیصد علاقہ تک کیوں سمٹ گیا؟ اسی کے ساتھ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر وہ تین لاکھ تربیت یافتہ فوج کی حامل افغان حکومت کو طالبان کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کی تلقین کیوں کرتے ہیں۔ قصر ابیض کی پریس سکریٹری جین ساکی کو اب کہنا پڑ رہا ہے چونکہ صدر جو بائیڈن کے نزدیک اس بیس سالہ جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اس لیے امریکہ افغانستان کے تنازعے کو سفارتی گفتگو سے حل کرنے کا حامی ہے۔ اس احساسِ ندامت پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
افغانستان کے حالیہ سیاسی بحران کی ابتدا امریکہ کی فوج کشی سے نہیں ہوئی بلکہ اس فتنہ کی داغ بیل 1978ء میں سوویت یونین کی فوج نے ڈالی تھی۔ 1992ء تک افغانی مجاہدین ان غاصبین سے نبرد آزما رہے اور سوویت یونین کو اس کی تاریخ میں پہلی اور آخری شکست فاش سے دوچار کیا یہاں تک کہ ایک سپر پاور کا نام دنیا کے نقشے سے مٹ گیا۔ یہ ایک ایسا منفرد معرکہ تھا جو سوویت یونین کو اندر سے کھوکھلا کر رہا تھا اور باہر بھی وہ کمزور پڑ رہا تھا۔ اس چودہ سالہ تصادم میں سوویت یونین کی جانب سے جملہ چھ لاکھ بیس ہزار فوجیوں نے حصہ لیا۔ ایک وقت میں ان کی سب سے زیادہ تعداد ایک لاکھ پندرہ ہزار تھی۔ ان کے شانہ بشانہ سوویت نواز افغانی حکومت کے بھی پینسٹھ ہزار فوجی موجود تھے۔ ان کے مقابلے مجاہدین کی تعداد صرف دوتا ڈھائی لاکھ تھی۔ اس جنگ میں چھپن ہزار مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا اور سترہ ہزار زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ 5,775 پاکستانی بھی شہید اور 6,804 زخمی ہوئے تھے۔ سوویت یونین کے جو چھبیس ہزار فوجی ہلاک ہوئے ان میں تین ہزار افسر تھے۔ ان کے ساتھ لڑنے والے اٹھارہ ہزار افغانی فوجیوں نے بھی جانیں گنوائیں۔ جہاں تک شہری ہلاکتوں کا سوال ہے یہ تعداد پانچ لاکھ باسٹھ ہزارسے بیس لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ تیس لاکھ افغانی زخمی ہوئے اور پچاس لاکھ افغانیوں کو ملک سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ ملک کے اندر بیس لاکھ افغانی نقل مکانی کے لیے مجبور کیے گئے ۔
اس زبردست تباہی وبربادی نے اشتراکی ریچھ کو پوری طرح بے نقاب کر دیا تھا لیکن مجاہدینِ اسلام کو دل برداشتہ نہیں کرسکی۔ اس وقت افغانی مجاہدین کو امریکی حمایت حاصل تھی۔آگے چل کر امریکہ اگر افغانستان پر فوج کشی کی غلطی نہیں کرتا تو آج افغانیوں کو اپنا سب سے بڑا دوست پاتا لیکن اپنی حماقت بلکہ شرارت سے اس نے دنیا کی جنگجو ترین قوم کو اپنا سب سے بڑا دشمن بنا لیا۔ سوویت یونین سے آزادی کے بعد ایک مختصر عرصہ خانہ جنگی کی نذر ہوا اور پھر قندھار کے عالم دین ملا عمر نے 1994ء میں پچاس طلبہ کے ساتھ طالبان کو منظم کیا جس نے آگے چل کر امریکی غرور کا سر کچل دیا۔ قرآن حکیم کی پیشن گوئی کہ ’’حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘ کا نظارہ ساری دنیا نے کرلیا۔ امریکہ تو خیر افغانستان سے ہزاروں میل دور ہے اس لیے وہ چلا جائے گا تو اس کی جان چھوٹ جائے گی مگر اب روس فکر مند ہو گیا ہے۔ وہ بیچارہ تو افغانستان کا پڑوسی ہے اور پڑوسی بھی ایسا کہ جس کو ایک زمانے میں افغانستان سے ذلیل ہو کر نکلنا پڑا تھا۔
یہ گردشِ زمانہ کی عجب نیرنگی ہے کہ کسی زمانے میں ماسکو کے فوجی ٹینک کابل آیا کرتے تھے اور اب اسی شہر میں جاکر طالبان کا ایک وفد افغانستان کے پچاسی فیصد علاقے پر اپنے کنٹرول کا دعویٰ کرتا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ روس کو طالبان یہ یقین دہانی کرارہے ہیں کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ ایسا اس لیے کرنا پڑا کیونکہ چند روز قبل طالبان سے ڈر کر سینکڑوں امریکہ سے تربیت یافتہ افغان فوجی سرحد عبور کر کے تاجکستان بھاگ گئے تھے۔ اس وقت روس اور تاجکستان کو خدشات لاحق ہو گئے تھے۔ روس نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ افغان تاجک سرحد کے دو تہائی حصے پر طالبان قابض ہو چکے ہیں۔ ویسے طالبان نے روس کو یقین دلایا کہ وہ داعش جیسی تنظیموں کو افغان سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے اور اپنے ملک سے منشیات کی پیداوار کا بھی خاتمہ کر دیں گے۔ سوچنے والی بات یہ ہے امریکی تسلط کے دوران منشیات کی پیداوار کیوں بڑھتی ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے طالبان کو میدان میں کیوں آنا پڑتا ہے؟
میدانِ جنگ میں اپنی طاقت کا لوہا منوانے کے بعد اب طالبان سفارتی دنیا میں اپنی مہارت کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ افغان حکومت کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں اور طالبان جلد ہی افغان حکومت کو ایک امن معاہدے کی ایسی تحریری تجویز اور حل پیش کرنے والے ہیں، جو ساری دنیا کے لیے بھی قابل قبول ہو۔ اس بابت طالبان میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ ان کا واضح موقف ہے چونکہ افغانستان کے انتظامی مراکز پر حملے کرنے کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے اس لیے مختلف علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرنے لیے وہ آزاد ہیں۔ تاہم صوبائی دارالحکومتوں پر طاقت کے ذریعہ کنٹرول نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح جب یہ قوت کے مراکز چہار جانب سے گھِر جائیں گے تو از خود ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائیں گے اور ممکنہ خون خرابہ ٹل جائے گا۔ یہ حکمت عملی وہ لوگ اختیار کر رہے ہیں جن کو کل تک اجڈ، جاہل اور دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا۔ اس کا موازنہ اگر مغرب ومشرق کی جمہوریت نواز حکومتوں سے کیا جائے جو اپنے ہی عوام پر طاقت بے دریغ استعمال کرتی ہیں تو اسلامی سیاست کا امتیاز اور اس کی اہمیت وضرورت از خود سمجھ میں آجاتی ہے۔اسی حکمت عملی کے تحت بیک وقت دو محاذوں پر پیش رفت جاری ہے۔ اس کا کامیاب مظاہرہ ملک کی دو اہم تجارتی بندرگاہوں کو قبضے میں لے کر کیا گیا ہے۔ ایرانی سرحد کے قریب اسلام قلعہ ملک کی اہم تجارتی بندرگاہ ہے۔ اس کے قبضے میں آجانے سے طالبان کے معاشی مسائل بڑی حد تک حل ہو جائیں گے کیونکہ وہاں سے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں یومیہ تقریباً چار ملین ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔ طالبان کی آمد سے وہاں جاری وساری بد عنوانی پر روک لگے گی اور اس کے نتیجے میں آمدنی میں خاصا اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ شمال میں واقع تورغندی پورٹ بھی اب طالبان کے قبضے میں آگئی ہے۔ یہ ترکمانستان کی سرحد کے قریب ہے۔ تورغندی افغانستان کے لیے اہم ترین تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔ ملک میں گیس، ایندھن اور تیل سمیت کئی مصنوعات کا بڑا حصہ اسی راستے سے درآمد کیا جاتا ہے۔ افغانی مصنوعات کو یورپ سمیت عالمی منڈیوں کی جانب برآمد کرنے کے لیے بھی یہ تجارتی بندرگاہ کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ بغیر کسی مزاحمت کے ان مقامات کا تمام تر انتظام طالبان کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کے ساتھ افغانی مجاہدین کا آخری اور فیصلہ کن معرکہ بگرام فوجی اڈے پر ہوا۔ افغان سر زمین پر واقع امریکی قوت وطاقت کی اس علامت میں افغانی فوجیوں کو بھی بلا اجازت داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ چشمِ فلک نے یہ حیرت انگیز نظارہ بھی دیکھا کہ یکم اور دو جولائی 2021 کی درمیانی شب میں نہایت خاموشی کے ساتھ اسے خالی کر کے امریکی فوجی بھاگ کھڑے ہوئے۔ آزادی اور انسانی حقوق کا دم بھرنے والے امریکیوں نے ایک تو گونتاناموبے میں بدنام زمانہ قید خانہ بنا کر اپنے ماتھے پر کلنک لگایا اور دوسرے بگرام فوجی اڈے کے اندر افغانیوں کو بند کرکے اپنی سفاکیت کا پردہ فاش کیا۔ جارح امریکیوں کے فرار ہوجانے سے وہاں موجود ہزاروں افغانیوں کو قید خانہ سے رہائی نصیب ہوگئی۔ اس طرح ستر مربع کلومیٹر کے علاقہ پر محیط وہ آخری قلعہ بھی فتح ہو گیا جس کو خود کفیل بنانے کے لیے ہوائی پٹی کے علاوہ چھپن میگاواٹ کا بجلی گھر بھی قائم کیا گیا تھا۔ امریکیوں کو سارا ساز وسامان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ اس پر طالبان اور علاقہ کے عوام نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔
بیس سالوں تک شیر دل افغانوں پر ظلم وجور کے پہاڑ توڑنے والوں کا رات کے اندھیرے میں اس طرح ذلیل ورسوا ہو کر نکل بھاگنا اس صدی کا عظیم معجزہ ہے۔ جہادِ افغانستان کو قرآن حکیم کی اس آیت کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ: ’’ اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے، یہ تو زمانہ کے نشیب وفراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔ یہ اس وقت کی کیفیت تھی جب ان پر بے دریغ بمباری ہو رہی تھی۔ ان کو پتھر کے دور میں بھیجنے کے خواب بُنے جا رہے تھے۔ اللہ کی کتاب اس کی بالکل مختلف اور منفرد وجہ یہ بتاتی ہے۔ فرمایا: ’’ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں اور وہ اس آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کر دینا چاہتا تھا‘‘۔ الحمدللہ کہ سر زمین افغانستان پر یہ بشارت پوری ہوا چاہتی ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبال کے کان میں فرشتوں نے شاید یہی خوشخبری سنائی تھی؎
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
***

امریکہ تو خیر افغانستان سے ہزاروں میل دور ہے اس لیے وہ چلا جائے گا تو اس کی جان چھوٹ جائے گی مگر اب روس فکر مند ہو گیا ہے، وہ بیچارہ تو افغانستان کا پڑوسی ہے اور ایسا پڑوسی کہ جس کو ایک زمانے میں افغانستان سے ذلیل ہو کر نکلنا پڑا تھا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 جولائی 2021