حج 2020کو محدود کردینے سے اقطاع عالم کے مسلمان افسردہ

کیاحج کمیٹی آف انڈیا پراسیسنگ فیس کے مد میں جمع رقم اور دیگر آمدنی عازمین کو لوٹائے گی؟

افروز عالم ساحل، دلی

تمام صاحب استطاعت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ حج اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز، زکوٰة اور روزہ فرض ہے اسی لیے ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں کم سے کم ایک بار حج ضرور کرے۔ لیکن اس بار ’کووڈ۔19‘ کی عالمی وبا نےساری دنیا کے مسلمانوں کو جو حج پر جانے کا ارادہ کرچکے تھے افسردہ کردیا ہے کیونکہ حکومت سعودی عرب نے بیرونی ممالک کے عازمین کو ویزے نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا 1932ء کے بعد پہلی بار ہورہا ہے۔

سعودی وزارت حج نے امسال اپنی حج پالیسی برائے 2020ءجاری کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ فریضہ حج انتہائی محدود اور سخت احتیاطی تدابیر کے ساتھ 30فیصد سعودی باشندوں اور ملک میں رہنے والے 70فیصد غیر ملکی افراد کے ساتھ ادا کیا جائے گا۔ یعنی اس سال سعودی عرب ، حج ویزےجاری نہیں کرے گا اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے صرف وہ لوگ ہی حج ادا کرسکیں گے جو سعودی عرب میں پہلے سے مقیم ہیں۔

جب یہ طے ہوگیا کہ اس بار سعودی عرب کے علاوہ دیگر ممالک کے لوگ حج کے لیے نہیں جا سکیں گے، تب 23جون کو اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے میڈیا کے لیے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ کورونا وائرس وبا کے سبب سال 2020ء میں ہندوستانی عازمین کو سفر حج پر نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے صحافیوں سے یہ بھی کہا کہ ’’حکومت سعودی عرب کے وزیر حج ڈاکٹر محمد صالح بن طاہر نے فون پر پوری دنیا میں کورونا وبا کے تعلق سے تبادلہ خیال کیا اور حج 2020ء کے لیے اس بار ہندوستانیوں کو سفرِ حج پر نہ بھیجنے کا مشورہ دیا ہے۔ سعودی عرب کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس بار ہندوستانی عازمین کو سفر حج پر نہیں بھیجا جائے گا۔ اس برس حج پر جانے کے لیے منتخب سبھی دو لاکھ 13ہزار عازمین حج کے پیسے واپس کر دیے جائیں گے‘‘۔یہ الگ بات ہے کہ سعودی حکام نے 13مارچ کو ہی ایک خط کے ذریعے حج 2020ءکی تیاریوں کو عارضی طور پر روکنے کا اظہار کردیا تھا۔ لیکن تقریباً تین مہینے بعد حج کمیٹی آف انڈیا نے5 جون کو ایک سرکولر کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ جو لوگ حج پر نہیں جانا چاہتے ہیں وہ اپنی رقومات واپس لے سکتے ہیں۔ اس سرکولر میں بھی عازمین کو 100فیصد رقم کی واپسی کی پیش کش کی گئی ہے۔ اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے یہ اعلان 23 جون کو کیا تھا۔

واضح رہے کہ امسال سفر حج پر جانے کے لیے کل دو لاکھ 13 ہزار لوگوں نے درخواستیں دی تھیں جن میں سے قرعہ اندازی کے ذریعے 1.25لاکھ لوگوں کو حج پر جانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا، انہی 1.25لاکھ لوگوں سے حج کمیٹی آف انڈیا نے دو قسطوں میں پیسے لیے تھے جسے وہ اب واپس لوٹائے گی۔ مہاراشٹر کے کچھ حصوں میں یہ رقم لوٹا دی گئی ہےاور دیگر ریاستوں کے لوگ بھی اپنی رقم لوٹائے جانے کا انتظار کررہے ہیں۔

زیادہ ترعازمین اس خبر کے بعد افسردہ ہیں کہ وہ اس بار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہو پائیں گے تاہم یہ بات قدرے اطمینان بخش ہے کہ ان کی رقم حج کمیٹی آف انڈیا واپس لوٹا دے گی جو وبا کے پیداکردہ مشکل حالات میں کام آئے گی۔ تاہم کچھ لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا جارہا ہے کہ حج کمیٹی پیسے لوٹانے کے بجائے اسے اپنے پاس ہی رکھے اور اگلے سال ان ہی منتخب عازمین کو حج کے لیے بھیجے۔ بہار حج کمیٹی کے ایگزیکٹو آفیسر راشد حسین نے تو باضابطہ طور پر حج کمیٹی آف انڈیا سے درخواست کی ہے کہ جن لوگوں نے 2020ء میں حج کے لیےاندراج کروایا لیکن وہ امسال حج کے محدود کردیے جانے کی وجہ سے نہیں جا پا رہے ہیں،انہی کو 2021ء میں حج کے لیے بھیجا جائے۔ جھارکھنڈ کے کچھ عازمین نے اپنے پیسے واپس لینے سے انکار کردیا ہے تاکہ اگلے سال انہی کو حج کے لیے بھیجا جائے۔

حج کمیٹی آف انڈیا کے مطابق بہت سے عازمین کی یہ خواہش تھی کہ اس سال جب حج کا امکان نہیں ہے تو آئندہ سال کے لیے انہی کو منتخب کرلیا جائے اور حج کمیٹی بھی اس کی حامی تھی لیکن چونکہ یہ پالیسی کا مسئلہ ہے اس لیے اس سلسلے میں فوری طور 6کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ آنے والے سال میں ہی اس پر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

حج کمیٹی آف انڈیا کی کروڑوں کی کمائی

آپ کو یہ جان کر بےحد حیرانی ہوگی کہ آپ کے حج پر نہ جانے کے باوجود حج کمیٹی آف انڈیا کو کروڑوں روپیوں کی کمائی ہوگئی ہے جبکہ بنکوں سے حاصل ہونے والا سود اس کے علاوہ ہے۔

حج پر جانے کی شروعات فارم بھرنے سے ہوتی ہے۔ ہر سال جب حج کے لیے فارمس جاری کیے جاتے ہیں تو اشتہار میں کہا جاتا ہے کہ درخواست کے لیے فارم مفت ہے لیکن ہم نے اپنی تحقیقات میں پایا کہ درخواست فارم مفت نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ہر فارم پر تین سو روپے بطور فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ حج کمیٹی آف انڈیا کے مطابق یہ تین سو روپےپروسیسنگ فیس ہوتی ہےجو فارم داخل کرنے والے ہر شخص سے لی جاتی ہےاور یہ پروسیسنگ فیس قرعہ اندازی میں منتخب نہ ہونے والے عازمین کو واپس نہیں کی جاتی۔

حج کمیٹی آف انڈیا کے سی ای او ڈاکٹر مقصود احمد خان نے گزشتہ سال نمائندہ دعوت کو بتایا تھا کہ حج اعلامیہ کا اشتہار تمام اخبارات میں شائع کروانا ہوتا ہے جس کے اخراجات عازمین حج کی رقم سے ہی پورے کیے جاتے ہیں، حج کمیٹی کو کہیں سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ اس سوال پر کہ کیا مرکزی حکومت سے پیسہ نہیں ملتا؟ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ وہاں سے ایک پیسہ بھی نہیں ملتا بلکہ وزیر و سرکاری حکام کےتمام میٹنگوں کے اخراجات بھی حج کمیٹی آف انڈیا ہی اٹھاتی ہے۔

اب اگر سرکاری اعداد و شمار کی بات کریں تو اس سال حج پر جانے کے لیے صرف دو لاکھ 13ہزار لوگوں نے فارم بھرا ہے جبکہ گزشتہ سال 3,56,950 درخواستیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس سے قبل سال 2018ء میں حج پر جانے کی خواہش رکھنے والوں کی 4,48,266 درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ یعنی امسال حج پر جانے کے لیے فارم بھرنے والوں کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے اور درخواستوں میں کمی کی اصل وجہ حج کی نئی پالیسی ہے۔ پہلے جو لوگ چار یا پانچ سال سے متواتر فارم بھرتے تھے وہ قرعہ اندازی کے بغیر ہی منتخب قراردیے جاتے تھے لیکن گزشتہ سال نئی حج پالیسی میں اسے ختم کردیا گیا۔نیز حج پر آنے والے مصارف میں اضافہ اور سہولتوں میں کمی بھی حج درخواستوں میں کمی کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس کمی کا اثر پروسیسنگ فیس سے حج کمیٹی آف انڈیا کو حاصل ہونے والی آمدنی پر بھی پڑا ہےاور اسے امسال محض 6.39 کروڑ روپے ہی حاصل ہوسکے جو گزشتہ سالوں کے مقابلے کافی کم ہے۔ گزشتہ سال پروسیسنگ فیس سے حج کمیٹی کو 10کروڑ 7لاکھ 85ہزار روپیوں کی آمدنی ہوئی تھی۔آپ کو یہ جان کر شاید حیرانی ہوگی کہ پروسیسنگ کے نام پر یہ فیس صرف ایک بار نہیں لی جاتی بلکہ قرعہ میں نام آنے کے بعد پھر سے پروسیسنگ فیس لی جاتی ہے اور اس بار پروسیسنگ فیس کی یہ رقم 1000 روپے ہوتی ہے۔

حج کمیٹی آف انڈیا کے مطابق جن کا نام قرعہ میں آ جاتا ہے ان سبھی لوگوں کو حج کمیٹی کو 81ہزار روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ یہ رقم اس سال فروری کے دوسرے ہفتہ تک جمع کرا لی گئی تھا۔ ان 81ہزار روپیوں میں سے 80ہزار روپے پیشگی حج کی رقم ہوتی ہے اور 1000روپے پھر سے پروسیسنگ فیس ہوتی ہے۔

حج کمیٹی آف انڈیا کے رہنما خطوط کے مطابق حج کمیٹی اسے دیگر اخراجات کے لیے لیتی ہے۔ اس رقم میں سے 400روپے دفتر کے اخراجات کےلیے لی جاتی ہےاور باقی رقم میں سے 100روپے حج کے تربیتی پروگرام منعقد کرنے لیے صوبوں کی حج کمیٹیوں کو اور 150روپے صوبوں کے حج ہاؤس کے اخراجات کی بابت دیے جاتے ہیں نیز 200روپے امبارکیشن پوائنٹ پر معاون انتظامات کرنے والی ریاستی حج کمیٹی کو معاوضہ اور پھر حج ہاؤسوں کے لیے عطیہ کے طور پر 150روپے دیے جاتے ہیں۔ اس طرح سے 600روپیے ریاستی حج کمیٹیوں کے حصے میں جاتے ہیں۔ ماباقی 400روپیوں کا استعمال حج کمیٹی آف انڈیا پورے سال اپنے آفس کے اخراجات کی پابجائی کے لیے کرتی ہے۔ غورطلب ہے کہ 2011ء تک پروسیسنگ کے نام پر یہ فیس 700روپے تھی، جسے 2012ء میں بڑھا کر 1000روپے کر دیا گیا ہے۔ ممبئی میں مقیم حج ہاؤس میں کام کرنے والے ہر افسر و اسٹاف کی تنخواہ حج کمیٹی آف انڈیا ہی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ سی ای او کی تنخواہ بھی عازمین حج سے حاصل کی ہوئی فیس سے ہی ادا کی جاتی ہے ۔اس سارے عمل میں مرکزی یا ریاستی حکومت کچھ نہیں کرتی صرف حج کمیٹی کو ’ریگولیٹ‘ کرتی ہے۔

وزرات اقلیتی امور سے محصلہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اس سال ہندوستان سے کل 1,25,025لوگ حج کمیٹی آف انڈیا کے ذریعے حج پر جانے والے تھے جو اب نہیں جاسکیں گے۔ وہیں حج کمیٹی آف انڈیا کے مطابق اس بار تقریباً ایک لاکھ 23ہزار لوگوں نے رقم جمع کروائی تھی۔

اس طرح پھر سے پروسیسنگ فیس کے نام پر12.30 کروڑ روپے آگئے۔ یعنی پروسیسنگ فیس کے نام پر ہی 18.69 کروڑ روپے ماہ فروری کے دوسرے ہفتہ تک حج کمیٹی کے پاس جمع ہو گئے تھے اور گزشتہ سال قریب 22 کروڑ روپے جمع ہوئے تھے۔ حالانکہ امید ہے کہ یہ رقم اس بار حج کمیٹی آف انڈیا لوٹا دے گی۔ اس کے باوجود حج کمیٹی آف انڈیا کےپاس 6.39کروڑ روپے رہیں گے یہ وہ رقم ہے جو درخواست گزاروں نے پروسسنگ فیس کے نام پر فارم جمع کرواتے وقت دیے تھے۔

اب کہانی تھوڑا آگے بڑھاتے ہیں۔ حج کمیٹی آف انڈیا کے مطابق اس بار قریب ایک لاکھ۲۳؍ہزار لوگوں نے ماہ فروری کے ابتدا میں پہلی قسط کے طور پر 81ہزار روپے جمع کروائے تھے۔ جب ہم اس81ہزار روپیوں کا حساب کتاب لگاتے ہیں تو پاتے ہیں کہ حج کمیٹی آف انڈیا کے پاس ماہ فروری کے دوسرے ہفتہ تک قریب 10ارب روپے آگئے تھے۔ اس رقم کو یقیناً حج کمیٹی آف انڈیا بینک میں ڈپازٹ کرتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والے سود سے بھی فائدہ اٹھاتی ہے۔

یہی کہانی دوسری قسط کی بھی ہے۔ 15مارچ تک عازمین حج سے 1.20 لاکھ روپے جمع کرانے کو کہا گیا، جسے زیادہ تر عازمین نے جمع کرادیا۔ اب حج کمیٹی آف انڈیا کے پاس 15مارچ تک قریب 14 ارب روپے مزید جمع ہو گئے۔ اس طرح عازمین حج کا قریب 24 کروڑ روپیہ گزشتہ چار پانچ مہینوں سے بینک میں پڑا ہوا ہے۔ اب اس رقم سے انہیں کتنا فائدہ ملتا ہوگا، اس کے کوئی اعداد وشمار فی الحال راقم الحروف کے پاس نہیں ہیں، لیکن آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر یہ پیسہ پانچ مہینوں تک بینک میں رہا ہے تو کتنا سود بنا ہوگا؟

اس سود کی رقم کے بارے میں گزشتہ سال جنوری 2019ء میں تلنگانہ اسٹیٹ حج کمیٹی نے حج کمیٹی آف انڈیا کے سی ای او کو خط لکھ کر کہا تھا کہ بینک سے حاصل ہونے والے سود کو حاجیوں کی تعداد کے تناسب سے ریاستی حج کمیٹیوں میں تقسیم کر دینا چاہیے۔ تاہم اس بارے میں حج کمیٹی آف انڈیا نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

تلنگانہ اسٹیٹ حج کمیٹی کے صدر نشین مسیح اللہ خان نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ میں نے اس بارے میں ایک خط گزشتہ سال لکھا تھا اور ان سے گزارش کی تھی کہ روانگی سے ایک ماہ قبل دوسری اور تیسری قسطیں جمع کرائی جائیں۔ ساتھ ہی کہا تھا کہ بینک سے حاصل ہونے والے سود کو بھی تمام اسٹیٹ حج کمیٹیوں میں تقسیم کیا جائے۔ مسیح اللہ خان کا الزام ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا ملک کی تمام اسٹیٹ حج کمیٹیوں کو بطور پوسٹ مین استعمال کررہی ہے حد تو یہ ہے کہ میری کئی بار یاد دہانی کے باوجود اب تک ویب سائٹ پر حج و عمرے کے ارکان تک نہیں ڈالے گئے ہے۔

حق اطلاعات ایکٹ کی بدولت حاصل ہونے والی دستاویز بتاتی ہیں کہ حج کمیٹی کو سال 15-2014ء میں 46.22 کروڑ روپے بینک سے بطور سود ملا تھا۔ اب اس رقم میں سود کا مسلسل اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سال 2017ء میں سود کی یہ رقم بڑھ کر 60 کروڑ روپیوں تک پہونچ چکی تھی۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ سال 11-2010ء سے 15-2014ء تک سود کی رقم ایک ارب 20 کروڑ روپے رہی تھی۔

یہی نہیں، حق اطلاعات ایکٹ سے ملنے والی اہم دستاویز یہ بھی بتاتی ہیں کہ 31 مارچ 2017ء تک حج کمیٹی آف انڈیا کی کل 825.5 کروڑ روپیوں کی رقم بینک میں فکس ڈپازٹ کے تحت جمع ہے۔ ان میں سے 522.5کروڑ روپے یونین بینک آف انڈیا میں، 283کروڑ کینرا بینک میں اور 20کروڑ اورینٹل بینک آف کامرس میں بطور فکس ڈپازٹ جمع ہے۔ یہ تمام پیسہ خالص مسلمانوں کا ہے جسے حج کمیٹی آف انڈیا نے ہندوستانی مسلمانوں سے حج کے انتظام کے نام پر حاصل کیا ہے یا یوں کہیے کہ کمایا ہے۔

سرکاری اداروں کو اربوں روپیوں کا نقصان

سعودی عرب کی جانب سے حج کے محدود کردیے جانے کی وجہ سے حکومت ہند کے کئی اداروں کو بھاری نقصان ہوا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ نقصان وزارت شہری ہوابازی اور ایئر پورٹ اتھارٹی آف انڈیا کو ہوا ہے۔

2018 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2018میں عازمین حج سے اکیلے ایئر پورٹ اتھارٹی آف انڈیا نے قریب 2.06 ارب روپے جی ایس ٹی اور ٹیکس و چارج کی شکل میں لیے تھے۔ یہ کمائی انہیں 20 طیران گاہوں کے ذریعہ ہوئی تھی۔ یہ رقم ایئر پورٹ ڈیولپمنٹ چارج کے طور پر لی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ کچھ مسلمان اس جی ایس ٹی کے مسئلے پر سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹا چکے ہیں لیکن ابھی اس معاملے میں فیصلہ آنا باقی ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال حاجیوں کا سب سے اہم خرچ ایئرفیئر ہوتا ہے، جس سے وزارت شہری ہوابازی کی اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے لیکن افسوس اس بار ان دونوں کی کمائی نہیں ہو سکی ہے۔

وزیر اقلیتی امور کے مطابق، عازمین حج کو لے جانے کا انتظام کرنے کی ذمہ داری حکومت ہند کی وزارت سیول ایوی ایشن کی ہوتی ہے۔ یہی وزارت ہر سال ٹینڈر نکالتی ہے اور طے کرتی ہے کہ حاجیوں کو کیسے اور کس جہاز سے بھیجنا ہے۔ لیکن اس بار یہ کام نہیں ہو سکا ہے۔

مسلمانوں کے پیسوں سے بنے ملک بھر کے حج ہاؤس

کہنے کو حج کمیٹی آف انڈیا ایک قانونی ادارہ ہے، جسے پارلیمان میں قانون بنا کر قائم کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسے دیگر قانونی اداروں کی طرح حکومت ہند سے ایک پیسے کا بھی فنڈ، ایڈ یا گرانٹ نہیں ملتی ہے۔ اس کا سارا خرچ ہندوستان کے ان مسلمانوں کی جیب سے نکالا جاتا ہے جو حج کے لیے ہر سال مکہ جاتے ہیں۔ یہی نہیں، ملک بھر کے حج ہاؤس بھی مسلمانوں کے پیسوں سے کھڑے ہیں۔ حج کمیٹی آف انڈیا بھی حاجیوں کے پیسوں سے ہی چلتا ہے۔

حج کمیٹی آف انڈیا کےایک افسر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حج کمیٹی آف انڈیا پوری طرح سے حج کے دوران مسلمانوں کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی سے چلتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ممبئی میں کمیٹی اپنا حج ہاؤس کا ہال کرایہ پر اٹھاتی ہے۔ شادی کے لیے اس ہال کا کرایہ 50 تا 60 ہزار روپے لیا جاتا ہے تو وہیں دیگر مذہبی و سماجی پروگراموں کے لیےاس رقم میں ڈسکاونٹ کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں، بینک میں جمع شدہ رقم سے ہر سال کروڑوں روپیوں کی کمائی ہوتی ہے۔ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ممبئی کا حج ہاؤس یا پھر تمام ریاستوں کے حج ہاؤس کس کی ملکیت ہیں؟ تو معلوم ہو کہ حج ایکٹ اور حج رول 2002ء میں حج ہاوس کی عمارت سے متعلق کوئی تذکرہ نہیں ہے بلکہ کوئی اشارہ بھی نہیں ہے لیکن حق اطلاعات ایکٹ کے ذریعہ حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ممبئی کے حج ہاؤس کو حج کمیٹی آف انڈیا کی ملکیت قرار دیا گیا ہے اب چونکہ حج کمیٹی آف انڈیا قانونی اعتبار سے ایک سرکاری ادارہ ہے اس طرح سے ملک کے تمام حج ہاؤسوں کی عمارتیں سرکاری ہو جاتی ہی جبکہ یہ عمارتیں سرکاری فنڈ سے نہیں بلکہ مسلمانوں کی اپنی رقم سے وجود میں آئی ہیں۔ حج کمیٹی آف انڈیا کے ایک افسر بتاتے ہیں کہ زیادہ تر ریاستوں میں حج ہاؤس، حج کمیٹی آف انڈیا کے فنڈ سے ہی بنے ہیں۔ ہاں! کچھ ریاستوں میں وہاں کی حکومتوں نے تھوڑی بہت مدد ضرور کی ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ دنوں تنازعہ میں رہے غازی آباد حج ہاوس کی بلڈنگ کی تعمیر میں بھی حج کمیٹی آف انڈیا نے اچھی خاصی رقمی مدد کی تھی۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کے ممبئی حج بھون کی تعمیر میں بھی حکومت کا کوئی رول نہیں رہا ہے۔

کہنے کو حج کمیٹی آف انڈیا ایک قانونی ادارہ ہے، جسے پارلیمان میں قانون بنا کر قائم کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسے دیگر قانونی اداروں کی طرح حکومت ہند سے ایک پیسے کا بھی فنڈ، ایڈ یا گرانٹ نہیں ملتی ہے۔ اس کا سارا خرچ ہندوستان کے ان مسلمانوں کی جیب سے نکالا جاتا ہے جو حج کے لیے ہر سال مکہ جاتے ہیں۔ یہی نہیں، ملک بھر کے حج ہاؤس بھی مسلمانوں کے پیسوں سے کھڑے ہیں۔ حج کمیٹی آف انڈیا بھی حاجیوں کے پیسوں سے ہی چلتا ہے۔

آرٹی آئی سے ملنے والی اہم دستاویزوں کے مطابق، ممبئی حج ہاؤس بلڈنگ کی تعمیر کا کام 7مارچ 1983ء سے شروع ہوا اور اس کے تعمیر میں حکومت ہند سے کسی بھی طرح کی کوئی مدد یا قرض نہیں لیا گیا۔ اس کی تعمیر پر ہونے والے تمام خرچ کو حج کمیٹی آف انڈیا نے ہی پوا کیا ہے۔ اس حج ہاؤس کی بلڈنگ میں 102 کمرے اور ایک اے سی ہال ہے۔ حج کمیٹی کے اس ہال کا کرایہ کم از کم 25 ہزار روپے فی پروگرام ہے۔ شادی کے لیے اس کا کرایہ 50 ہزار سے زیادہ ہوتا ہے۔

یعنی حج کمیٹی آف انڈیا کی تمام جائداد و بینک بیلینس حاجیوں کی ملکیت ہے، جنہوں نے اپنی حلال کمائی کے چندے سے یہ عمارت کھڑی کی ہے۔ ان کے بعد ان کی نسلیں اس حج ہاوس اور دیگر جائیدادوں کی مالک ہوں گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مالک کو ہی اپنی جائز پراپرٹی سے کسی بھی قسم کا فائدہ نہ ملے تو ایسی جائیداد کس کام کی؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلک و فرقہ کے دانشور مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر کوئی کمیٹی یا ٹرسٹ بنا کر حکومت سے اپیل کریں کہ ہم نے آپ کا بہترین ساتھ دیا ہے اور اب وعدہ وفائی کا وقت آچکا ہے۔ جو ہماری چیز ہے وہ بغیر کسی سیاست کے ہمیں سونپ دیں۔ اس طرح سے مسلمان حج ہاؤسوں کی شاندار عمارتوں کو اپنے زیر انتظام لے کر مسلمانوں کی ترقی اور فلاح وبہبود کے کاموں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا پہلے وزرات خارجہ کے تحت تھی لیکن اب وزرات اقلیتی امور کے تحت ہے۔ حج کمیٹی آف انڈیا کے مطابق یہ کمیٹی کسی معاوضہ یا منافع کی توقع کے بغیر حجاج کرام کے لیے کام کرتی ہے۔ اس لیے حج کمیٹی آف انڈیا صارفین تحفظ ایکٹ 2019ء کی زد میں نہیں آتی ہے۔ عازمین حج نوٹ فرمالیں کہ وہ فراہم کی جانے والی خدمات میں کمی یا کسی بھول کی وجہ سے حج کمیٹی کے اختیارات سے باہر حج کمیٹی سے صارفین تحفظ ایکٹ یا کسی اور قانون کے تحت کوئی حرجانہ طلب نہیں کر سکتے۔ کوئی تنازعہ پیدا ہو جانے کی صورت عدالتی کارروائی کا حق صرف ممبئی عظمیٰ کی عدالتوں کو ہی ہوگا۔

کیسا ہوگا اس بار کا حج؟

سعودی حکومت کی رہنمایانہ ہدایات کے مطابق اس بار عازمین حج مکہ میں خانہ کعبہ کو نہیں چھو پائیں گے اور نہ ہی حجر اسود کو بوسہ دے پائیں گے۔ انہیں سماجی فاصلے اور یہاں تک کہ سخت گرمی میں پیاس بجھانے کے لیے بھی حکومتی احکامات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ عازمین اپنے ساتھ انفرادی طور پر پینے کا پانی اور زم زم رکھ سکتے ہیں تاہم بشمول خانہ کعبہ تمام مقدس مقامات سے ٹھنڈے پانے کے کنٹینرز، کولر ہٹا دیے جائیں گے اور ان کا استعمال نہیں ہو گا۔
کعبہ اور حجر اسود کو کوئی چھو نہ سکے اسے یقینی بنانے کے لیے ان کے گرد خصوصی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی اس کے علاوہ نگران اہلکار بھی موجود ہوں گے۔ اگرچہ ان مقامات پر سکیورٹی اہلکار عام طور پر بھی موجود ہوتے ہیں۔
منیٰ میں رمی یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے کے لیے بھی اب حاجیوں کو پیکٹ میں کنکریاں دی جائیں گی اور اس کے لیے ان پر پہلے جراثیم کش اسپرے ہوگا۔ اس سے پہلے حجاج اسی مقام سے کنکریاں اکھٹی کر کے رمی کیا کرتے تھے۔
اگر حج کے دوران کسی میں کورونا وائرس کی علامات پائی گئیں تو ڈاکٹر کی جانب سے معائنہ
کیے جانے کے بعد ہی حج کے دیگر ارکان ادا کرنے کی اجازت دی جائے گی اور انہیں اپنے ساتھی عازمین کے ساتھ ہی رہنا ہو گا۔
اسی طرح صورتحال کو دیکھتے ہوئے حجاج کے لیے الگ رہائشی عمارتوں یا گھروں میں رکھا جائے گا۔ ان کے لیے گاڑی اور مناسب راستے کا انتظام کیا جائے۔
کسی بھی شخص میں نزلہ، تیز بخار، کھانسی، زکام، گلے میں خراش یا سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت میں کمی پیدا ہونے کی صورت میں انہیں حج میں شرکت کرنے سے روک دیا جائے گا۔ جب تک ان میں یہ علامات ختم نہ ہو جائیں اور ڈاکٹر ان کے صحت یاب ہونے کی رپورٹ نہ دے، یہ حکم نافذ رہے گا۔
حج اور عمرہ کرنے والے مرد اور عورت کے لیے چہرے کا کھلا ہونا لازم ہے۔ تاہم اب کورونا کی وبا کی روک تھام کے لیے طبّی طور پر چہرے پر ماسک پہننا لازم ہو گا۔
اگرچہ مسجد الحرام میں فی الحال نماز کی ادائیگی جاری ہے تاہم 19جولائی سے دو اگست (28ذوالقعدہ سے 12 ذوالحج) تک منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں کوئی بھی شخص حج کا اجازت نامہ دکھائے بغیر داخل نہیں ہو سکے گا۔
سعودی وزارتِ حج کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ حجاج 70 فیصد غیر سعودی اور 30 فیصد سعودی شہریوں پر مشتمل ہوں گے۔
وزارت نے واضح کیا کہ وہ طبیّ طور پر فٹ غیر سعودی باشندوں کو ترجیح دے گی۔
لیکن رواں برس کتنے افراد حج ادا کر سکیں گے اور ان کی حتمی تعداد کیا ہوگی، یہ تاحال واضح نہیں۔
الجزیرہ کے مطابق گزشتہ دنوں ایک ورچول کانفرنس کے دوران وزیر برائے حج و عمرہ محمد بنتن نے کہا کہ حکومت ابھی جائزہ لے رہی ہے کہ کتنی تعداد میں عازمین کو حج کی اجازت دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تعداد ’ایک ہزار کے قریب ہو سکتی ہے یا اس سے کچھ کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔‘ تاہم انہوں نے یہ ضرور واضح کیا کہ یہ تعداد دسیوں ہزار نہیں ہو سکتی۔
اس حج کے شرائط کیا ہیں؟
جن کا پی سی آر ٹیسٹ منفی آیا ہو اور وہ کورونا کا شکار نہ ہوں۔
جو غیر ملکی پہلی بارحج کر رہے ہوں۔ اور ان کی عمریں 20سال سے 50سال کے درمیان ہوں۔
منتخب ہونے والوں کے لیے شرط ہوگی کہ وہ حج سے پہلے اور اس کے بعد وزارت صحت کی طرف سے طے شدہ قرنطینے کی مدت کی پابندی پوری کریں۔
تحریری بیان میں بتایا گیا کہ سعودی عازمین حج کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں اور سکیورٹی اہلکاروں کا انتخاب احتیاط سے کیا جائے گا۔
بتایا گیا ہے کہ حج کی اجازت پانے والے سعودی عازمین حج کو طبیّ کارکنوں اور سکیورٹی اہلکاروں میں سے احتیاط سے منتخب کیا جائے گا جو کورونا وائرس سے مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں۔ اور ان عازمین کا انتخاب کووڈ 19 سے بحالی کے ڈیٹا بیس سے کیا جائے گا۔

 

حج کب کب منسوخ ہوا

تاریخ میں پہلی مرتبہ حج 629 عیسوی (چھ ہجری) کو پیغمبرِ اسلام کی قیادت میں ادا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ فریضہ ہر سال ادا ہوتا رہا۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ میں تقریباً 40 مواقع ایسے آئے جن میں حج ادا نہ ہو سکا اور کئی بار خانہ کعبہ حاجیوں کے لیے بند رہا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں بیت اللہ پر حملے سے لے کر سیاسی جھگڑے، وبا، سیلاب، چوروں اور ڈاکوؤں کا حاجیوں کے قافلوں کو لوٹنا اور موسم کی انتہائی شدت شامل ہیں۔
865ء السفاک کا حملہ:اسماعیل بن یوسف نے، جسے السفاک کے نام سے جانا جاتا ہے، بغداد میں قائم عباسی سلطنت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور مکہ میں عرفات کے پہاڑ پر حملہ کیا۔ اس کی فوج کے حملے میں وہاں موجود حج کے لیے آنے والے ہزاروں زائرین ہلاک ہوئے۔ اس حملے کی وجہ سے اس سال حج نہ ہو سکا۔
930ء قرامطہ کا حملہ :اس حملے کو شہر مکہ پر سب سے شدید حملوں میں سے ایک جانا جاتا ہے۔ سنہ 930ء میں قرامطہ فرقے کے سربراہ ابو طاہر الجنابی نے مکہ پر ایک بھرپور حملہ کیا جس کے دوران اتنی لوٹ مار اور قتل و غارت ہوئی کہ کئی سال تک حج نہ ہو سکا۔
968ء الماشری بیماری:شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 357ہجری میں ایک اور بڑے واقعے کی وجہ سے لوگ حج نہ کر سکے اور یہ واقعہ دراصل ایک بیماری تھا۔ رپورٹ میں ابنِ خطیر کی کتاب ’آغاز اور اختتام‘ کا حوالہ دے کر لکھا گیا ہے کہ الماشری نامی بیماری کی وجہ سے مکہ میں بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔ بہت سے زائرین راستے میں ہی ہلاک ہوئے اور جو لوگ مکہ پہنچے بھی تو وہ حج کی تاریخ کے بعد ہی وہاں پہنچ سکے۔
983ء عباسی اور فاطمی خلافتوں میں جھگڑے :حج صرف لڑائیوں اور جنگوں کی وجہ سے منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ کئی سال سیاست کی نذر بھی ہوا۔ سنہ 983ء میں عراق کی عباسی اور مصر کی فاطمی خلافتوں کے سربراہان کے درمیان سیاسی کشمکش رہی اور مسلمانوں کو اس دوران حج کے لیے سفر کرنے نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد حج 991ء میں ادا کیا گیا۔
1000 ء میں بڑھتی مہنگائی:سنہ 390ہجری (1000 عیسوی کے قریب) میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حج کے سفر کے اخراجات میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے لوگ حج پر نہ جا سکے اور اسی طرح 430 ہجری میں عراق اور خراساں سے لے کر شام اور مصر کے لوگ حج پر نہ جا سکے۔
1027ء میں کڑاکے کی سردی :سنہ 417 ہجری کو عراق میں شدید سردی اور سیلابوں کی وجہ سے زائرین مکہ کا سفر نہ کر سکے۔ اس طرح شدید سرد موسم کی وجہ سے حج کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔
1099ء میں اسلامی دنیا میں آپس میں جنگ:شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 492 ہجری میں اسلامی دنیا میں آپسی جنگوں کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا جس سے فریضۂ حج متاثر ہوا۔ 654ہجری سے لے کر 658ہجری تک حجاز کے علاوہ کسی اور ملک سے حاجی مکہ نہیں پہنچ سکے۔ 1213ہجری میں فرانسیسی انقلاب کے دوران حج کے قافلوں کو تحفظ اور سلامتی کے باعث روک دیا گیا۔
1831ء کی وبا: ہندوستان سے شروع ہونے والی ایک وبا نے مکہ میں تقریباً تین چوتھائی زائرین کو ہلاک کر دیا۔ یہ لوگ کئی ماہ کا خطرناک سفر کر کے حج کے لیے مکہ آئے تھے۔ اسی طرح 1837ء سے لے کر 1858ء میں دو دہائیوں میں تین مرتبہ حج کو منسوخ کیا گیا جس کی وجہ سے زائرین، مکہ کی جانب سفر نہ کر سکے۔
1846ء کی ہیضے کی وبا:مکہ میں ہیضے کی وبا سے تقریباً 15 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یہ وبا مکہ میں سنہ 1850ء تک پھیلتی رہی لیکن اس کے بعد بھی کبھی کبھار اس سے اموات ہوتی رہیں۔ اکثر تحقیق کاروں کے مطابق یہ وبا ہندوستان سے زائرین کے ذریعے آئی تھی جس نے نہ صرف ان کو بلکہ مکہ میں دوسرے ممالک سے آنے والے بہت سے دیگر زائرین کو بھی متاثر کیا تھا۔ مصری زائرین بحر احمر کے ساحلوں کی طرف بھاگے جہاں انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا۔ یہ وبا بعد میں امریکہ تک پھیلی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سلطتِ عثمانیہ کے دور میں ہیضے کی وبا کے خاتمے کے لیے قرنطینہ پر زور دیا گیا تھا۔
1925ء کسوہ پر حملہ :سنہ 1344ہجری میں خانہ کعبہ کے غلاف، کسوہ کو مصر سے سعودی عرب لے جانے والے قافلے پر حملہ ہوا جس کی وجہ سے مصر کا کوئی حاجی بھی خانہ کعبہ نہ جا سکا۔
تاہم یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب سے سعودی عرب وجود میں آیا ہے، یعنی 1932ء سے لے کر اب تک خانہ کعبہ میں حج کبھی نہیں رکا۔
(ماخذ: رپورٹ بی بی سی)