حالات کو بدلنے کے لیےگوشئہ عافیت سے باہر آنا ضروری

ہندو مسلم نفرت کی وبا ، کورونا وائرس سے‏زیادہ خطرناک۔عوام کی رائے کو صحیح سمت دینا وقت کا تقاضہ دلی میں فساد نہیں بلکہ سرکاری سرپرستی میں دہشت گردی ہوئی۔ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی سکریٹری جنرل عبدالجبار صدیقی سے انٹرویو

افروز عالم ساحل

کبھی انجینیئر تھے، پھر لیکچرر بنے اور اب ایک سیاستداں ہیں۔ ان کا تعلق کرناٹک سے ہے لیکن گزشتہ ۲۲ سال سے حیدرآباد میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جناب عبدالجبار صدیقی اپنے طالب علمی کے زمانے سے ہی اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں سرگرم رہے اور اب ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی سکریٹری جنرل بنائے گئے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت نے عبدالجبار صدیقی سے انٹرویو لیا ہے جس کے کچھ اقتباسات قارئین کے خدمت میں پیش ہیں۔
ملک کی موجودہ سیاست کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
جو ’آئیڈیا آف انڈیا‘ ملک کی آزادی کی جدوجہد کے وقت پیش کیا گیا تھا جس پر پوری جد وجہد ہوئی اور جس میں سب برابر شریک ہوئے جس میں Plural Society کا تصور تھا، مختلف تہذیبوں، زبانوں اور جنس کے لوگوں کے برابر کے حقوق تھے، برابر کی آزادی تھی، اس ’آئیڈیا آف انڈیا’ کو اب تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آئین کو تبدیل کر کے ملک کو ’ہندو راشٹر‘ کی جانب لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور یہ کوشش آئین کی حفاظت کے نام پر حلف لے کر اقتدار میں بیٹھے ہوئے ’عوام کے نمائندے‘ کر رہے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ ملک کے عوام ملک کی حکومتوں سے بڑے ہیں وہ یا تو حکومت کو باہر کا راستہ دکھائیں گے یا پھر ٹھیک کر دیں گے۔
اس میں ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کا کیا رول ہوگا؟
میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت سماج میں عوام کی رائے بنانا اور اس کو صحیح سمت میں لے جانا ایک اہم کام ہے۔ ہمارے ملک میں جھوٹ کی بنیاد پر لوگوں کو جس طرح سے گمراہ کیا جارہا ہے اور جس کے نتیجے میں ملک میں جو ماحول بنا ہوا ہے ہماری پارٹی اس کو صحیح کرنے کا کام کرے گی۔ اس سے یقیناً حالات تبدیل ہوں گے اور ملک میں امن قائم ہوگا۔
اس طرف کیا کوشش ہو رہی ہے؟
ہم ابھی ایک مہم کی شروعات کر رہے ہیں، جس کا مرکزی آئیڈیا ملک کا مستقبل بہتر بنانا ہے۔ اس مہم میں ہم ملک کے نوجوانوں، یونیورسٹی کے طلبہ اور دانشوروں کے ساتھ مل کر چھوٹے بڑے پروگرام کریں گےاور مثبت رائے کو ہموار کریں گے۔
عام مسلم سیاسی جماعتوں پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ یہ بی جے پی کو فائدہ پہونچانے کا کام کرتی ہیں۔ یہی الزام آپ کی پارٹی پر بھی لگ سکتا ہے ؟
سیاست ایک ’مسابقتی کھیل‘ ہے۔ یہاں فائدہ نقصان عوام طے کرتے ہیں۔ اس میں اس طرح کے الزامات کوئی خاص معنی نہیں رکھتے ۔کسی نئی پارٹی کا ابھرنا ساست میں نیا نہیں ہے
ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ خود تو بس میں سوار ہوجائیں اور دوسروں کو بس میں سوار ہونے سے یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کریں کہ بس فل ہے۔
نفرت کی سیاست کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کوئی میکینکل پارٹی نہیں ہے، بلکہ ہم تو Party With Ideas ہیں۔ ہمارے آئیڈیا میں بھارت ماں نہیں ہے بلکہ بھارت پریوار ہے۔ اور ملک کا ہر شہری اس ’پریوار‘ کا رکن ہے۔ ایسے میں ایک ’پریوار‘ کے لوگوں کا آپس میں جھگڑا کرنا ، نفرت کرنا، نا انصافی کرنا، منصفانہ سودا نہ کرنا، یہ ایسی چیزیں ہیں جو پریوار کو کمزور کرنے والی ہیں۔
ملک میں ہندو۔مسلم رشتوں میں جو دوریاں بڑھی ہیں، اس کو کم کرنے کے لیے پارٹی کچھ کررہی ہے؟
آپس میں جو تقسیم نظر آرہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ناسمجھی ہے، معلومات سے محرومی ہے، یہی اصل مسئلہ ہے۔ اس خلیج کو مسلسل خدمت کے ذریعہ پاٹا جائے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو آسانی سے مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ انسانی فطرت کی بنیاد نفرت پر نہیں ہے بلکہ محبت پر ہے۔ آپ سماج کو نفرت کی بنیاد پر نہیں بانٹ سکتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں ہندو مسلم نفرت کی وبا جو پھیلائی جا رہی ہے، وہ کورونا وائرس سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ کرونا وائرس سے تو انسان مرتا ہے، لیکن نفرت کی سیاست سے انسانیت ہی مرجاتی ہے۔
مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
ان کا مستقبل کافی مضبوط ہے اور بہت ہی روشن ہے اگر آپ اپنے تصور میں صرف مسلمان لے کر چل رہے ہیں تو پھر مستقبل کافی محدود ہے۔ اب فیملی پالیٹکس کا دور ختم ہوگیا ہے۔ اب ملک کا نوجوان یہ چاہتا ہے کہ فیصلوں میں اس کی بھی حصہ داری رہے، شفافیت رہے۔ ہر مخالف آواز کو پوری عزت ملے۔ تو اس نوجوانوں کی چاہت کو ہماری پارٹی پوری عزت دے گی۔
بہار میں انتخابات ہونے والے ہیں، آپ کی پارٹی کے کیا ارادے ہیں؟
ہم نے اپنے کام کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ پہلا کام ’وجئے بھارت‘ اور دوسرا کام ’آشا بھارت‘ کا ہے۔ ابھی ہماری جو عمر ہے وہ یہ ہے کہ ہم ٹریننگ کالج سے نکل کر آئے ہیں۔ ہم ہر جگہ عمل دخل کرنے کی نہیں سوچتے ہیں۔ ہم نے ایک فوکس پوائنٹ طے کیا ہے، اس پر ہی فوکس کریں گے۔
مطلب یہ ہے کہ بہار انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے؟
بہار کے بجائے ہم مغربی بنگال جائیں گے۔ کیرالا و کرناٹک جائیں گے۔ یہ ہمارے ’وجئے بھارت‘ کا حصہ ہے، بہار کا ابھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں 7 نیشنل، 53 صوبائی اور قریب 2500 رجسٹرڈ پارٹیاں ہیں۔ اس میں آپ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کو کہاں دیکھتے ہیں؟
یہ جو سیاست ہے، وہ ایک ’مسابقتی کھیل’ ہے ہی، ساتھ میں آج کی تاریخ میں ’پاور گیم’ بھی ہے۔ باوجود اس کے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا مستقبل کافی روشن ہے۔ سیاست میں اب وہی بڑھے گا، جس کے پاس دم خم ہوگا۔
سی اےاے، این آر سی اور این پی آر پر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کیا کر رہی ہے؟
مرکزی حکومت جو ’امپورٹیڈ ہندووں‘ کو ترجیح دیتے ہوئے مقامی ہندووں کو دوسرے درجے کا شہری بنا رہی ہے، یہ ہم ہونے نہیں دیں گے۔ ہمارے آئین کے preamble میں جو ’وی‘ کا concept
ہے، اس کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ اس پر ہم عوام کو بیدار کر رہے ہیں۔ ملک میں جو مظاہرے چل رہے ہیں، وہ جاری رہیں گے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اس ملک کی عوام اس مسئلے پر پوری ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے گی۔
دہلی کے فسادات پر آپ کیا سوچتے ہیں؟
یہ فساد نہیں، دو فرقوں کے درمیان جھگڑا نہیں، بلکہ اسٹیٹ کی سرپرستی میں دہشت گردی کی سرگرمی ہے۔ ہم متاثرہ علاقوں میں گئے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں سے ملاقات ہوئی جن کے والدین کو شہید کردیا گیا ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ ہمیں کس جرم میں یتیم کیا گیا ہے۔ قومی شعور کو اب جاگنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ بغیر کسی جرم کے کسی ایک طبقہ کو سزا دیں گے تو پھر آپ کو اقتدار میں رہنے کا کیا حق باقی رہ جائے گا؟
ہفت روزہ دعوت کے قارئین کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ہم ہفت روزہ دعوت کے قارئین کو ہماری پارٹی کی طرف یہ پیغام دینا چاہیں گے کہ لوگوں کو اپنے محفوظ زون سے نکلنا ضروری ہے۔ گھریلو زندگی سے باہر نکل کر سماجی کاموں میں آنا ہوگا۔ یہ آپ کے خود کے مستقبل کے لیے ضروری ہے۔ حالات سے نمٹنے کا دم خم بھی آپ کو خود ہی پیدا کرنا ہوگا۔ ہم حالات سے جیتنا اور سیکھنا سیکھیں۔ جو قوم ہار ماننے سے انکار کر دے، دنیا کی کوئی طاقت اس کو ہرا نہیں سکتی۔