جمہوریت کا پچھلا جنم

آمریت کے جمہوری بھیس کوبے نقاب کرنےوالی ایک کہانی

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

 

صبح تڑکے للن مشرا کا فون دیکھ کر کلن شرما چونک پڑا۔ وہ بولا کیوں بھئی مشرا جی آج سورج کہاں سے نکلا ؟خیریت تو ہے؟
للن نے جواب دیا یہ کیا بے تکا سوال ہے کہ سورج کہاں سے نکلا؟ پورب سے اور کہاں سے ؟
جی ہاں مجھے تو یہ اچھی طرح معلوم ہے لیکن تم کو آج پتہ چلا ہوگا ؟
کیا بکواس کرتے ہوکلن۔ ہم نے مکتب میں ساتھ ہی تو پڑھا تھا کہ سورج مشرق سے نکل کرمغرب میں ڈوب جاتا ہے۔
ارے بھائی پڑھنے کو بہت کچھ پڑھا ہے مثلاً انسان بندر سے بنا ہے وغیرہ لیکن کیا کبھی اس کا مشاہدہ بھی کیا ہے؟
کلن یہ آج تم کو کیا ہوگیا ہے جو بہکی بہکی باتیں کرنے لگے۔ کبھی سورج ؟ تو کبھی بندر؟؟ آخر ان کے درمیان کیا تعلق ہے؟؟
بہت گہرا تعلق ہے دوست ! جیسے کسی نے بندر کو انسان بنتے نہیں دیکھا، ویسے ہی تم نے کبھی سورج کو نکلتے نہیں دیکھا ہوگا بولو صحیح یاغلط؟؟
للن بگڑ کر بولا بہت شیخی نہ بگھارو۔ رات دس بجے نہیں کہ نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہو۔ ایک دن ہماری طرح۲ بجے تک جاگو تو پتہ چلے گا۔
برا مان گئے۔ مجھے پتہ ہے کہ تم رات بھر الّو کی طرح جاگ کر صبحِ دم چمگادڑ کی طرح لٹک جاتے ہو۔ اسی لیے پوچھ رہا تھا کہ آج اتنی صبح کیسے یاد کیا؟
ہاں تو ایسے پوچھو؟ تم تو سورج کے چکر میں پڑگئے خیر۔ میں نے رات ایک عجیب وغریب خواب دیکھا اورپھر خواب کیا ٹوٹا کہ پھر نیند غائب۔
کلن چہک کر بولا یار تمہاری حالت احمد فراز کے اس شعر جیسی تو نہیں ہوگئی ؎
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
للن بولا یار سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر احمد فراز کو میری کیفیت کا اندازہ کیسے ہوگیا؟
اسی کا نام شاعری ہے میرے دوست کہ ’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘ لیکن تم نے اس موقع پر مجھے ہی کیوں یاد کیا؟
کیا مجھے نہیں پتہ کہ اپنے احباب میں اس وقت کون جاگ رہا ہوگا اور دیکھو میرا اندازہ درست نکلا۔
ہاں بھائی مان گئے اچھا اب یہ بتاؤ کہ کس کافر ادا نے خواب میں آکر تمہاری نیند اڑا دی جو تم کہنے لگے ’’تم مجھے خواب میں آ کرنہ پریشان کرو‘‘؟
کلن شرما تم غلط سوچ رہے ہو یہ عشق کا معاملہ نہیں ہے۔ ان مراحل سے تو ہم لوگ کب کے گزر چکے۔
جی ہاں للن مشرا۔ مجھے یاد ہے اس زمانے میں بھی کوئی تمہیں بارہ بجے دوپہرسے پہلے نہیں جگا سکا۔ خیر آج کی بتاؤ؟
بھائی کلن میں نے رات میں اپنا پرانا جنم دیکھ لیا ؟
ارے تم تو ناستک آدمی ہو۔ نہ بھگوان کو مانتے ہو اورنہ جنم جنمانتر پر وشواس رکھتے ہو۔ یہ چمتکار کیسے ہوگیا؟
جی ہاں رات رات بھرانگریز ملحدین کی کتابیں چاٹتے چاٹتے میں نے اندھی تقلید کی تمام زنجیروں کو توڑ دیا تھا مگر اب ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ غلط تھا۔
یہ کیا کہہ رہو للن ؟ ہم لوگ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ تم مغرب کی ذہنی غلامی سے کبھی آزاد نہ ہوسکو گے۔ لیکن یہ تو کمال ہوگیا؟
جی ہاں کلن ایک چمتکاری خواب نے میری آنکھ کھول دیں اور میں سورج کے طلوع ہونے سے قبل تاریکی سے روشنی میں آگیا۔
بھائی للن یقین مانو میں یہ جان کر بہت خوش ہوں کہ جس پر ہمارے سارے حربے ناکام ہوچکے تھے وہ ازخود راہِ راست پر آگیا۔
جی ہاں کلن ایک خواب نے وہ کارنامہ کردیا کہ جو کسی انسان کے بس میں نہیں تھا۔
یار لوگ تویہ سمجھتے ہیں کہ کورونا نے وہ کردیا جو کسی انسان کے بس میں نہیں تھا لیکن اب مجھے تو لگتا ہے تمہارا خواب اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
جی ہاں کلن ایک طرف کورونا کی تباہی بھی میرے الحاد میں اضافہ کررہی تھی اور دوسری جانب میں ٹرمپ اور مودی جیسوں کے رویوں سے پریشان تھا۔
اچھا تو کیا تم خواب میں ان لوگوں کو دیکھ کر ڈر گئے؟ یار ہم تو بسرو چشم دیکھ کر بھی نہیں ڈرتے۔ ان کی حقیقت جو جان گئے ہیں۔
للن مشرا نے چڑ کر کہا پھر وہی ان پڑھ جاہل کندۂ ناتراش والی بات ؟ میں پرانے جنم کی بات کررہا ہوں تم انہیں لے آئے۔ اس وقت یہ سب کہاں تھے؟
ارے بھائی غلطی ہوگئی۔ بھول گیا تھا خیر اب خواب کی باتیں بتاؤ گے یا صرف مجھے ڈانٹتے ڈپٹتے رہوگے۔ ویسے میری رائے ہے ویڈیو کال پر آ جاؤ۔
ویڈیو کال پر ؟ وہ کیوں ؟؟
اس لیے کہ میں تمہارا خواب سنتے ہوئے چہرے کے تاثرات دیکھنا چاہتا ہوں۔ ویسے بھی تمہارے چہرۂ پرنور کو دیکھے کئی دن ہوگئے۔
یار تم میری مشکل بڑھا رہے ہو۔ اب مجھے اٹھ کر منہ دھونا پڑے گا۔ بال جھاڑنے پڑیں گے۔ چھوڑو اس تکلف کی ضرورت نہیں۔
مجھے اس کی ضرورت ہے۔ تم ایسا کرو کہ زوم پر آجاؤ۔ وہاں تمہاری ویڈیو بن جائے گی جسے میں بعد میں بھی دیکھ سکوں گا۔
اس کی کیاضرورت ؟ ایک خواب ہے اس کو ایک بار سنا اور بھول گئے۔ بقول شاعر؎
آنکھوں میں بسا لوگے تو کانٹوں سے چبھیں گے
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں
جی نہیں للن یہ معمولی خواب نہیں ہے جس نے تمہیں نیند سے بیدار کردیا۔ میں اس ویڈیو کی لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجوں گا۔
اچھا ہوا کہ تم نے پہلے بتا دیا۔ اب تو میں زوم پر ہرگز نہیں آؤں گا۔ یہ صرف تمہارے اور میرے بیچ کی بات ہے۔ کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔
اچھا بھائی ٹھیک ہے۔ یہ خواب اب صرف میرے سینے میں دفن رہے گا لیکن تم اس قبر کو کھولو تو سہی۔
یار کلن میں نے دیکھا کہ سمراٹ اشوک کا دربار لگا ہوا ہے۔ مہاراجہ براجمان ہیں اور ان کے بغل والے سنگھاسن پر میں بیٹھا ہوا ہوں۔
ایک میان میں دو تلوار یا ایک دربار میں دو سنگھاسن ؟؟ یہ کیسے ممکن ہے۔ سمراٹ نریندر مودی تک اپنے برابر کسی کو بیٹھنے نہیں دیتے۔
یار یہ خواب کی بات ہے۔ تم اگر اس طرح ٹوکتے رہے تب تو میں اپناخواب سنا چکا!
ٹھیک ہے غلطی ہوگئی۔ابھی یاد آیا میں نے ایک ویڈیو میں سمراٹ اشوک کےبغل میں اس کے گرو چانکیہ کو براجمان دیکھا تھا۔
یار تم جیسے جاہل لوگوں کے سبب ہی سارے قصے کہانیوں کو حقیقت سمجھ لیا گیا ہے۔
کیا مطلب ؟ چانکیہ اشوک کا استاد نہیں تھایا وہ اپنے گرو کا احترام نہیں کرتا تھا ؟
بھائی چانکیہ دراصل اشوک کے دادا چندرگپت موریہ کا مشیر اور اس کے بیٹے بندوسرا کا مشیر واستادتھا لیکن اشوک کے بچپن میں چانکیہ کا انتقال ہوگیا۔
ہاں ہاں تو بچپن ہی میں کچھ سکھا پڑھا دیا ہوگا۔ دھیان گیان کی تعلیم دے دی ہوگی۔ جی نہیں وہ اشوک کی پیدائش سے قبل تصنیف و تالیف کی خاطر راج دربار سے سبکدوش ہوچکا تھا۔ یہ سب من گھڑت کہانیاں ہیں۔
اچھا تو شاید ویڈیو میں بندو سرا کو اپنے استاد چانکیہ کے ساتھ دکھایا گیا ہوگا ؟ یا اشوک کو اس کے کسی استاد کے ساتھ کون جانے میں بھول گیا ؟
اشوک رادھا گپتاکا شاگرد تھا۔اس زمانے میں گرو کا بڑا احترام ہوتا تھا کل یگ کی طرح مارگ درشک منڈل یعنی سیاسی قرنطینہ میں نہیں بھیجاجاتا تھا۔
خیر بھاڑ میں جائےسمراٹ اشوک اور چانکیہ کی کہانی۔ تم اپنا خواب سناؤ۔
ٹھیک ہے تو اس خواب میں دربار کے اندر نظام حکومت کی اصلاحات پر غور ہورہا تھا۔
ارے چانکیہ نیتی کے ہوتے ہوئے اصلاحات کیا معنیٰ۔ وہ تو خرد کی ساری گتھیاں سلجھانے والی سیاسی دستاویز ہے۔
دراصل راج درباریوں کی یہ رائے تھی کہ اس سے اقتدار تو مضبوط ہوتا لیکن عوام کی فلاح و بہبود نہیں ہوتی۔
تو کیا کسی فلاحی ریاست کا قیام اشوک اعظم کے پیش نظرتھا ؟
حقیقت میں کیا تھا یہ تو میں نہیں جانتا لیکن میرے خواب میں تو یہی تھا۔
ٹھیک ہے لیکن اس سے تمہارا کیا لینا دینا؟
ارے بھائی اس فلاحی ریاست کے خدو خال طے کرنے کی ذمہ داری اشوک نے مجھے سونپ دی۔
قسم سے اس نے کیا صحیح انتخاب کیا تھا۔ میں تو کہتا ہوں اگر اپنے سمراٹ مودی بھی یہی کریں تو اس مہاماری کے یگ میں بھی جنتا کا کلیان ہوجائے۔
یار تم میرا خواب سن رہے ہو یا مذاق اڑا رہے ہو۔ اگر بور ہوگئے ہو تو ایسا بولو میں پھر کبھی سنا دوں گا؟
نہیں بھائی۔ انسان حقیقت بھول جاتا ہے تو خواب کی کیا حیثیت؟ میری میموری سے تو صبح اٹھتے ہی سارے خواب آٹو میٹک ڈیلیٹ ہوجاتے ہیں۔
میرے ساتھ بھی یہی ہوتا تھا لیکن اس منفرد خواب کا معاملہ مختلف ہے۔
کلن بولا یار تمہاری کیفیت پر مجھے ملک زادہ منظور کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔ پہلے اسے سنو اور پھر آگے کا قصہ میرا مطلب ہے خواب سناؤ۔
خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے
للن نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا اس کے بعد آج کل کی طرح اس وقت بھی ایک کمیٹی بناکر مجھےاس کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔
یہ تو اچھا ہوا لیکن پھر تم نے کیا کیا ؟
میں اپنے چنندہ ساتھیوں کے ساتھ شہر سے دور ایک صحت افزا مقام پر چلا گیا اور دوماہ کے بحث وتحقیق کے بعد ایک نقشۂ کار طے کرکے واپس آیا۔
بہت خوب کلن بولا۔ تو ہمیں بھی بتاؤ کہ تم نے کیا کارنامہ انجام دیا؟
بھائی سب سے پہلے تو وجوہات بیان کی گئیں اور پھر حل پیش کیا گیا۔
اچھا تو تم لوگوں نے مل جل کر کیا وجہ دریافت کی ؟
سب سے بنیادی وجہ تو یہ تھی کہ موروثی ملوکیت کے سبب اکثر نااہل لوگ کرسیٔ اقتدار پر فائز ہوجاتے ہیں اور ان کی نااہلی کی قیمت لوگ چکاتے ہیں۔
کلن نے تائید کی اور بولا جی ہاں چلو مرض کی تشخیص تو درست ہوگئی اور اب اس کا حل بھی بتادو؟
ارے بھائی تشخیص میں ہی حل موجود ہے میرا مطلب ، سماج کے قابل ترین آدمی کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور سونپ دی جائے۔
ہاں ہاں یہ تو سمجھ گیا لیکن اس مقصد کو حاصل کیسے کیا جائے؟
عام لوگوں کی رائے لی جائےتاکہ وہ اپنے میں سے بہترین فرد کا انتخاب کریں اور چونکہ وہ ان کا اپنا انتخاب ہوگا اس لیے اس کا بھرپور تعاون کریں گے۔
کلن نے کہا اس میں نیا کیا ہے ؟ لیکن اگر منتخب ہونے والا اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتا ہو اور کسی سے تعاون لینے کا روادار نہ ہو تو کیا ہو؟
اس کے معاون بھی طے کردیے جائیں اور آئین کے تحت اسے مشوروں کا پابند بنایا جائے۔
لیکن بہترین شخص کا اپنے سے کمترین لوگوں کے مشورے پابند ہونا غیر فطری لگتا ہے۔ اور اگرمنتخبہ حکمراں بھی اپنی ذمہ داری اداکرنے میں ناکام ہو تو ؟
اس کا حل یہ تھا کہ حکمراں کی مدت کار محدود ہو۔وقت مقررہ کے بعد اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہونے والے کو بدلنے کا موقع مہیا کیا جائے۔
گویا تم نے اس دورمیں الیکشن کا طریقہ رائج کرنے کی تجویز پیش کردی۔
جی ہاں یہی سمجھ لو۔
سمراٹ اشوک کے لیے تو یہ خطرناک تجویز تھی۔ تو کیا اس کو قبول کرلیا ؟
جی ہاں اشوک نے اسے بخوشی مان لیا۔
کلن حیران کن لہجے میں بولا یار موجودہ دورِ جمہوری میں بھی لوگ بہ آسانی اقتدار نہیں چھوڑتے یہ تو بس خواب و خیال کی باتیں ہیں بقول شاعر؎
زندگی خواب دیکھتی ہے مگر
زندگی زندگی ہے خواب نہیں
جی ہاں اس کی رضامندی پر میرے لیے بھی باعثِ تحیر تھی۔
ویسےجس بے خوفی کے ساتھ تم نے یہ تجویز پیش کردی ایسی جرأت عصرِ حاضر میں کوئی نہیں کرسکتا اور کردے تو سزا سے بچ نہیں سکتا۔
مجھے بھی اندیشہ تھا کہ کہیں وہ مجھے پھانسی وانسی نہ چڑھادے، لیکن پھر سوچا جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
اچھا تو کیا تم نے اس کے راضی ہوجانے کی وجہ نہیں دریافت کی ؟
سب کے سامنے تو نہیں لیکن تخلیہ میں یہ سوال پوچھ ہی لیا۔
تو وہ کیا بولا؟
اس نے کہا گرودیو میں آپ کو بہت ذہین سمجھتا تھا لیکن آپ تو بہت بھولے نکلے۔
مجھے مزید حیرت ہوئی۔ میں نے پوچھاتم نے پہلی بار ایسی بات کہی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
اشوک بولا دیکھیے پہلی بات تو میرے سامنے انتخاب لڑنے کی ہمت کم لوگ کریں گے۔
میں نے پوچھا لیکن اگر کوئی سر پھرا کھڑا ہی ہوجائے تو کیا ہوگا؟
گرودیو ، مجھے تو سب جانتے ہیں لیکن لوگ اسے جانیں گے کیسے؟ اس کی خوبیوں کے بارے میں عوام کو کیسے پتہ چلے گا ؟
میں بولا اس کے حواری اگر تشہیر میں جٹ جائیں تو کیا ہوگا ؟
اشوک نے جواب دیا اس سے زیادہ میرے حواری ہوں گے اور وہ زیادہ کثیر تعداد لوگوں کو میرا ہمنوا بنا نے میں کا میاب ہو جائیں گے۔
کلن بولا لیکن سمراٹ اشوک کو اس کا یقین کیونکر تھا ؟
میں نے یہ سوال اس سے کیا تو اس نے الٹا سوال کردیا کہ گرودیو اس کےرضاکاروں کی تعدادمیرےتنخواہ دار حامیوں سے زیادہ کیسے ہوسکے گی؟
کلن نے کہا یہ تو بالکل درست بات ہے گویا اسی زمانے سےبھکتوں کی فوج اور زرخرید میڈیا کا استعمال شروع ہوگیا تھا۔
جی ہاں لیکن میری پریشانی دوسری تھی۔ میں نے کہا سمراٹ لیکن اگر آپ ہی رہیں گے اور یہی سب چلے گا تو الیکشن کے ناٹک کی کیا ضرورت ؟
اشوک مسکرا کر بولا گرودیو آپ نے جو نظام ترتیب دیا ہے اس میں میرے لیے بہت سارے فائدے ہیں۔
کلن بولا یار للن میں تو اشوک کو بیوقوف سمجھتا تھا لیکن وہ تو اپنے گرودیو یعنی تم سے بھی دو ہاتھ آگے لگتا ہے۔
جی ہاں میری بھی اس کے بارے رائے بدل گئی۔
کلن نے پوچھا وہ کیسے ؟
اس نے بتایا ’’اب تک میری نااہلی کے لیے لوگ میرے والد بندوسار کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ منتخب کرنے کے بعد خود کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے ‘‘
یار تمہارے سمراٹ اشوک نے تو کمال کی بات کردی۔ ہم لوگ بھی تو یہی کرتے ہیں۔حکمرانوں کی غلطی کو خود اپنے اوپر اوڑھ لیتے ہیں۔
لیکن کلن تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ سمراٹ اشوک نے اس تجویز کے حق میں اور کون سی زبردست دلیل پیش کی۔
اچھا وہ کیا تھی ؟
وہ بولا کہ اس طرح میرے خلاف عوامی بغاوت کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ لوگ آئندہ انتخاب میں اصلاح کرنے کا ارادہ کر کے صبر کرلیں گے۔
ہاں یارآج کل وہی تو ہورہا ہے۔
اشوک نے یہ بھی کہا کہ بھولے بھالے عوام انتخابی ہنگامہ میں میرے حواریوں کی بدولت میری غلطیاں بھلا کر پھر سے مجھے منتخب کردیں گے۔
کلن بولا لیکن یہ ضروری تو نہیں ہے۔ انتخاب میں الٹ پھیر تو ہوسکتا ہے۔
یہ سوال میں نے اشوک سے کیا تو اس نے کہا ایسا تو ملوکیت میں بھی ہوتا ہے۔ اقتدار آتا ہے تو جاتا بھی ہے۔
للن بولا میں نے اشوک کی حقیقت پسندی کو سراہتے ہوئے کہا تم جیسا بے نیاز انسان نہ خوف کھاتا ہے اور نہ غمزدہ ہوتا ہے۔
اشوک نے جواب دیا شکریہ ویسے آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میرابچپن اجین میں گزرا اور میرے والد چانکیہ کے شاگرد سشم کو اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے۔
جی ہاں وہ بہت پرانی بات ہے لیکن تم اسے اب کیوں یاد کررہے ہو؟
مجھے پتہ ہے چونکہ سشم اپنے خلاف ہونے والی بغاوت کو کچل نہیں سکا اور میں اس میں کامیاب ہوگیا اس لیےمگدھ والوں نے میری بادشاہت کو تسلیم کیا۔
جی ہاں یہ حسن اتفاق موریہ خاندان کی سلطنت کے لیے نیک شگون تھا۔ سشم اگر اقتدار میں آ بھی جاتا تو وہ آپ جیسی کامیابیاں نہیں درج کراپاتا۔
ہوسکتا ہے۔ اشوک بولا لیکن جس طرح میں نے اس سے اقتدار چھین لیا۔ اسی طرح میرا کوئی بھائی بندھ مجھ سے یا میرے بیٹے سے راج پاٹ چھین سکتا ہے۔
جی ہاں ملوکیت کی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
انتخاب کے بعد بھی یہی ہوگا گرودیو۔ اقتدار کی چھین جھپٹ نہ کبھی بند ہوئی ہے اور نہ ہوگی۔ آپ کے تجویز کردہ نظام سے کوئی فرق نہیں پڑے گا؟
کلن بولا یار میں نے شاہ رخ خان کی سمراٹ اشوک پانچ بار دیکھی ہے لیکن اس میں وہ سب نہیں نظر آیا جو تم نے خواب میں دیکھ لیا۔ اور آگے کیا ہوا؟
آگے میری آنکھ کھل گئی۔ پہلے تو میں اپنی عقلمندی پر خوش ہوا لیکن اب ماتم کررہا ہوں۔
کلن نے پوچھا وہ کیوں ؟
للن بولا اس لیے کہ اشوک عقلمند تھا اس کی ساری باتیں درست نکلیں اور میری ساری توقعات غلط ثابت ہوئیں۔
جی ہاں للن اگر ہم لوگ انتخاب میں اپنے اندر سے بہترین لوگوں کو چنتے تو آج دنیا میں ٹرمپ اور مودی جیسے حکمراں نہ ہوتے۔
للن نے جواب دیا لیکن ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا۔
کلن نے تائیدکی اوربولا جی ہاں مجھے بھی یقین ہوچلا ہے کہ کم ازکم اس انتخابی عمل سے کبھی فلاحی ریاست قائم ہوسکے گی۔
للن نے پوچھا تمہیں یہ یقین کیسے ہوگیا؟
للن بھیا! کیا تم نے لاک ڈاؤن میں لاکھوں انسانوں کو سڑکوں پر چلتے، بھوک اور پیاس سے دم توڑتے اور ریلوں اور بسوں سے کچلتے نہیں دیکھا۔
یہ تو ہر کسی نے دیکھا ہے کلن۔ ایسا کون انسان ہے جس نے یہ دردناک مناظر نہیں دیکھے۔
بھائی للن! لیکن نہ تو ہماری عدالت کو وہ دکھائی دیتے ہیں اور جمہوری سرکار کو وہ لوگ نظر نہیں آتے۔ کیا سمراٹ اشوک کے زمانے میں یہ ممکن تھا ؟
نہیں کلن بھیا۔ سمراٹ اشوک ایسا سنگدل نہیں تھا کہ اپنے لوگوں کو اس طرح بھوکا پیاسا چھوڑ کر اپنی آنکھیں موند لیتا۔
کیوں سمراٹ اشوک ایسا کیوں نہیں کرتا؟
دیکھو ایسا ہے کہ سمراٹ اشوک کے اقتدار کا انحصار عوام کی تائید پر نہیں تھا۔ اس لیے وہ ان میں اس بنیاد پر تفریق نہیں کرتا تھا کہ کون اس کے لیے مفید اور کون غیر مفید ہے۔ اس کی نظر میں سب لوگ یکساں تھے۔
اچھا اب سمجھ میں آیا چونکہ یہ غریب مزدور نہ تو اس جمہوری سرکار کو ووٹ دیتے ہیں نہ نوٹ دیتے ہیں۔ اس لیے وہ ان کی پروا نہیں کرتی۔
جی ہاں تم بالکل صحیح سمجھے جو سرمایہ دار اور متوسط طبقات ان کی حمایت کرتے ہیں وہ ان کا خیال رکھتے ہیں باقی لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔
واقعی اگر ایسا ہے تو لعنت ہے ان حکمرانوں پر۔ للن ان غریبوں کی مدد کرو یا ماضی کے خوابوں میں کھو جاؤ۔
للن نے کہا میری نیند اڑ گئی ہے میں اب سو نہیں سکتا لیکن یہ خواب تمہیں سنا دینے کے بعد من تو ہلکا ہوگیا ہے۔
کلن ہنس کر بولا ہاں ہاں ضرور لیکن دیکھو اب کبھی نہ سونا ورنہ اسی طرح کا کوئی بھیانک خواب پھر سے ہمارا پیچھا کرنے لگے گا۔
فون تو بند ہوگیا لیکن کلن کے ذہن میں سلیم کوثر کا یہ شعر گھومنے لگا ؎
کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے
وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے
***

للن بھیا! کیا تم نے لاک ڈاؤن میں لاکھوں انسانوں کو سڑکوں پر چلتے، بھوک اور پیاس سے دم توڑتے اور ریلوں اور بسوں سے کچلتے نہیں دیکھا۔
یہ تو ہر کسی نے دیکھا ہے کلن۔ ایسا کون انسان ہے جس نے یہ دردناک مناظر نہیں دیکھے۔
بھائی للن! لیکن نہ تو ہماری عدالت کو وہ دکھائی دیتے ہیں اور جمہوری سرکار کو وہ لوگ نظر نہیں آتے۔ کیا سمراٹ اشوک کے زمانے میں یہ ممکن تھا ؟
نہیں کلن بھیا۔ سمراٹ اشوک ایسا سنگدل نہیں تھا کہ اپنے لوگوں کو اس طرح بھوکا پیاسا چھوڑ کر اپنی آنکھیں موند لیتا۔