جموں و کشمیر: عمر عبد اللہ سات مہینے ساے زیادہ حراست میں رہنے کے بعد آج ہوئے رہا

سرینگر، مارچ 24: جموں و کشمیر انتظامیہ نے منگل کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ کی نظربندی کے حکم کو منسوخ کردیا۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما کو سات ماہ سے زائد حراست میں رکھنے کے بعد آج رہا کر دیا گیا۔

 

یہ حکم سپریم کورٹ کے ذریعے عمر عبد اللہ کو حراست سے رہا کرنے کے ارادے پر مرکز سے وضاحت طلب کرنے کے بعد ایک ہفتہ سے بھی کم وقت کے اندر سامنے آیا ہے۔ اعلی عدالت نے 18 مارچ کو کہا تھا کہ اگر مرکزی حکومت انھیں جلد رہا نہیں کرتی ہے تو عدالت ان کی بہن کی طرف سے ان کی نظربندی کو چیلینج کرنے والی درخواست کی سماعت کو آگے بڑھائے گی۔

جسٹس ارون مشرا اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ نے مرکز سے کہا تھا ’’اگر آپ انھیں رہا کررہے ہیں تو جلد ہی رہا کردیں، ورنہ پھر ہم اس معاملے کی سماعت بنیادی طور پرکریں گے۔‘‘

عمر عبداللہ، سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی اور کچھ دیگر کشمیری سیاستدانوں کے ساتھ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 6 فروری سے حراست میں تھے۔ پی ایس اے کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے تین سے چھ سال تک حراست میں لیا جاسکتا ہے۔ یہ رہنما 5 اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر کی دو یونین ٹیریٹوریز میں تقسیم کے بعد سے تقریباً 6 ماہ سے زیادہ عرصے سے نظربند ہیں۔

نیشنل کانفرنس کے رہنما کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان کی نظربندی کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ پائلٹ نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ان کے خلاف غلط اور مضحکہ خیز بنیادوں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ عام لوگوں میں مقبول شخصیت ہیں اور لوگوں پر کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

انتظامیہ نے عبد اللہ کے والد فاروق عبد اللہ کو اس سے قبل ہی 13 مارچ کو رہا کیا تھا۔ فاروق عبداللہ کو سری نگر کے گوپکر روڈ میں واقع ان کی رہائش گاہ پر حراست میں رکھا گیا تھا۔ حزب اختلاف کے متعدد رہنماؤں نے اس سخت قانون کے تحت سیاستدانوں پر الزام عائد کرنے کے حکومت کے اقدام پر سوال اٹھائے ہیں۔