جسٹس گوگوئی اور ہندوستانی عدلیہ کی خود سپردگی

انصاف پسندی اور غیر جانبداری کا بھرم ٹوٹ گیا

اعجاز ذکا سید

میرا ایک ہندو دوست ہندوستان کی حکمراں جماعت کو بھارت جلاو پارٹی کہتا ہے۔ وہ یہ بات مذاق میں نہیں بلکہ بڑی سنجیدگی سے کہتا ہے۔اپنی کلیت پسندانہ سوچ کے ذریعے بی جے پی اور اس کے قائدین جس طرح ہندوستانی جمہوریہ اور یہاں کی قابل فخر جمہوریت کو ختم کرنے کے درپے ہیں، اس کے پیش نظر تو آپ بھی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پارٹی کو دی ہوئی یہ عرفیت بہت موزوں ہے اور یہ اسی کی مستحق ہے۔
پچھلے ماہ دہلی میں ہونے والے خوفناک اور منصوبہ بند تشدد کے دوران زعفرانی پارٹی نے ایک بار پھر اپنی شرارت اور نفرت انگیز سیاست کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس منصوبہ بند تشدد کو 1984میں سکھوں کے خلاف ہونے والے قتل عام کے بعد کا ایک بدترین فرقہ وارانہ فساد قرار دیا جا رہا ہے۔ پچھلے زائد از چھ برسوں سے ہندتوا پارٹی اپنی طاقت کے بل بوتے پر ہر وہ کام کر رہی ہے جس کے ذریعے منظم انداز میں ہندوستان کے سیکولر اور لبرل آئین کوختم کر دیا جائے۔ وہ اُس پورے ادارہ جاتی ڈھانچے اور تمام دستوری تحفظٓات کو ایک ایک کر کے مٹا دینا چاہتی ہے جسے ملک کے بانیوں نے جمہوریت اور یہاں کے عظیم مذہبی و ثقافتی تنوع کی حفاظت کے لیے تشکیل دیا تھا۔
بیوروکریسی، پولیس اور سیکیورٹی فورسز سمیت ریاست کے تمام اداروں میں نظریاتی طور پر در اندازی سے لے کر یونیورسٹیوں، تھنک ٹینکس اور میڈیا جیسے دانشورانہ و فکری مراکز کو زعفرانی رنگ دینے کی کوشش تک، کوئی بھی شعبہ پریوار کے وسیع اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔
ایک طویل عرصے سے ہم اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ ہماری عدلیہ جسے کبھی پوری دنیا ہماری جمہوریت کی طرح رشک کی نگاہ سے دیکھتی تھی چوکس اور اقتدار کی رغبت و حرص سے دور ہے۔
ہم کتنے سادہ لوح تھے!
چار ماہ قبل اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے ہندوستان کے چیف جسٹس، رنجن گوگوئی کی ہندوستانی پارلیمان کے ایوان بالا، راجیہ سبھا کے لیے نامزدگی سے بی جے پی کی بے باکی اور ڈھٹائی ایک بالکل نئی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ایک طرح سے یہ تبدیلی اچھی ہی ہے۔ اس کے سبب کم از کم ہمارے اداروں کے مکمل خاتمے اور ان کی خودسپردگی پر پڑے ہوئے نقاب تو اتر گئے ہیں۔
جیسا کہ پرتاپ بھانو مہتا نے انڈین ایکسپریس میں تحریر کردہ ایک مضمون میں لکھا ہے ‘‘ہمیں واقعی جسٹس گوگوئی کا ممنون ہونا چاہیے کہ ان کے اس طرز عمل نے ہمیں ہر اس وہم اور غلط فہمی سے نکال دیا ہے جو ہندوستانی سپریم کورٹ کی انصاف پسندی اور غیر جانبداری کے متعلق ہمارے ذہنوں میں موجود تھی۔ حکومت نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ہر معقولیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا ہے۔ اور انہوں نے بھی بے شرمی کے ساتھ اسے قبول کرلیا۔ ایسا کرکے انہوں نے نہ صرف اپنے فیصلوں، اپنے کردار اور اپنی صداقت کو مشکوک بنا دیا ہے بلکہ اپنے ساتھ پوری عدلیہ کو بھی پستی میں دھکیل دیا ہے‘‘۔
تنہا جسٹس گوگوئی نے عدلیہ جیسے اہم ادارے کو جو نقصان پہنچایا ہے اور اس کو جس طرح سے غیر موثر کیا ہے اس سے پہلے شاید ہی کسی ایک فرد نے یہ کام کیا ہوگا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی سربراہی کرتے ہوئے، گوگوئی نے ایودھیا، رافیل بدعنوانی اسکینڈل، آسام این آر سی جیسے انتہائی اہم اور فیصلہ کن مقدمات کا فیصلہ سنایا ہے۔ انہی کے فیصلوں نے سی اے اے، این آر سی، این پی آر کے خوفناک مثلث کا راستہ ہموار کیا۔ جموں وکشمیر کی خود مختاری کا خاتمہ اور وہاں کے رہنماوں اور عوام کی قید بھی انہی کے فیصلے کا نتیجہ ہے۔ ان تمام مقدمات میں اور دیگر مواقع پر جسٹس گوگوئی کی سپریم کورٹ نے بار بار بی جے پی حکومت کی حمایت کی اور مظلوم شہریوں کو مایوس کیا۔
ان تمام میں سب سے عجیب وغریب فیصلہ وہ تھا جو ایک طویل عرصے سے جاری ایودھیا کیس میں سنایا گیا۔ جس میں خود عدالت نے اس بات کو تسلیم کیا کہ 6 دسمبر 1992 کے دن بابری مسجد کا انہدام منصوبہ بند اور خلاف قانون جرم تھا اور یہ بھی کہا کہ’’مسلمانوں کو غلط طریقے سے ایک ایسی مسجد سے محروم کر دیا گیا ہے جو 450سال پہلے تعمیر کی گئی تھی، اس کے باوجود مسجد کی جگہ انہی ٹھگوں کے حوالے کردی گئی جنہوں نے اس بہیمانہ جرم کو انجام دیا تھا۔‘‘
یہ صرف ایودھیا کا معاملہ ہی نہیں ہے۔ کئی فیصلوں میں دانستہ طور پر اسی پاگل پن کا مظاہرہ کیا گیا۔ کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انورادھا بھاسن جموال جیسے معزز شہریوں نے کشمیر میں عائد پابندیوں کے معاملے میں راحت حاصل کرنے کی خاطر کئی بار اعلیٰ ترین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت نے ہر بار انہیں مایوس لوٹا دیا۔ سی پی ایم رہنما سیتارام یچوری اور دیگر لوگوں نے وہاں کے سیاستدانوں کی نظر بندی کے معاملے میں انصاف کے لیے جسٹس گوگوئی کی عدالت سے رجوع کیا لیکن ان کی درخواستوں پر بھی کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔
خلاصہ یہ کہ جسٹس گوگوئی نے منظم طریقے سے ان تمام دستوری ضمانتوں اور رہنمایانہ اصولوں کو پامال کیا ہے، جن کو تمام جمہوریتوں اور بین الاقوامی قوانین میں راہ نما ستارہ کی حیثیت سے قدر و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان میں عالمگیر انسانی حقوق، غیر جانبدارانہ شہریت، ہیبس کارپس کا قانون، تقریر اور اظہار خیال کی آزادی اور قانونِ ثبوت وغیرہ شامل ہیں۔
اگر حقوق کے جہد کار اور اپوزیشن جماعتیں اس بات پر آوازیں اٹھا رہی کہ جمہوری اداروں اور بڑی مشکل سے حاصل کیے ہوئے حقوق پر انتظامیہ کے حملوں کے لیے اسے عدلیہ کی مدد حاصل ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
واضح رہے کہ یہ خدشات ہر قسم کی مبالغہ آرائی سے پاک ہیں۔ اور اب جب کہ جسٹس گوگوئی کو اپنا حصہ اور اس کام کا صلہ مل گیا ہے، تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیےکہ جب اتنا سب کچھ ہو رہا تھا تو اس وقت عدلیہ کا رویہ اس طرح کا کیوں تھا۔
لا کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس اے پی شاہ نے جو اپنی بے باکی کے لیے ہمیشہسے مشہور رہے ہیں اسے لو اور دو کا معاملہ قرار دیتے ہوئے دکھتی رگ پر انگلی رکھی ہے۔ سپریم کورٹ کےسابق جج جسٹس کورین جوزف نے بھی اپنے سابق ساتھی کی ملامت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ راجیہ سبھا کی رکنیت کے اس تحفہ نے ’’عدلیہ کی آزادی پر عام آدمی کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے۔‘‘
جسٹس جوزف سپریم کورٹ کے ان چار ججوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے جسٹس گوگوئی کے ساتھ مل کر عدالتی آزادی پر بڑھتے ہوئے خطرات اور کسی دباو میں چیف جسٹس کی جانب سے من مانے طریقے پر مقدمات کے الاٹمنٹ جیسے معاملات پر احتجاج کرتے ہوئے 2018میں ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کی تھی۔ آج اسی جسٹس گوگوئی کی قلب ماہیت پر حیرت ہوتی ہے۔
’’محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘
کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ جسٹس گوگوئی پہلے ایک جراءت مند اور انصاف پسند جج کی حیثیت سے معروف تھے۔ جس سال انہیں چیف جسٹس نامزد کیا گیا تھا اسی سال انہوں نے رام ناتھ گوینکا میموریل لیکچر دیتے ہوئے عدلیہ کے ’’آزاد‘‘ اور ’’غیرآلودہ‘‘ رہنے پر زور دیا تھا۔
گوگوئی نے اکانومسٹ میں ‘‘جمہوریت کی موت’’ کے عنوان پر شائع شدہ ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے اظہار خیال کیا تھا ’’یہ کہا جاتا ہے کہ آزاد جج اور آواز اٹھانے والے صحافی جمہوریت کی پہلی دفاعی صف ہیں … گرچہ جمہوریت کے ختم ہوجانے کی باتوں میں کافی مبالغہ ہے۔ لیکن اب تک کا وضع کردہ سب سے کم خراب حکومتی نظام مشکل سے دوچار ہے۔ اسے محافظوں کی ضرورت ہے۔‘‘
گوگوئی نے عظیم اخبار انڈین ایکسپریس کے بانی، مرحوم گوینکا کی بات سے اتفاق کیا، گوینکا اقتدارِ وقت کے سامنے بے تکان سچ بولنے کے لیے معروف تھے، انہوں نے کہا تھا ’’مکمل آزادی‘‘ درحقیت عدل کی بنیاد ہے۔ ’’یہ ادارہ (عدلیہ) امید کا آخری سہارا ہے اور اس پر شہریوں کا پختہ یقین ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے یہاں انہیں انھیں انصاف ضرورملے گا‘‘۔
عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کے ’’امید کا آخری سہارا‘‘ ہونے کے اس پختہ یقین کو آخر کیا ہوگیا؟
اس دوران آخر ایسا کیا ہوگیا کہ اس طرح کے خیالات رکھنے والے ایک شخص نے اقتدار کے سامنے ہتھیار ڈالنے، عدلیہ کی بے نظیر خود سپردگی کا مظاہرہ کرنے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بنیادوں کو منہدم کرنے میں تھوڑا سا بھی وقت ضائع نہیں کیا؟
عدلیہ کو شہریوں کے حقوق کا ضامن اور آئین کا محافظ ونگران سمجھا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک کے جمہوری اداروں اور شہریوں کے انتہائی اہم حقوق پر حکومت کے مسلسل حملوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے عدلیہ اس کی حمایت میں کھڑی ہوگئی بلکہ اس سے بدترین مقام پر پہنچ کر اس کا ساتھ دے رہی ہے۔
پچھلے چھ برسوں کے دوران، ہندوتو کی بھیڑ نے جس طرح سے ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور جانوروں کی طرح ان کا شکار کیا گیا اور دن کی روشنی میں انہیں ہجومی تشد د کے ذریعے ہلاک کیا گیا اس پر سپریم کورٹ یا ملک کی کسی اور عدالت کو ایک بار بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ انتہائی بے رحمی کے ساتھ ہونے والے قتل کے ان واقعات کا از خود نوٹس لے کر کارروائی کرے۔
اس عدالت کے پاس ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے حکومت کو واجب الادا مالی قرضہ جات کے مقدمات کی سنوائی کرنے کے لیے وقت ہے۔ یہ عدالت دہلی کی ایک بند سڑک کے لیے تو پریشان ہے لیکن زائد از تین ماہ سے ایک متعصب قانون کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی شاہین باغ کی سیکڑوں خواتین کے مسائل کو دیکھنے کے لیے اس کی آنکھیں بند ہیں۔اگرعدلیہ ہی اس ملک میں ہماری امیدوں کا آخری سہارا ہے تو خدا اس کے ذریعے سے ہماری اور اس ملک کی حفاظت فرمائے۔

تنہا جسٹس گوگوئی نے عدلیہ جیسے اہم ادارے کو جو نقصان پہنچایا ہے اس سے پہلے شاید ہی کسی ایک فرد نے یہ کام کیا ہوگا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی سربراہی کرتے ہوئے، گوگوئی نے ایودھیا، رافیل بدعنوانی اسکینڈل، آسام این آر سی جیسے انتہائی اہم اور فیصلہ کن مقدمات کا فیصلہ سنایا ہے۔ انہی کے فیصلوں نے سی اے اے، این آر سی، این پی آر کے خوفناک مثلث کا راستہ ہموار کیا۔ جموں وکشمیر کی خود مختاری کا خاتمہ اور وہاں کے رہنماوں اور عوام کی قید بھی انہی کے فیصلے کا نتیجہ ہے۔