’’جب تک مودی یہ کالا قانون واپس نہیں لے لیتا، میں شاہین باغ میں ہی رہوں گی۔‘‘

افروز عالم ساحل

شاہین باغ کی دبنگ دادیوں کو اب کون نہیں جانتا؟ ان تین دبنگ دادیوں میں سے سب سے بزرگ اسما خاتون ہیں۔ ان کی عمر فی الوقت 90 سال ہے۔ اس کے باوجود وہ پورے ملک میں شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہروں میں جاکر مظاہرین کی دل و دماغ میں حوصلوں اور جذبوں کے شرارے ُحونک رہی ہیں۔

ہفت روزہ دعوت نے جب ان سے ملاقات کی تو یہ کیرالہ جانے کی تیاری  میں مصروف تھیں۔ ملحوظ رہے کہ کیرالہ کے ترووننتھاپورم میں ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے سی اے اے کے حوالے سے ’اوکوپائی راج بھون‘ پروگرام منعقد کر کیرالہ کے راج بھون کا گھیراؤ کیا۔ اس پروگرام میں دبنگ دادی اسما خاتون خاص مہمان تھیں۔ اس موقع سے باقی دونوں دبنگ دادیاں بھی ان کے ہمرا ہ تھیں۔ یہاں جوشیلی تقریر کرتے ہوئے اسما خاتون نے زوردار انداز میں کہا: ’’مودی اور امت شاہ کو، جنھوں نے ملک کا پر امن ماحول خراب کیا ہے، گجرات واپس جانا چاہیے۔ جب تک یہ قانون  منسوخ نہیں ہوتا، ہم لڑتے رہیں گے۔‘‘ ملحوظ رہے کہ راج بھون کو لگاتار 30 گھنٹوں تک بلاک کرکے رکھا گیا۔

اسما خاتون ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں بتاتی ہیں کہ وہ بہار کے سیتامڑھی ضلع کے نان پور بلاک کے کوریا رائے پور گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ ’’15 دسمبر کو جب جامعہ میں دلی پولیس نے یہاں کے بچوں پر اپنی بربریت دکھائی تو اس منظر کو ٹی وی پر دیکھ کر میرا دل بے چین ہو اٹھا۔ سوچنے لگی کہ آگے آنے والی ہماری نسل کا کیا ہوگا؟‘‘ وہ مزید کہتی ہیں: ’’جب تک مودی یہ کالا قانون واپس نہیں لے لیتا، میں شاہین باغ میں ہی رہوں گی۔‘‘

اسما خاتون کے آٹھ بچے ہیں: 4 لڑکے اور 4 لڑکیاں۔ سب کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ اگر پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی بات کی جائے تو یہ تعداد 50 کے قریب ہے۔ دلی میں ان کے دو بیٹے رہتے ہیں۔ جن کی اکثر اسما خاتون آتی جاتی رہتی ہیں۔

ان کے بڑے لڑکے محمد سرفراز عالم دلی میں میڈیکل ٹورزم کا کام کرتے ہیں۔ وہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں بتاتے ہیں کہ ان کی اماں گاؤں میں شروع ہی سے سرگرم رہی ہیں، اگرچہ کسی مظاہرے میں پہلی بار شامل ہو رہی ہیں تاہم گاؤں میں سماجی کاموں سے ان کی وابستگی رہی ہے۔ عورتوں کے جھگڑوں میں سمجھوتہ کرانے کا کام بھی کرتی رہی ہیں۔ جب سے شاہین باغ کا مظاہرہ شروع ہوا ہے وہ گھر آنا ہی نہیں چاہتیں۔ ہم ان کا کھانا وہیں پہونچا دیتے ہیں، کیونکہ اکثر و بیشتر وہ وہاں کھانا نہیں کھاتی ہیں۔

سرفراز کے مطابق، والد یعنی اسما خاتون کے شوہر مولانا ابوالحسن سال 2012 میں انتقال کر گئے۔ وہ بہار کے مدھوبنی ضلع میں مدرسہ احمدیہ کے پرنسپل تھے۔ یہ ایک سرکاری مدرسہ تھا۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ والد کے انتقال کے بعد اب تک گھر والدہ نے ہی سنبھالا ہے۔ یہ پوچھنے پر کہ اب آپ کی والدہ کو پوری دنیا دبنگ دادی کے نام سے جانتا ہے اس پر آپ کو خوشی ہوتی ہے؟ اس پر سرفراز کہتے ہیں:ـ ’’خوشی تو بہت ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی فکر بھی لگی رہتی ہے۔ لوگ ہر جگہ ان کو بلانا چاہتے ہیں۔ اب اکیلے تو یہ جا نہیں سکتیں، چنانچہ میرا بھی ساتھ جانا ہوتا ہے۔ گذشتہ ڈھائی مہینوں سے میرا کام بند پڑا ہے۔ وہیں ہر وقت ان کی بھی فکر لگی رہتی ہے، یہ ڈر بھی لگا رہتا ہے کہ کہیں پولیس آکر شاہین باغ کی خواتین پر اپنی بربریت کا مظاہرہ نہ کردے۔ لیکن پھر بھی میں خوش ہوں کیونکہ اماں جہاں بھی جاتی ہیں وہاں لوگوں میں جوش بھر جاتا ہے۔ ہر شخص ان سے ملنا چاہتا ہے۔ خوشی ہوتی ہے کہ کم از کم میری اماں اس بڑھاپے میں بھی اس ملک اور اپنی قوم کے کام تو آرہی ہیں۔‘‘